'گلگت کی طرح کشمیر میں بھی سلیکٹڈ حکومت لانے کی کوشش کی تو وہ مودی کا ایجنٹ ہوگا'
مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان کی سلیکٹڈ حکومت کی طرز پر گلگت بلتستان میں بھی سلیکٹڈ حکومت مسلط کی گئی اور اگر آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو وہ مودی کا ایجنٹ ہو گا۔
اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ہم مسلسل قوم کو اس بات سے آگاہ کرتے رہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کے حقِ نمائندگی کو، ان کی ووٹ کی عزت کو پامال کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: گلگت-بلتستان کی عدالت نے وزرا، ایم این ایز کو انتخابی مہم میں حصہ لینے سے روک دیا
انہوں نے کہا کہ آج پاکستان ایک دوراہے اور فیصلہ کن موڑ کن موڑ پر کھڑا ہے، پاکستان کے 22 کروڑ عوام اپنے ووٹ کی عزت کا حق مانگ رہے ہیں اور تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ جس ملک میں عوام کے ووٹ کی عزت نہیں کی جاتی اس ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی ہے اور ووٹ کو پامال کرنے کے نتیجے میں ہم نے آدھا ملک کھو دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تشکیل کسی خانہ جنگی یا خون خرابے سے نہیں ہوئی تھی بلکہ پاکستان کی تشکیل ووٹ کی طاقت سے ہوئی تھی، پاکستان کے ڈی این اے میں ووٹ کو عزت کا تصور ایک ریاست کی بنیاد یا اساس کے طور پر موجود ہے لیکن بدقسمتی سے 72 سالوں میں پاکستان میں ووٹ کی عزت کے ساتھ جو ڈراما کیا جاتا رہا، جو کھیل کھیلا جاتا رہا، آج اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت اپنا آدھا وجود کھو چکی ہے اور باقی ماندہ پاکستان میں بھی ہچکولے آتے رہتے ہیں کیونکہ عوام کے ووٹ کی عزت نہیں کی جاتی۔
احسن اقبال نے کہا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا انتہائی حساس خطہ ہے اور پاکستان کو چین سے ملاتا ہے، یہ سی پیک کے حوالے سے بھی اسٹریٹجک اہمیت رکھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ہمارے لیے ضروری تھا کہ ہم گلگت بلتستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا نہ ہونے دیں اور گلگت بلتستان کے عوام کو اچھی حکمرانی سے ترقی، خوشحالی کے ثمرات دیں تاکہ وہاں کسی دشمن کو عدم استحکام پیدا کرنے کا موقع نہ ملے۔
یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان میں انتخابی دن کیا کچھ ہوا؟
انہوں نے کہا کہ 2015 سے 2020 تک مسلم لیگ (ن) کی 5 سالہ حکومت اس بات کی گواہ ہے کہ گلگت بلتستان میں جتنی خدمت مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کی، ہمارے مخالفین بھی یہ ماننے پر مجبور تھے کہ 72 سال میں گلگت بلتستان میں اتنا ترقیاتی کام اور وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں تعلیم، صحت، سماجی و معاشی ترقی، شاہراؤں کے جو منصوبے شروع کیے گئے، وہ اس سے قبل کبھی نہیں کیے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ خدمت کرنے والی حکومت کو دوبارہ منتخب کریں بلکہ وہاں سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حفیظ الرحمٰن بتائیں گے کہ کس طریقے سے ان کی حکومت کے آخری ایام میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے ہاتھ پیر باندھے گئے تاکہ اسے مفلوج کیا جائے۔
سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ کس طریقے سے وہاں من پسند سیاسی نگراں حکومت قائم کی گئی، کس انداز میں الیکشن شیڈول تبدیل ہوتا رہا، کس انداز میں انتظامی افسروں کو ریٹرننگ افسر کی ڈیوٹیاں دی گئیں، کس طرح وفاقی وزرا اور وزیر اعظم نے وہاں کے الیکشن کمیشن کی جانب سے نافذ کیے گئے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑائیں، کس طرح وزیراعظم پاکستان نے اس قومی اتفاق رائے کی دھجیاں اڑائیں جو ملک کی تمام سیاسی قیادت، چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی موجودگی میں گلگت بلتستان کے حوالے سے کیا گیا تھا، کس طریقے عدالتی احکامات کی توہین کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ سب سے بڑھ کر یہ جب میں نے وہاں چیف الیکشن کمشنر کو ساری شکایات بیان کیں اور انہیں کہا کہ نوٹس لیں کیونکہ یہاں سرکاری وسائل سے حکومت اپنے وزرا کے ذریعے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑا رہی ہے تو چیف الیکشن کمشنر نے نہایت بے بسی کے ساتھ کہا کہ میں کیا کروں، میری کوئی سنتا نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکا کہ آپ کی کوئی نہیں سنتا تو آپ مستعفی ہو جائیں لیکن یہ ناٹک اور ڈراما گلگت بلتستان میں کیا گیا اور پاکستان کی سلیکٹڈ حکومت کی طرز پر گلگت بلتستان میں بھی سلیکٹڈ حکومت مسلط کی گئی۔
مزید پڑھیں: گلگت بلتستان انتخابات: پی ٹی آئی 9 نشستوں کے ساتھ سب سے آگے
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نے اپنی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں یہ بات ریکارڈ پر ضرور رکھنا چاہتا ہوں کہ گلگت بلتستان کے عوام کو سلام ہے کہ جنہوں نے اس تمام تر دھاندلی کے باوجود پی ٹی آئی کو شکست دی، گلگت بلتستان کے اندر اگر وفاقی حکومت کی کامیاب ہونے کی دلیل دی جاتی ہے تو پیپلز پارٹی کے دور میں جو الیکشن ہوا، اس میں انہیں 14 نشستیں حاصل ہوئیں، مسلم لیگ (ن) کے دور میں الیکشن ہوا تو ہمیں 16 نشستیں ملیں لیکن جب پی ٹی آئی کے دور میں بدترین دھاندلی اور انتظامی وسائل جھونکنے کے باوجود پی ٹی آئی کو صرف 8 نشستیں ملیں اور وہ سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں کر سکی، بالآخر ان آزاد اُمیدواروں پر دباؤ ڈال کر پی ٹی آئی میں شامل کرایا گیا جیسا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی اکثریت نہیں تھی، وہ دوسرے نمبر پر آئی تھی لیکن زبردستی آزاد اُمیدواروں کو پی ٹی آئی میں شامل کرواکر صوبہ پنجاب میں ان کی حکومت قائم کرائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ووٹ کی عزت کی پامالی کی کہانی ہے جو پاکستان میں عام انتخابات سے شروع ہوئی اور گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھی دہرائی گئی۔
احسن اقبال نے کہا کہ میں خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کسی نے آزاد کشمیر کے الیکشن میں ایسا کرنے کی کوشش کی تو وہ مودی کا ایجنٹ ہو گا چونکہ کشمیر میں اگر کوئی تنازع پیدا ہوا تو اس فائدہ بھارت کو پہنچے گا لہٰذا میں اس وفاقی حکومت کو اس کی کشمیر اور شمالی علاقہ جات کی وزارت اور گلگت بلتستان میں مداخلت کرنے والے سیکیورٹی اداروں کو وارننگ دینا چاہتا ہوں کہ خدا کے لیے پاکستان کے مستقبل سے نہ کھیلیں اور آنے والے انتخاب میں پوری مسلم لیگ (ن) کشمیر کے الیکشن میں ایک، ایک پولنگ اسٹیشن اور ہر انتخابی مرحلے پر جا کر نگرانی کرے گی اور ہم کسی کو ووٹ چرانے نہیں دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح اگلے قومی انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) نے ابھی سے تیاری شروع کردی ہے، ہر پولنگ اسٹیشن پر مسلم لیگ (ن) کے شیر پہرہ دیں گے اور اگر کسی نے دھاندلی کی کوشش کی تو اس کے نتائج انہی کو بھگتنا پڑیں گے، ہم پاکستان کے عوام کے حق حکمرانی کی ہر قیمت کی حفاظت کریں گے۔
اس موقع پر سابق وزیراعلیٰ گلگلت بلتستان حفیظ الرحمٰن نے گلگت بلتستان کے حوالے سے وائٹ پیپر پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس میں الزامات نہیں بلکہ مکمل حقائق ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان انتخابات میں کامیاب ہونے والے 4 آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں شامل
ان کا کہنا تھا کہ انتخابات سے چھ مہینے پہلے ہماری منتخب حکومت پر چیف الیکشن کمشنر کے ذریعے قبضہ کیا گیا، تمام ترقیاتی کام روک دیے گئے، اس کے بعد ہم استعفے دے کر اسمبلی توڑ رہے تھے لیکن مقتدر اداروں نے مداخلت کی جس پر وہ لیٹر واپس ہو گیا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی اس کے لیے طے شدہ طریقہ کار کی خلاف ورزی کی گئی، گلگت بلتستان میں نگراں حکومت کے قیام کا ایک طریقہ کار ہے، اس مرتبہ جب نگراں وزیراعلیٰ کا تقرر کیا گیا تو قواعد کے برخلاف نہ وزیر اعلیٰ سے پوچھا گیا، نہ قائد حزب اختلاف سے پوچھا گیا، اسلام آباد سے براہ راست ایک شخص کو اٹھا کر وزیر اعلیٰ لگایا گیا۔