بھارت کو اقوام متحدہ کی تین کمیٹیوں کی سربراہی ملنا 'زیادہ بدشگونی' نہیں، ماہرین
اسلام آباد: پاکستانی سفارت کاروں کا خیال ہے کہ بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی تین کمیٹیوں کی سربراہی ملنا بدشگونی ہو سکتی ہے لیکن یہ اتنا زیادہ برا بھی نہیں ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سلامتی کونسل میں 22-2021 تک غیر مستقل رکن کی حیثیت سے موجود بھارت کو طالبان پابندیوں کی کمیٹی، انسداد دہشت گردی کمیٹی اور لیبیا پابندیوں کی کمیٹی کی سربراہی دی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت کے سلامتی کونسل میں انتخاب نے سوالات کو جنم دیا ہے، دفتر خارجہ
اس اعلان کو پاکستان کے لیے ایک سفارتی دھچکے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت طالبان کی پابندیوں کی کمیٹی میں موجودگی کو امن عمل کو پیچیدہ بنانے کے علاوہ انسداد دہشت گردی کمیٹی میں موجودگی کو پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
لیکن سفارت کاروں کی رائے ہے کہ ہندوستان کے لیے زیادہ خوشی کی بات نہیں کیونکہ وہ اپنی خواہش کی فہرست حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا جہاں وہ داعش اور القاعدہ پابندی کمیٹی (1267)، عدم پھیلاؤ کمیٹی (1540) اور افغان فائلوں کے علاوہ طالبان پابندیوں کی کمیٹی (1988) کا حصہ بننے کا خواہشمند تھا، ہندوستان نے ایشیا پیسیفک گروپ کی کمیٹیوں میں انڈونیشیا کے جانشین کی حیثیت سے ان کمیٹیوں میں جگہ حاصل کی ہے، اس سے قبل انڈونیشیا نے تینوں کمیٹیوں کی سربراہی کی تھی۔
اس کے بجائے ہندوستان نے جو کمیٹیاں حاصل کیں وہ محض سمجھوتے کا نتیجہ ہیں، اقوام متحدہ کی 24 کمیٹیوں کو پانچ مستقل اراکین نے ایک معاہدے کے ذریعے مختص کیا ہے۔
چین کے سوا پاکستان کے پاس بھارت کو اپنی پسند کی کمیٹیوں سے روکنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت، میکسیکو، ناروے اور آئرلینڈ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن منتخب
چین کے ساتھ بھی مسئلہ یہ ہے کہ وہ دیگر چار اراکین فرانس، روس، برطانیہ اور امریکا کے خلاف کھڑا ہونا پسند نہیں کرتا۔
تاہم پاکستانی سفارت کاروں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کامیابی کے ساتھ بھارت کو داعش اور القاعدہ پابندیوں کی کمیٹی اور عدم پھیلاؤ کی کمیٹی حاصل کرنے سے روکنے کے لیے لابنگ کی، بھارت کی عدم پھیلاؤ کمیٹی کی رکنیت کے حصول پر کچھ مغربی اراکین کو بھی تحفظات تھے جس کی وجہ سے پاکستان کا کام آسان ہو گیا۔
پاکستانی سفارتکار نے معاملے کے پس منظر کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل میں بھارت کی موجودگی بذات خود پاکستان کے لیے پریشانی کا باعث ہے لیکن ہم نے بدترین صورتحال میں بھی بہتر فائدہ اٹھایا، وہ جو چاہتے تھے اس سے ہمیں زیادہ نقصان ہوتا۔
انسداد دہشت گردی کمیٹی بھارت کو داعش اور القاعدہ پابندی کمیٹی کے معاوضے میں دی گئی تھی، یہ کمیٹی جس کی سربراہی 2022 تک بھارت کرے گا، اسے 9/11 کے دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں تشکیل دیا گیا تھا، یہ ایک ایسی اصولی کمیٹی ہے جو انسداد دہشت گردی کے معیارات طے کرتی ہے، مزید یہ کہ فہرستوں اور پابندیوں کے حوالے سے اس کا کوئی کردار نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت کالعدم تنظیموں کوسرحد پار دہشت گردی کیلئے استعمال کررہا ہے، پاکستان
تاہم بھارت اب بھی کمیٹی کو پاکستان کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا، یہ بات اقوام متحدہ میں بھارت کے مندوب ٹی ایس تیرو مرتی کے بیان میں واضح نظر آتی ہے جنہوں نے کہا تھا کہ اس کمیٹی کی سربراہی میں ہندوستان کی خصوصی گونج ہے جو نہ صرف دہشت گردی خصوصاً سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پیش پیش رہا ہے بلکہ اس کا سب سے بڑا شکار بھی رہا ہے۔
طالبان پابندیوں کی کمیٹی کی سربراہی کا ہندوستان خواہشمند تھا لیکن اس کی سربراہی کے طور پر یہ واقعی انچارج نہیں ہو گا، اس کی دو وجوہات ہیں، سب سے پہلی یہ کہ بھارت ایک ایسے وقت میں سربراہی سنبھال رہا ہے جب امریکا پہلے ہی طالبان سے معاہدہ کر چکا ہے اور انٹرا افغان بات چیت جاری ہے اور دوسری بات یہ کہ فہرست سازی اور ڈی لسٹنگ امریکا ہی کر رہا ہے لہٰذا امریکی اقدام کو روکنے کے لیے تمام 15 اراکین کے منفی اتفاق کی ضرورت ہوگی جو ناممکن ہے۔
اس کے باوجود ہندوستانیوں نے اس معاملے میں بھی کچھ کرنے کی کوشش کی، تیرومرتی نے کہا تھا کہ طالبان کی پابندیوں کی کمیٹی ہماری ہمیشہ سے افغانستان کے امن، سلامتی، ترقی اور ترقی کے لیے مضبوط دلچسپی اور عزم کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندوستان کی اولین ترجیح رہی ہے۔
اس دوران لیبیا پابندیوں کی کمیٹی پانچ مستقل اراکین میں اختلاف کی وجہ سے پچھلے کچھ سالوں سے غیر فعال رہی ہے، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہندوستان پاکستان کے لیے پریشانی پیدا نہیں کرے گا۔
نیویارک میں اقوام متحدہ میں موجود مشن نے اس سلسلے میں کام کیا ہے جسے پاکستان کے مستقل نمائندے منیر اکرم نے ہندوستان کے عزائم کا مقابلہ کرنے کے لیے 'دفاعی اور جارحانہ حکمت عملی' قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا بھارتی اقدامات کے خلاف سلامتی کونسل جانے کا فیصلہ
اقوام متحدہ میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھنے والے ایک اور سینئر سفارتکار نے کہا کہ پاکستانی مشن کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے لیکن یہ ناممکن کام نہیں ہے، ان کا خیال ہے کہ پاکستانی سفارت کاروں کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے دیگر اراکین خصوصاً نائجر، تیونس، آئرلینڈ اور میکسیکو کے ساتھ مل کر اپنی نیٹ ورکنگ مضبوطی کرنے کے ساتھ ساتھ ہونے والی پیشرفت پر بغور نظر رکھنی ہو گی تاکہ وہ کسی ناگوار چیز کو ختم کرنے کے قابل ہوسکیں۔
ایک سفارت کار نے کہا کہ آپشن تیار کرلیے جاتے ہیں، انہیں پلیٹر میں پیش نہیں کیا جاتا ہے۔