پاکستان

براڈشیٹ کے انکشافات نے حکمران اشرافیہ کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کو پھر بےنقاب کردیا، وزیراعظم

کرپشن پاکستان کی ترقی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے، یہ اشرافیہ بین الاقوامی انکشافات پر انتقامی کارڈ کے پیچھے چھپ نہیں سکتی،عمران خان

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ براڈشیٹ کے انکشافات نے ایک مرتبہ پھر ہماری حکمران اشرافیہ کی بڑے پیمانے پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کو بےنقاب کردیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں وزیراعظم عمران خان نے لکھا کہ پہلے پاناما پیپرز نے ہماری حکمران اشرافیہ کی بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کو بے نقاب کیا اور اب براڈشیٹ کے انکشافات نے ایک مرتبہ پھر ہماری حکمران اشرافیہ کی بڑے پیمانے پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کو عیاں کردیا۔

انہوں نے لکھا کہ یہ اشرافیہ ان بین الاقوامی انکشافات پر ’انتقامی‘ کارڈ کے پیچھے نہیں چھپ سکتی۔

وزیراعظم نے اپنی ٹوئٹس میں لکھا کہ یہ انکشافات بار بار کیا بیان کر رہے ہیں؟ پہلا یہ کہ جو میں 24 سال سے کرپشن کے خلاف لڑتے ہوئے کہہ رہا ہوں کہ کرپشن پاکستان کی ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، دوسرا یہ کہ یہ اشرافیہ اقتدار میں آکر ملک کو لوٹتی ہے۔

مزید پڑھیں: 'اثاثہ برآمدگی کمپنی' کا شریف خاندان کی ایون فیلڈ جائیداد سے متعلق دعویٰ

انہوں نے مزید لکھا کہ تیسرا یہ کہ یہ ناجائز طریقوں سے جمع کی گئی دولت کو ملکی اداروں کی گرفت سے بچانے کیلئے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرتے ہیں، مزید یہ کہ اس کے بعد وہ این آر او حاصل کرنے کے لیے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہیں۔

عمران خان نے لکھا کہ اس طرح یہ لوگ لوٹ مار سے جمع کی گئی اپنی دولت کو محفوظ بناتے ہیں اور سب سے بڑا نقصان عوام کو پہنچتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اشرافیہ کی جانب سے نہ صرف قوم کی دولت لوٹی جاتی ہے بلکہ اس رقم کی وصولی کے لیے ادا کی جانے والی ٹیکس دہندگان کی رقم بھی این آر اوز کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہے۔

اپنے بیان میں وزیراعظم نے لکھا کہ یہ انکشافات تو محض ایک جھلک ہے، ہم براڈشیٹ سے اپنی اشرافیہ کی منی لانڈرنگ اور تحقیقات رکوانے والوں کے معاملے پر مکمل شفافیت چاہتے ہیں۔

یاد رہے کہ ایک روز قبل وزیراعظم عمران خان نے برطانوی کمپنی براڈشیٹ ایل ایل سی کے کاوے موسوی کے انکشافات کے ان کی اثاثہ جات ریکوری کمپنی سابق وزیراعظم نواز شریف اور دیگر کے زیر اثر تھی اور ان کے پاس کچھ دیگر پاکستانیوں کی منی لانڈرنگ کے ثبوت بھی تھے، کے تناظر میں معاملے کا پتا لگانے کے لیے ایک بین الوزراتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

وزیراعظم عمران خان نے مذکورہ معاملے پر تبادلہ خیال کابینہ اجلاس کے ایجنڈے پر بات چیت مکمل ہونے کے بعد صرف کابینہ اراکین کی موجودگی میں ’زیرو آور‘ کے درمیان کیا تھا۔

اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا تھا کہ ’کابینہ نے ایک بین الوزاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جو براڈشیٹ اسکینڈل میں سامنے آنے والے ہر فرد کی تفصیلات عیاں کریں گے‘۔

براڈشیٹ کا معاملہ

واضح رہے کہ براڈشیٹ ایل ایل سی ایک برطانوی کمپنی ہے جو پرویز مشرف کے دور میں آئل آف مین میں رجسٹرڈ تھی اور اس نے پاکستانیوں کی جانب سے مبینہ طور پر غیرقانونی دولت کے ذریعے بیرون ملک خریدے گئے اثاثوں کا پتا لگانے کے لیے اس وقت کی حکومت اور نئے بننے والے قومی احتساب بیورو (نیب) کی مدد کی تھی۔

براڈ شیٹ کا دعویٰ ہے کہ وہ 20 جون 2000 میں اثاثہ برآمدگی کے سمجھوتے کی غرض سے قائم کی گئی تھی، جس نے ریاست، اداروں اور بدعنوانی کے ذریعے بیرونِ ملک لے جائی جانے والے رقم کے لیے اس وقت کے صدر اور نیب کے ساتھ مل کر کام کیا۔

اسی براڈ شیٹ کے مطابق یہ کمپنی خصوصی طور پر اثاثہ اور فنڈ برآمدگی کے لیے بنائی گئی تھی اور اسی لیے یہ ایسی چیزوں کی معلومات حاصل کرنے اور ریاست کو واپس کرنے سے منسلک تھی۔

مذکورہ کمپنی سے وابستہ رہنے والے ایک وکیل نے ڈان کو بتایا تھا کہ شریف خاندان براڈ شیٹ کی تحقیقات کا ’اعلیٰ ترین ہدف‘ تھا تاہم 2003 میں نیب کی جانب سے اس معاہدے کو ختم کردیا گیا تھا۔

رواں ہفتے کے آغاز میں تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب اس کمپنی کے مالک کاوے موسوی نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے ایک شخص نے ان سے 2012 میں رابطہ کیا اور ان کے خلاف تحقیقات کو روکنے کے لیے رقم کی پیش کش کی۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے کاوے موسوی نے ان الزامات کو دہرایا، ان کا کہنا تھا کہ انجم ڈار نامی ایک فرد نے خود کو نواز شریف کا بھانجا/بھتیجا بتاتے ہوئے 2012 میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، میں ان سے دو بار ملا، ایک بار کینٹربری اور پھر لندن میں، انہوں نے کہا کہ مذکورہ فرد نے انہیں ڈھائی کروڑ ڈالر کی پیش کش کی۔

یہ بھی پڑھیں: براڈشیٹ کے مالک کے شریف خاندان پر الزامات کے بعد نیا تنازع کھڑا ہو گیا

ان کا کہنا تھا کہ 'انہوں نے مجھے ایک تصویر دکھائی جس میں گھر میں نواز شریف نے انہیں گلے لگایا ہوا ہے اور ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں، انہوں نے ایک ٹیپ ریکارڈنگ بھی تیار کی، یہ اردو میں تھی لہٰذا مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔

اس سوال کے جواب میں کہ آیا انہوں نے اس پیش کش پر غور کیا تو کاوے موسوی نے کہا کہ جب ہمیں یہ احساس ہوا کہ وہ بنیادی طور پر ہمیں پیچھے ہٹنے کے لیے رقم کی پیش کش کررہا ہے تو میرا جواب تھا کہ جو بھی رقم پیش کی جارہی ہے وہ ثالثی میں وکیلوں کے ذریعے آنی چاہیے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے برطانیہ کے حکام یا عدالت کے ذریعے مقرر کردہ ثالث کو پیشرفت کی اطلاع کیوں نہیں دی تو انہوں نے کہا کہ میں نے یقینی طور پر اس کے بارے میں وکلا سے تبادلہ خیال کیا لیکن ہم نے فیصلہ کیا کہ وہ اس معاملے کو حکام کے سامنے نہ اٹھائیں، انہوں نے اس کی تفصیل نہیں بتائی کہ کیوں ایسا کیا گیا لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ شریف خاندان کا فرد کون ہے تو انہوں نے کہا کہ اس بارے میں شریف فیملی سے پوچھ لیں۔

اس سوال پر کہ 2003 میں حکومت سے اثاثے کی وصولی کا معاہدہ ختم ہونے کے کئی سال بعد شریف خاندان یا ان کے نمائندے انہیں 2012 میں رشوت کی پیش کش کیوں کریں گے، تو کاوے موسوی نے کہا کہ ہم ثالثی میں تھے اور ثالث کو اس کی تحقیقات کرنی پڑتیں، وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ سارا معاملہ سامنے آئے۔

اس پیشرفت پر تبصرہ کرتے ہوئے نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے ڈان کو بتایا تھا کہ یہ قطعی سچ نہیں ہے، انجم ڈار نامی ہمارا کوئی رشتے دار نہیں ہے، اگر کوئی فرد اس طرح کا دعویٰ کرنے والا ان (موسوی) کے پاس آیا تھا تو کیا یہ ان کی تفتیشی کمپنی کے لیے یہ مشکل کام تھا کہ وہ اس طرح کا الزام لگانے سے پہلے جان لیں کہ وہ کون ہے؟

انہوں نے مزید کہا تھا کہ نواز شریف کے دو بھائی اور ایک بہن ہیں اور ان کے تمام بچوں کے نام عوامی ڈومین میں ہیں، کیا کاوے موسوی اتنے برے تفتیش کار ہیں کہ وہ نو سال بعد بھی اس آسان حقیقت کا تعین نہیں کرسکے؟

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے طلبہ کو ہراسانی سے بچانے کے لیے بل منظور کرلیا

جغرافیائی اشارے کے قوانین نوٹیفائی کردیے گئے

آڈیٹر جنرل پاکستان کے دفتر میں 180 ارب روپے کی کرپشن کا پتا لگا لیا، وزیراعظم