پاکستان

اسامہ ستی قتل: 'ڈیوٹی آفیسر نے قصورواروں کو بچایا اور جرم چھپایا'، رپورٹ

اسامہ ستی قتل کیس کے سلسلے میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے رپورٹ مکمل کر کے سفارشات کے ساتھ پیش کردی۔

اسلام آباد: ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی جانب سے کی گئی اسامہ ستی قتل کی عدالتی تحقیقات میں سفارش کی گئی ہے کہ انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کے عہدیداروں کو سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) کی اجازت کے بغیر کبھی بھی مشترکہ طور پر باقاعدہ فورس کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف کمشنر اسلام آباد عامر احمد علی نے عدالتی تحقیقات کا حکم دیا تھا تاکہ حقائق معلوم کیے جا سکیں اور واقعے کی ذمے داری کا تعین کیا جا سکے جہاں اے ٹی ایس کی کرائسس ریسپانس ٹیم (سی آر ٹی) نے 21 جنوری کو سری نگر ہائی وے پر 21 سالہ نوجوان کو فائرنگ کر کے ہلاک کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسامہ ستی قتل: متعلقہ ایس پی اور ڈی ایس پی کے خلاف کارروائی کی سفارش

عہدیداروں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چیف کمشنر آفس نے عدالتی انکوائری رپورٹ وزارت داخلہ کو معائنے اور مزید کارروائی کی ہدایات کے سلسلے میں پیش کر دی ہے، انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اے ٹی ایس حکام کی پوسٹنگ اور تبادلہ صرف ایک ایسے بورڈ کی سفارش پر کیا جانا چاہیے جو پولیس آپریشنز کے اعلیٰ عہدے دار افسران اور ایک ماہر نفسیات پر مشتمل ہو، بورڈ وقتاً فوقتاً عہدیداروں کو جانچتا رہے تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ وہ موزوں ہیں یا نہیں۔

پولیس کے اے ٹی ایس اور آپریشنز ونگ کے تمام حالات میں مشاورت اور کارروائی کے انتظام اور طاقت کے استعمال کے لیے نفسیاتی سیشن بھی کروائے جائیں، رپورٹ میں دونوں جہتوں پر باقاعدہ تربیت کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

انکوائری آفیسر نے 29 افراد کے بیانات قلمبند کیے، جرائم کی جگہ کا دورہ کیا، جس راستے سے پیچھا کیا گیا اس کا جائزہ لیا گیا، وائرلیس کال ریکارڈ، سیف سٹی پروجیکٹ کی فوٹیج اور پولیس کے 15 وائس ریکارڈ کا جائزہ لیا، اس واقعے کو 'فائرنگ کے ذریعے بہیمانہ ردعمل'(Trigger-Happy) قرار دیا گیا جس میں طاقت کے نشے میں بغیر کسی قابو کے بندوق کا استعمال کیا گیا، رپورٹ کے مطابق ہتھیار کے استعمال کے حوالے سے کوئی ایس او پیز نہیں اور کسی افسر کی جانب سے مداخلت نہیں کی گئی تاکہ وہ مداخلت کرے اور عہدیداروں کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کرے۔

اس واقعے کے بعد ڈیوٹی آفیسر نے قصورواروں کو بچایا اور جرم چھپایا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے نوجوان جاں بحق، دہشتگردی کا مقدمہ درج

رپورٹ میں کہا گیا کہ داخلی نگرانی کے طریقہ کار کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واقعہ پولیس میں ایس او پیز کی عدم موجودگی کی وجہ سے پیش آیا ہے، واقعے کی روشنی میں ایس او پیز اور مصروفیات کے قواعد بھی آئی جی پی آفس سے جاری کیے جا سکتے ہیں، اس کے علاوہ نظم و ضبط پیدا کرنے کے لیے پولیس اہلکاروں کو سیکیورٹی ڈیوٹی پر تربیت بھی کی جا سکتی ہے۔

رپورٹ میں پولیس کے داخلی نگرانی کے طریقہ کار کا آڈٹ اور جائزہ لینے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ وائرلیس ریکارڈ میں اہم ثبوتوں کی نشاندہی ہوئی ہے، واقعے کے اصل نفاذ کو قائم کرنے کے کسی بھی بحران کا تجزیہ کرنے کی غرض سے وائرلیس کنٹرول روم کو کمپیوٹرائزڈ ٹائم اسٹیمپ کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل وائس ریکارڈنگ ٹیکنالوجی سے آراستہ ہونا چاہیے۔

اس سلسلے میں سفارش کی گئی کہ آئی جی پی آفس کو لازمی طور پر وائرلیس مواصلات میں معیاری اصطلاحات کے لیے ضابطہ اخلاق قائم کرنا چاہیے تاکہ کسی سنسنی خیزی کے بغیر مختصر انداز میں پیغام پہنچایا جا سکے، پولیس کا مانیٹرنگ کا نظام شدید کمزور ہے۔

مزید پڑھیں: اسامہ ستی کا قتل: واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے پانچوں اہلکار برطرف

اس میں کہا گیا کہ سینئر افسر کا فرض تھا کہ وہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے سائٹ پر پیش ہوں، صورتحال پر قابو نہ رکھنے کی وجہ سے متعلقہ افسران سے پوچھا جائے اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک غیر مسلح شخص کو ہدف بنا کر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں اس کی موت ہو گئی، اس واقعے نے عوام کو حیرت زدہ اور بڑے پیمانے پر خوفزدہ کردیا ہے، انکوائری افسر نے سفارش کی کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ گاڑیوں میں کالے رنگ کے شیشے کے استعمال کے لیے جاری کردہ تمام اجازت نامے منسوخ کردیے جائیں، رنگین شیشوں کے استعمال کے خلاف تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھی واضح ہدایات جاری کی جائیں، اس کے علاوہ عوام کو تعلیم دی جائے کہ جب پولیس روکے تو انہیں رکنا چاہیے، انہوں نے مزید کہا کہ پولیس پر عوام میں اعتماد پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے نوجوان کے قتل کا نوٹس لے لیا، 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب

انکوائری میں سفارش کی گئی ہے کہ متعلقہ عہدیداروں کو لازمی طور پر ان کی موجودہ ڈیوٹی کی جگہوں سے ہٹا دیا جائے تاکہ تفتیش منصفانہ طور پر مکمل ہو سکے۔

’ہمارے خاندان کی اکثر خواتین بات چیت میں خود کو مرد تصور کرتی تھیں’

رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں کاروں کی فروخت میں 13 فیصد اضافہ

عابدہ پروین کی گائیکی کا آغاز کیسے ہوا؟