مزید کے لیے کلک کریں
انتہا پسند جتھوں کا مارچ روکنے کے لیے واشنگٹن پولیس کی طرف سے زیادہ مزاحمت نظر نہ آئی اور انتہاپسند جتھوں کے لیڈروں نے ایوانوں کے دروازے توڑ ڈالے، جبکہ پولیس اہلکاروں کو الگ الگ کرکے گھیرا اور انہیں بھگاتے ہوئے کانگریس کے دونوں ایوانوں اور دفاتر کے اندر کا رخ کیا، جہاںکیپٹل ہل کی سیڑھیوں، دیواروں اور راہداریوں کے مناظر دہشت زدہ کردینے والے تھے، جنہیں دیکھ کر دنیا کی قدیم ترین جمہوریت زمین بوس ہوتی نظر آتی تھی۔
سیاہ فام اور رنگ دار نسل کے شہریوں کو صرف شک کی بنیاد پر بندوق کی نوک پر رکھنے والی امریکی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جو کیپٹل ہل کی طرف مارچ اور حملے کے دوران کئی گھنٹوں تک مفلوج نظر آتے تھے، وہ اچانک حرکت میں آئے اور کانگریس ارکان اور سینیٹرز کو محفوظ مقام پر پہنچایا۔
پھر انتہاپسند جتھوں کو نکالنے کے بعد کانگریس ارکان کو ایک بار پھر واپس لایا گیا اور مشترکہ اجلاس کی کارروائی دوبارہ شروع کرائی گئی لیکن اس وقت تک انتہا پسند جتھے دنیا کو امریکا کا ایک نیا چہرہ دکھا چکے تھے۔
امریکا کے محب وطن تجزیہ نگار ‘مثبت رپورٹنگ‘ کرتے ہوئے اب قوم کو بتا رہے ہیں کہ اقتدار پر قبضے کے لیے ہونے والے اس حملے کو امریکا روکنے میں کامیاب رہا کیونکہ امریکا میں قانون کی حکمرانی ہے اور یہاں قدیم ترین جمہوریت ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ 6 گھنٹے اس بحرانی کیفیت میں گزرے، اور ایک بار تو یوں لگا جیسے پولیس کا نظام ناکام ہوگیا، لیکن پھر قانون حرکت میں آیا اور جمہوریت کو بچا لیا گیا۔
امریکی تجزیہ نگار کافی حد تک سچ بول رہے ہیں لیکن وہ اس 6 گھنٹے کی بحرانی کیفیت سے نمایاں ہوکر سامنے آنے والے تضادات پر کھل کر بات نہیں کر رہے۔ جیسے
امریکی سیاست میں انتہا پسندی کیسے دَر آئی؟ انتہا پسندی بھی ایسی کہ نو منتخب صدر نے اسے دہشتگردی سے تعبیر کیا۔ پھر امریکی پولیس جو قانون کی بالادستی کی دعویدار ہے، سفید فام دہشتگردوں کے سامنے بے بس کیوں نظر آئی؟ کیوں ایسا محسوس ہوا کہ پولیس بھی ان سفید فام دہشتگردوں کی خوشنودی کی خواہاں ہے؟ انتخابی نتائج پر تنازع عدالتوں سے نمٹ جانے کے باوجود کیوں امریکا کا صدر شکست ماننے کو تیار نہیں؟ امریکی سیاست میں مخالفت دشمنی میں کیسے بدلی؟ کانگریس پر قبضہ کرکے من مرضی کا فیصلہ لینے کی نوبت کیوں آئی؟ امریکا جو کبھی کثیر نسلی اور کثیر ثقافتی ہونے پر فخر کرتا تھا وہاں سفید فام بالادستی کا نظریہ رکھنے والے جتھے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے خبری میں کیسے منظم ہوتے رہے؟ ریاستی سطح پر امریکا کو تارکین وطن کا ملک کہا جاتا ہے لیکن تارکین وطن سے نفرت کیوں اور کیسے پھیلی؟ اس نفرت کو پھیلانے والے کرداروں کی بروقت نشاندہی کیوں نہیں کی گئی؟ دنیا بھر میں اختلافِ رائے پر بندوق اٹھانے والے جتھوں کو دہشتگرد قرار دینے والا امریکا اب اندرونِ ملک ان جتھوں سے کیسے نمٹے گا ؟ سب سے اہم سوال یہ کہ ان منظم گروہوں میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس امریکی فوجی افسر بھی شامل تھے، کیا امریکی فوج میں بھی دہشتگرد عناصر گھس چکے ہیں؟ ایک بات تو واضح اور صاف ہے کہ 6 جنوری کو امریکی جمہوریت کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوچکا ہے۔ دراصل امریکیوں کی اکثریت نے ٹرمپ کا 4 سالہ دور خوف میں ہی گزارا تھا۔ ٹرمپ کی صدارت درحقیقت سفید فام بالادستوں کی حکمرانی تھی، اور ہر طرف ‘میک امریکا گریٹ اگین‘ مختصر لفظوں میں ‘ماگا‘ کی ٹوپیاں اور شرٹس پہنے، نعرے لگاتے جتھے گھومتے اور عام شہریوں کو ہراساں کرتے تھے۔ سیاہ فام شہریوں کو پولیس وردی پہنے سفید فام اہلکار جب چاہتے معمولی سی لغزش یا شبہ پر فائرنگ کی زد پر رکھتے تھے، اور پھر جب سیاہ فام شہری پولیس کی بے رحمی پر احتجاج کرتے تو یہی انتہا پسند جتھے ان مظاہرین کو دھمکانے اور ہراساں کرنے پہنچ جاتے تھے۔ امریکا کے سب سے بڑے منصب پر بیٹھا شخص پولیس گردی کی مذمت اور قانون میں اصلاحات کی بجائے بے رحمانہ بیانات جاری کرتا اور مظاہرے روکنے کے لیے نیشنل گارڈز کو تعینات کرتا تھا تو عام امریکی شہری میں عدم تحفظ کا احساس مزید گہرا ہوجاتا تھا۔
6 جنوری کو امریکا میں جو مناظر دیکھنے کو ملے وہ بزور طاقت اقتدار پر قبضے کی کوشش جیسے تھے۔ تھرڈ ورلڈ میں یہ مناظر مسلح افواج کے ذریعے اقتدار پر قبضے کی کوشش کے دوران دیکھنے کو ملتے ہیں اور شاید یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ تھرڈ ورلڈ میں یہ معمول کے مناظر ہیں لیکن امریکا جیسی جمہوریت میں دہشتگرد جتھوں کا حملہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے، خاص طور پر ایسی صورتحال میں کہ ان جتھوں میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسر بھی شامل تھے۔ امریکی فضائیہ کا ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل گرفتار ہوچکا ہے جبکہ ایک کیپٹن سے فوج تفتیش کر رہی ہے۔
عراق جنگ میں شریک رہنے والی ریٹائرڈ فوجی افسر اور سینیٹ کی رکن ٹیمی ڈک ورتھ نے وزیرِ دفاع کے نام خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ کیپٹل ہل پر حملے میں شامل حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجیوں کے خلاف تحقیقات کی جائیں اور پینٹاگون حاضر سروس فوجیوں کے خلاف تفتیش میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کرے۔ سینیٹر ٹیمی ڈک ورتھ نے کیپٹل ہل حملے کو بغاوت اور اقتدار پر قبضے کی کوشش قرار دیا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکی فوج میں انتہا پسند عناصر کی نشاندہی ہوئی ہے، اس سے پہلے ایک امریکی فوجی کو نیو نازی گروہ کے ساتھ مل کر اپنے ہی یونٹ کے فوجیوں کے قتلِ عام کی منصوبہ بندی پر گرفتار کیا جاچکا ہے۔
2019ء میں ہونے والے ایک سروے میں امریکی فوج کے ایک تہائی ارکان اور اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے نصف سے زیادہ فوجیوں نے اعتراف کیا تھا کہ انہیں دوران سروس سفید فام نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا ۔ امریکا جو دوسرے ملکوں پر دہشتگردی کے الزامات عائد کرکے دہشتگرد عناصر کی سرکوبی کے بہانے جنگیں مسلط کرتا آیا ہے، وہ آج اپنی ہی فوج میں دہشتگرد عناصر سے کیسے نمٹے گا یہ دیکھنا اہم ہوگا۔
معاملہ صرف امریکی فوج کے اندر انتہا پسند عناصر کے گھسنے کا نہیں بلکہ کانگریس ارکان بھی انتہا پسندوں کے مددگار ہیں۔ کولوراڈو سے رکن کانگریس لورین حملے کے دوران ٹویٹر پر اسپیکر نینسی پلوسی کی لوکیشن انتہاپسندوں کو بتاتی رہیں جس پر ان کی برطرفی کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔ ایف بی آئی کے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کے حامی ایک بار پھر 16 سے 20 جنوری تک تمام ریاستوں میں مظاہروں کی تیاری کررہے ہیں اور ٹرمپ کو 25ویں ترمیم کے تحت ہٹانے کی صورت میں ناصرف کیپٹل ہل بلکہ ریاستی اداروں پر بھی حملے ہوسکتے ہیں۔
6 جنوری کے واقعات کے بعد امریکیوں کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی جمہوریت بھی ناکام ہوسکتی ہے۔ اس سے پہلے الیکٹورل کالج ووٹوں کی کانگریس سے توثیق ایک روایتی معاملہ ہوتا تھا جس کے لیے کبھی ایک گھنٹے سے زیادہ وقت درکار نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ اس قدر روایتی معاملہ تھا کہ اس کی غیر معمولی کوریج کی بھی کبھی نوبت نہیں آئی تھی لیکن اس بار ایسا نہیں تھا۔
پہلی بار کانگریس ارکان نے ایک ہارے ہوئے صدر کو اقتدار میں رکھنے کے لیے اپنا پورا زور لگایا۔ یہاں یہ سوال بے معنی ہے کہ ان ارکان کی تعدادکتنی تھی، اس قدر ضرور تھی کہ الیکٹورل کالج ووٹوں پر بحث کی نوبت آئی۔ پہلی بار کسی ہارے ہوئے صدر نے ایک ریاست کے سیکرٹری کو فون کرکے دباؤ ڈالا کہ انتخابی نتائج بدلے جائیں اور اس کی جیت کا بندوبست کیا جائے۔
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ ٹرمپ اور انتہاپسند جتھے اکیلے اس صورتحال کے ذمے دار نہیں۔ بے شمار ری پبلکن ارکان کانگریس، میڈیا کی بااثر شخصیات بھی اس میں برابر کی شریک ہیں جنہوں نے امریکیوں کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ الیکشن چوری ہوا ہے۔ پارٹی اور ٹرمپ سے وفاداری، عاقبت نااندیشی، نظریات کا کٹرپن اور مفادات وہ عوامل تھے جنہوں نے ٹرمپ کے دوستوں اور ووٹروں کو تشدد کی راہ پر ڈالا۔ جس کے بعد امریکی آئین خطرے میں پڑا اور امریکی انتخابی عمل کی ساکھ کو دھچکا لگا۔
ری پبلکن پارٹی کے سینئر ترین لیڈروں نے آخری لمحات تک ٹرمپ کے انتخابی فراڈ بیانیے کی مذمت سے گریز کیا کیونکہ یہ سیاستدان ٹرمپ کےلاکھوں چاہنے والوں کی ہمدردی اور ووٹ سے محروم ہونے کا خوف دل میں بسائے ہوئے تھے۔ ٹرمپ اور پارٹی سے وفاداری نبھاتے نبھاتے سینئر لیڈروں نے قومی سیاست انتہا پسند جتھوں کے ہاتھ میں دے دی۔
اقتدار پر قبضے کی کوشش ناکام بنائے جانے کے بعد اب امریکا کی دونوں بڑی جماعتوں کے لیڈر کھل کر ٹرمپ کی مذمت کر رہے ہیں لیکن ٹرمپ کے 4 سال کے دوران نفرت اور تقسیم کی سیاست کی مذمت کیوں نہ کی گئی؟ ٹرمپ نے جب قانون کی بالادستی کو پامال کیا اور شہری آزادیوں کو یرغمال بنائے رکھا تب ری پبلکن پارٹی کی سینئر قیادت کیوں خاموش رہی؟ اب جبکہ ٹرمپ کی صدارت کے چند روز رہ گئے ہیں تو مسلح افواج کے کمانڈر کو فون کرکے کیوں کہا جا رہا ہے کہ کسی جوہری حملے یا نئی جنگ چھیڑنے کے حکم کو تسلیم نہ کیا جائے اور جوہری کوڈز تک صدر کی رسائی روک دی جائے؟ جب ٹرمپ تشدد، نسل پرستی اور سفید فام بالادستی کو ہوا دے رہے تھے تو اس کے خلاف پورا امریکا ہم آواز کیوں نہ ہوا؟
انتخابات سے پہلے ہی ٹرمپ نے الیکشن چوری ہونے کے سازشی نظریات پیش کرنا شروع کردیے تھے۔ ہزاروں کے اجتماعات سے خطاب کرکے ٹرمپ 6 جنوری کی تیاری کر رہے تھے۔ ان اجتماعات اور ریلیوں میں الیکشن چوری روکو کے نعروں کے ساتھ فضا میں ہتھیار بھی لہرائے جاتے تھے۔ یعنی ٹرمپ گن کلچر کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے اور گن لابی کو مضبوط بنا رہے تھے۔ ان مناظر کو دیکھ کر بھی امریکی میڈیا اور رائے عامہ پر اثر رکھنے والے کوئی کردار ادا نہ کرپائے اور میڈیا کو جمہوریت کا ستون بتانے والے خود جمہوری روایات کو روندنے کے عمل کا حصہ بنے نظر آئے۔
دنیا کا میڈیا امریکی صدارتی انتخابات میں تشدد کے خدشات پر بات کرتا رہا لیکن امریکی میڈیا گونگا تماشائی کیوں تھا؟ امریکی میڈیا کا ایک بڑا حصہ ٹرمپ کا شریکِ جرم بھی ہے جس نے الیکشن چوری کے نظریے کو پروان چڑھایا اور ٹرمپ کو دن رات فون پر براہِ راست لے کر اس نظریے کی تشہیر میں لگا رہا۔
6 جنوری کو واشنگٹن پولیس کا کردار سب سے زیادہ مشکوک اور ناقابلِ یقین رہا۔ حقیقی عوامی احتجاج اور مظاہروں کو کبھی بھی اس طرح دوستانہ پولیس میسر نہیں رہی۔ اگر کسی کو شک ہے تو پچھلے سال بلیک لائیوز میٹر اور 6 جنوری کے فسادات کے دوران پولیس کے رویے کا موازنہ کر لے۔ کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والوں کا ‘ریڈ کارپٹ‘ استقبال انوکھا واقعہ ہے۔ پولیس کے کردار سے لگتا ہے کہ سب کچھ طے شدہ تھا۔
6 جنوری کے فسادات سفید فام امریکیوں کے عدم تحفظ کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی سفید فام بالادستوں کی پسندیدہ جماعت ہے اور سفید فام طبقات کے مفادات کا تحفظ یقینی بناتی آئی ہے۔ بارک اوباما جب امریکا کے صدر بنے تو سفید فام بالادستوں کے تحفظات و خدشات کو مزید ہوا ملی اور انہیں محسوس ہوا کہ واشنگٹن پر ان کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔
ٹرمپ ری پبلکن پارٹی کے بنیادی رکن نہ ہونے کے باوجود صدارتی امیدوار نامزد ہوئے اور پھر الیکشن بھی جیت گئے۔ یہ سب اوباما کی صدارت کا ردِعمل تھا۔ ایک سیاہ فام کا قصر ابیض پہنچنا ان سفید فام امریکیوں کے لیے بہت تکلیف دہ تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ تارکین وطن ان کے وسائل میں ناصرف شراکت دار بن گئے ہیں بلکہ اپنے جائز حصے سے بھی زیادہ وصول کر رہے ہیں۔
اوباما کیئر کے نام سے ہونے والی قانون سازی جو بنیادی سہولتوں کے لیے تھی، اس نے بھی سفید فام امریکیوں کے خدشات کو بھڑکایا۔ سفید فام امریکیوں میں یہ خیال اب راسخ ہوچکا ہے کہ ایسی جمہوریت کے دفاع کا کیا حاصل جس کا فائدہ رنگ دار نسلوں کے تارکین وطن اٹھا رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے 4 سال کے دوران رنگ دار نسلوں کی نمائندہ خواتین ارکان کے 4 رکنی گروپ کو مسلسل نشانہ بنائے رکھا، اور یہ سب اسی خیال کا واضح عکس تھا اور وہ عام سفید فام امریکیوں کے خدشات کو مزید تقویت دیتے رہے۔
امریکی قومی سیاست میں ری پبلکن پارٹی سفید فام امریکیوں کی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اب بھی ٹرمپ کے خلاف قانونی کارروائی میں رکاوٹ ہے۔ ڈیموکریٹ لیڈر اور ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے ٹرمپ کو استعفے کا مشورہ دیا ہے اور مائیک پنس سے کہا ہے کہ وہ کابینہ کے ساتھ مل کر ٹرمپ کو صدارت سے الگ کرنے کا قانونی آپشن اپنائیں۔
ٹرمپ کا مستعفی ہونا خارج از امکان ہے جبکہ مائیک پنس ٹرمپ کا راستہ ایک حد سے زیادہ مسدود نہیں کریں گے، اسی لیے 25ویں ترمیم کے تحت انہیں عہدے سے الگ کرنے کی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ مائیک پنس کا سیاسی سفر ابھی باقی ہے اور مستقبل میں وہ خود کو ری پبلکن کا صدارتی امیدوار تصور کرتے ہیں، اسی لیے وہ ٹرمپ کے لاکھوں شیدائیوں کو مکمل ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لیں گے۔
مائیک پنس 25ویں ترمیم کے تحت ٹرمپ کو ہٹانے کا قدم سیاسی فائدے کی خاطر نہیں اٹھا رہے لیکن مستقبل میں کوئی سیاسی فائدہ ٹرمپ کے حامیوں سے انہیں ملتا دکھائی نہیں دیتا۔ ٹرمپ نے حملے سے پہلے خطاب میں مائیک پنس کے بارے میں جو کہا اس سے ٹرمپ کے حامی انہیں غدار سمجھتے ہیں۔
خبر ایجنسی رائٹرز کے ایک فوٹوگرافر نے حملے کی کوریج کے دوران حملہ آوروں کو مائیک پنس کی تلاش میں سرگرداں دیکھا۔ حملہ آور مائیک پنس کو اغوا کرکے کیپٹل ہل پر ہی پھانسی دینے کے ارادے رکھتے تھے۔ اگر مائیک پنس اب بھی کسی سیاسی فائدے کی امید میں ٹرمپ کے خلاف کارروائی نہیں کر رہے تو وہ سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔
امریکا میں قانون اور روایات کے خاتمے کے اکیلے ذمہ دار ٹرمپ نہیں۔ رچرڈ نکسن، رونالڈ ریگن، جارج ڈبلیو بش سمیت دیگر صدور نے اندرون و بیرونِ ملک ایسے اقدامات کیے جنہوں نے آئین و قانون کو پامال کیا۔ واٹر گیٹ اسکینڈل، ایران کونترا اسکینڈل اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والےہتھیاروں کے جھوٹ کے ساتھ عراق پر حملہ اس کی چند مثالیں ہیں۔
سب سے بڑا امتحان ری پبلکن پارٹی کو درپیش ہے، اور وہ اس لیے کہ ساڑھے 7 کروڑ امریکیوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا، اب ری پبلکن پارٹی ٹرمپ کو 25ویں ترمیم کے تحت عہدے سے نااہل قرار دے کر ہٹا سکتی ہے اور نہ ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی کی تائید کرسکتی ہے۔ ری پبلکن لیڈران کو، آگے کنواں پیچھے کھائی والی خطرناک صورتحال کا سامنا ہے۔
ڈیموکریٹ پارٹی مواخذے کی قرارداد ایوانِ نمائندگان سے منظور بھی کر لے گی کیونکہ اس کے لیے سادہ اکثریت درکار ہے لیکن سینیٹ میں دو تہائی کی اکثریت درکار ہے جو ری پبلکن کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ سینیٹ کا اجلاس 19 جنوری تک ملتوی ہوچکا ہے اور جلد اجلاس بلانے کے لیے تمام 100 سینیٹرز کی رضامندی ضروری ہے۔ کیا سینیٹر ٹیڈ کروز، رون جانسن، جوش ہاؤلے اور ان کے ہم خیال، جو ٹرمپ کے کٹر حامی ہیں، مواخذہ اجلاس کے لیے رضامندی دیں گے؟
ایوانِ نمائندگان میں مواخذے کی قرارداد پیش کی جاچکی ہے جس پر ممکنہ طور پر بدھ یا جمعرات کو ووٹنگ ہوگی۔ ووٹنگ کا مطلب صاف اور واضح ہے کہ کانگریس ارکان کیپٹل ہل پر حملے کے باوجود ٹرمپ کے مواخذے اور اس کی برطرفی پر متفق نہیں۔ مواخذے کی قرارداد پیش ہونے سے پہلے ڈیموکریٹ لیڈر نے ایوانِ نمائندگان میں 25ویں ترمیم کے استعمال کا بل متعارف کرایا لیکن ری پبلکنز نے اسے روک دیا۔ اس سے بھی واضح ہورہا ہے کہ ری پبلکن پارٹی ٹرمپ کو بچانے کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
اس لیے یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مواخذہ ممکن دکھائی دیتا ہے اور نہ 25ویں ترمیم کے تحت برطرفی، تو باقی کیا آئینی آپشن دستیاب ہیں؟ صرف ایک ہی راستہ ہے کہ کانگریس صدر کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کرے لیکن یہ صرف قرارداد ہوگی جس کے کوئی قانونی مضمرات نہیں۔
اگلا منظر یہی دکھائی دیتا ہے کہ 20 جنوری تک ٹرمپ صدر رہیں گے اور ان کے حامی الیکشن دھاندلی کا دعویٰ کرتے رہیں گے اور اقتدار کی منتقلی کے دوران اور اس کے بعد بھی احتجاج ہوگا۔ اگر ری پبلکن نے سیاسی اخلاقیات اور جرأت کا مظاہرہ کیا تو مواخذہ ممکن ہوگا لیکن یہمنظرنامہ تصور سے باہر دکھائی دیتا ہے۔ مواخذہ ہوگیا تو صدر ٹرمپ کا 2024ء میں ایک بار پھر صدارتی الیکشن کا خواب چکنا چور ہوجائے گا۔
6 جنوری کے فسادات اور حملہ پہلی اور آخری کارروائی نہیں تھی۔ نو منتخب صدر جو بائیڈن کو انتقالِ اقتدار کی تقریب کے موقع پر ایک بار پھر احتجاج اور مظاہروں کی اپیلیں کی جا رہی ہیں اور واشنگٹن ڈی سی کی انتظامیہ ان مظاہروں سے نمٹنے کی تیاری کر رہی ہے۔ پینٹاگون نے 10 ہزار اہلکار تعینات کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ واشنگٹن ڈی سی کے میئر نے بھی اضافی سیکیورٹی اقدامات کرلیے ہیں اور امریکی عوام سے کہا گیا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی کے سفر سے گریز کریں۔ کیپٹل ہل کے گرد بھی آہنی باڑ کی تنصیب شروع کردی گئی ہے۔
6 جنوری کے فسادات نے ایک خوفناک مستقبل کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ نفسیاتی طور پر بیمار شخص کی صدارت کے خاتمے اور چند ہزار جنونیوں کے کیپٹل ہل پر حملے کی ناکامی کے بعد امریکا پہلے جیسا ہوجائے گا تو یہ خام خیالی ہے۔
امریکی جمہوریت کی عمارت بوسیدہ ہوچکی ہے اور 6 جنوری کو اس میں دراڑیں نمودار ہوئیں۔ ناکام فسادات کے بعد پہلے جیسے امریکا کا تصور رکھنے والے تجزیہ کار منظرنامے کو پوری طرح سے دیکھ نہیں رہے۔ فسادی تو چند ہزار تھے لیکن ساڑھے 7 کروڑ کے قریب ووٹروں نے ٹرمپ کی نسل پرست حکمرانی کو مزید 4 سال تک بڑھانے کے لیے ووٹ دیا۔
راست گو مسیحی نجات دہندہ کے لیے ووٹ دینے والے صرف اس الیکشن تک محدود نہیں بلکہ یہ عقیدہ اب امریکا کی قومی سیاست کا حصہ بن چکا ہے۔ ٹرمپ کی صدارت میں جس نفرت اور دشمنی کی سیاست کی بنیاد رکھی گئی اب اس کا سیمنٹ خشک ہوچکا ہے اور بنیادیں مضبوط ہو چکی ہیں۔