سیاسی الزام تراشیوں کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا، سربراہ براڈ شیٹ
بین الاقوامی اثاثہ بازیافت فرم کے مالک براڈشیٹ ایل ایل سی نے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک ویب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مشرف حکومت کے ساتھ اپنی فرم کے تعلقات کے آغاز کے ساتھ ساتھ اپنی تحلیل کمپنیوں کی خدمات اور بعد میں آنے والی حکومتوں کو پیش کرنے کی کوششوں کے بارے میں گفتگو کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایرانی نژاد برطانوی وکیل کاوے موسوی نے پاکستانی خبروں کے لیے مخصوص لندن میں مقیم ایک یوٹیوب چینل عرفان ہاشمی آفیشل کو تصدیق کی کہ حکومت پاکستان سے حاصل کیے گئے 2کروڑ 90 لاکھ ڈالرز اب آئل آف مین کے ایک اکاؤنٹ میں ہیں جہاں یہ کمپنی 2000 سے رجسٹرڈ ہے۔
مزید پڑھیں: 'اثاثہ برآمدگی کمپنی' کا شریف خاندان کی ایون فیلڈ جائیداد سے متعلق دعویٰ
اسی سال مشرف حکومت نے پاکستانی سیاستدانوں اور تاجروں کے غیر قانونی غیر ملکی اثاثوں بازیافت کرانے کے لیے اس فرم کی خدمات حاصل کی تھیں، اثاثے کی بازیابی کے معاہدے کے تحت اس کی ادائیگی پر 'ہدف' سے حاصل ہونے والی رقم میں سے 20فیصد معاہدے کے تحت ادا کی جائے گی۔
یہ معاہدہ 2003 میں ختم کیا گیا تھا اور اگرچہ کاوے موسوی نے دھماکا خیز شواہد رکھنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن یہ واضح نہیں کیاکہ ان کی تحقیقات کے بعد کون سے اثاثے حکومت کو واپس بھیج دیے گئے ہیں۔
اس کے برعکس براڈشیٹ ایل ایل سی نے برطانوی عدالت کے فیصلے کے تحت گزشتہ ماہ برطانیہ کے ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ سے اپنی خدمات کے سلسلے میں واجب الادا 2کروڑ 87 لاکھ ڈالر کی رقم حاصل کی ہے۔
کاوے موسوی نے کہا کہ جنرل مشرف کے دور حکومت میں 2000 میں ان سے پاکستان آنے کے لیے رابطہ کیا گیا تاکہ عناصر کے چوری شدہ اثاثوں کے پیچھے لگا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے اس اہم شرط پر معاہدہ کیا کہ حکومت میں تبدیلی کے باوجود اسے منسوخ نہیں کیا جائے گا اور سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف جیسے 'اہداف' کے پیچھے پڑنے کے معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں وکلا ہمارے ساتھ کام کر رہے تھے، وہ نیب کے ساتھ رابطہ کر رہے تھے، ہمارے پاس نیب کی عمارت میں ایک آفس موجود تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ابتدا میں مشرف کی توجہ نواز شریف اور ان کی حکومت کے پیچھے تھی لیکن ہم نے اصرار کیا کہ ہم کسی سیاسی الزام تراشی کا نشانہ نہیں بنیں گے اور کہا کہ بھٹو حکومت سمیت پچھلی حکومتوں پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔
“انہوں نے (مشرف حکومت) نے ہمیں اپنے (اہداف کی فہرست) دی اور ہم نے کہا کہ یہ نامکمل ہے، ہم نے انہیں ابتدائی تفتیش سے ہی بتایا کہ ہمارے خیال میں کچھ دوسرے افراد کو بھی اس فہرست میں شامل ہونا چاہیے، اس وقت کے ان مذاکرات نے ہم پر ظاہر کیا کہ یہ ممکنہ طور پر سیاست کی نذر ہو گئے، ہم نے کہا کہ ہم سیاسی الزام تراشیوں کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہیں اگر آپ انسداد بدعنوانی کی کوشش کرنا چاہتے ہیں تو یہ سب کے ساتھ ہونا ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس میں کب کیا ہوا؟
کاوے موسوی نے دعویٰ کیا کہ ان کی فرم نے 200 افراد اور ان کی کمپنیوں کی ایک فہرست تیار کی جس میں بیرون ملک مقیم ناجائز اثاثے ہیں، انہوں نے کہا ، 'ہم جنرل مشرف کے مخالفین کے پیچھے نہیں جانا چاہتے تھے، ہم پاکستان کے عوام کے دشمنوں کے پیچھے جانا چاہتے تھے'۔
انہوں نے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ محمد امجد کی تعریف کی جنہیں جنرل مشرف نے 1999 اور 2000 کے درمیان پہلا نیب چیئرمین مقرر کیا تھا، بعد میں 2017 میں سابق چیئرمین نے نواز شریف کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سامنے بھی گواہی دی۔
انہوں نے کہا کہ جب جنرل امجد وہاں تھے تو ، یہ [تحقیقات] تیزی کے ساتھ جارہی تھیں، انہوں نے مزید کہا کہ بعد میں انہوں نے جنرل مقبول اور جنرل حفیظ کے ساتھ کام کیا ، ان دونوں کو یہ ثبوت ملا کہ 'عدالت قابل اعتبار نہیں ہے'۔
ان کا خیال تھا کہ جب جنرل امجد کو ہٹایا گیا تو نیب نیچے کی طرف چلا گیا'، اگر مجھے شبہ ہوتا کہ یہ تیزی سے گراوٹ کا شکار ہو جائے گا تو میں کبھی یہ معاہدہ نہیں کرتا۔
مزید پڑھیں: حکومت امریکی کمپنی کو 2کروڑ 87لاکھ ڈالر ہرجانے کی ادائیگی پر رضامند
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب انہوں نے 2007 میں مشرف کو ایک بار پھر آکسفورڈ یونین میں دیکھا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو مشرف نے مجھے بتایا آپ جانتے ہیں کاوے مسٹر موسوی کہ سپریم کورٹ نے ہمیں الیکشن کروانے کا کہا تھا اور ہم نے ایسا ہی کیا، انہوں نے دوبارہ اقتدار میں آکر نیب کو ناکارہ کردیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی فرم نے تین سالوں میں کیا پیشرفت کی ہے تو کاوے موسوی نے کہا کہ براڈشیٹ ایل ایل سی 2001 کے بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل منصورالحق کی حوالگی کے پیچھے ہے جنہیں دفاعی سودوں میں بدعنوانی کے الزام میں مقدمے کی سماعت کے لیے امریکا سے واپس لایا گیا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ براڈشیٹ نے اپنا کام کیا اور اسے برخاست کردیا گیا کیونکہ یہ بہت کامیاب تھا۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کے پاس اب بھی شریفوں اور متعدد دیگر پاکستانیوں کے خلاف ثبوت موجود ہیں، انہوں نے کہا کہ براڈشیٹ ایل ایل سی کی جانب سے ایون فیلڈ کیس کی پیروی نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ کیونکہ ہمیں حکومت پاکستان کے کھاتے میں دیگر رقم ملی تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی فرم نے شریفوں سے کبھی بھی مدد کے لیے رابطہ نہیں کیا جیسا کہ اس نامہ نگار نے رپورٹ کیا تھا کہ کمپنی کی قانونی فرم کرویل اور مورنگ کا شریف خاندان کے وکلا سے ای میل کا تبادلہ ہوا تھا جس میں فرم نے واضح طور پر مدد کے لیے کہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کے اثاثوں کی کھوج کرنے والی کمپنی نے انہی سے مدد طلب کر لی
براڈشیٹ نے شریفوں کی ایون فیلڈ پراپرٹی کو اپنے کیس سے منسلک کرنے کا دعویٰ کیا لیکن 2 دسمبر 2020 کو ایک عدالت نے کمپنی کے دعوے کو برخاست کرنے کا حکم دیا تھا، 18 دسمبر کو عدالت نے تیسرے فریق کے ذریعے حکم دیا کہ لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کے بینک کھاتوں سے پچھلے فیصلے کے نفاذ کے طور پر فنڈز ڈیبٹ کیے جائیں۔
شہزاد اکبر سے ملاقات
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے براڈشیٹ ایل ایل سی کو واجب الادا رقم کی ادائیگی کے لیے حکومت میں کسی سے رابطہ کیا تو کاوے موسوی نے کہا کہ اعتماد کے فقدان کی وجہ سے انہوں نے گزشتہ برسوں میں عہدیداروں سے رابطہ ترک کردیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے اکتوبر 2018 میں وزیر اعظم کے مشیر برائے شہزاد اکبر سے دو بار ملاقات کی تاکہ یہ پوچھیں کہ ادائیگی کا معاملہ کیسے حل ہوگا، انہوں نے رعایت مانگی! میں نے ان سے کہا: یہ کوئی سوک (بازار، مارکیٹ) نہیں ہے، یہ عدالت کا حکم ہے۔
اگرچہ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان اور ان کے مشیر کے حوالے سے مثبت گفتگو کی لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ "ان کے امکان کے دعووں پر کسی حد تک شکوک و شبہات میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے شہزاد اکبر کو 2018 میں ایک ایسے اکاؤنٹ کے بارے میں بھی بتایا تھا جس کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ اس مں ایک ارب ڈالر ہیں لیکن وزیر اعظم کے معاون اس کے تعاقب میں نہیں جانا چاہتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے لندن میں ایک پاکستانی جنرل سے (اس مسئلے پر) ملاقات کی اور ہم نے اس پر تبادلہ خیال کیا، میں نے اس پر برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کو ایک حلف نامہ دیا ہے لیکن (پاکستانی حکومت نے ان معلومات کو یکسر نظرانداز کردیا، انہوں نے کہا کہ انہوں نے 2017 شریف حکومت کو بھی اس ایک ارب ڈالر والے اکاؤنٹ کے بارے میں آگاہ کیا تھا لیکن انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔
مزید پڑھیں: نیب پر واجب الادا رقم کے سلسلے میں برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن مشکلات کا شکار
کاوے موسوی نے کہا کہ اپنے تلخ تجربے کے باوجود اگر پاکستانی حکومت مبینہ طور پر بیرون ملک موجود غیرقانونی اثاثوں کی بازیابی کے لیے ان کی کمپنی سے معاہدہ کرتی ہے تو 2کروڑ 90لاکھ ڈالر حکومت پاکستان کو واپس کرنے پر راضی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت سے جو رقم ضبط کی ہے مجھے وہ واپس کر کے زیادہ خوشی محسوس ہوگی، میں جانتا ہوں کہ وہ خلوص والا آدمی ہے، اب خدا جانے کہ اس کے پاس کارکردگی دکھانے کی طاقت ہے یا نہیں، مجھے شہزاد اکبر کی ایمانداری پر بھی کوئی شک نہیں لیکن ان کے پاس طاقت نہیں ہے، میں یہ بیان دینے کے لیے تیار ہوں کہ اگر وہ چوروں کا پیچھا کرنے کے لیے ایک نیا معاہدہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں تو عدالت نے جو بھی حکم دیا ہے میں اس رقم کو واپس کرنے کے لیے تیار ہوں۔
‘ناقص معاہدہ’
جب ڈان نے کاوے موسوی کے دعوؤں پر اپنے تبصرے کے لیے شہزاد اکبر سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے ہم نے اس ایوارڈ کی مالی لاگت کو محدود کرنے کی پوری کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ان سے اپیل کی اور انہیں بتانے کی کوشش کی کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا، انہوں نے ایک ایسی کمپنی خریدی جسے تحلیل ہونا ہے، انہوں نے پاکستان کی مدد کے لیے کچھ نہیں کیا اور ان سے پاکستان کو کچھ نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ ناقص معاہدے کی وجہ سے وہ یہ مقدمہ جیت گئے۔