دنیا

افغانستان: حملوں میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 11 افراد ہلاک

اروزگان میں فوجی بیس کے قریب کار بم دھماکا ہوا، ہلمند میں فضائی کارروائی کے دوران خواتین اور بچوں سمیت متعدد شہری نشانے بنے، حکام

افغانستان کے جنوبی صوبے میں مختلف حملوں میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 11 افراد ہلاک ہوئے جبکہ ہلمند کے حکام کے مطابق فضائی کارروائی میں ہلاکتوں کی تحقیقات کی جائیں گے۔

خبر ایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق جنوبی افغانستان میں یہ حملے ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم طالبان سے مذاکرات کے لیے قطر میں موجود ہے، جس کا مقصد طویل خانہ جنگی کا خاتمہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: 2 ماہ میں پانچواں صحافی قتل

صوبائی کونسل کے رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جنوبی صوبہ اروزگان میں ملٹری بیس کے قریب خود کش کار بم دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں 6 اہلکار ہلاک ہوئے۔

اروزگان میں موجود صوبائی کونسل کے نائب سربراہ محمد کریم کریمی نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ملٹری بیس پر حملہ صوبائی دارالحکومت تیرین کوٹ میں ہوا ہے لیکن انہوں نے ہلاکتوں کی حتمی تعداد بتانے سے گریز کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ دھماکا اس قدر خوف ناک تھا کہ پورا شہر لرز اٹھا۔

افغانستان کے ایک اور صوبے ہلمند میں ایک کارروائی کے دوران 5 افراد ہلاک اور دیگر 5 زخمی ہوئے۔

صوبائی کونسل کے سربراہ عطااللہ افغان کا کہنا تھا کہ صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ کے مضافات میں رات گئے فضائی کارروائی کی گئی جس میں ہلاکتیں بھی ہوئیں اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہلاک افراد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔

صوبے کے گورنر عبدالنبی الہام کا کہنا تھا کہ حکام اس بات کا تعین کر رہے ہیں کہ ہلاکتیں فضائی کارروائی کی وجہ سے ہوئیں یا پھر حملہ کی نوعیت مختلف تھی۔

مزید پڑھیں: کابل: بم دھماکے میں جیل ڈاکٹروں سمیت 5 افراد ہلاک

افغانستان کے جنوبی صوبوں میں ہونے والے دونوں حملوں کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ نے تسلیم نہیں کی۔

خیال رہے کہ افغان حکومت کا وفد طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے قطر پہنچ چکا ہے تاکہ ملک بھر میں دہائیوں سے جاری خانہ جنگی کا حل نکالا جائے۔

طالبان اور حکومت کے درمیان بین الافغان مذاکرت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہو رہے ہیں جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی صدارتی انتخاب میں ناکامی کے بعد طالبان اور امریکا کے معاہدے پر بھی خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔

افغانستان میں گزشتہ ایک برس کے دوران سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں تیزی آئی ہے جبکہ طالبان اور حکومت کے درمیان ستمبر 2020 میں مذاکرات کا بھی آغاز ہوا تھا۔

نئے سال کے آغاز کے بعد 3 جنوری کو مغربی صوبے میں صحافی بسم اللہ عادل کو قتل کیا گیا تھا، وہ دو ماہ کے دوران قتل ہونے والے پانچویں افغان صحافی تھے جبکہ طالبان نے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

اس سے ایک ہفتہ قبل صوبہ غزنی میں صحافیوں کی یونین کے سربراہ رحمت اللہ اپنے گھر کے باہر مسلح افراد کے ایک حملے میں متعدد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

افغان دارالحکومت کابل میں 22 دسمبر 2020 کو ہزاروں طالبان قیدیوں سے بھرے جیل میں کام کرنے والے 4 ڈاکٹروں کی گاڑی پر ہونے والے بم حملے میں ڈاکٹروں سمیت 5 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

پولیس کے ترجمان فردوس فرامرز کہنا تھا کہ بم ڈاکٹروں کی گاڑی میں نصب کیا گیا تھا، دھماکا شہر کے جنوبی ضلع میں ہوا جب ڈاکٹر پل چرخی جیل جا رہے تھے جہاں وہ کام کرتے تھے۔

مذکورہ واقعے سے ایک روز قبل اسی طرح کے ایک حملے میں صوبہ کابل کے نائب گورنر محبوب اللہ محبی ہلاک ہوگئے تھے۔

سول ایوی ایشن تین ڈویژنز میں تقسیم، دو اضافی ایڈیشنل ڈائریکٹرز کے عہدے تخلیق

ملک بھر کی میڈیکل یونیورسٹیز کو رواں ماہ امتحانات لینے سے روک دیا گیا

راولپنڈی: گھر سے ماں اور ڈیڑھ سالہ بیٹی کی لاشیں برآمد