نقطہ نظر

سویڈن کی ناکام کورونا پالیسی اور نئی حکمت عملی

سویڈش ماہرین کا خیال تھا کہ ملک کے پڑھےلکھے عوام ہدایات پر عمل کریں گےاور یوں وہ کورونا کے پھیلاؤ کو روک سکیں گے مگر ایسا نہ ہوسکا

پچھلے سال جب دنیا بھر میں کورونا وائرس پھیلنا شروع ہوا تو اس وقت لوگوں میں خوف اور احتیاط زیادہ تھی لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ احتیاط کم ہوتی گئی، اور یہی وجہ ہے کہ دوسری لہر نے دنیا کو زیادہ متاثر کیا ہے۔

یہ انسانی رویہ اور طرزِ عمل سوئٹزر لینڈ کی ماہرِ نفسیات، کوبلر راس کی تحقیق اور نظریے کے مطابق ہے کہ جب کوئی پریشانی کافی عرصہ رہتی ہے تو لوگ اسے قبول کرلیتے ہیں، اور یوں لوگوں میں خوف اور احتیاط کم ہوجاتی ہے۔

سویڈن میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ کورونا وائرس سے متعلق سویڈن نے پوری دنیا سے مختلف پالیسی اختیار کی۔ یہاں نہ لاک ڈاون نافذ ہوا اور نہ ماسک پہننے کی پابندی تھی، اور نہ ہی لوگوں سے سماجی فاصلہ رکھنے اور احتیاط برتنے کا کہا گیا۔

یہ پالیسی سویڈش نیشنل ہیلتھ ایجنسی نے وضع کی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر سویڈن کو زیادہ متاثر نہیں کرے گی اور اس طرح ان کی حکمتِ عملی کامیاب رہے گی۔ اس حوالے سے اس وقت میں نے ڈان میں ایک بلاگ بھی تحریر کیا تھا جس سے قارئین کو سویڈن کی کورونا پالیسی کو سمجھنے کا موقع ملا۔

اس منفرد پالیسی کی وجہ سے سویڈن میں موسمِ گرما خیریت سے گزر گیا، جس پر نیشنل ہیلتھ ایجنسی کے ماہرین نے اطمینان کا سانس لیا۔

میں سویڈن کی میڈیکل یونیورسٹی کارولنسکا انسٹیٹیوٹ میں طبّی تحقیق کے شعبہ سے وابستہ ہوں اور نیشنل ہیلتھ ایجنسی کا دفتر ہمارے دفتر سے ملحق ہی ہے۔ گزشتہ سال موسمِ گرما میں ایک دن ہم نے دیکھا کہ نیشنل ہیلتھ ایجنسی کے باہر بینڈ باجے دھنیں بکھیر رہے ہیں اور خوشیوں کے شادیانے بجائے جارہے ہیں۔ اس خوشی کی تقریب میں نیشنل ہیلتھ ایجنسی میں وبائی امراض کے قومی ماہر اور سویڈن کی کورونا پالیسی کے خالق اندرش تھیگ نیل بھی شامل تھے۔

لیکن افسوس کہ یہ شادمانی زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکی کیونکہ کورونا وائرس کی دوسری لہر نے سویڈن کو شدید متاثر کیا۔ سویڈن میں کورونا وائرس سے اموات کی شرح اپنے ہمسایہ ممالک ناروے، ڈنمارک، فن لینڈ اور آئیس لینڈ سے بہت زیادہ ہے۔ سویڈش ماہرین کا خیال تھا کہ ملک کے پڑھے لکھے عوام ان کی ہدایات پر عمل کریں گے اور اس طرح وہ کورونا کے پھیلاؤ کو روک سکیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا اور سخت اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے عوام نے لاپرواہی اختیار کیے رکھی۔

سویڈن میں لاک ڈاؤن اور دوسرے اقدامات اس لیے بھی نہیں کیے جاسکے کہ سویڈن کا آئین انسانی حقوق، آزادی اور نقل و حمل پر کوئی بھی پابندی عائد کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ایسا صرف جنگی صورت میں ممکن ہے۔ اب جبکہ کورونا کی دوسری لہر نے ملک کو شدید متاثر کیا ہے تو حکومت نے آئینی ترمیم لانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

اس غرض سے جنوری کے اوائل میں قانون سازی ہوگی۔ حزبِ اختلاف بھی اس میں حکومت کا ساتھ دے رہی ہے کیونکہ اس کے بغیر آئینی ترمیم ناممکن ہے۔ لیکن بہت دیر کی مہرباں آتے آتے کے مصداق یہی کام گزشتہ سال کرلیا جاتا تو انسانی جانوں کے ضیاع سے بچا جاسکتا تھا۔

یہ خبر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ سویڈش وزیرِاعظم اسٹیفن لافوین ’دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت‘ کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے قوم کے نام اپنے خطاب میں اور پریس کانفرنس میں بارہا عوام کو غیر ضروری نقل و حمل اور شاپنگ مال جانے سے گریز کی ہدایات کیں۔ انہوں نے اپنے ایک وزیر کی سرزنش بھی کی جو خریداری کے لیے شاپنگ مال گئے تھے۔ لیکن وزیرِاعظم خود اس کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے۔

وہ کرسمس سے قبل اسٹاک ہوم کے ایک شاپنگ مال میں اپنی اہلیہ کے لیے کرسمس کا تحفہ خریدنے، اپنی گھڑی مرمت کروانے اور شیونگ مشین کے کچھ حصے خریدنے کے لیے گئے تو یہ خبر میڈیا کے ہاتھ لگ گئی۔ پھر کیا تھا، وزیرِاعظم پر تنقید کے نشتر چلنے لگے اور وہ دفاعی بیانات دینے پر مجبور ہوگئے اور کہنے لگے کہ وہ تمام تر احتیاطی تدابیر کے ساتھ گئے تھے اور انہوں نے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔

بہرحال اس معاملے نے زیادہ طول نہیں پکڑا لیکن یہ ضرور ہوا کہ حکومت محتاط ہوگئی۔ تصویر کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ سویڈن ہی ہوسکتا ہے جہاں کا وزیرِاعظم خود روزمرہ کی چیزوں کے حصول کے لیے بازار جائے، دنیا کے بیشتر ممالک میں تو معمولی اختیار کے حامل افراد کے پاس بھی کام کرنے والوں کی فوج ظفر موج ہوتی ہے۔

یہاں اہم بات یہ کہ جب سے کورونا وائرس حملہ آور ہوا ہے، ذاتی طور پر میں نے اور گھر والوں نے بہت محتاط کی۔ ملاقاتیں، غیر ضروری سفر اور دیگر سرگرمیاں معطل رہیں۔ کام اور ضرویاتِ زندگی کی خریداری کے علاوہ اور کوئی سرگرمی نہیں تھی لیکن اس لیے باوجود کورونا وائرس کا شکار ہوگیا۔

ابتداء میں گلے میں معمولی سی خراش محسوس ہوئی اور پھر سانس کی نالی میں کسی چیز کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس کے بعد 2 روز تک تھکن کے علاوہ کوئی اور علامت محسوس نہ ہوئی۔ 2 روز کے بعد سردی سے ہلکا بخار شروع ہوا تو کورونا کا ٹیسٹ کروایا جو مثبت آیا۔ اسی دروان اہلیہ اور بیٹے میں بھی کورونا وائرس کی تشخیص ہوگئی۔ مزید 2 دن گزرنے کے بعد سردی کے ساتھ بخار اور شدید سر درد کا دور شروع ہوا اور پھر 5 روز بہت ہی مشکل میں گزرے۔

بہت سے کورونا کے مریضوں کے برعکس جسم میں شدید درد، سونگھنے اور ذائقے کی حس متاثر نہ ہوئی البتہ کھانسی خوب رہی۔ اس دوران صرف پیراسیٹامول استعمال کی اور مالٹے کا جوس اور خوب پانی پینے کا عمل جاری رکھا۔ ایک ہفتہ شدت برقرار رہنے کے بعد افاقہ ہونا شروع ہوگیا۔ اللہ کے فضل و کرم سے بخار، سر درد اور سردی ختم ہوگئی لیکن کھانسی جاری رہی۔ تمام علامات ختم ہوجانے کے ایک ہفتے بعد ہی طبیعت مکمل بحال ہوسکی۔

قارئین سے یہی گزارش ہے کہ کورونا وائرس کو سنجیدگی مسئلہ سمجھتے ہوئے بہت زیادہ احتیاط کریں۔ صرف انتہائی ضرورت کے تحت کسی سے ملیں اور اس میں بھی تمام تر احتیاطی تدابیر ملحوظ خاطر رکھیں۔ جان ہے تو جہان ہے۔ زندگی ہے تو سب کچھ ہے۔ اپنا اور اپنے اہل خانہ کا خیال رکھیں اور اگر خدانخواستہ کسی کو کورونا وائرس ہوجائے تو فوری طور پر قرنطینہ ہوجائیں تاکہ دوسرے محفوظ رہیں۔ اگر سانس لینے میں دشواری محسوس ہو تو فوری طور پر اسپتال سے رابطہ کرکے طبّی امداد لیں۔

اس گزرے ایک سال نے ہمیں یہ بات سمجھا دی ہے کہ یہ وائرس سرحدوں سے ماورا ہے، یہ نہ قوم دیکھ رہا ہے، نہ مذہب، نہ علاقہ، یہ ہر اس جگہ پھیل رہا ہے، جہاں اس سے بچنے کے لیے اقدامات نہیں ہورہے، جہاں احتیاط میں غفلت برتی جارہی ہے، اس لیے یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اس وائرس سے بچنے کے لیے احتیاط کریں، تاکہ ہم صحت مند رہیں۔

عارف کسانہ

عارف محمود کسانہ سویڈن کی ایک یونیورسٹی کے شعبہ تحقیق سے وابستہ ہیں۔ وہ کالم نگار اور صحافی ہیں اور اسٹاک ہوم اسٹڈی سرکل کے منتظم بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: arifkisana@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔