آئی جی اسلام آباد تبدیل، قاضی جمیل الرحمٰن نئے آئی جی تعینات
وفاقی حکومت نے دارالحکومت اسلام کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس محمد عامر ذوالفقار کو تبدیل کر کے ان کی جگہ قاضی جمیل الرحمٰن کو نیا آئی جی تعینات کر دیا۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق 'خیبرپختونخوا (کے پی) کے ماتحت کام کرنے والے گریڈ 20 کے پولیس سروس آف پاکستان کے افسر قاضی جمیل الرحمٰن کو تبدیل کرکے آئی جی اسلام آباد تعینات کردیا گیا ہے'۔
نوٹی فکیشن میں بتایا گیا ہے کہ اس کا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے نوجوان جاں بحق، دہشتگردی کا مقدمہ درج
خیال رہے کہ اس سے قبل قاضی جمیل الرحمٰن ڈی آئی جی ہزارہ کے طور پر تعینات تھے اور اب انہیں آئی جی اسلام آباد تعینات کردیا گیا ہے۔
قاضی جمیل الرحمن کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور سے ہے اور اس سے قبل وہ پشاور میں بھی تعینات رہے۔
قبل ازیں 2 جنوری کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے 22 سالہ نوجوان اسامہ ستی جاں بحق ہوگیا تھا جس کے بعد پولیس کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے گئے تھے اور شہریوں کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا تھا۔
ترجمان اسلام آباد پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس کو رات کو کال موصول ہوئی کہ گاڑی میں سوار ڈاکو شمس کالونی کے علاقہ میں ڈکیتی کی کوشش کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا تھا کہ علاقے میں گشت پر مامور اے ٹی ایس کے اہلکاروں نے مشکوک گاڑی کا تعاقب کیا اور کالے شیشوں والی اس مشکوک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے گاڑی نہیں روکی۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پولیس نے متعدد مرتبہ جی-10 تک گاڑی کا تعاقب کیا، تاہم اس کے نہ رکنے پر گاڑی کے ٹائروں پر فائر کیے جس میں سے بدقسمتی سے 2 فائر گاڑی کے ڈرائیور کو لگ گئے جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔
دوسری جانب نوجوان کے قتل کا مقدمہ والد کی مدعیت میں تھانہ رمنا میں درج کرلیا گیا اور مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (قتل) کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دفعہ 7 بھی لگائی گئیں اور مدثر اقبال، شکیل احمد، محمد مصطفیٰ، سعید احمد اور افتخار احمد نامی اہلکاروں کو نامزد کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: آئی جی اسلام آباد جان محمد کو فوراً وطن واپس آنے کی ہدایت
نوجوان کے والد ندیم یونس ستی نے مقدمے میں مؤقف اپنایا کہ میرا جواں سالہ بیٹا اسامہ ندیم ستی میرے ساتھ جی-10 مرکز میں کاروبار کرتا تھا اور وہ 2 جنوری کی رات تقریباً 2 بجے اپنے دوست کو ایچ-11 نزد نسٹ یونیورسٹی چھوڑنے گیا تھا تو مدثر مختار، شکیل احمد، سعید احمد، محمد مصطفیٰ اور افتخار احمد نامی پولیس اہلکاروں جن سے ایک دن قبل میرے بیٹے کی تلخ کلامی اور جھگڑا ہوا تھا، جس کا ذکر میرے بیٹے نے مجھ سے کیا تھا۔
والد نے ایف آئی آر میں مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد پولیس کے ان ملازمین نے میرے بیٹے کو دھمکی دی تھی کہ تمہیں مزہ چکھائیں گے، جس کے بعد رات 2 بجے ان پولیس اہلکاروں نے میرے بیٹے کی گاڑی کا پیچھا کیا اور ٹکر ماری جس کے بعد انہوں نے روک کر مین شہراہ پر گاڑی پر 17 گولیاں چاروں اطراف سے چلائیں جس سے میرے بیٹے کی جان چلی گئی۔
انہوں نے ایف آئی آر میں دعویٰ کیا کہ میرے بیٹے کی جان معمولی تلخ کلامی کی وجہ سے لی گئی اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ میرے بیٹے کو ان پولیس کی وردی میں موجود ’درندوں‘ نے ناحق قتل کیا۔