بٹ کوائن نے 35 ہزار ڈالر کی نئی بلند ترین سطح عبور کرلی
ایشیا میں بٹ کوائن مارچ 2020 کے وسط سے اب تک 800 فیصد اضافے کے ساتھ پہلی بار 35 ہزار ڈالرز کی حد عبور کرکے 35 ہزار 879 ڈالر (57 لاکھ 59 ہزار روپے) کا ہوگیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق 16 دسمبر 2020 کو تقریبا تین ہفتے قبل پہلی بار دنیا کی سب معروف کرپٹوکرنسی نے 20 ہزار ڈالرز کی حد کو عبور کیا تھا۔
اس وقت، اس نے 28 ہزار ڈالر کی بلند ترین سطح کو چھوا تھا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 170 فیصد سے زیادہ کا فائدہ ظاہر کرتا ہے۔
بڑے سرمایہ کاروں میں اس کے مانگ میں اضافہ ہورہا ہے جو اس کی فوری فائدہ پہنچانے، مہنگائی سے متاثر نہ ہونے اور اس کے ادائیگی کے اہم ترین ذریعے بننے کی اُمید کی وجہ سے اس میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: بٹ کوائن کی قیمت میں ریکارڈ اضافے کا سلسلہ جاری
بٹ کوائن کی مشرقی ایشیا سے شمالی امریکا کی جانب بڑا بہاؤ دیکھنے میں آیا ہے جو بڑے امریکی سرمایہ کاروں میں بٹ کوائن کی مانگ میں اضافہ ظاہر کرتی ہے۔
بٹ کوائن کی طرف توجہ، جسے کچھ سرمایہ کاروں نے ایک ممکنہ محفوظ پناہ گاہ کے طور پر دیکھا ہے، حالیہ مہینوں میں سونے کی قیمت میں کمی کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال کے آخری ایام 27 دسمبر کو بٹ کوائن نے 28 ہزار ڈالرز کی حد کو عبور کیا تھا تاہم 28 دسمبر کو وہ کچھ کم ہوکر 26 اور 27 ہزار ڈالرز کے درمیان آگئی تھی۔
بٹ کوائن میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی بڑھی ہے جو ممکنہ طور پر فوری منافع کے لیے اسے خرید رہے ہیں۔
سرمایہ کاروں کی جانب سے بٹ کوائن اور دیگر کرپٹو کرنسیوں پر کووڈ 19 کی وبا کے دوران سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا حکومت کا دو بٹ کوائن مائننگ پلانٹس لگانے کا فیصلہ
بٹ کوائن کی قیمتوں میں اس طرح کا اتار چڑھاؤ نیا نہیں، 2017 میں بھی ایسا دیکھنے میں آیا تھا تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اس بار قیمت مستحکم رہنے کا امکان زیادہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کمپنیوں کی سطح پر زیادہ سرمایہ کاروں کی جانب سے اس کرپٹو کرنسی کو خریدا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ کار اس لیے بھی کرپٹو کرنسی میں دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ انہیں مستقبل میں اس شعبے میں زیادہ مواقع نظر آرہے ہیں۔
2017 میں اس کرنسی کی قدر میں 900 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا تھا اور وہ 20 ہزار ڈالرز کے قریب پہنچ گئی تھی، مگر اس موقع پر مالیاتی ماہرین نے انتباہ کیا تھا کہ یہ قیمت بہت تیزی سے نیچے جاسکتی ہے۔
پھر ایسا ہوا بھی اور فروری 2018 میں قیمت 7 ہزار ڈالرز سے بھی نیچے چلی گئی تھی۔