اسلام آباد: گرفتاری کے لیے فائرنگ کرنے پر وضاحت دینے میں ناکامی، اے ایس آئی ملازمت سے فارغ
اسلام آباد: ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ تلاشی کے خلاف مزاحمت کرنے والے شہری پر انتباہی فائرنگ کرنے کے حوالے سے سینئرز کو مطمئن کرنے میں ناکام رہنے والے پولیس کے اے ایس آئی کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس کے ذرائع نے بتایا کہ اے ایس آئی انڈسٹریل ایریا پولیس اسٹیشن میں تعینات تھا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد میں نوجوان کا قتل: پولیس ریکارڈ تضاد کے سامنے آنے پر سیل
انہوں نے کہا کہ 3 جنوری کو اس نے آئی 10/3 میں ایک کار کو روکا اور اس کے ڈرائیور سے جسمانی تلاشی دینے کو کہا لیکن اس نے انکار کردیا اور مزاحمت کی۔
انہوں نے بتایا کہ اے ایس آئی نے اپنا ہتھیار کھینچا اور اس شخص کو متنبہ کرنے کے لیے زمین میں فائر کیا لیکن اس شخص نے اپنا ایک ہاتھ اپنے ٹراؤزر کی جیب پر برقرار رکھا اور اے ایس آئی کو دھکا دے دیا۔
گوکہ اے ایس آئی نے اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن اس شخص نے مزاحمت کی اور جلد ہی وہ اپنی گاڑی پیچھے چھوڑ کر وہاں سے فرار ہو گیا۔
بعدازاں اے ایس آئی بھی وہاں سے چلے گئے، انہوں نے مزید بتایا کہ کچھ دیر بعد وہ شخص اپنی گاڑی کو موقع سے لے گیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے نوجوان جاں بحق، دہشتگردی کا مقدمہ درج
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ واقعہ ایک ویڈیو کے ذریعے پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کے علم میں آیا جسے کسی نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تھا۔
واقعے کے بعد ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس آپریشن وقارالدین سید نے کارروائی کرتے ہوئے ایس پی انڈسٹریل ایریا زون زبیر احمد شیخ سے ضروری کارروائی کرنے کو کہا۔
ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا کہ 3 جنوری کو اے ایف آئی کو ایچ-9 ہفتہ وار بازار میں تعینات کیا گیا تھا لیکن وہ آئی-10/3 آگئے جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔
اے ایس آئی نے سینئرز کو بتایا کہ انہیں ایک مخبر سے منشیات لے جانے والے شخص کے بارے میں اطلاع دی، انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس شخص کے انتظار میں کھڑے تھے اور آئی-10/3 پر اسے روک لیا جہاں وہ ایک کار میں سوار تھا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد میں دو علیحدہ واقعات میں جرمن شہری اور فوجی قتل
انہوں نے مزید بتایا کہ تفتیش میں مزید انکشاف ہوا ہے کہ اے ایس آئی نے نہ تو اپنے نگران افسران بشمول ایس ایچ او کو آگاہ کیا اور نہ ہی پولیس اسٹیشن کے رجسٹر میں معاملے کی اطلاع دی۔
ذرائع نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش کے بعد اے ایس آئی کو معطل کردیا گیا تھا اور انہیں شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا، ذرائع کا کہنا ہے کہ انکوائری میں اسے لاپرواہی اور بدانتظامی کا مرتکب پایا گیا کیوں کہ وہ ایچ-9 کے ہفتہ بازار میں اپنی ذمہ داری سرانجام دینے کے بجائے آئی- 10/3 میں ذمہ داری نبھا رہا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اے ایس آئی کو پنجاب پولیس (ای اینڈ ڈی) رولز 1975 رول 3 کے تحت بدانتظامی کا مرتکب پایا گیا تھا، جس میں قاعدہ 4 (اے) اور (بی) میں شامل ایک معمولی/ بڑی سزا کو بھی شامل کیا گیا تھا، رولز کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔
نوٹس کے جواب میں اے ایس آئی کو پیش کیا گیا اور ایس پی کو زبانی اور تحریری بیان پیش کیا گیا لیکن ان کی وضاحت اطمینان بخش نہیں پائی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے نتیجے میں اے ایس آئی کو ملازمت سے برخاستگی سمیت بڑی سزا سنائی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: اسامہ قتل کیس: اے ٹی ایس کے 5 اہلکاروں کا 3 روزہ ریمانڈ منظور
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر پولیس افسران کا کہنا تھا کہ کسی بھی حالت میں پولیس غیر مسلح شخص پر فائرنگ نہیں کرسکتی، چاہے وہ مجرم ہو یا دہشت گرد ہی کیوں نہ ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر پولیس کو اپنے دفاع میں ہتھیار استعمال کرنے کا حق ہے تو ایک شہری کو بھی اسی طرح کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پینل کوڈ کی سیکشن 96 سے 104 اپنے دفاع میں فائرنگ اور تعاقب کے معاملے کی نشاندہی کرتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کو فائرنگ کا نشانہ بنانے کے لیے بھی ایس او پی موجود ہیں لیکن ایس او پی کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس غیر مسلح شخص کے خلاف ہتھیار استعمال نہیں کرسکتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ چاہے ایسا شخص پیدل ہو یا گاڑی پر، اسے افرادی قوت کا استعمال کر کے یا ناکہ بندی کے ذریعے روکا جائے اور تحویل میں لیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس صرف اس وقت نجی دفاع میں ہتھیار استعمال کرتی ہے جب مخالفین مارنے یا زخمی کرنے کے ارادے سے اس پر فائرنگ کریں، لیکن پولیس کو کسی غیرمسلح شخص کو روکنے کے لیے پہیے یا ٹانگوں پر فائر کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: گھروں میں ڈکیتی، مزاحمت پر خاتون ڈاکٹر اور پولیس افسر کا گارڈ قتل
انہوں نے کہا کہ پولیس بھی تیز تعاقب میں ہتھیاروں کا استعمال کرتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پولیس مسلح شخص کو متنبہ کرنے کے لیے اسلحے کا استعمال کرتی ہے اور ہتھیار کو فائر کے لیے اس وقت استعمال کرتی ہے جب وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیے فائر کرتا ہے۔
اس سلسلے میں کہا گیا کہ 2 جنوری کو سری نگر ہائی وے پر پولیس کی فائنرگ سے 21سالہ لڑکے اسامہ ستی کی ہلاکت کے معاملے میں پولیس کو اس پر فائرنگ نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ وہ غیر مسلح تھا، انہوں نے مزید کہا کہ پولیس گاڑی کا پیچھا کر کے اس کا گھیراؤ کرنا چاہیے تھا یا اضافی نفری طلب کرنی چاہیے تھی اور اسلحہ استعمال کیے بغیر اسے گرفتار کرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے دیے گئے اسلحے کا غلط استعمال کیا۔
ادھر اسامہ ستی کے والد ندیم ستی نے منگل کے روز یہاں پریس کانفرنس میں کہا کہ پولیس نے ان کے بیٹے کو ان کی کار سے نکالا اور گولی مار کر ہلاک کردیا، انہوں نے مزید کہا کہ گاڑی کی پچھلی طرف یا اندر گولیوں کے نشانات نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ میرے دوسرے بیٹے نے کار کا معائنہ کیا اور اس اس ڈرائیونگ سیٹ پر گولی کا ایک نشان بھی نہیں ملا جہاں اسامہ بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ اسامہ کے پاؤں میں گولی بھی لگی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ پولیس نے اسے کار سے کھینچنے کے بعد اس پر فائر کیا۔
انہوں نے ایڈیشنل ضلعی مجسٹریٹ کے ذریعے کی جانے والی عدالتی تحقیقات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ انہیں پولیس اور انتظامیہ پر اعتماد نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ نے انہیں یقین دلایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج ان کے مطالبے کے جواب میں انکوائری کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کشمور واقعہ: وزیراعظم کا اے ایس آئی اور ان کی بیٹی کو فون، مثالی قدم اٹھانے پر تعریف
انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ وہ ان کے بیٹے کے قتل پر از خود نوٹس لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس اسامہ ستی کے قتل میں استعمال ہونے والا ہتھیار برآمد کرنے میں ناکام رہی۔
انہوں نے جمعہ کے روز نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج کرنے کا انتباہ دیا ہے۔