جنوبی افریقہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ کووڈ ویکسین کے ٹرائلز کی قیادت کرنے والے پروفیسر شبیر مہدی نے کہا 'یہ اقابل فہم تشویش ہے کہ جنوبی افریقہ میں دریافت نئی قسم ویکسین کے خلاف زیادہ مزاحمت کرنے والی والی ہوسکتی ہے'۔
انہوں نے یہ بات برطانوی حکومت اور سائنسدانوں کے بیانات کے ردعمل میں کہی تھی، جن کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی نئی قسم کے خلاف موجودہ ویکسینز موثر ثابت نہیں ہوں گی۔
برطانوی وزیر صحت میٹ ہینکوک نے 4 جنوری کو ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا ' میں جنوبی افریقی قسم کے حوالے سے بہت زیادہ تشوش زدہ ہوں، اسی وجہ سے ہم نے جنوبی افریقہ کے حوالے سے سفری پابندیاں عائد کی ہیں، یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے'۔
انہوں نے کہا کہ یہ نئی قسم بہت زیادہ متعدی نظر آتی ہے جس کا اولین کیس برطانیہ میں سامنے آچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کا حتمی جواب ممکنہ طور پر چند ہفتوں میں سامنے آجائے گا کیونکہ جنوبی افریقہ میں اس حوالے سے جانچ پڑتال پہلے سے جاری ہے۔
اس حوالے سے تشویش کے پیچھے وجہ یہ ہے کہ یہ نئی قسم برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم کے مقابلے میں زیادہ میوٹیشن کے عمل سے گزری ہے، جس کی وجہ سے یہ ان اینٹی باڈیز کو بھی ہدف بناسکتی ہے جو عام طور پر کورونا وائرس سے مقابلہ کرتی ہیں۔
ویکسین جسم کو ایک مدافعتی ردعمل کی تربیت فراہم کرتی ہیں، جس میں وائرس سے لڑنے والی اینٹی باڈیز کی تیاری بھی شامل ہے۔
اینٹی باڈیز بنیادی طور پر ایسے چھوٹے پروٹینز ہیں جو مدافعتی نظام بناتا ہے جو وائرسز کی سطح پر چپک کر موثر طریقے سے انہیں ناکارہ بناتے ہیں۔
اگر ان کی سطح پر چپکنے کی صلاحیت کمزور ہوجائے تو ویکسین ممکنہ طور پر زیادہ موثر نہیں رہتی۔
پروفیسر شبیر مہدی نے کہا کہ ایسا ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ جنوبی افریقہ میں دریافت نئی قسم میں آنے والی تبدیلیاں موجودہ ویکسینز کو بیکار کردیں گے، مگر ہوسکتا ہے کہ وہ ان کا اثر کمزور کردیں۔
جنوبی افریقہ کی وٹس یونیورسٹی میں ویکسین کی ماہر پروفیسر ہیلن ریز نے کہا 'خوش قسمتی سے ضرورت پڑنے پر ویکسین میں نئی اقسام کو مدنظر رکھتے ہوئے تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں اور ایسا بہت تیزی سے ہوسکتا ہے'۔