کراچی: 'چائلڈ پورنوگرافی' کیس میں مدرسے کے استاد کا جوڈیشل ریمانڈ
کراچی کی مقامی عدالت نے مبینہ چائلڈ پورنوگرافی کے کیس میں مدرسے کے استاد کا جوڈیشل ریمانڈ دے دیا۔
تفتیشی افسر نے پیر کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی تحویل میں جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر ملزم کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا۔
تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزم سے تحقیقات مکمل ہوگئی ہے اس لیے انہیں اس کی مزید تحویل کی ضرورت نہیں ہے اور عدالت سے ملزم کے جوڈیشل ریمانڈ کی استدعا کی۔
جج نے تفتیشی افسر کی استدعا منظور کرتے ہوئے ملزم کا جوڈیشل ریمانڈ دے دیا اور تفتیشی افسر کو اگلی سماعت میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
واضح رہے کہ تین روز قبل ایف آئی اے نے چائلڈ پورنوگرافی اور کم عمر طالبہ کو ہراساں کرنے کے الزامات کے تحت 'قاری' کو گرفتار کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی:کم عمر طالبہ کو بلیک میل کرنے والا 'قاری' ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتار
پراسیکیوشن کے مطابق ایف آئی اے کے سائبر کرائم سرکل نے طالبہ کی والدہ کی شکایت پر گلشن اقبال سے ملزم کو گرفتار کیا۔
خاتون نے شکایت میں کہا کہ انہوں نے اپنے بچوں کو گھر میں قرآن پڑھانے کے لیے ایک قاری کو ٹیوشن کے لیے مقرر کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بعد ازاں 13 سالہ بیٹی نے شکایت کی کہ انہیں گھر میں قرآن پڑھاتے وقت استاد انہیں 'جسمانی طور پر ہراساں' کر رہے ہیں۔
ایف آئی اے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر کے ایڈیشنل ڈائریکٹر فیض اللہ کوریجو کا کہنا تھا کہ کم عمر طالبہ نے اپنی والدہ کو یہ شکایت بھی کی کہ ملزم کے پاس ان کی 'قابل اعتراض' تصاویر بھی ہیں اور اس کی بنیاد پر وہ انہیں ہراساں اور بلیک میل کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم نے بعد ازاں بچی کی تصاویر اس کی ماں کو واٹس ایپ کے ذریعے بھیج دیں اور 'ملزم خاندان کو دھمکا رہا تھا کہ اگر ان کے غیر اخلاقی مطالبے پورے نہیں کیے گئے تو سوشل میڈیا پر ان تصاویر کو وائرل کردیں گے'۔
مزید پڑھیں: لاہور: لڑکی کو ریپ کی دھمکیاں دینے والا ملزم گرفتار
انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے نے ان کے قبضے سے موبائل فون بھی برآمد کرلیا۔
ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر نے کہا کہ 'قبضے میں لیے گئے موبائل کا تکنیکی بنیادوں پر جائزہ لیا جا رہا ہے اور کم سن لڑکی کی قابل اعتراض تصاویر بھی دستیاب ہوئی ہیں جس کی بنیاد پر وہ انہیں بلیک میل، ہراساں اور دھمکا رہا تھا'۔
ملزم کے خلاف پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے سیکشن 22 اور 24 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 109 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔