پاکستان

پروین رحمٰن قتل کیس: ٹرائل کورٹ کو جلد فیصلے کا حکم، سپریم کورٹ نے کیس نمٹا دیا

بہت وقت گزرچکا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ انصاف پر مبنی فیصلہ ہو، درخواست گزار ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے بعد رجوع کرسکتا ہے، جسٹس عمر
|

سپریم کورٹ نے سال 2013 میں کراچی میں قتل کی گئی سماجی کارکن پروین رحمٰن کے قتل کیس میں ٹرائل کورٹ کو جلد فیصلے کا حکم دیتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔

خیال رہے کہ اپنی پوری زندگی ملک کے غریب محلوں کی ترقی کے لیے وقف کرنے والی اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی سربراہ پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو اورنگی ٹاؤن میں ان کے دفتر کے قریب گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں عدالت عظمیٰ کے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پروین رحمٰن قتل کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت عدالت کی جانب سے کیس نمٹائے جانے پر وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ کیس کو نہ نمٹایا گیا جبکہ مذکورہ معاملے پر بنائی گئی 2 مشترکہ تحقیقاتی ٹیمز (جے آئی ٹیز) کی رپورٹس ٹرائل کورٹ میں پیش نہیں کی گئیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا اے ٹی سی کو قانون کے مطابق پروین رحمٰن قتل کیس کی سماعت نمٹانے کا حکم

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بہت وقت گزرچکا ہے، ہم چاہتے ہیں انصاف پر مبنی فیصلہ ہو۔

عدالتی ریمارکس پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ سپریم کورٹ سندھ پولیس کے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دے۔

جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ تحقیقاتی ایجنسی نہیں بن سکتی۔

بعد ازاں عدالت نے یہ کہتے ہوئے کیس نمٹا دیا کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے بعد درخواست گزار دوبارہ عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔

عدالت نے کہا کہ مرکزی اپیل پر تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے ہدایت دی کہ جے آئی ٹی رپورٹس 2 ہفتوں میں ٹرائل کورٹ میں جمع کرائی جائیں جبکہ ٹرائل کورٹ جے آئی ٹی رپورٹس پر جلد فیصلہ کرے۔

مزید یہ کہ عدالت نے استغاثہ اور گواہان کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت بھی کردی۔

پروین رحمٰن قتل کیس کا پس منظر

اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی بانی پروین رحمن 13 مارچ 2013 کو اپنے آفس سے گھر جارہی تھیں کہ موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم افراد نے منگھوپیر روڈ پر بنارس پل کے پاس ان پر فائرنگ کردی تھی، جس کے نتیجے میں ان کی گردن پر گولیاں لگی تھیں۔

پروین رحمٰن کے ڈرائیور نے فوری طور پر انہیں عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا تھا تاہم اس حملے میں وہ جانبر نہ ہوسکی تھیں۔

خیال رہے کہ پروین رحمٰن کے قتل کا مقدمے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 اور 34 درج کی گئیں اور یہ مقدمہ پیر آباد پولیس اسٹیشن میں درج ہوا تھا، بعد ازاں اس میں انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 بھی شامل کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں : پروین رحمٰن قتل کیس: سپریم کورٹ کا عدالتی کمیشن کی تشکیل کا حکم

اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے اس کیس کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا تھا اور 2014 میں عدالت عظمیٰ میں پیش کردہ عدالتی تحقیقاتی رپورٹ میں تجویز دی گئی تھی کہ اس قتل کی ایک آزاد، ایماندار پولیس افسر سے دوبارہ تحقیقات کرائی جائے۔

بعدِ ازاں مارچ 2015 میں کراچی اور مانسہرہ پولیس نے مانسہرہ کے علاقے کشمیر بازار میں مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے پروین رحمٰن کے قتل میں ملوث ملزم پپو کشمیری کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

اس کے علاوہ 7 مئی 2017 کو کراچی پولیس نے منگھوپیر تھانے کی حدود سلطان آباد میں کارروائی کرتے ہوئے اس قتل کے مبینہ قاتل اور کیس کے مرکزی ملزم رحیم سواتی کو بھی گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

2018 کے آغاز سپریم کورٹ نے پروین رحمٰن قتل کیس میں عدالتی کمیشن کی تشکیل کے لیے اس وقت کے اٹارنی جنرل اوشتر اوصاف کو نوٹس جاری کیا تھا۔

جس کے بعد 22 مارچ کو سندھ پولیس پر مشتمل جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کے سامنے تسلیم کیا تھا کہ پروین رحمٰن کے قتل کی سازش میں لینڈ مافیا ملوث تھی کیونکہ وہ گوٹھ آباد اسکیم پر کام کررہی تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’پروین رحمٰن کے قتل میں تحریکِ طالبان کے سنیئر کمانڈر قاری بلال کو مرکزی ملزم قرار نہیں دیا جاسکتا‘۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ پروین رحمن کے قتل کے اگلے ہی روز 14 مارچ 2013 کو قاری بلال کو مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

بعد ازاں 29 مارچ کو 2018 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کیس میں نامزد 5 ملزمان ایاز شمزیی عرف سواتی ، محمد امجد حسین خان، احمد خان عرف پپو کشمیری ، محمد عمران سواتی اور محمدرحیم سواتی پر فردِ جرم عائد کردی تھی۔

کیس میں نامزد ملزمان نے اقرارِ جرم نہیں کیا تھا اور اپنے خلاف الزامات کا دفاع کرنے کا اختیار چُنا،جس کے بعد ٹرائل کورٹ نے پروسیکیوشن گواہان کو بیانات قلمبند کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔

مزید پڑھیں : پروین رحمٰن قتل کیس: جے آئی ٹی کو 31 اپریل تک رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت

تاہم 28 جون کو یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ کیس میں ٹرائل کا آغاز نہیں ہوسکا تھا کیونکہ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود پولیس گواہان کو سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔

درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ صلاح الدین نے ڈان کو بتایا تھا کہ ’ مذکورہ کیس میں تقریباً 23 پروسیکیوشن گواہان موجود ہیں لیکن سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر ان میں سے کوئی بھی بیان ریکارڈ کروانے کے لیے رضامندی ظاہر نہیں کررہا۔‘

جس کے بعد 22 دسمبر 2018 کو ٹرائل کورٹ نے تفتیش کاروں کو طلب کرنے کے لیے فوجداری ضابطہ اخلاق (سی آر پی سی) کے سیکشن 540 کے تحت دائر عقیلہ اسمٰعیل کی درخواست خارج کردی تھی اور سرکاری وکیل دفاع سے حتمی دلائل ریکارڈ کرنے کے لیے معاملہ ملزمان کے لیے وکیل اور شکایت کنندہ کے وکیل کے مابین طے کرنے کی ہدایت کی تھی۔

جنوری 2019 میں سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو پروین رحمٰن کے اہلِ خانہ اور موجود ڈائریکٹر انور راشد کو دھمکیاں دینے والے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔

بعد ازاں فروری 2019 میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ وزارت داخلہ نے اس کیس کی تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے جو 5 اراکین پر مشتمل ہوگی۔

اس کے بعد یہ کیس آہستہ آہستہ چلتا رہا تھا تاہم ستمبر 2020 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پروین رحمٰن کے قتل سے متعلق مقدمے کو سپریم کورٹ کی جانب سے ایک ماہ کے اندر نمٹانے سے متعلق جاری کردہ حکم کی نقل طلب کر لی تھی۔

علاوہ ازیں دسمبر 2020 میں سپریم کورٹ نے انسداد دہشت گردی عدالت کو ہدایت کی تھی کہ وہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی سربراہ پروین رحمٰن کے قتل کے مقدمے کو قانون کے مطابق ختم کرے۔

حدیقہ کیانی کی اداکاری کی جھلک دیکھ کر مداح حیران

پاکستان میں کورونا وائرس سے مزید ایک ہزار 895 افراد متاثر، 39 کا انتقال

بی اے، ایم اے پرائیوٹ کے طلبہ کا مستقبل خطرے میں