لائف اسٹائل

'کھادی' 22 سال میں کیسے پاکستان کا بڑا فیشن برانڈ بنا؟

معروف کلاتھنگ فیشن برانڈ کے پاکستان بھر میں 5 درجن سے زائد جب کہ دنیا کے مختلف ممالک میں بھی اسٹورز موجود ہیں۔

اگرچہ پاکستان میں بھی کپڑوں اور فیشن کے کئی برانڈز ہیں تاہم چند برانڈز ایسے ہیں جنہوں نے انتہائی کم وقت میں کافی کامیابی حاصل کی اور ایسے ہی برانڈز میں 'کھادی' بھی شامل ہے۔

'کھادی' نہ صرف خواتین بلکہ بچوں اور مرد حضرات کے کپڑے اور فیشن کی دیگر ملبوسات کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے، لیکن یہ ایک پہیلی ہے کہ کس طرح مذکورہ برانڈ نے کم وقت میں کامیابی حاصل کی؟

'کھادی' کو 1998 میں شروع کیا گیا تھا اور اس برانڈ نے محض 22 سال میں خود کو ملک کے بڑے فیشن برانڈز میں شامل کروالیا۔

حال ہی میں 'کھادی' کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) اور بانی شمعون سلطان نے ڈان آئیکون کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ کس طرح انہوں نے 22 سال کی مختصر محنت سے کامیابی حاصل کی۔

شمعون سلطان نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے گزشتہ 22 سال میں مشکل حالات کا سامنا کرکے اور کئی غلطیاں کرکے کامیابی حاصل کی۔

انہوں نے حالیہ کورونا کی وبا اور لاک ڈاؤن کو اپنے کاروبار کے لیے واحد مشکل قرار نہیں دیا بلکہ بتایا کہ اس سے قبل بھی ان کا برانڈ 2007 میں بینظیر بھٹو کے قتل کے وقت اور 2008 میں عالمی کساد بازاری کے وقت مشکل حالات کا سامنا کر چکا ہے۔

شمعون عباسی نے بتایا کہ کورونا کی وجہ سے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن نے نہ صرف ان کے برانڈ بلکہ ملک سمیت دنیا کے دیگر برانڈز کو بھی متاثر کیا اور اس نے پوری دنیا کی فیشن انڈسٹری کو بھی تبدیل کرکے رکھ دیا۔

انہوں نے برانڈ کی کامیابی میں ٹیم کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے غلطیوں اور ٹیم ورک سے ہی کامیابی حاصل کی اور ان کا یقین ہے کہ اگر وہ غلطیاں نہ کرتے تو شاید ان کا برانڈ اتنا کامیاب نہ ہوتا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان کا منصوبہ ہے کہ 'کھادی' کے اسٹورز ملک کے ہر شہر میں موجود ہوں جب کہ دنیا میں بھی اس کا نام روشن ہو۔

گزشتہ ماہ دسمبر کے وسط میں 'کھادی' نے ترک اداکار ایسرا بیلگچ کے ساتھ ایک نئی کلیکشن متعارف کرائی تھی، جسے ترک اداکارہ کا نام دیا گیا۔

اس حوالے سے شمعون سلطان نے بتایا کہ انہوں نے ترک ڈرامے ارطغرل غازی کی ملک میں شہرت اور وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے مذکورہ ڈرامے کی تعریف کیے جانے کے بعد اداکارہ کے ساتھ کام کرنے کا ارادہ کیا۔

انہوں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ انہوں نے ترک اداکارہ کے ساتھ کام کرنے میں تاخیر کی۔

'کھادی' کے مالک کا کہنا تھا کہ اگرچہ ایسر بیلگچ نے ان کے برانڈ کے ساتھ کام کرنے سے قبل ہی مختلف پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا مگر وہ پہلے فیشن برانڈ ہیں، جنہوں نے ترک اداکارہ کے ساتھ کام کیا۔

انہوں نے ترک اداکارہ کے ساتھ اپنے کام کو مختلف قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نہ صرف ارطغرل غازی کی اداکارہ کے ساتھ کام کیا بلکہ انہوں نے ان کے فیشن، نام اور اسٹائل سے متاثر ہوکر ان کے نام کا کلیکشن بھی متعارف کرایا، جس میں ترک ثقافت کی جھلک شامل ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'کھادی' کی جانب سے دسمبر 2020 میں متعارف کرائی گئی 'کھادی ایسرا ایکس' کلیکشن کو بہت پسند کیا جا رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وہ ترک اداکارہ کے فوٹو شوٹ یا ویڈیو شوٹنگ کے لیے خود اس لیے ترکی نہیں گئے، کیوں کہ انہیں اپنی ٹیم پر اعتبار ہے، جو ان کی غیر موجودگی میں بھی ان جیسا یا ان کی توقعات سے بڑھ کر کام کرتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وہ ملک کے ہر شہر میں کم از کم اپنے برانڈ کا ایک اسٹور کھولنا چاہتے ہیں جب کہ وہ آن لائن فروخت کو مزید بہتر کرنے پر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے مستقبل کی منصوبہ بندی کا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ 'کھادی' سے آن لائن خریداری کرنے والے افراد کو محض 2 گھنٹے میں سامان کی ڈیلیوری کو یقینی بنایا جائے اور وہ اس ضمن میں کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ کورونا کی وبا کے باعث انہیں سخت مالی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر حالات بہتر ہونے کے بعد ان کے حالات بھی معمول پر آنا شروع ہوئے اور انہیں خوشی ہے کہ لوگ ان کے برانڈ پر یقین رکھتے ہیں۔

خیال رہے کہ 'کھادی' کا آغاز 1998 میں کیا گیا اور اس وقت اس برانڈ کے اسٹورز پاکستان کے علاوہ یورپ، امریکا، برطانیہ، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کینیڈا، سعودیہ اور قطر سمیت بحرین بھی موجود ہیں۔

'کھادی' کے دیگر ممالک میں 16 بڑے اسٹورز موجود ہیں جب کہ پاکستان بھر میں اس کے اسٹورز کی تعداد 62 ہے اور کمپنی ملک کے ہر شہر میں اسٹور کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

'کھادی' کے بڑے اسٹورز صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی اور اسلام آباد و لاہور میں موجود ہیں جب کہ اس کا ہیڈ کوارٹر بھی کراچی میں ہے۔

صنم جنگ کی طلاق کی افواہوں پر وضاحت

پاکستان، سعودیہ کے ساتھ مشترکہ فلم و ڈرامے بنانے کا خواہاں

بی اے، ایم اے پرائیوٹ کے طلبہ کا مستقبل خطرے میں