نقطہ نظر

افسانہ : پندرہویں سواری

دم گھٹتے آدمی کی جانب اس نے توجہ نہ کی تو اس نے گھبرا کر ایک اور مسافر کی جانب دیکھا جس نے 4 سیٹیں اپنے قبضے میں لے رکھی تھیں۔

ان لاکھوں بھاگتی دوڑتی گاڑیوں میں ایک 14 مسافروں کے لیے بنی گاڑی میں وہ 15ویں سواری تھا جو اکڑوں ہوکر بیٹھا تھا۔

‘تو کیا میں یہاں اتر جاؤں؟’، اس نے سوچا۔

‘لیکن اگر میں اتر گیا تو پھر مجھے گھنٹوں انتظار کرنا پڑے گا’، اسے محسوس ہوا کہ اس کی سانس رُک رہی ہے۔

‘اوہ یہ کیا مصیبت ہے’، اس نے خودکلامی کی۔

‘روکو گاڑی۔’

‘میں کہتا ہوں گاڑی روکو’، وہ پوری قوت سے چلایا، لیکن اس کی آواز کسی نے نہیں سنی۔

مزید پڑھیے: افسانہ: نیند، خوف اور سابقہ بازی گر

‘پٹرول کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں’، ایک بڑھے ہوئے پیٹ والا مسافر اخبار پڑھتے ہوئے بڑبڑایا۔

15ویں سواری نے حیرت سے اس موٹے شخص کو دیکھا۔

‘میرا دم گُھٹ رہا ہے اور آپ کو پٹرول کی قیمتوں کی فکر کھائے جاتی ہے؟’

‘آج گرمی بھی بہت ہے’، موٹے آدمی نے کہا اور اخبار سے پنکھا جھلنے لگا۔ اس نے ٹانگیں مزید پھیلا لیں، حتٰی کہ موٹے شخص کا جوتا دم گھٹتے آدمی کے کندھے پر آکر رک گیا۔

‘یہ، یہ کیا کررہے ہیں آپ؟ میرے لیے پہلے ہی یہاں بیٹھنا بہت مشکل ہوچکا ہے اور آپ نے اپنے پاؤں میرے کندھے پر رکھ دیے ہیں۔ براہِ مہربانی اپنے پاؤں اٹھائیے۔ میں کہتا ہوں اپنے پاؤں اٹھائیے’۔

لیکن موٹے آدمی نے اس کے احتجاج کو ذرا بھی اہمیت نہ دی۔

‘آپ اپنے پاؤں ہٹالیں ورنہ میں آپ کے خلاف پولیس کو شکایت کروں گا’، اس کے لہجے میں اب دھمکی تھی۔

موٹے شخص نے غصے سے اس کی جانب دیکھا، اس کی نظریں صاف کہہ رہی تھیں کہ پولیس بھی اس کے جوتوں کو یہاں سے نہیں ہٹا سکتی۔

15واں مسافر جو ایک ڈرا ہوا شخص تھا ان نگاہوں سے گھبرا گیا۔

‘دیکھیں آپ غصہ نہ کریں، اس میں لڑنے کی کوئی بات نہیں۔ دراصل میرا دم گُھٹ رہا تھا، اس لیے میری آواز کچھ اونچی ہوگئی۔ اچھا آپ ایک پاؤں میرے کندھے پر رکھ سکتے ہیں لیکن دوسرا اتار لیں۔ میرے کندھے اتنے کمزور ہیں کہ میں دونوں پیروں کا وزن اٹھانے سے قاصر ہوں’۔

‘پٹرول کی قیمتیں نیچے نہیں آسکتیں’، موٹے آدمی نے کہا اور سر سیٹ کی پشت پر ٹکا کر آنکھیں موندلیں۔

دم گھٹتے آدمی کی جانب اس نے توجہ نہ کی تو اس نے گھبرا کر ایک اور مسافر کی جانب دیکھا جس نے 4 سیٹیں اپنے قبضے میں لے رکھی تھیں۔

وہ اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ ساری سیٹوں پر اس نے اپنا کوٹ پھیلا رکھا تھا۔

مزید پڑھیے: افسانہ: اختتام

15ویں سواری نے نگاہوں میں دنیا بھر کی ہمدردی سمیٹ کر کہا ’سنیے کیا آپ یہ کوٹ اٹھا سکتے ہیں تاکہ میں یہاں بیٹھ سکوں۔ اس کونے میں اکڑوں بیٹھنا اب ناممکن ہے اور گرمی سے میرا دم گھٹ رہا ہے’۔

یہ کہہ کر وہ رونے لگا۔

کوٹ والے صاحب نے ایک نظر اس کی جانب دیکھا اور پھر کھڑکی سے باہر کے خوبصورت مناظر میں گُم ہوگیا۔

‘ارے واہ! تو یہ ہے شہر کی سب سے شاندار اونچی عمارت جس کی چھت اتنی بلند ہے کہ آدمی بادلوں کو چُھو سکتا ہے’، کوٹ والے صاحب نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔

‘اگر آپ یہ کوٹ اٹھا لیں تو بہت مہربانی ہوگی’، 15ویں سواری نے پھر التجا کی۔

‘ہر طرف قانون کی بالادستی ہے اسی لیے بڑی عمارتوں پر لوگ خوشی کے گیت گارہے ہیں’، کوٹ والے صاحب نے کہا۔

15ویں سواری بھی مجبوراً کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی مگر اس کی نظر بڑی عمارتوں کے بجائے ان کے سامنے احتجاج کرتے لوگوں پر ٹھہر گئی۔

‘عمارتوں کے نیچے کچھ لوگوں نے احتجاجی بینر اٹھا رکھے ہیں، کچھ نعرے بھی لگارہے ہیں، وہ غالباً رو رہے ہیں، کیا آپ نے دیکھا؟’

اس نے کوٹ والے صاحب کی توجہ ایک جلوس کی جانب مبذول کرائی لیکن کوٹ والے صاحب اب سڑک کی دوسری جانب دیکھنے لگ گئے تھے۔

‘آہا! امن و سکون سڑک کے دوسری جانب بھی ویسے کا ویسا ہے’۔

15ویں سواری کا دم اب اور گھٹنے لگا تھا۔

‘سنیے! آپ لوگ میری بات سنتے کیوں نہیں، یہ میری سانس دیکھیں، میرا دم گھٹ رہا ہے، آپ اپنے پاؤں تو اٹھا لیں یا پھر آپ یہ کوٹ ایک طرف کیجیے میں تھوڑی دیر کے لیے ایک لمبا سانس لینا چاہتا ہوں۔ خدا کے لیے مجھے ایک طویل گہرا سانس لینے دیں، مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے میں نے زندگی بھر کبھی بھی گہرا سانس نہیں لیا’، 15ویں سواری کی بات پر کسی نے توجہ نہیں دی۔

ایک اشارے پر گاڑی رکی، اس نے باہر ایک پولیس والے کو دیکھا تو فوراً چلایا کہ ’جناب یہاں قانون کی خلاف ورزی ہورہی ہے، یہاں کوٹ کے لیے تو جگہ ہے لیکن میرے لیے نہیں اور میرا دم گھٹ رہا ہے، میں ان جوتوں کے نیچے دب کر مرجاؤں گا’۔

پولیس والا آیا اس نے کھڑکی سے کوٹ والے صاحب اور موٹے آدمی کو سلام کیا، ان کی خیریت پوچھی، ڈرائیور کو اشارہ کیا کہ سب کچھ درست ہے وہ گاڑی آگے لے کر جاسکتا ہے۔

‘ڈرائیور گاڑی روکو، میں نے نہیں جانا اس گاڑی میں۔ کیا تم سن رہے ہو؟’ دم گھٹتا مسافر ایک بار پھر چلایا۔

آخر تم اس گاڑی کو روکتے کیوں نہیں؟’، 15ویں سواری نے یہ کہہ کر گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔

ڈرائیور نے ایک کے بعد دوسری سگریٹ جلائی اور گاڑی کی رفتار بے حد آہستہ کردی جس سے 15ویں سواری کی اذیت مزید بڑھ گئی۔

‘یہ کیا مصیبت ہے، نہ مجھے نیچے اتارتے ہو اور نہ گاڑی تیز چلاتے ہو، اس طرح تو میرا دم لازمی گھٹ جائے گا’۔

‘لوگو کیا تم دیکھ رہے ہو یہ گاڑی کس قدر سست روی سے اپنی منزل کی جانب رواں ہے۔ اس طرح تو ہم کبھی بھی اپنی منزل پر نہ پہنچ سکیں گے، آخر تم لوگ ڈرائیور کو کچھ کہتے کیوں نہیں؟’، اس نے آخری سیٹ پر بیٹھے 4 مسافروں کو کہا جو اس طرح بیٹھے ہوئے تھے کہ پہلے 3 مسافروں نے چوتھے کی جگہ گھیر رکھی تھی، جو شاید بیمار تھا۔ کبھی اس کی سانس اکھڑ رہی تھی اور کبھی کبھار وہ زور زور سے کھانسنے لگتا، حالت سنبھلتی تو وہ باقی 3 مسافروں کی جانب دیکھتا تھا جو آپس میں کسی بات پر جھگڑ رہے تھے اور اس سے بے پرواہ تھے، سو وہ گھبرا کر ہاتھ کھڑکی سے باہر نکال کر دوسری گاڑیوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا۔

مزید پڑھیے: افسانہ: طوفان کی دستک

‘ہاتھ باہر مت نکالو ورنہ گاڑی سے باہر گرجاؤ گے’، 15ویں سواری نے اسے کہا.

موٹے آدمی نے اپنے پاؤں کا سارا دباؤ 15ویں سواری کے کندھوں پر ڈال دیا، کوٹ والے صاحب لگاتار نظاروں میں گم تھے، اور ان کا کوٹ وہیں کا وہیں موجود تھا۔ آخری 3 مسافر آپس میں جھگڑ رہے تھے اور چوتھا مسافر اب آدھا گاڑی سے باہر تھا۔

دم گھٹتا مسافر چلانا چاہتا تھا لیکن اس کی آواز گم ہوگئی تھی، اب درد اس کے سارے جسم میں پھیل چکا تھا، مکمل اندھیرا چھانے سے پہلے اس نے جو آخری منظر دیکھا تھا، اس میں کوئی بھی اس کی جانب متوجہ نہ تھا۔

محمد جمیل اختر

پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔