ہوا، شمسی توانائی کے منصوبوں کی منظوری کیلئے وزیر اعظم کی مدد طلب
اسلام آباد: جہاں ملک میں بجلی کے نرخ صارفین کی پہنچ سے باہر ہوتے جارہے ہیں وہیں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ایک گروپ نے وزیر اعظم عمران خان سے مداخلت کی درخواست کی ہے کہ وہ 425 یونٹ کے متبادل اور قابل تجدید توانائی (اے آر ای) منصوبوں کی راہ ہموار کریں، جو 4 فیصد (6.3 روپے) فی یونٹ ہوگا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان فارن انویسٹرز فورم (پی ایف آئی ایف)، ہوا اور شمسی توانائی کے اسپانسرز کے ایک گروپ نے وزیر اعظم سے شکایت کی کہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے ان کے پیداواری نرخوں کو کلیئر کردیا ہے، جو اب تک ملک میں سب سے کم ہے تاہم کابینہ کمیٹی برائے توانائی (سی سی او ای) کے اپریل 2019 کے فیصلے کی وجہ سے تقریبا 5 سے 10 ماہ تک وزارت توانائی نے سرکاری نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا تھا۔
مزید پڑھیں: قابلِ تجدید توانائی کا پالیسی مسودہ نامکمل قرار
پی ایف آئی ایف نے وزیر اعظم کو بھجے گئے مراسلے میں کہا کہ 'نیپرا نے حال ہی میں پاکستان کی تاریخ میں سب سے کم اوسطا 3.22 / کلو واٹ فی گھنٹہ یو ایس سینٹس کے 275 میگاواٹ کے منصوبے (جو چین، امریکا وغیرہ کے ہوا کے ٹیرف سے بھی کم ہیں) کو جھمپیر، سندھ اور ڈیرہ اسمٰعیل خان میں 3.9 سینٹس فی کلوواٹ فی گھنٹہ کے 150 میگاواٹ کے تین شمسی توانائی کے منصوبے دیے تھے۔
اس میں کہا گیا تھا کہ منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے نیپرا کے ذریعہ طے شدہ ٹیرف کو وزارت توانائی کے ذریعے نوٹیفائی کرنا ہوگا تاہم نوٹیفکیشن سی سی او ای کے فیصلے کی وجہ سے زیر التوا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ مستقبل کے توانائی کے منصوبوں کے لیے مسابقتی بولی کی ضرورت ہوگی۔
اس کے لیے سی سی او ای نے تین کٹیگریز کا تعین کیا تھا جس میں پہلی اور دوسری کیٹیگری میں منصوبوں کو اجازت اور تیسری کیٹیگری میں 104 منصوبوں (بشمول 425 میگاواٹ کے آٹھ آر ای منصوبوں) کو اجازت دینا ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کاروں کے فورم نے کہا کہ سندھ میں ونڈ انرجی (275 میگاواٹ) کے 5 منصوبے اور خیبر پختونخوا میں شمسی توانائی (150 میگاواٹ) کے تین منصوبے پہلے ہی اگلے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں کیونکہ ان کی درخواستیں نیپرا کے پاس زیر التوا ہیں۔
اسی طرح 104 میں سے یہ آٹھ منصوبے 'نادانستہ طور پر تیسری کیٹیگری میں ڈالے گئے ہیں'۔
اس وجہ سے انہیں نیپرا کے ذریعے ٹیرف دیا گیا تھا جس کو نوٹیفائی کیا جانا چاہیے، منصوبوں میں 100 میگاواٹ نورینکو انٹرنیشنل پاور، 50 میگاواٹ ایران پاک پاور، 50 میگاواٹ سائینوویل، 50 میگاواٹ شفیع پاور اور 25 میگاواٹ مورو پاور کے علاوہ جاوید شمسی، ایف اے ایس سولر اور کولاچی شمسی سمیت 50، 50 میگاواٹ کے شمسی منصوبے شامل ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کی براہ راست مداخلت پر سی سی او ای کے فیصلے کے بعد حکومت نے 'سپر سکس' (310 میگاواٹ کے 6 قابل تجدید توانائی کے منصوبوں) کے ساتھ معاہدے کیے جو ورلڈ بینک کے تجارتی ونگ بین الاقوامی فنانس کارپوریشن کے تعاون سے فی یونٹ تقریبا 4.8 سینٹ (7.7 روپے) فی یونٹ کے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا ملک میں متبادل توانائی کے انحصار کو 20 فیصد تک کرنے کا فیصلہ
پی ایف آئی ایف نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ 'سب سے کم ہوا سے بجلی بنانے کے ٹیرف کے نوٹیفکیشن کے اجرا کے لیے مذکورہ سی سی او ای فیصلے میں ترمیم کرنے میں سہولت دی جائے، اس کے نتیجے میں کوئی سبسڈی، گرانٹ یا رعایت کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ اس کے برعکس یہ نہ صرف ملک کی توانائی کی لاگت، اس کے درآمدی بل اور گردشی قرض کو کم کرنے کی راہ ہموار کرے گا بلکہ اس میں تقریبا 50 کروڑ ڈالر کی غیرملکی سرمایہ کاری بھی ہوگی، تعمیرات کے نتیجے میں 700 اور آپریشنز کے دوران 300 افراد کو روزگار فراہم ہوگا'۔
ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ اس معاملے پر مختلف سطح، متبادل توانائی ترقیاتی بورڈ (اے ای ڈی بی)، پاور ڈویژن، پلاننگ ڈویژن اور وزیر اعظم آفس میں تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی زیرصدارت توانائی سے متعلق حالیہ اجلاس میں انرجی ڈویژن نے رپورٹ کیا کہ ایل این جی سمیت تمام درآمدی ایندھن کے ٹیرف 12 روپے فی یونٹ سے بھی نمایاں طور پر زیادہ ہے۔