ڈرگز کنٹرولر جنرل ڈاکٹر وینو گوپال جی سومانی نے بتایا کہ دونوں ویکسینز کو 2 خوراکوں میں استعمال کرایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ویکسینز کی منظوری کا فیصلہ ان کی محتاط جانچ پڑتال کے بعد کیا گیا۔
آسترازینیکا نے پہلے ہی دنیا کے سب سے بڑے ویکسین تیار کرنے والے ادارے سیرم انسٹیٹوٹ آف انڈیا ے معاہدہ کیا ہوا ہے جو آکسفورڈ ویکسین کے ایک ارب ڈوز ترقی پذیر ممالک بشمول بھارت کے لیے تیار کرے گا۔
برطانیہ نے رواں ہفتے دنیا میں سب سے پہلے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ہنگامی استعمال کی منظوری دی تھی۔
سیرم انسٹیٹوٹ کے سربراہ ادار پونے والا نے بتایا کہ تاہم بھارت کی جانب سے آکسفورڈ یونیورسٹی اور آسترا زینیکا کی اپنے ملک میں تیار ہونے والی ویکسین کو کئی ماہ تک بیرون ملک بھیجنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ویکسین کی برآمد پر پابندی کا مطلب یہ ہے کہ غریب ممالک تک اس ویکسین کی رسائی میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
ادار پونے والا کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کے اس اقدام کا مقصد اپنے عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
تاہم بھارت بائیو ٹیک کی تیار کردہ ویکسین کے حوالے سے طبی ماہرین کی جانب سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
اس ویکسین کے ٹرائل حال ہی میں شروع ہوئے تھے، جس کے باعث کمپنی کے لیے بہت کم وقت میں ڈیٹا کے تجزیے اور جمع کرانا لگ بھگ ناممکن تھا، جس سے معلوم ہو کہ یہ ویکسین کتنی موثر اور محفوظ ہے۔
بھارت امریکا کے بعد کورونا سے متاثر ہونے والا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں اب تک ایک کروڑ ے زیادہ کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے، تاہم ستمبر کے بعد سے کیسز کی شرح میں کمی آرہی ہے۔
بھارت جنوبی ایشیا کا وہ پہلا ملک بن گیا ہے، جس نے کورونا سے تحفظ کی ویکسین کو استعمال کی منظوری دی ہے جب کہ پاکستان بھی جلد ویکسین کے استعمال کی منظوری کا ارادہ رکھتا ہے۔
جنوبی ایشیا میں بھارت کے علاوہ تاحال بنگلہ دیش، سری لنکا، ایران یا افغانستان سمیت نیپال اور بھوٹان نے بھی کورونا ویکسین کے استعمال کی منظوری نہیں دی۔
بھارتی حکومت نے امید ظاہر کی کہ آئندہ ہفتے سے باضابطہ طور پر ویکسینیشن شروع کردی جائے گی۔
اگرچہ سیرم انسٹیٹوٹ کا بھارتی حکومت سے کوئی تحریری معاہدہ تو نہیں مگر اس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ بھارت کو ویکسین کی فراہمی میں ترجیح دی جائے گی اور 5 کروڑ خوراکوں کا بیشتر حصہ مقامی طور پر استعمال ہوگا۔
آکسفورڈ کی ویکسین کو کووڈ 19 سے تحفظ کے لیے 70 فیصد موثر قرار دیا گیا ہے جبکہ دوسری کووایکسین کی تیاری کے لیے کورونا وائرس کے ناکارہ ورژن کو استعمال کیا گیا۔