پاکستان

اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے نوجوان جاں بحق، دہشتگردی کا مقدمہ درج

مشکوک گاڑی کے نہ رکنے پر فائرنگ کی گئی، ترجمان پولیس، ان اہلکاروں نے ایک دن قبل بیٹے کو دھمکی دی تھی، والد کا مؤقف
| |

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے ایک 22 سالہ نوجوان جاں بحق ہوگیا جبکہ پولیس نے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے 5 اہلکاروں کو حراست میں لے لیا۔

ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق پولیس کو رات کو کال موصول ہوئی کہ گاڑی میں سوار ڈاکو شمس کالونی کے علاقہ میں ڈکیتی کی کوشش کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) پولیس کے اہلکار جو علاقہ میں گشت پر تھے انہوں نے مشکوک گاڑی کا تعاقب کیا اور کالے شیشوں والی اس مشکوک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے گاڑی نہیں روکی۔

ترجمان کے مطابق پولیس نے متعدد مرتبہ جی-10 تک گاڑی کا تعاقب کیا، تاہم اس کے نہ رکنے پر گاڑی کے ٹائروں پر فائر کیے جس میں سے بدقسمتی سے 2 فائر گاڑی کے ڈرائیور کو لگ گئے جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی جی اسلام آباد نے واقعے کا نوٹس لے لیا جبکہ ڈی آئی جی آپریشنز کی زیرنگرانی ایس ایس پی سی ٹی ڈی کی سربراہی میں ایس پی صدر اور ایس پی انویسٹی گیشن پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دے دیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں دو علیحدہ واقعات میں جرمن شہری اور فوجی قتل

ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ واقعہ میں ملوث تمام پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا۔

ایک دن قبل پولیس اہلکاروں نے بیٹے کو دھمکی دی تھی، ایف آئی آر

دوسری جانب وفاقی دارالحکومت میں نوجوان کے قتل کا مقدمہ والد کی مدعیت میں تھانہ رمنا میں درج کرلیا گیا۔

مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (قتل) کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دفعہ 7 بھی لگائی گئی ہے۔

مذکورہ مقدمے میں مدثر اقبال، شکیل احمد، محمد مصطفیٰ، سعید احمد اور افتخار احمد نامی اہلکاروں کو نامزد کیا گیا ہے۔

نوجوان کے والد ندیم یونس ستی نے مقدمے میں مؤقف اپنایا کہ میرا جواں سالہ بیٹا اسامہ ندیم ستی میرے ساتھ جی-10 مرکز میں کاروبار کرتا تھا اور وہ 2 جنوری کی رات تقریباً 2 بجے اپنے دوست کو ایچ-11 نزد نسٹ یونیورسٹی چھوڑنے گیا تھا تو مدثر مختار، شکیل احمد، سعید احمد، محمد مصطفیٰ اور افتخار احمد نامی پولیس اہلکاروں جن سے ایک دن قبل میرے بیٹے کی تلخ کلامی اور جھگڑا ہوا تھا، جس کا ذکر میرے بیٹے نے مجھ سے کیا تھا۔

والد نے ایف آئی آر میں مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد پولیس کے ان ملازمین نے میرے بیٹے کو دھمکی دی تھی کہ تمہیں مزہ چکھائیں گے، جس کے بعد رات 2 بجے ان پولیس اہلکاروں نے میرے بیٹے کی گاڑی کا پیچھا کیا اور ٹکر ماری جس کے بعد انہوں نے روک کر مین شہراہ پر گاڑی پر 17 گولیاں چاروں اطراف سے چلائیں جس سے میرے بیٹے کی جان چلی گئی۔

انہوں نے ایف آئی آر میں دعویٰ کیا کہ میرے بیٹے کی جان معمولی تلخ کلامی کی وجہ سے لی گئی اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ میرے بیٹے کو ان پولیس کی وردی میں موجود ’درندوں‘ نے ناحق قتل کیا۔

انہوں نے درخواست میں ان پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت سے سخت قانونی کارروائی کرنے اور دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا جائے۔

قبل ازیں مذکورہ نوجوان کے والد نے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ رمنا تھانے کے ایس ایچ او اور ڈی ایس پی، ایس پی نے ہمارے سامنے یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ لڑکا بےقصور تھا اور ہمارے اہلکاروں کی یہ غلطی ہے، تاہم میڈیا کے سامنے انہوں نے مؤقف دینے سے گریز کیا۔

انہوں نے وزیراعظم، وزیر داخلہ، ڈپٹی کمشنر سے مطالبہ کیا کہ مجھے انصاف دلایا جائے اور ان اہلکاروں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا جائے۔

تحقیق میں معلوم ہوا لڑکا بےگناہ تھا، ڈی ایس پی شمس کالونی

واقعے سے متعلق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) شمس کالونی خالد اعوان نے لڑکے کے والد ندیم ستی و دیگر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ رات ڈیڑھ سے پونے 2 کے قریب یہ کال چلی کہ شمس کالونی میں کسی گھر میں واردات ہوئی ہے اور ڈاکو گھر میں داخل ہوئے ہیں، جس کے تھوڑی دیر بعد یہ کال چلی کہ سفید رنگ کی ایک مشکوک گاڑی نکلی ہے، جس پر پولیس نے ردعمل دیا۔

انہوں نے بتایا کہ تاہم اس دوران نوجوان اسامہ نعیم ستی کی گاڑی بھی اتفاقیہ طور پر اسی جگہ س نکل رہی تھی اور کسی نے کہا کہ یہ مشکوک گاڑی ہے، جس پر ہماری انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے اس کا تعاقب کیا اور بچے کو روکنے کی کوشش کی، جس پر وہ نہیں رکا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں ساڑھے چار کروڑ کی ڈکیتی، مقدمہ درج

واقعے کی مزید تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لڑکے کے نہ رکنے پر اہلکاروں نے سرینگر ہائی وے کے بالمقابل جی-10/4 پر گاڑی پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں وہ لڑکا وہی جاں بحق ہوگیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس واقعے پر آئی جی اور ڈی آئی جی نے نوٹس لیا اور ہمارے سینئر افسران وہاں پہنچ گئے، جس کے بعد کی گئی تحقیق میں یہ معلوم ہوا کہ یہ بچہ بےگناہ ہے اور اس کا اس واقعہ میں کوئی لینا دینا نہیں۔

ڈکیتی کے واقعے کی اطلاع سے متعلق انہوں نے بتایا کہ یہ شمس کالونی کا واقعہ تھا جبکہ لڑکا بھی ایچ 13 میں اپنے کسی رشتے دار کو اتار کر آرہا تھا، تاہم گاڑی کا رنگ ایک جیسا تھا۔

ڈی ایس پی شمس کالونی کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی تحقیقات کے بعد مدعی سے بھی لڑکے کی شناخت کروائی جس پر انہوں نے بھی پہچاننے سے انکار کردیا، جس کے بعد ہم نے ان اہلکاروں کو اپنی حراست میں لے لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم مدعی ہمیں درخواست دیں گے تو ہم قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔

جوڈیشل انکوائری کا حکم

ادھر چیف کمشنر اسلام آباد عامر علی احمد نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اس کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسامہ ستی پولیس فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت کے واقعے کی انکوائری کریں گے۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گِل نے ٹوئٹ میں کہا کہ 'اسلام آباد میں ہونے والا واقعے پر شفاف انکوائری ہو گی، حقائق عوام کے سامنے رکھیں گے اور قانون کے مطابق جو بھی ذمہ دار ہوا اس کے کارروائی ہوگی'۔

انہوں نے کہا کہ 'ایسے واقعات پورے معاشرے کے لیے تکلیف دہ ہیں، سب سے زیادہ تکلیف میں سے لواحقین گزرتے ہیں، اللہ انہیں صبر جمیل عطا فرمائے'۔

جو بھی فوج کےخلاف بات کرے گا، 72 گھنٹے میں اس پر پرچہ کٹے گا، وزیر داخلہ

394 قانون سازوں کو اثاثوں کی تفصیلات جمع کروانے کیلئے مزید 15 روز کی مہلت

خواجہ آصف نے اپنے قائد کی طرح ٹی ٹی کا طریقہ کار اپنایا، شہزاد اکبر