دنیا

بھارت کی ریاست آسام میں اسلامی مدارس پر پابندی کا قانون منظور

آسام میں 700 سے زائد مدارس اپریل تک بند کر دیے جائیں گے اور ان کو اسکولوں میں تبدیل کریں گے، ریاستی وزیر

بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ریاست آسام میں سطحی تعلیم فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسلامی مدارس بند کرنے کا قانون منظور کر لیا۔

خبر ایجنسی 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق بی جے پی کی جانب سے مدارس بند کرنے کے اس اقدام کے خلاف ریاست میں تنقید کی جارہی ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت کے متنازع شہریت قانون کے خلاف امریکا کے 30 شہروں میں مظاہرے

حزب اختلاف کے سیاست دانوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندو اکثریتی ملک میں حکومت کا رویہ مسلمان مخالف ہے۔

ریاستی وزیر تعلیم ہمنتا بسوا سرما نے اسمبلی کو بتایا تھا کہ شمال مشرقی ریاست آسام میں 700 سے زائد اسکول جن کو مدارس کہا جاتا ہے، اپریل تک بند کر دیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہمیں مسلم اقلیت سے مساجد کے امام کے بجائے مزید ڈاکٹر، پولیس افسران، بیوروکریٹس اور اساتذہ کی ضرورت ہے'۔

ہنمتا بسوا سرما کا کہنا تھا کہ حکومت ان مدارس کو اسکولوں میں تبدیل کرے گی کیونکہ مدارس میں کسی کو بھی دنیا میں رائج نظام اور ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تیار نہیں کیا جاسکتا۔

اپوزیشن رہنماؤں نے کہا کہ یہ فیصلہ مسلمانوں پر حملہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: مسلم مخالف 'شہریت' قانون کے خلاف احتجاج کئی ریاستوں تک پھیل گیا

حزب مخالف کی جماعت کانگریس کے رکن اسمبلی واجد علی چوہدری کا کہنا تھا کہ 'یہ مسلمانوں کو ختم کرنے کا منصوبہ ہے'۔

رپورٹ کے مطابق ریاست سے تعلق رکھنے والے تقریباً 100 بیوروکریٹس اور سفارت کاروں نے بی جے پی کی حکومت پر زور دیا کہ بھارت کی سب سے بڑی ریاست میں جبری مذہب تبدیلی کے اس امتیازی قانون کو تبدیل کرے جو مسلمانوں کے خلاف ہے۔

بھارت میں یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مسلمان مخالف کوئی قانون بنایا گیا ہو بلکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے کئی متنازع قوانین اور اقدامات متعارف کروائے ہیں۔

یاد رہے کہ 11 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ سے شہریت ترمیمی ایکٹ منظور ہوا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔

اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا تھا کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔

مذکورہ قانون کو 12 دسمبر کو بھارتی صدر کی جانب سے منظوری دے دی گئی تھی۔

خیال رہے کہ بھارت کی لوک سبھا اور راجیا سبھا نے متنازع شہریت ترمیمی بل منظور کر لیا تھا جس کے بعد سے ملک بھر میں خصوصاً ریاست آسام میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ کا دورہ بھارت: شہریت قانون کے خلاف احتجاج، پولیس اہلکار سمیت 4 ہلاک

اس قانون کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا تھا کہ مرکز اس کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

علاوہ ازیں 9 جنوری 2020 کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو متنازع شہریت قانون کے نفاذ پر سخت احتجاج کے باعث بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اپنا آسام کا دورہ منسوخ کرنا پڑگیا تھا۔

اس سے قبل نریندر مودی نے متنازع شہریت قانون کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ممبئی میں ایک اجلاس منعقد کروایا تھا جس میں نامور فلمی شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا، تاہم ایک بھی اداکار یا اداکارہ نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔

ہم اسٹیبلشمنٹ اور فوجی قیادت کو دھاندلی کا مجرم سمجھتے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن

برطانیہ میں 12 سالہ بچی نے ٹک ٹاک کے خلاف عدالت سے رجوع کرلیا

بھارت میں کورونا وائرس کی پہلی ویکسین کے استعمال کی منظوری