پاکستان

2 ہزار ملازمین نے رضاکارانہ علیحدگی کیلئے درخواست دی ہے، پی آئی اے

اسکیم پر رد عمل بہت حوصلہ افزا ملا، انتظامیہ افرادی قوت میں سے 20 فیصد کو کم کرنے میں کامیاب رہی، انتظامیہ
|

رولپنڈی/اسلام آباد: 2020 کے سورج غروب ہوتے ہی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی انتظامیہ نے اپنی رضاکارانہ علیحدگی اسکیم (وی ایس ایس) کو بند کردیا اور اس سہولت سے استفادہ حاصل کرنے والے ملازمین کی مجموعی تعداد کو شمار کیا، انہیں حتمی تصفیہ اور خطوط جاری کرنا شروع کردیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ترجمان پی آئی اے عبداللہ حفیظ خان نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ اس سہولت سے استفادہ کرنے والے ملازمین کی مجموعی تعداد 2 ہزار کے قریب ہوگئی ہے اور اس کے بارے میں ایک ہزار خطوط پہلے ہی جاری کردیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وی ایس ایس کو 7 دسمبر کو شروع کیا گیا تھا اور ابتدائی طور پر اسے دو ہفتوں میں ختم ہونا تھا تاہم اس کی آخری تاریخ پہلے 28 دسمبر تک اور بعد ازاں اسے بڑھا کر 31 دسمبر تک کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے ملازمین کو نوکری سے رضاکارانہ بنیادوں پر علیحدگی کی پیشکش کا منصوبہ

ترجمان نے کہا کہ 'ہمارے کاروباری منصوبے پر عمل درآمد' کے لیے 'پرکشش پیکج پر اعزازی علیحدگی اسکیم کے ذریعے افرادی قوت کو کم کرنا ضروری ہے' اور پی آئی اے انتظامیہ نے حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے اس سلسلے میں تعاون کو سراہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس اسکیم پر رد عمل بہت حوصلہ افزا ملا اسی وجہ سے انتظامیہ 'ہمارے باقاعدہ افرادی قوت میں سے 20 فیصد' کو کم کرنے میں کامیاب رہی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس اسکیم کی وجہ سے پی آئی اے کے پاس تقریبا ڈھائی ارب روپے کی بچت ہوگی اور سرمایہ کاری پر ادائیگی کی مدت صرف دو سال ہوگی۔

ریٹائرمنٹ

پی آئی اے کے ان ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی منظوری دے دی گئی ہے جو حال ہی میں اعلان کردہ لازمی ریٹائرمنٹ اسکیم کے تحت ’منظور شدہ کیٹیگری‘ میں آتے ہیں۔

قومی ایئرلائنز کو 3 ہزار 500 ملازمین کو ریٹائر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے پائلٹس کے 141 معطل کردہ لائسنسز میں سے 110 کلیئر

پی آئی اے کے ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ کے مطابق ابھی تک تقریبا 2 ہزار 537 ملازمین نے اس اسکیم کے لیے درخواست دی ہے۔

ریٹائرمنٹ کے معیار میں وہ تمام ملازمین آتے ہیں جنہوں نے اپنے کیریئر کے دوران کبھی بھی باری / خلاف ضابطہ پروموشن سے فائدہ اٹھایا ہو، کیبن عملہ جو اپنے بی ایم آئی معیار کے مقابلے میں زیادہ وزن رکھتے ہیں یا گزشتہ دو سالوں سے زمینی فرائض سرانجام دے رہے ہیں یا جرائم/ بدعنوانی میں ملوث رہے ہوں، وہ تمام پائلٹ جن کو کارکردگی کی بنیاد پر بے کار اور غیر پیداواری سمجھا جاتا ہے یا جنہوں نے کسی بھی وقت حفاظت پر سمجھوتہ کیا ہو، شامل ہیں۔

پی آئی اے ہیڈ آفس کی منتقلی

پاکستان پیپلز پارٹی نے پی آئی اے کے ہیڈ آفس کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمٰن نے اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کارپوریشن (تبادلوں) ایکٹ 2016 کے سیکشن 7 (2) میں کہا گیا ہے کہ 'فضائی ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرنے والی کسی بھی کمپنی اس کی کسی بھی ذیلی کمپنی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا'۔

انہوں نے کہا کہ قومی ایئر لائن کا ہیڈ آفس منتقل کرنے کا فیصلہ وزیر اعظم یا پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نہیں لے سکتے کیونکہ یہ اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ حکومت نے گزشتہ سال ایک کمیٹی کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اس طرح کا کوئی فیصلہ نہیں لیا جارہا ہے تاہم اب اس نے اچانک پی آئی اے کا صدر دفتر اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ پی آئی اے انتظامیہ نے ایئر لائن کا ہیڈ آفس کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے اپنے فیصلے کے لیے ایک بھی جائز جواز پیش نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ 'پی آئی اے ملازمین کو اس تجویز میں شامل کیوں نہیں کیا گیا، یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے جس کا پوشیدہ مقاصد ہیں'۔