بھارتی کسانوں کا احتجاج آخر کیا رنگ لائے گا؟
بھارت ایشیا کی ہی نہیں بلکہ دنیا کی ایک بڑی معیشت ہے اور آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے۔ خود کو ایشیا کا چوکیدار سمجھنے والے ملک کو اس وقت کئی اندرونی مسائل کا سامنا ہے۔ کبھی اقلیتوں کے ساتھ مسائل بین الاقوامی میڈیا پر موضوع بنتے ہیں تو کبھی کشمیر کی صورتحال اور کبھی کسانوں کا مہینے بھر سے چلنے والا مارچ اور احتجاج۔
کورونا وائرس کی وجہ سے 2020ء پوری دنیا کی معیشتوں کے لیے نقصاندہ رہا ہے۔ بھارت بھی اپنے مقررہ معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال اس کی ترقی کی شرح 5.9 فیصد تک رہی۔
زراعت کا شعبہ پچھلے کئی سالوں سے احتجاج کرتا آرہا ہے۔ اب تک کئی ہزار کسان معاشی تنگیوں سے مجبور ہوکر اپنی جانوں سے جاچکے ہیں۔ ان کے خاندان اس وقت بھی حکومتِ وقت سے مدد کی امید رکھتے تھے۔ مذاکرات ہوتے تھے، کسانوں کو سمجھا لیا جاتا تھا اور وہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے، لیکن پچھلے ماہ سے شروع ہونے والے تازہ ترین ’دہلی چلو‘ احتجاج میں اب تک کئی جانیں جانے کے بعد باوجود کسان کسی طور پر رکتے نظر نہیں آرہے۔
پاکستان کی طرح بھارت میں بھی زراعت کا شعبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ سی این این انڈیا کے مطابق 50 فیصد بھارتیوں کے روزگار زراعت کے شعبے سے جڑے ہوئے ہیں۔ رنجیت سنگھ گھمن اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں کہ پنجاب میں زراعت کے شعبے میں 1960ء کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا اور اچھی زرعی پیداوار نے بھارت کو اجناس کی کمی کا شکار ملک سے خود کفیل ممالک کی فہرست میں شامل کردیا۔ خاص کر پنجاب نے ملک کی ضرورت سے زیادہ اجناس پیدا کیں جو اب ایک بڑی ایکسپورٹ انڈسٹری کی صورت اختیار کرچکا ہے۔
بھارتی کسانوں کا مسئلہ آخر کیا ہے؟
بھارتی GDP میں 23 فیصد حصہ رکھنے والا شعبہ سڑکوں پر نکل آیا ہے اور جاڑے کے سخت دنوں میں ہزاروں کا مجمع پیدل، ٹریکٹروں اور ٹرالیوں پر دہلی کے لیے نکل پڑا۔ ایک طرف ہریانہ کی انتظامیہ اس جم غفیر کو دہلی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی تو دوسری طرف انتظامیہ کا لاٹھی چارج، آنسو گیس اور واٹر کینین بھی جاری رہا، لیکن یہ سب اقدامات بھی انہیں قابو نہیں کرسکے اور انہوں نے بالآخر دہلی کی سرحد پر احتجاجی مقام رام لیلا گراونڈ سے 200 کلومیٹر دُور سنگھو باڈر پر پڑاؤ ڈال لیا۔
ستمبر کے تیسرے ہفتے میں حکومت نے زرعی اصلاحات کے حوالے سے راج سبھا میں 3 بل پیش کیے جن میں سے 2 بل منظور کرلیے گئے۔ حکومت نے راج سبھا سے بل پاس کروانے میں یوں بھی پھرتی دکھائی کہ اسے وہاں اکثریت حاصل ہے۔ اپوزیشن ابھی ان پر مزید بحث کرنا چاہتی تھی لیکن اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود بل پاس کروالیے گئے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے صدر سے ملاقات بھی کی اور ان پر زور دیا کہ وہ ان قوانین پر دستخط نہ کریں، لیکن صدر نے ان کی رائے کا احترام نہیں کیا اور نئی اصلاحات کے مسودہ پر دستخط کردیے۔
ان 3 زرعی اصلاحات میں نیا کیا ہے؟
بنیادی طور پر ان 3 بلوں میں زرعی منڈیوں کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور نجی کمپنیوں کو زرعی منڈیوں کے نظام میں شامل کیا گیا ہے۔ موجودہ منڈی کے نظام میں حکومتی شمولیت کی وجہ سے کسانوں کو کم از کم ان کی فصل کا بہتر معاوضہ مل رہا تھا جبکہ حکومت کی رائے میں نئے قانون کے ذریعے آزاد منڈیوں سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس بل کے مطابق:
- زرعی اجناس کی فروخت کے طریقہ کار، مقررہ قیمت اور زخیرہ کرنے کے نئے اصول بنائے گئے ہیں۔
- اس قانون کے تحت پرائیویٹ پارٹیوں کو منڈی سے باہر ہی باہر فصل خریدنے کی آزادی ہوگی۔
- اس کے علاوہ یہ بھی واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پرائیویٹ پارٹی کسان کو مجبور کرسکتی ہے کہ وہ صرف اس کی مقرر کردہ فصل اگائے۔
بھارتی کسان کیوں پریشان ہیں؟
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ آزاد منڈیوں کی بنیاد اس لیے رکھ رہے ہیں تاکہ کسان اس سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں، لیکن بنیادی طور پر کسان اس لیے پریشان ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب منڈی سے باہر ہی باہر نجی کمپنیاں فصل خرید کر زخیرہ کرلیں گی تو کسانوں کو ان کی محنت کا پھل نہیں مل سکے گا۔
کسان سمجھتے ہیں کہ بڑی کمپنیاں کسانوں کی مقررہ قیمت نہیں دیں گی بلکہ انہیں ان کمپنیوں کی مقررہ قمیتوں پر فصل بیچنے پر مجبور کیا جائے گا۔ کسانوں کو خطرہ ہے کہ بڑے صنعتی گروپ جیسے ایڈوانی اور امبانی ان نئی اصلاحات سے خوب فائدہ اٹھائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ کسانوں کی 20 سے زیادہ تنظیمیں اس وقت احتجاج میں شامل ہیں اور اپوزیشن جماعتیں بھی کسانوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔
کسان سمجھتے ہیں کہ ان کا بنیادی حق ہے کہ وہ منڈی میں اپنی فصل کی خود قیمت لگائیں۔ خریدار سے اس بارے میں بات کریں اور اسے اپنی مقرر کردہ قیمت کی ادائیگی کے لیے راضی کریں۔ نومبر کی 25 تاریخ سے شروع ہونے والا احتجاج آج بھی اپنے مطالبات پر سختی سے جما ہوا ہے۔
دہلی کے مقامی صحافی، کے پانڈے کہتے ہیں کہ ’اب یہ احتجاج ایک بڑی تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ستمبر کے مہینے میں بھارتی اسمبلی میں جلد بازی میں کی جانے والی زرعی اصلاحات کو پنجاب کے کسانوں نے ابتدا میں ہی مسترد کردیا تھا اور انہوں نے مقامی سطح پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کی بھی کوشش کی۔ لیکن جب بات نہیں سنی گئی تو کئی کسان تنظیموں نے دہلی تک مارچ کرنے کا اعلان کردیا۔ ہم نے دیکھا کہ پھر پنجاب ہی نہیں بلکہ ہریانہ کی کسان برادری بھی اس احتحاج کا حصہ بنتی چلی گئی۔ اب کیا عورتیں کیا مرد اور کیا بوڑھے اور بچے، ان کسانوں نے دہلی کی طرف جانے والے 3 راستوں کو بند کردیا ہے‘۔
حکومت اور کسانوں کے درمیان ناکام مذاکرات کی وجوہات
احتجاج کی ابتدا میں ہی حکومت اور کسانوں کے درمیان کئی ناکام مذاکرات ہوئے لیکن حکومت بھی اپنی بات پر اٹکی ہوئی ہے اور کسان بھی اس قانون کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کے احتجاج ختم کیا جائے اور ان کی بات سنی جائے۔ مودی سرکار کے مطابق یہ قوانین کسانوں کے لیے تحفہ ہیں اور اس سے کسانوں کی صورتحال بہتر ہوگی۔
اب تک 6 سے زیادہ مذاکراتی اجلاس بلائے جاچکے ہیں جو بے نتیجہ رہے۔ کسان حکومت پر الزام لگاتے آرہے ہیں کہ حکومت کسانوں کو دباؤ میں لینا چاہتی ہے۔ کسانوں کی جانب سے ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کی کال کے بعد امت شاہ نے کسانوں کے ساتھ ملاقات طے کی۔ لیکن کسان ان کی باتوں سے مطمئن نہیں ہوئے اور کسانوں نے امت شاہ پر اعتماد کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد سے حکومتی وزیر برائے زرعی امور نریندر سنگھ تومر نے کسانوں سے رابطے کے لیے خطوط کا نیا سلسلہ شروع کردیا ہے لیکن چونکہ دونوں طرف اعتماد کی کمی ہے لہٰذا ڈیڈلاک کی صورتحال برقرار ہے۔
طول پکڑتے احتجاج پر جب حکومتی سطح پر کوئی پیش رفت نہیں دکھائی گئی تو بھارتی سپریم کورٹ کو آگے بڑھ کر حکومت پر زور دینا پڑا کہ کسانوں کی بات سنی جائے اور مذاکرات نتیجہ خیز بنائے جائیں۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 16 دسمبر کو بھارتی سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت دونوں کی آسانی کے لیے کمیٹی بنا دیتی ہے۔ چیف جسٹس ایس اے بوبدے, جسٹس بوپنّا اور جسٹس راما سبرمنیا نے کہا کہ وہ کسانوں اور حکومت کے درمیان مذاکراتی پینل تشکیل دے سکتے ہیں تاکہ ڈیڈ لاک کی کیفیت ختم کی جاسکے۔
دہلی کے صحافی، کے پانڈے نے بتایا کہ ’باقاعدہ مذاکرات تو عدالت کی مداخلت کے بعد شروع ہوئے لیکن اس سے پہلے اور اب بھی خطوط کے ذریعے رابطے کیے گئے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت اور کسانوں کے درمیان ہونے والے حالیہ مذاکرات ناکام اس لیے ہو رہے ہیں کہ جب کسان زرعی وزیر نریندر سنگھ تومر سے ملنے جاتے ہیں تو وہ اپنی بات تو کہہ دیتے ہیں لیکن کسانوں کی بات نہیں سنی جاتی‘۔
عوامی رائے بھی کسانوں کے ساتھ نظر آتی ہے کیونکہ عمومی رائے یہی ہے کہ حکومت بالا بالا ہی فیصلہ کرلیتی ہے اور مقامی لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔
عرفان نورالدین ساؤتھ ایشین سینٹر، آٹلانٹک کونسل، واشگٹن کے ڈائریکٹر ہیں۔ عرفان نے دی کرسچن مانیٹر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نوٹوں کی بندش ہو، کشمیر کا مسئلہ ہو یا شہریت کا قانون ان سب میں عوام کو لگا ہے کہ حکومت نے ان لوگوں کو اپنے فیصلے میں شامل ہی نہیں کیا جو ان قوانین سے براہِ راست متاثر ہو رہے تھے۔ اس سے عوام کا حکومت سے اعتماد کم ہوا ہے‘۔
ہریانہ کے یوگیندر یادو کسانوں کی تحریک سے ایک طویل عرصے سے وابستہ رہے ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی، چھتیس گڑھ میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر رہے ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ انہوں نے 2011ء میں سیاسی میدان میں قدم رکھا اور عام آدمی پارٹی سے منسلک ہوئے لیکن جلد ہی اسے بھی خیر آباد کہہ دیا۔ 14 اپریل 2015ء کو انہوں نے 2 سیاسی اور سماجی جماعتوں کی بنیاد رکھی۔ ایک سوراج ابھیان اور دوسری جے کسان آندولن۔
2018ء میں بھی کسانوں نے دہلی کا رخ کیا تھا اور اس وقت بھی کسان قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کے لیے آئے دن خودکشیاں کر رہے تھے۔ یوگیندر یادو کا اس وقت بھی یہی کہنا تھا کہ ’20 سالوں میں 3 لاکھ کسان اپنی جانیں گنواں چکے ہیں۔ اس وقت بھی کسانوں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ زرعی قرضے معاف کیے جائیں اور قومی اسمبلی میں پڑا ہوا زرعی اصلاحات کا بل جس میں کسانوں کو ان کی فصل کا جائز اور بہتر معاوضہ دلوانے کی بات کی گئی تھی منظور کیا جائے‘۔
یوگیندر یادو آج بھی کسان تحریک اور اس احتجاج کی واضح اور بلند آواز بن کر سامنے آئے ہیں اور وہ پہلے دن سے آج تک، کسان احتجاج کے بنیادی مقاصد اور مسائل کو میڈیا تک پہنچانے کی اپنی سی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر متعدد بار کہا ہے کہ ’آج کا کسان اپنے بچے کو کسان نہیں بنانا چاہتا۔ کیوں؟ اس پر سب کو مل کر سوچنا چاہیے‘۔
یوگیندر نے پچھلے ہفتے این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم طے کرچکے ہیں ہم اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ ہم لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے لیے ایک وقت کا کھانا چھوڑیں اور کسان کا درد سمجھیں‘۔
یوگیندر نے مودی سرکار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’27 دسمبر کو جب وزیرِاعظم اپنی ’من کی بات‘ کریں گے تو ہم تھالیاں بجائیں گے۔ کیوں؟ کیونکہ بھیا کسان آپ کی من کی بات سنتے سنتے پک گیا ہے۔ ہم کسان کہتے ہیں کہ ہماری ’من کی بات‘ کون سنے گا‘۔ یوگیندر نے یہ بھی کہا کہ ’15 کروڑ کسانوں کی تکلیف زیادہ بڑی ہے یا ایک سرکار کی ناک؟‘
انہوں نے اپنے مطالبات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت ایک تو اپنے تحفے میں دیے جانے والے قانون واپس لے۔ دوسری بات یہ کہ جو ہم مانگ رہے ہیں وہ دیا جائے۔ یعنی ایک کسان کو اپنی فصل کا جائز قانونی حق ملے۔ حکومت بس اپنے پیش کردہ قانون ’ایسنشل کموڈیٹیز ایکٹ 2020ء‘ کی وضاحت کرتی رہتی ہے، لیکن کسانوں کے چند واضح نکات ہیں کہ حکومتی قانون میں لکھا جائے کہ کسان کو اس کی طے کردہ کم سے کم رقم دی جائے گی جو لازمی بھی ہوگا اور ضروری بھی۔ انہوں نے اپنے مطابات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ سوامی ناتھن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق کسانوں کے مسائل کا حل چاہتے ہیں‘۔
دہلی کے صحافی سندیپ داس زراعت اور زرعی پالیسی پر لکھتے ہیں۔ سندیپ نے تصویر کا ایک دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی کہ ’اب کسانوں کا مسئلہ بنیادی طور پر سیاسی مسئلہ بنتا جا رہا ہے‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’پنجاب کا کسان پہلے ہی طاقتور ہے۔ انہوں نے بیرونِ ملک سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ پنجاب سے دیگر بڑے شہروں کا رخ کرنے والوں کے اعداد و شمار دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ 90ء اور بعد کے ادوار میں ان علاقوں سے مقامی آبادی نے تیزی کے ساتھ نقل مکانی کی ہے اور ان کی جگہ دیگر صوبوں کے غریب لوگوں نے پُر کی ہے۔ سماجی طور پر مستحکم خاندان ہی بڑے شہروں کا رخ کرتا ہے۔ یعنی اسے زرعی مسئلے سے زیادہ سیاسی مسئلہ بنایا جارہا ہے‘۔
سندیپ کے خیال میں ’اصل مسئلہ وہاں زرعی کاروبار سے جڑے چھوٹے دیہاڑی دار مزدوروں کا ہے جو زیادہ تر دوسری ریاستوں سے آتے ہیں۔ یعنی بہار اور اڑیسہ جیسے صوبوں سے غریب لوگ یہاں فصل کی بوائی اور کٹائی کے وقت آتے ہیں۔ کچھ واپس چلے جاتے ہیں اور کچھ اپنے خاندانوں کے ساتھ یہاں بس جاتے ہیں۔ اصل شکار یہ لوگ ہیں۔ انہیں برقت تنخواہ نہیں دی جاتی اور زیادہ تر سرمایہ بڑے کسان لے جاتے ہیں‘۔
سندیپ کی رائے یہ ہے کہ ’کسانوں کو حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے چاہئیں کیونکہ یہ دھرنا زیادہ دیر نہیں چل سکتا، مسئلے پر بات کرنا ضروری ہے‘۔ انہوں نے ایک دوسرا نکتہ یہ اٹھایا کہ ’ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہم اگر اپنا سارا پانی فصلوں پر لگا دیں گے تو عام آدمی کے لیے صاف پانی کی رسائی کم سے کم تر ہوجائے گی کیونکہ زیرِ زمین پانی کا 90 فیصد حصہ زرعی شعبے میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے حکومت چاہتی ہے کہ کسان بہتر اور مقررہ جنس پیدا کرے‘۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی کسانوں کی بات سنی اور سمجھی جاتی ہے یا ڈیڈ لاک برقرار رہتا ہے کیونکہ سنگھو بارڈر پر موجود ہزاروں کسان حکومت سے ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ وہ کسان ہیں، دہشت گرد نہیں، ان سے بات کریں۔ ان کی بات بھارت کے سب کسانوں کی بات ہے، اسے سیاسی رنگ نہ دیں۔
کسانوں کا احتجاجی اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا؟
بھارتی حکومت ابتدائی طور پر تو کسانوں کے احتجاج کو ختم کرنے کی باتیں کرتی رہی، لیکن جب عوامی دباؤ بڑھتا گیا تو مذاکرات کرنے کی اپنی سی کوشش بھی کی گئی لیکن وہ بے نتیجہ ثابت ہوئی۔
صحافی، کے پانڈے کے خیال میں ’حکومت اس احتجاج کو سنجیدہ نہیں لے رہی بلکہ کسی حد تک ان کے تھکنے کا انتظار کر رہی ہے۔ کسان کیونکہ موجودہ حکومت پر اعتماد نہیں رکھتے لہٰذا قانون میں واضح تبدیلی چاہتے ہیں جس میں منڈیوں اور کم سے کم قیمت کی وجہ سے انہیں نقصان نہ اٹھانا پڑے‘۔
کسانوں کی رائے میں یہ کالا قانون ہے جو منڈیوں تک چند بااثر سرمایہ داروں کی رسائی آسان بنا دے گا جس کا سب سے زیادہ نقصان عام کسان کو ہوگا۔
25 دسمبر کو حکومتی سطح پر کھلے الفاظ میں کسانوں کو بتا دیا گیا کہ ان کے مطالبات نہیں مانے جائیں گے۔ یقیناً اس تازہ صورتحال سے حالات کشیدہ ہوجائیں گے کیونکہ کسان بھی اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ حکومت شہری قانون کی طرح کسانوں کی بات سنے گی یا نہیں اور کسان اپنی بات پر ڈٹے رہیں گے یا نہیں۔
شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔