پاکستان

پی آئی اے ہیڈ آفس کی منتقلی، ملازمین کی تعداد میں کمی پر تنازع

ملازمین میں خوف کے دوران انتظامیہ افرادی قوت نصف کرنے اور مرکزی دفتر کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔

پاکستان انٹرنیشل ایئر لائنز (پی آئی اے) کےہزاروں ملازمین میں عدم تحفظ کے احساس اور خوف کے دوران انتظامیہ افرادی قوت کو کم کرکے نصف کرنے اور مرکزی دفتر کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے کام پر عمل جاری رکھے ہوئے ہے، باوجود اس کے کہ اس قسم کے اقدام سے قبل پارلیمان کی منظوری درکار ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی آئی اے انتظامیہ کے پاس ہیڈ آفس کی منتقلی اور ملازمین کی تعداد میں کمی کو جائز قرار دینے کی اپنی وجوہات ہیں، وہیں موجودہ اور سابقہ ملازمین نے ایئر لائن کے معاملات کی سنگین تصویر کشی کی ہے جس میں ملک کے اعلیٰ ترین خفیہ ادارے کو مخالفانہ آوازیں خاموش کروانے کے لیے آلے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

ملازمین، دفاتر، پائلٹس اور انجینئرز کے نمائندوں سے پس پردہ ہونے والی بات چیت میں یہ بات سامنے آئی کہ انتظامیہ نے ایئرلائن کے مرکزی دفتر اور گڑھ کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے فیصلے سے قبل کسی کو آگاہ نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے ملازمین کی اکثریت کو ایئرلائن سے نکالنے کا ہدف

ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ پارلیمان سے منظوری لیے بغیر اپنے طور پر مرکزی دفتر کو منتقل نہیں کرسکتی اس کے لیے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کارپوریشن (کنورژن) ایکٹ میں ترمیم کرنی پڑے گی۔

پی آئی اے ایکٹ کی دفعہ 7 (2) کہتی ہے کہ ' کمپنی اور ایئر ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرنے والیں اس کی کسی بھی ذیلی کمپنیوں کے ہیڈ آفسز کراچی میں ہونے چاہئیں'۔

’کوئی ٹھوس وجہ نہیں‘

پی آئی اے آفیسرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری صفدر انجم نے کہا کہ 'ایئرلائن کے مرکزی دفتر یا گڑھ کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا کوئی ایک ٹھوس جواز تک نہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'کراچی ایک منفرد جگہ ہے جہاں 2-3 کلومیٹر کے علاقے میں پی آئی اے کا پورا تنظیمی نیٹ ورک موجود ہے، اس میں اصفہانی ہینگر، مکمل انجینئرنگ سسٹم ہے، کیا صرف ہیڈ آفس اسلام آباد لے جانے کے لیے ہینگر کو بند کرنا، کئی شعبوں کو ٹھیکوں پر دے دینا، انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کو پاک فضائیہ کو دے دینا عقلمندی ہے؟‘

مزید پڑھیں: پی آئی اے کے مرکزی دفاتر آئندہ ماہ اسلام آباد منتقل کردیے جائیں گے

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہیڈ آفس منتقل کرنے کے فیصلے کی واحد وجہ ایئر مارشل (ر) ارشد ملک اور ان کے مشیروں کا ٹولہ ہے جنہیں وہ پاک فضائیہ سے ڈپیوٹیشن پر لے کر آئے ہیں اور ان کے گھر اور اہلِ خانہ اسلام آباد میں ہیں۔

تاہم پی آئی اے انتظامیہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں سیاسی قرار دیا۔

ترجمان پی آئی اے عبداللہ حفیظ خان نے کہا کہ 'پی آئی اے سفری ڈیموگراکس میں تبدیلیوں کو اپنا کر اپنا آپریشنل اور سپورٹ آفس اسلام آباد منتقل کررہی ہے، پی آئی اے کا زیادہ ٹریفک تجارتی مرکز اور ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کی وجہ سے کراچی سے ہوتا تھا لیکن اب خیبرپختونخوا اور اس کے آس پاس کے علاقوں کا ٹریفک خلیج ممالک میں رہنے والے مزدوروں کی وجہ سے زیادہ ہے اور یورپ، برطانیہ اور مشرق بعید سے آنے والے ٹریفک میں شمال مشرقی جی ٹی روڈ سے منسلک علاقے اور آزاد کشمیر کا حصہ زیادہ ہے‘۔

انتظامیہ کا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'اس لیے قدرتی بات ہے کہ پی آئی اے کو اس حصے کو ہدف بنانے کے لیے شمال میں موجودگی رکھنی ہوگی اور آپریشنز میں اضافے کے ساتھ افرادی قوت کی ضرورت بھی بڑھے گی، اب یہ ممکن نہیں کہ افرادی قوت کا مرکز کراچی ہو جبکہ آپریشن شمال میں چل رہے ہوں‘۔

تاہم اس فیصلے کو سندھ اور بلوچستان کے عوام کو محروم کرنے کے سیاسی حربے کے طور پر دیکھا جارہا ہے جن کے لیے اپنے گھر سے کہیں دور شہر میں قیام مشکل ہوگا۔

تقریباً ہر سیاسی جماعت نے اس فیصلے کو مسترد کردیا ہے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے 2 روز قبل ہی پی آئی اے ورکرز کو اپوزیشن کی حکومت مخالف مہم میں شامل کرنے کا عزم کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے ملازمین کیلئے ملازمت سے رضاکارانہ علیحدگی کی اسکیم

پاکستان مسلم لیگ (ن) سے منسلک ایئرلیگ نے ہیڈ آفس کی اسلام آباد منتقلی کو 'غیر جمہوی اور عوام مخالف' فیصلہ قرار دیا جس سے قومی یکجہتی متاثر ہونا شروع ہوگئی ہے۔

پائلٹس کے تنظیم پالپا کا کہنا تھا کہ ہیڈ آفس کی منتقلی کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے اور مقامی افراد کراچی سے باہر منتقل ہونے کی وجہ سے اپنی نوکریوں سے محروم ہوجائیں گے۔

تاہم ہوا بازی کا 40 سالہ تجربہ رکھنے والے ایک ماہر کا خیال ہے کہ ہیڈ آفس اسلام آباد منتقل کرنا پی آئی اے کو اس کے پیروں پر دوربارہ کھڑا کرنے میں مدد کے لیے سب سے بہترین چیز ثابت ہوگی۔

انہوں نے پی آئی اے کی اس بات سے اتفاق کیا کہ اب سب سے زیادہ پروازیں کراچی میں نہیں اترتیں اور زیادہ تر پروازیں اسلام آباد اور لاہور سے ہوتی ہیں۔

ڈاؤن سائزنگ منصوبہ

29 طیاروں کے ساتھ پی آئی اے کی فی طیارہ ملازمین کی شرح 500 ہے جسے ایئر لائن کم کر کے ڈھائی سو ملازم فی طیارے تک لانا چاہتی ہے۔

پی آئی اے کے اس وقت 14 ہزار 500 ملازمین ہیں اور اس نے ساڑھے 3 ہزار ورکرز کو نکالنے کے لیے رواں ماہ کے آغاز میں رضاکارانہ علیحدگی اسکیم (وی ایس ایس) متعارف کروائی تھی۔

موجودہ اور سابق عہدیداروں نے ہیڈ آفس کی منتقلی کو ایئرلائن کے ملازمین کی زیادہ سے زیادہ تعداد بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں رہنے والوں سے پیچھا چھڑانے کا اقدام قرار دیا۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے پائلٹس کے 141 معطل کردہ لائسنسز میں سے 110 کلیئر

ان کا کہنا تھا کہ تمام گروپس کے 800 ملازمین کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا جاچکا ہے اور اس وجہ سے زیادہ تر سندھی اور اردو بولنے والے ملازمین نے کراچی سے مہنگے شہر منتقل ہونے کے بجائے رضاکارانہ علیحدگی اسکیم کا انتخاب کیا ہے۔

پالپا کے ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ 'ملازمین کو اسلام آباد تعینات کر کے شدید دباؤ ڈالا جارہا ہے اور اتنے کم وقت میں وہ رضاکارانہ علیحدگی اسکیم ہی لے سکتے ہیں‘۔

پالپا ترجمان نے مزید کہا کہ 'خوف اور دہشت کا ماحول بنایا جارہا ہے تاکہ ملازمین خوف کے مارے وی ایس ایس لے لیں جس میں منتخب دستاویزات افشا کرنا، لازمی علیحدگی اسکیم، جبری تبادلہ، ہیڈ آفس کی منتقلی، بنیادی حقوق اور فوائد میں کمی اور نام نہاد کارکردگی کی بنیاد پر پروفائلنگ اور ملازمین کی برطرفی شامل ہے‘۔

ہراساں کیے جانے اور ملازمین کو خوفزدہ کرنے کے لیے خفیہ ادارے کے استعمال کے الزمات کے بارے میں جب ترجمان پی آئی اے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ 'پی آئی اے کی تمام تنظیمیں سیاسی جماعتوں سے منسلک ہیں جنہوں نے انہیں کارپوریشن میں شامل کیا، فنڈز اکٹھے کیے اور ان کے ذریعے اثر رسوخ ڈالا، اسلیے اکثر وہ اپنے سیاسی سربراہان کا بیانیہ ہی بولتے ہیں'۔

وزیر اعظم کے منصوبے کے تحت ایف بی آر کے پاس 330 تعمیراتی منصوبے رجسٹرڈ

2020 میں ڈان کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ہیلتھ کی خبریں

وزیر اعظم کا افغانستان میں مستقل امن کی ضرورت پر زور