45 سالہ میتھیو ڈبلیو 2 مختلف ہسپتالوں میں کام کررہے تھے اور 18 دسمبر کو انہیں فائزر ویکسین کا ڈوز دیا گیا تھا۔
ویکسین کے بعد ایک دن تک بازو میں سوجن رہی تھی مگر کوئی اور مضر اثر نظر نہیں آیا تھا۔
6 دن بعد کرسمس سے ایک دن قبل کووڈ 19 یونٹ میں کام کی ایک شفٹ کے بعد وہ بیمار ہوگئے، سردی سے کپکپی طاری ہونے لگی، بعد ازاں مسلز میں تکلیف اور تھکاوٹ جیسی علامات کا سامنا ہوا۔
ان علامات کے بعد وہ ایک ڈرائیو ان ٹیسٹنگ مرکز پر گئے اور کرسمس کے بعد ٹیسٹ کے نتائج سے معلوم ہوا کہ وہ کووڈ 19 کا شکار ہوچکے ہیں۔
ویکسین کے باوجود کووڈ 19 کا شکار ہونے کے حوالے سے سان ڈیاگو کے فیملی ہیلتھ سینٹر کے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر کرسٹین ریمرز نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر متوقع نہیں۔
انہوں نے کہا 'ہم جانتے ہیں کہ ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز میں 10 سے 14 دن لگتے ہیں، جس کے بعد ویکسین سے جسم میں بیماری کے خلاف تحفظ پیدا ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید کہا 'پہلے ڈوز سسے ہمارے خیال میں کسی فرد کو کووڈ سے 50 فیصد کے قریب تحفظ ملتا ہے اور دوسرے ڈوز کے بعد یہ شرح 95 فیصد تک پہنچ جاتی ہے'۔
یعنی پہلے ڈوز کے بعد 2 ہفتے تک جسم میں وائرس کے خلاف مدافعتی ردعمل بنتا رہتا ہے اور اس دوران احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے پر بیماری کا سامنا ہوسکتا ہے۔
خیال رہے کہ فائزر و جرمن کمپنی بائیو این ٹیک نے گزشتہ ماہ نومبر کے وسط میں اپنی تیار کردہ ویکسین کی آزمائش ختم کرکے اس کے نتائج جاری کیے تھے، جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ویکسین 95 فیصد تک کورونا سے محفوظ رکھتی ہے۔
نتائج جاری کرنے کے بعد 2 دسمبر کو برطانیہ وہ پہلا ملک بنا تھا جس نے ویکسین کے استعمال کی اجازت دی تھی اور بعد ازاں 8 دسمبر کو وہاں عام لوگوں کو ویکسین کا پہلا ڈوز لگایا گیا تھا۔