کورونا ویکسین کےعلاوہ 2020 میں ہونے والی سائنسی دریافتیں
سال 2020 کے اختتام پر اگر گزرے وقت پر نظر دوڑائی جائے تو یہ سال کورونا وائرس کی وبا کے خوف کی وجہ سے برا دکھائی دے گا لیکن اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ 2020 سائنسی اعتبار سے بھی برا گزرا۔ ماضی کے گرزرے سالوں کی طرح اس سال بھی دنیا میں سائنسی اعتبار کے حوالے سے کئی اہم پیشرفتیں ہوئیں جن کا مختصر ذکر ہم درج ذیل کریں گے۔
زمین سے بھی پرانے ستارے کے مادے کا انکشاف
ہم جانتے ہیں کہ خلا سے زمین کی طرف آئے روز آنے والے پتھر اس کی کش ثقل کی وجہ سے آتے رہتے ہیں جن میں سے اکثر تو فضا میں جل پر راکھ ہوجاتے ہیں جبکہ کچھ اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ان کا زیادہ تر حصہ فضا میں جل گیا ہوتا ہے لیکن اس باوجود کچھ حصہ مرکز یعنی زمین پر آگرتا ہے.
ہم انہیں شہاب ثاقب یا میٹیورائٹ کے نام سے جانتے ہیں. ایسا ہی ایک 100 کلو کا شہاب ثاقب 1979 میں آسٹریلیا کی ریاست ویکٹوریا کے شہر مرچسن میں گرا جسے پھر تحقیق کے لیے سائنسی مرکز بھیج دیا گیا. اس سال اسی شہاب ثاقب پر تحقیق کے دوران سائنسدانوں کو ایک ایسا مٹیریل ملا جس کی کاربن ڈیٹنگ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ یہ مٹیریل زمین تو کیا پورے نظام شمسی سے بھی پرانا ہے!
اس کا مطلب یہ کہ ہمارے نظام شمسی کی پیدائش سے پہلے کائنات میں اس کی موجودہ جگہ کے قریب ایک بڑا ستارہ اپنی آخر عمر کو پہنچ کر پھٹا ہوگا جس میں سے کچھ مادہ خلا میں گھومتا ہوا پتھروں میں گھلتا ملتا شہاب ثاقب بن کر زمین پر گرا، زمین پر موجود اب تک کا سب سے قدیم تریب مٹیریل یہی ہے.
مریخی زلزلے!
سال 2019 کے آغاز میں ناسا کی طرف سے ایک خلائی گاڑی سیارہ مریخ کی سطح پر اتاری گئی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ یہ خلائی گاڑی اس بات کا جائزہ لے کہ سیارے کے اندر کیا ہورہا ہے. اب جب اس خلائی گاڑی نے زمین پر اپنا ڈیٹا بھیجنا شروع کیا ہے تو سائنسدانوں نے یہ بتایا ہے کہ مریخ شاید کچھ کہنا چاہتا ہے!
سائنسندانوں کے مطابق اس کا مطلب یہ کہ سیارہ مریخ کی ساتھ پر اس انسائٹ خلائی گاڑی نے چھوٹے زلزلے محسوس کیے ہیں لیکن ابھی سائنسدان مزید ڈیٹا لے رہے ہیں تاکہ یہ بات ثابت ہوجائے کہ کیا یہ 'مریخی زلزلے' ہیں یا خلائی گاڑی ہی یہ لرزش پیدا کررہی ہے.
انسان کے قریبی رشتےداروں کا انکشاف
ارتقائی سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ نیندرٹل انسانوں سے پہلے رہنے والے جاندار تھے جو خود تو زندہ رہنے کی جنگ میں یا موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ناپید ہوگئے لیکن ان کی نسلیں ارتقا پذیر ہوئیں اور انسان بنے.
اب تک کی تحقیق ہمیں ان کے بارے میں یہ بتاتی تھی کہ وہ لوگ ہاتھی نما بڑے دانتوں والے "مموتھ" (جو ناپید ہوچکے ہیں) کا شکار کرکے انہیں کھاتے تھے لیکن حالیہ تحقیق کے مطابق سائنس دانوں کو یورپ کی غاروں میں نیندرٹل کے فوسل کے ساتھ کثیر تعداد میں مچھلیوں کی ہڈیاں بھی ملی ہیں اور غار جیسی خشک جگہ پر مچھلیوں کا ہونا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ نیندرٹل اچھے مچھیرے بھی تھے اور ان کی خوراک میں سمندری غذا بھی شامل تھی. ہمیں یہ معلوم ہے کہ سمندری غذا میں اومیگا 3 ہوتا ہے جس سے دماغ نشوونما پاتا ہے.
بیٹل جوس ستارے کا 'ڈکار' لینا
پچھلے سال دسمبر میں بھی فلکیاتی حلقوں میں شور مچا تھا کہ بیٹل جوس نامی ستارہ مدہم ہورہا ہے اور عنقریب پھٹنے والا ہے لیکن سوشل میڈیا کے اس تیز دور میں کچھ بھی کہنے سے پہلے اس چیز کے پیچھے کی سائنس کو جاننا بہت ضروری ہوگیا ہے۔
ہم نے دیکھا کہ یہ ستارہ دسمبر، جنوری اور فروری میں مزید مدہم ہوا لیکن مارچ میں اس کی روشنی پھر سے بحال ہونے لگی. تمام دنیا مایوس تھی کہ ہم تو اس ستارے کو پھٹتا دیکھنا چاہتے تھے لیکن شاید یہ خواب پورا نہ ہوسکے گا.
اسی کے ساتھ ناسا نے جب اس ستارے کو ہبل خلائی دوربین سے دیکھا تو یہ معلوم ہوا کہ ستارے نے اپنا پلازما خلا میں پھینکا تھا جو ٹھنڈا ہوکر ہمارے اور ستارے کے درمیان آگیا تھا جس سے ہمیں یوں معلوم ہوا جیسے ستارہ مدہم ہورہا ہو. اب جب وہ ٹھنڈا پلازما چھٹ گیا تو ستارہ دوبارہ سے اپنے آب و تاب کے ساتھ آسمان پر چمکنے لگا اور مختصرا یہ کہ ستارے نے ڈکار لیا تھا!
انسان میں بولنے اور سمجھنے کا سسٹم پیدائشی ہوتا ہے
اوہائیو یونیورسٹی کی ایک تحقیق نے یہ بتایا کہ انسانی دماغ کا ایک حصہ، جسے 'وژول وورڈ فارم ایریا' کہتے ہیں، ایسا بھی ہوتا ہے جو پیدائشی طور پر الفاظ کو سمجھنے کے لیے بنا ہوتا ہے اور یہ حصہ دماغ میں اس حصے کے ساتھ جڑا ہوتا ہے جو مختلف زبانوں کو سمجھتا ہے. سائنسدانوں نے اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے نومولود بچوں کے سی ٹی اسکین کئے اور دیکھا تو یہ معلوم ہوا کہ الفاظ کو سمجھنے والا حصہ کوئی زبان سیکھنے یا بولنے سے پہلے ہی بنا ہوا ہے.
مختصرا یہ کہ انسان پیدائشی طور پر الفاظ کو بولنے اور سمجھنے کے قابل تو ہوتا ہے لیکن اسے ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے کہ کس لفظ کو کس طرح بولتے اور لکھتے ہیں۔
خلائی مٹی کی زمین پر آمد
انسان دن بدن ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ خلا میں بھی اپنے قدم جما رہا ہے. پہلے تو انسان 1960 کی دہائی میں خود چاند سے ہوکر آیا لیکن اب مریخ پر خلائی روور بھیجنے کے ساتھ ساتھ دوسرے سیارچوں پر بھی چھوٹے چھوٹے روبوٹک مشن بھیج رہا ہے جو نہ صرف سیارچے تک جائیں گے بلکہ وہاں سے مادہ جمع کرکے واپس زمین پر لے آئیں گے۔
حال ہی میں جاپان کی خلائی ایجنسی کی طرف سے 2013 میں ریوگو نامی ایک سیارچے کی طرف بھیجی گئی خلائی گاڑی آسٹریلیا کے صحرا میں اتری، یہ خلائی گاڑی اپنے ساتھ سیارچے کی مٹی بھی لائی ہے جو اس نے 2018 میں جمع کی تھی. اسی طرح چین کی خلائی ایجنسی کی جانب سے چاند پر خلائی مشن بھی چاند سے تقریبا 3 کلو مٹی لے کر زمین پر واپس آیا ہے.
اکثر لوگ یہ سوچ رہے ہونگے کہ بھلا زمین پر مٹی کم ہے جو خلائی مشن چاند اور سیارچوں سے مٹی لارہے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک زمین پر مٹی ہے لیکن زمین پر فضا موجود ہے اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے یہاں کی مٹی اپنی اصل حالت میں نہیں رہتی بلکہ بارش اور آندھی کی وجہ سے بدل جاتی ہے جبکہ چاند اور سیارچوں پر فضا نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں جیسے حالات نظام شمسی کی پیدائش کے وقت تھے آج بھی ویسے ہی ہیں اور وہاں کی مٹی کی مدد سے سائنسدان نظام شمسی کے خدوخال کے بارے میں جان سکتے ہیں۔
دنیا کی لمبی ترین مرجان (کورل ریف) دریافت
آسٹریلیوی سائنسدانوں کی ٹیم شمٹ اوشن انسٹیٹیوٹ کی تحقیقی ٹیم شمالی گریٹ بیریر ریف میں سمندری سطح کے نقشے بنا رہی تھی کہ انھیں امپائر اسٹیٹ بلڈنگ جتنی ساحلی مرجان ملی جو کہ تقریبا 1630 فٹ اونچی ہے اور اپنی طرح کی پہلی کورل ریف ہے۔
اس کی دریافت کے بعد تحقیقی ٹیم کو اسی علاقے میں مزید 8 ایسی ہی مرجان مل چکی ہیں. تحقیقی ٹیم نے اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ ان مرجانوں میں سمندری جانداروں کی مختلف اقسام رہ رہی ہیں یا نہیں۔
سیارہ زہرہ پر زندگی کے غلط شواہد
ستمبر 2020 میں سوشل میڈیا اور سائنسی حلقوں میں اس بات کی گونج رہی کہ نظام شمسی کے دوسرے سیارے، سیارہ زہرہ پر زندگی کے شواہد دریافت کر لیے گئے ہیں جس کے بعد دنیا بھر کے سائنسدانوں نے جو سیارہ مریخ پر اور سیارہ مشتری اور زحل کے چاندوں پر زندگی کی تلاش جاری رکھے ہوئے تھے، زندگی کی تلاش کے لیے سیارہ زہرہ کو بھی دیکھنا شروع کردیا۔
ہم جانتے ہیں کہ سیارہ زہرہ نظام شمسی کا گرم ترین سیارہ ہے جس پر سلفیورک ایسڈ کے گھنے بادل موجود ہیں. سائنسدانوں نے ہوائی میں واقع دوربینوں سے زہرہ کے ان بادلوں کو پانچ دنوں تک دیکھا اور پھر ڈیٹا جمع کیا جس میں انہیں 'فوسفین' نامی مالیکیول ملے۔
ہم جانتے ہیں کہ یہ مالیکیول قدرتی طور پر بھی بنتے ہیں لیکن زہرہ پر دریافت شدہ مقدار کا برقرار رہنا یہ بتا رہا تھا کہ ضرور کوئی زندگی موجود ہے جو یہ مالیکیول مسلسل بنا رہی ہے. زمین پر بھی یہ مالیکیول پائے جاتے ہیں۔
سائنسدانوں نے اس پر تحقیق شروع کردی اور کچھ ہفتوں بعد ایک اور تحقیق سامنے آئی کہ یہ دریافت دراصل دوربین سے حاصل کیے گئے ڈیٹا میں ایرر کی وجہ سے سامنے آئی، یعنی غلط ڈیٹا کی وجہ سے سائنسدانوں کو غلط فہمی ہوئی لیکن ابھی اس دریافت پر مزید کچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ سائنسی بحث جاری ہے جوکہ خوش آئند بات ہے.
پلاسٹک کی بوتل کو ختم کرنے والے انزائم کی تیاری
پلاسٹک سے پھیلتی ماحولیاتی آلودگی دیکھتے ہوئے دنیا کے مختلف ممالک نے پلاسٹک کے استعمال پر پابندی تو لگا دی لیکن عام عوام، جو اس کے عادی ہوچکے ہیں، پلاسٹک کا استعمال اپنی روز مرہ زندگی میں اتنا عام کرچکے ہیں کہ اس کے بغیر گزارا ہی نہیں.
اس سب کو دیکھتے ہوئے برطانیہ میں موجود سینٹر آف انزائم انوویشن اور کولوراڈو (امریکا) میں موجود نیشنل رینیوایبل لیبارٹری کے سائنسدانوں نے ایسے انزائم بنائے ہیں جو روز مرہ کے استعمال میں آنے والے پلاسٹک پلاسٹک کو تیزی سے ٹکڑے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
خیال رہے کہ انزائم کا مادہ پلاسٹک اور پلاسٹک سے بنی پانی کی بوتلوں اور کپڑوں وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے.
اس انزائم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ پلاسٹک کو تقریبا 30 کروڑ ٹکڑوں میں توڑ دیتا ہے جسے فیکٹری بھی بوتلیں بنانے میں استعمال کرسکتی ہیں. اس طرح فیکٹریوں کو نیا پلاسٹک بنانے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ پرانے پلاسٹک کو ہی ری سائیکل کیا جاسکے گا۔
انسان امریکا میں 15 نہیں 30 ہزار سال پہلے آیا
ماہرین آثار قدیمہ یہ بتاتے آئے ہیں کہ آج سے 15 ہزار سال قبل جب ایشیا اور الاسکا میں سمندر دراصل ٹھوس برف کا بنا ہوا تھا تو روس سے کچھ لوگ راستہ تلاش کرتے الاسکا کی سرزمین پر آگئے تھے. وہ اس بات سے انجان تھے کہ یہ ان کی روسی سرزمین نہیں بلکہ علاقہ غیر ہے۔
جب روس اور الاسکا کو ملانے والی برف پگھلنا شروع ہوئی تو جو لوگ جس طرح بھی تھے وہیں کے ہو کر رہ گئے. جو موجودہ الاسکا کی طرف تھے انہی کی نسل پھر شمال و جنوبی امریکی براعظموں میں پھیلی اور تاریخ میں انہیں "نیٹو امریکن" یعنی آبائی امریکی کہا جاتا ہے۔
لیکن آج کے ماہرین اپنی تحقیق سے یہ بتا رہے ہیں کہ اس آخری آئس ایج میں رہ جانے والے انسان امریکی سرزمین پر پہلے انسان نہیں تھے بلکہ ان سے بھی 15 ہزار سال پہلے سے انسانوں کی بستی وہاں آباد تھی!
یہ بات ماہرین اس لئے کررہے ہیں کیوں کہ انہیں میکسیکو کی ایک غار سے تراشے ہوئے پتھر اور دوسری چیزیں ملی ہیں جو ممکن ہے کہ پتھر کے زمانے میں رہنے والے انسان استعمال کرتے ہوں، جب ان پتھروں کا مشاہدہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ پتھر 15 ہزار سال پہلے نہیں تراشے گئے بلکہ 30 ہزار سال پہلے انہیں تراشا گیا ہوگا!
اس کے علاوہ ایک دوسری تحقیق میں ماہرین کو امریکا میں ہاتھی نما بڑے دانتوں والے "مموتھ" (جو ناپید ہوچکے ہیں) کی ہڈیاں بھی ملی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جیسے ہی انسان امریکی سرزمین پر پہنچے تو انہوں نے اس جانور کا کثیر تعداد میں شکار کرکے اسے ناپید کردیا۔
سید منیب علی نیشنل سائنس ایوارڈ یافتہ سائنس رائیٹر ہیں اور ان کی کتاب "کائنات – ایک راز" اردو سائنس بورڈ نے شائع کی ہے۔ انہیں علم فلکیات کا بہت شوق ہے اور اس کے موضوعات پر لکھنا ان کا من پسند مشغلہ ہے۔
ان سے muneeb227@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @muneeb22718
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔