کورونا، کتابیں اور 2020ء کی اَن کہی کہانی
جب آرٹس کونسل کے منتظمین 13ویں عالمی اردو کانفرنس کو حتمی شکل دینے میں جٹے تھے اور میں فکشن کے سیشن میں پڑھے جانے والے اپنے مضمون کا آخری ڈرافٹ تیار کررہا تھا تو اس دوران ایک عفریت ہمارے سروں پر منڈلا رہا تھا جس کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ صاف سنائی دیتی تھی۔
شہرِ قائد میں ہونے والا ایک بڑا پروگرام ’کراچی لٹریچر فیسٹول‘ اس وبا کے ظہور سے بہت پہلے 2020ء کے آغاز میں اپنے جلوے بکھیر چکا تھا، مگر اس بحران کی آمد کے بعد ہونے والے ادبی میلوں اور کانفرنسوں کے لیے ’تالا بندی‘، خوف اور احتیاط کے باعث آن لائن انعقاد کا محفوظ راستہ اختیار کرنا پڑا۔ اسلام آباد اور فیصل آباد کے فیسٹولز یوں ہی منعقد ہوئے۔ البتہ آرٹس کونسل کی انتظامیہ نے اپنے ارادے اور وسیع تجربے کی مدد سے درمیان کا محفوظ راستہ نکال لیا۔
اردو کانفرنس آرٹس کونسل ہی میں ہوئی، مندوبین بھی ادھر موجود تھے، صحافی اور چنیدہ لوگ پہنچے اور اسے براہِ راست فیس بک اور یوٹیوب پر نشر کیا گیا اور یوں ایک کٹھن مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پایا۔ بے شک اس تجربے سے مستقبل میں بھی رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
نکتہ یہ ہے صاحب کہ اس وبا نے ہمارے طرزِ زندگی، ہمارے طرزِ فکر، محفل جمانے اور ملنے ملانے کے انداز کو یکسر بدل دیا ہے۔ اس وائرس نے پوری دنیا کے سماجی ڈھانچے کو متاثر کیا ہے۔ اکٹھ، اکیلے پن میں تبدیل ہوا، قریب آنے والے فاصلے سے رہنے لگے اور گرم جوشی میں خوف اتر آیا۔
البتہ خوش آئند بات یہ تھی کہ بے پناہ خوف کے باوجود زندگی جاری رہی۔ ادبی تقریبات احتیاط کے ساتھ جیسے تیسے رونما ہوتی رہیں۔ 2020ء میں کتابیں شائع بھی ہوئیں، زیرِ بحث بھی آئیں، اور اعزازت کی بھی حقدار قرار پائیں۔ اس تحریر کا مقصد مصائب کے اس زمانے میں ایسے ہی چند خوشگوار لمحات کو بازیافت کرنا ہے۔
اعزازات کی دنیا
ادبی اعزازت کی بات ہو تو سب سے پہلے نوبیل انعام ہمارے ذہنوں کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ اس برس کا نوبیل انعام 2 وجوہات کے باعث اہم تھا۔
پہلی وجہ تو یہی کہ یہ کورونا کے باوجود رونما ہوا اور دوسرا سبب یہ کہ یہ انعام ایک امریکی شاعرہ کے حصے میں آیا۔
سویڈش اکیڈمی آف نوبیل پرائز نے اکتوبر 2020ء میں امریکی شاعرہ لوئس گلک کے نام کا اعلان کیا تو اس خبر نے خاصی توجہ بٹوری۔ کورونا بحران کے سبب 77 سالہ تخلیق کار کے لیے جنہوں نے دیگر زبانوں میں اور ادب کی دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی، تقریب پذیرائی منعقد نہیں ہوسکی۔ انہوں نے امریکا ہی میں برف سے ڈھکے سبزہ زار میں اپنا انعام وصول کیا۔
لوئس گلک کو ملنے والے اس اعزاز کا جشن دنیا بھر کے شعرا نے منایا کہ ایک عرصے سے اس ایوارڈ پر فکشن نگاروں کا غلبہ تھا۔ لوئس گلک نوبیل سے قبل بھی اہم ایوارڈز اپنے نام کرچکی ہیں۔ یعنی وہ نوبیل ادب کمیٹی کی 'دریافت' نہیں ہیں (وہ الزام، جو کمیٹی کو کبھی کبھی طنزاً سہنا پڑتا ہے)۔
کورونا نے ادب کے دوسرے اہم ترین ایوارڈ یعنی بکر پرائز کو بھی متاثر کیا مگر نوبیل ہی کی طرح یہ اسے روکنے سے قاصر رہا۔ بے شک تقریب پذیرائی منعقد نہیں ہوئی اور فاتحین بھی دیگر شرکا کی طرح آن لائن ہی تقریب کا حصہ بن سکے مگر حقدار تک اس کا حق پہنچا۔
یہ معتبر ایوارڈ اسکاٹش فکشن نگار ڈگلس اسٹورٹ کے حصے میں آیا۔ وجہ ان کا ناول 'شوگی بین' ٹھہرا۔ جیوری نے اپنے جاری کردہ بیان میں 'شوگی بین' کوایک ایسا ناول قرار دیا جو ہمت دلاتا ہے اور زندگی بدل دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہاں انٹرنیشنل بکر پرائز کا بھی ذکر ہوجائے، جو کسی تخلیق کے انگریزی ترجمہ پر دیا جاتا ہے۔ یہ ایوارڈ نیدر لینڈز کی ماریکا لوکاس کے ناول The Discomfort of Evening کے ترجمے کے حصے میں آیا، جو Michele Hutchison کی کاوش تھا۔
پلٹزر پرائز یوں تو صحافتی شعبوں اور اسٹوریز کے لیے معروف، مگر ادھر فنونِ لطیفہ کی دیگر اصناف میں بھی ایوارڈز دیے جاتے ہیں۔ فکشن کی بات کی جائے، تو یہ ایوارڈ معروف امریکی ادیب کولسن وائٹ ہیڈ کی کتاب The Nickel Boys کے حصے میں آیا۔
پاکستان میں منعقدہ ایوارڈز کا تذکرہ
'کراچی لٹریچر فیسٹول‘ شہرِ کراچی میں منعقد ہونے والی ایک اہم ادبی تقریب ہی نہیں بلکہ یہاں اعلان کردہ ایوارڈز کو بھی معتبر گردانا جاتا ہے۔ کورونا سے پہلے ساحل کنارے ایک ہوٹل میں فروری کی 28 تاریخ سے یکم مارچ تک یہ ادبی میلہ سجا۔ ایوارڈز کی جیوری میں اہم نام موجود تھے۔ یہاں فکشن کی بہترین کتاب کا ایوارڈ ممتاز فکشن نگار ڈاکٹر حسن منظر کو ان کے ناول 'اے فلک ناانصاف' کے لیے پیش کیا گیا۔ انگریزی کتابوں میں قرعہ محمد حنیف کے ناول 'ریڈ برڈ' کے نام نکلا۔ دیگر کیٹیگریز میں بھی ایوارڈز دیے گئے۔
اکادمی ادبیات کی جانب سے بھی رواں برس ’قومی ادبی ایوارڈ 2018ء‘ کا اعلان کیا گیا۔ ملک کے سب سے بڑے ادبی اعزاز ’کمالِ فن ایوارڈ‘ کے لیے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز ادیب منیر احمد بادینی کو منتخب کیا گیا۔
اردو نثر (تخلیقی ادب) کی کیٹیگری میں 'سعادت حسن منٹو ایوارڈ' ڈاکٹر حسن منظر کی کتاب 'جھجک' کے حصے میں آیا۔ دیگر شعبوں میں بھی کتابیں اور مصنفین انعام کے حقدار قرار پائے۔
یو بی ایل لٹریری ایوارڈ کا تسلسل بھی ادیبوں کے لیے خوش آئند ہے۔ اس سال کے آخر میں نویں یو بی ایل لٹریری ایوارڈ کا اعلان ہوا۔ ڈاکٹر آصف فرخی کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پیش کیا گیا۔ سید کاشف رضا کا ناول ’چار درویش اور ایک کچھوا‘ اردو فکشن کی بہترین کتاب اور ابرار احمد کا مجموعہ ’موہوم کی مہک‘ شاعری کی بہترین کتاب قرار پائی۔ نان فکشن کی اولین کتاب اور بچوں کے ادب کی کیٹیگری میں بھی ایوارڈز دیے گئے۔
کچھ اہم کتب جو ہماری نظر سے گزریں
کورونا بحران نے زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح کتابوں کی اشاعت کو بھی متاثر کیا، مگر اسے سہارا ملا آن لائن کاروبار سے۔ دیگر اشیا کی طرح کتابوں کی آن لائن خرید میں تیزی آئی جس کی وجہ سے بحرانی کیفیت کے باوجود کتابوں کی اشاعت اور ترسیل جاری رہی۔
یوں تو اس سال کئی اہم کتب منظرِ عام پر آئیں جن کے تذکرے کے لیے الگ وقت درکار ہے مگر دوستو فسکی کے شاہ کار ناول ’کرامازوف برادرز‘ کے جناب شاہد حمید کے ترجمے کی دوبارہ اشاعت ایک اہم واقعہ تھا جس نے دل باغ باغ کردیا۔
شمس الرحمٰن فاروقی کے ناول ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ کا نیا ایڈیشن مارکیٹ میں جلوہ گر ہوا۔ ’میرا داغستان‘ نے بھی نئی صورت پائی۔ تینوں کتب بک کارنر، جہلم سے شائع ہوئیں۔ میخائیل خولوشوف کا ناول ’ڈان بہتا رہا‘ بھی ترو تازہ ہوکر اردو قارئین تک پہنچا۔
ممتاز ادیب اور سفرنامہ نویس، مستنصر حسین تارڑ کی 2 کتب کی سال کے آخر میں بازگشت سنائی دی جن میں ان کے 2 ناولٹس پر مشتمل ’روپ بہروپ‘ اور ’شہر خالی کوچہ خالی‘ نے فوری توجہ مبذول کرائی۔ یہ کتابیں ’سنگ میل‘ نے شائع کیں جس نے اس برس چند اہم کتابوں کا بیڑا اٹھایا تھا۔
تارڑ صاحب کو رواں برس جوش ایوارڈ بھی پیش کیا گیا۔ نجی چینلز جو بڑی حد تک ادیب اور ادب سے لاتعلق ہوچکے تھے وہ بھی تارڑ صاحب تک پہنچے کہ ’نکلے تیری تلاش میں‘ اور یوں آج کے ناظرین کو ڈھنگ کا بصری مواد میسر آیا۔ تارڑ صاحب کے ایک ٹی وی انٹرویو نے ایک ادبی اسکینڈل کو بھی جنم دیا البتہ ہم اس پر مطمئن ہیں کہ چلیں ادب اور ادیب الیکٹرانک میڈیا پر زیرِ بحث تو آئے۔
ناصر عباس نیر تنقید کا معتبر نام ہیں جن کی بصیرت اور دانش ورانہ جہت کا خوب چرچا ہے۔ انہوں نے فکشن کے میدان میں بھی کمال دکھایا۔ ان کا چوتھا افسانوی مجموعہ ’ایک زمانہ ختم ہوا‘ اس برس منظرِ عام پر آیا۔ بلاشبہہ ان کے فکشن کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔
’نو لکھی کوٹھی‘ لکھ کے پاک و ہند کے قارئین کو اپنی سمت متوجہ کرنے والے علی اکبر ناطق کے تازہ ناول ’کماری والا‘ نے بھی سال کے آخر میں منصہ شہود پر آکر توجہ حاصل کی اور داد بٹوری۔ یہ سطریں لکھے جانے تک اس پر تبصروں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور بیشتر حوصلہ افزا ہیں۔
شکیل عادل زادہ ایک عشق کا نام ہے۔ 2020ء میں اس عشق کو اوج ملا۔ حسن رضا گوندل، جن کی محبت شکیل بھائی، جن کی تحقیق کا محور، سب رنگ انہوں نے ’سب رنگ کہانیاں‘ کے نام سے 2 کتابیں مرتب کیں جن میں اس پرچے میں شائع ہونے والی شاہکار کہانیوں کے تراجم کو اکٹھا کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔ ادبی جریدے ’اجراء' کا شکیل عادل زادہ نمبر بھی اسی برس منظرِ عام پر آیا۔
معروف صحافی، کالم نگار اور اینکر رؤف کلاسرا کے جادوئی قلم نے رواں برس چند کتابوں میں روح پھونکی اور وہ سانس لینے لگیں۔ ’گمنام گاؤں کا آخری مزار‘ ان کے مضامین کا مجموعہ ہے جسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ عام آدمیوں کی ان کہانیوں کی خاصی پذیرائی ہوئی۔
ادھر انہوں نے ممتاز ادیب بالزاک کے 2 ناولوں کو 'تاریک راہوں کے مسافر' اور ’سنہری آنکھوں والی لڑکی‘ کے عنوان سے اردو روپ دیا جس نے تراجم کے شایقین کو سرشار کیا۔ معروف صحافی اور کالم نگار عامر ہاشم خاکوانی کے منفرد کالموں پر مبنی قابلِ مطالعہ کتاب 'زنگار‘ کا نیا ایڈیشن بھی ہم تک پہنچا۔
ہندوستان سے تعلق رکھنے والے معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی کے ناولوں کی پاکستان میں اشاعت خوش آئند ہے۔ ’پوکی مان کی دنیا‘ اور ’مرگ انبوہ‘ نے ادھر بسنے والے قارئین کو ذوقی کے پر قوت قلم، دلیری اور جدید دنیا کو سمجھنے کے فہم سے آشنا کیا۔
معروف شاعر اور فکشن نگار سعید نقوی نے اسماعیل کادارے کے ناول کو ’دو نیم اپریل‘ کے عنوان سے ترجمہ کرکے قارئین ادب کو ایک تحفہ دیا۔ راشد اشرف بھی متحرک نظر آئے۔ ’شکاریات کی ناقابلِ فراموش داستانیں‘ اور 60 کی دہائی میں ڈائجسٹوں میں شائع ہونے والی مقبول کہانیوں کا انتخاب 4 جلدوں کی صورت میں ہم تک پہنچا۔
معروف ٹرینر اور یوٹیوبر محمد زبیر کی نئی کتاب ’تربیت‘ بھی اس سال کے آخر میں شائع ہوئی۔ اس سے قبل وہ ’پرورش‘ اور ’شکریہ‘ جیسی بیسٹ سیلنگ کتابیں لکھ چکے ہیں۔
ہمہ جہت تخلیق کار ڈاکٹر آصف فرخی اس برس ہم سے جدا ہوئے۔ انتقال سے قبل وہ اپنے جریدے ’دنیا زاد‘ کے وبا نمبر پر کام کر رہے تھے جو ان کے خاندان نے شائع کیا۔ ’دنیا زاد‘ اردو کے معتبر جرائد میں سے ایک تھا۔ وبا نمبر یوں اہم تھا کہ ہمیں کورونا بحران درپیش ہے اور اب یہ کتاب یوں یادگار ہے کہ اس سے ایک حیران کن صلاحیتوں کے حامل شخص کی یادیں جڑی ہیں۔
حرف آخر
کورونا وبا نے ہمارے سماجی ڈھانچے پر کاری ضرب لگائی ہے۔ ادب سماج کی ایک مکمل اکائی ہے اور اس اکائی نے کسی نہ کسی طرح اس بحران سے نمٹنے کا راستہ تلاش کر ہی لیا۔ اعزازت کا تذکرہ اور چند اہم کتابوں کے حوالے یہ اشارہ کرتے ہیں کہ ’آدمی کی کہانی‘ ختم ہونے تک جاری رہے گی۔
اقبال خورشید کالم نویس، انٹرویو کار، فکشن نگار اور بلاگر ہیں۔ وہ ’ون منٹ اسٹوری‘ کے عنوان سے صحافتی کہانیاں لکھتے ہیں، ایک ادبی جریدے’ اجرا‘ کے مدیر ہیں۔ سیاست، سماج، ادب اور شہر کراچی اُن کے موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔