سپریم کورٹ کا تعیناتیوں کے معاملے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
کراچی: سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کے 2 موجودہ اور متعدد ریٹائرڈ اراکین کی تعیناتی کے خلاف درخواست پر ای سی پی اور دیگر کو نوٹسز جاری کردیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ای سی پی اور دیگر فریقین کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سال فروری تک اپنا جواب جمع کروائیں۔
عام لوگ اتحاد پارٹی نے سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے اپنی اس درخواست مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف اپنے سربراہ جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، جس میں درخواست گزار نے مؤقف اپنایا تھا کہ 4 ای سی پی اراکین کا تقرر غیرقانونی تھا۔
درخواست گزار نے اعتراض اٹھایا تھا کہ ان میں سے 3 ریٹائٹرڈ جسٹسز شکیل احمد بلوچ، ارشاد قیصر اور الطاف ابراہیم قریشی آئین کے آرٹیکل 207 (2) کی خلاف ورزی میں ای سی پی اراکین مقرر ہوئے چونکہ ان کی تعیناتی ہائیکورٹس کے ججز کا عہدہ چھوڑنے کے بعد 2 سال کی لازمی مدت کی میعاد ختم ہونے سے قبل کی گئی۔
مزید پڑھیں: ای سی پی کی قانون سازوں کو 31 دسمبر تک اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے کی ہدایت
وجیہ الدین احمد نے اعتراض اٹھایا کہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ عبدالغفار کو اس حقیقت کے باوجود کے وہ کرپشن کیس کا سامنا کر رہا اور اس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالا گیا تھا، ای سی پی میں بھرتی کیا گیا۔
واضح رہے کہ دو فریق جسٹس شکیل احمد بلوچ اور عبدالغفار جنوری میں ای سی پی کے رکن کی حیثیت سے مستعفی ہوئے۔
درخواست گزار نے مزید اعتراض اٹھایا کہ جسٹس شکیل احمد بلوچ کو جولائی 2016 میں بلوچستان ہائیکورٹ کے جج کی حیثیت سے مستعفی ہونے کے بعد صرف 10 روز میں ہی بلوچستان سے ای سی پی کا رکن تعینات کردیا گیا تھا جبکہ جسٹس ارشاد قیصر جون 2016 میں پشاور ہائیکورٹ کی جج کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کے بعد 45 دن میں ای سی پی کی پہلی خاتون رکن بن گئی تھیں۔
اس کے علاوہ جسٹس الطاف قریشی مارچ 2015 میں لاہور ہائیکورٹ کے جج کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے اور وہ جولائی 2016 میں پنجاب سے ای سی پی کے رکن بنے۔
واضح رہے کہ جون میں سندھ ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے درخواست اس آبزرویشن کے ساتھ مسترد کردی تھی کہ ای سی پی ’کواشی-جوڈیشل آفس‘ (نیم عدالتی دفتر) ہے، لہٰذا اعلیٰ عدلیہ سے ریٹائرڈ ججز کے تقرر کے معاملے میں آئین کے آرٹیکل 207 (2) کی 2 سال مدت ختم ہونے شرائط کی رکاوٹ یہاں پورا نہیں اترے گی۔
اس میں کہا گیا تھا کہ جہاں تک چوتھ رکن کا تعلق ہے نہ ہی کوئی اہم آئینی یا قانونی بنیاد پیش کی گئی تھی اور نا ہی کرپشن کے الزامات کی حمات میں کوئی مواد یا ثبوت فراہم کیے گئے۔
برطرفی کے خلاف اپیلیں مسترد
دوسری جانب سپریم کورٹ نے سندھ رینجرز کے 2 سابق اہلکاروں کی اپنے عہدے سے برطرفی کے خلاف اپیلوں کو مسترد کردیا۔
سابق سب انسپکٹر امجد علی اور حوالدار محمد رمضان نے رشوت لینے اور مالی غبن کے الزمات پر ہٹانے کے خلاف اپیلیں دائر کی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: عدالت نے ایس ای سی پی کو 'ڈیٹا لیک کے مشتبہ عہدیدار' کے خلاف کارروائی سے روک دیا
تاہم پیراملٹری فورس کے وکیل نے ان اپیلوں کی مخالفت کی اور دلیل دی کہ امجد نے رشوت لینے کے بعد ایک ملزم کو رہا کردیا تھا، مذکورہ ملزم اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلر کے اغوا میں سہولت کاری فراہم کرنے والوں میں سے تھا۔
وکیل کا کہنا تھا کہ دوسرے درخواست گزار کو مالی غبن میں ملوث ہونے پر سروس سے ہٹایا گیا تھا۔
علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے بینچ نے محکمہ تعلیم سندھ کے سابق اکاؤنٹنٹ کی مماثلت رکھتی اپیل کو بھی مسترد کردیا۔
عرفان احمد شیخ نے اپنے وکیل کے ذریعے یہ مؤقف اپنایا کہ وہ ٹھٹہ میں محکمہ تعلیم میں ایک سینئر اکاؤنٹنٹ تھا اور اسے 7 کروڑ روپے کی مبینہ منتقلی پر سروس سے ہٹا دیا گیا تھا جبکہ انکوائری کے دوران حقائق کو نظرانداز کیا گیا تھا۔
وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ فنڈ کی منتقلی کے لیے جو آئی ڈی استعمال ہوئی وہ دیگر حکام کے استعمال میں بھی تھی۔اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ حکومتی محکموں کے امور کو جانتے ہیں اور یہاں تک کہ 7 ارب روپے کا غلط استعمال یا منتقل ہوسکتے ہیں۔
یہ خبر 29 دسمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔