اپنے والد اور دادا کی وراثت کو آگے بڑھاتے شہزار محمد
12 اکتوبر 2018ء کو اولیا کی سرزمین ملتان میں حنیف محمد کے پوتے اور سابق ٹیسٹ کرکٹر شعیب محمد کے بیٹے شہزار محمد نے 265 رنز بنا کر فرسٹ کلاس کرکٹ میں اپنی پہلی ڈبل سنچری اسکور کی۔
اس ڈبل سنچری کی وجہ سے یہ گھرانہ برطانوی ڈی آلیور خاندان کے بعد دوسرا گھرانہ بن گیا ہے جس کی 3 نسلوں نے یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔
شہراز کا کہنا تھا کہ ’جی ہاں، یہ ڈبل سنچری میرے فرسٹ کلاس کیریئر کی پہچان ہے۔ جب میں نے 50 رنز بنالیے تو مجھے اندازہ ہوا کہ آج کا دن میرے لیے اچھا ہے اور ذہن میں خیال آیا کہ چلو دیکھتے ہیں آج میں کتنی لمبی اننگ کھیلتا ہوں۔ ملتان اسٹیڈیم کی وکٹ اچھی تھی لیکن آسان نہیں تھی۔ مجھے درمیان میں کچھ مشکل پیش آئی لیکن اپنے اچھے فٹنس لیول کی وجہ سے 100 رنز بنانے کے بعد بھی میں تھکا نہیں‘۔
’مجھے معلوم تھا کہ میں نے زندگی میں بہت سی ناکامیاں دیکھی ہیں اس لیے مجھے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرنا تھا۔ سنچری بنانے کے بعد بھی میرا ذہن مرتکز تھا۔ میں لگاتار سیشنز میں کھیل رہا تھا اور میں نے تقریباً 2 دن تک بیٹنگ کی۔ یہ بہت اچھا احساس تھا، بالآخر میری محنت رنگ لے آئی‘۔
شہزار کو کم عمری میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ جس خاندان سے ان کا تعلق ہے وہ کرکٹ کی دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’میں شاید 6 سال کا تھا جب شارجہ میں ایک بینیفٹ میچ کھیلا جارہا تھا۔ میں ایک کنارے پر اپنے بلے کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ سنیل گواسکر نے مجھے دیکھا۔ وہ رکے اور مجھے باؤلنگ کروانے لگے۔ بعد میں میرے والد اور دادا نے ان سے ملاقات کی‘۔
’میں اپنے دادا کے بہت قریب تھا اور میں ان کے ساتھ تقریباً ہر جگہ جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہم جب فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس جاتے تھے تو لوگ انہیں پہچان لیتے تھے۔ تب مجھے احساس ہوتا تھا کہ میرا تعلق ایک مشہور اور معزز گھرانے سے ہے، اور مجھے اس نام کو آگے لے کر جانا ہے‘۔
شہزار اپنے دادا کو اپنا پہلا کوچ مانتے ہیں۔ ’میں دادا کے اٹھنے کا انتظار کرتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ ایک خاص وقت پر اٹھیں گے، ناشتہ کریں گے، پان کھائیں گے اور پھر میرے ساتھ ٹی وی پر کرکٹ دیکھیں گے۔ اس کے بعد وہ باغیچے میں میرے ساتھ کرکٹ کھیلیں گے۔ اس طرح میری کرکٹ کا آغاز ہوا۔ میں ان کے ساتھ ڈیفنس کے اسٹیڈیم (موجودہ سدھرن کلب) بھی جایا کرتا تھا اور وہاں ان کے ساتھ کرکٹ کھیلا کرتا تھا۔ میں اس کھیل کے حوالے سے بہت پُرجوش تھا اور اس میں آگے بڑھنا چاہتا تھا۔ میں نے 7 سال کی عمر میں فیصلہ کرلیا تھا کہ میں کرکٹر بنوں گا‘۔
لیکن کھلاڑیوں کے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے دیگر کرکٹرز کی طرح شہزار کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ’لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ ہاں ہم ایسے خاندان سے ہیں جس نے کرکٹ میں اپنا نام بنایا ہے، لیکن اسی وجہ سے ہمیں درپیش مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ہماری کارکردگی کا ہروقت تقابل ہورہا ہوتا ہے اور اس وجہ سے ہمیں دوسروں سے زیادہ محنت کرنی ہوتی ہے‘۔
’لوگوں کو وہ محنت اور مشکلات نظر نہیں آتیں جن سے ہم گزرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ہمیں آسانی سے اوپر آنے کا راستہ مل گیا ہے۔ لیکن ان سب پریشانیوں کے باوجود یہ ایک اچھا احساس ہے جو دیگر حالات میں مجھے کسی بھی طرح میسر نہیں آتا‘۔
شہزار نے بہت ہی کم عمری میں پاکستان چھوڑ دیا تھا۔ ’جب میں 10 سال کا تھا تو میرے والدین میں علیحدگی ہوگئی اور میں امریکا چلا گیا۔ میں نے اپنے لڑکپن کے دن ہوسٹن میں گزارے اور ہائی اسکول وہیں مکمل کیا۔ میں چھٹی کے دن کلب کرکٹ بھی کھیلتا تھا۔ میں نے 18 سال کی عمر میں پاکستان آنے اور انڈر 19 کرکٹ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد مجھے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کا موقع بھی ملا‘۔
قائدِاعظم ٹرافی کے موجودہ سیزن میں اگرچہ شہزار سندھ سیکنڈ الیون کی نمائندگی کررہے ہیں لیکن اس سے ان کے عزائم میں رکاوٹ نہیں آئی ہے۔ ’میرا مقصد یہ دکھانا ہے کہ میں تواتر کے ساتھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ میں نے بہتر کارکردگی پیش کی ہے اور میں پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہوں لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ میں مستقل بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتا رہوں اور یہی میرا مقصد ہے‘۔
حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والے نیشنل ٹی20 کپ میں شہزار نے کرکٹ کمنٹیٹر کے طور پر قسمت آزمائی کی، لیکن انہیں اپنے لہجے کی وجہ سے سوشل میڈیا پر کچھ تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جس کھیل کو آپ پسند کرتے ہوں اور جسے دیکھتے ہوئے آپ بڑے ہوئے ہوں اس کھیل پر کمنٹری کرنے کا تجربہ بہت ہی اچھا تھا۔ یہ ایک اتفاقی موقع تھا۔ جب مجھے کمنٹری کی پیشکش ہوئی تو میں نے اپنے بڑوں سے مشورہ کیا اور انہوں نے کہا کہ مجھے ایک بار اس کا تجربہ کرنا چاہیے۔ لیکن میں اپنے کرکٹ کے کیریئر کے اختتام پر اس بارے میں سوچوں گا۔ اگرچہ یہ ایک نیا تجربہ تھا لیکن سوشل میڈیا اور اپنے فٹنس شو کی وجہ سے مجھے کیمرے کی عادت تھی‘۔
’ہاں میں نے اپنے ’لہجے‘ سے متعلق کمنٹس کے بارے میں سنا ہے۔ میں ان کمنٹس کو اس اعتبار سے اچھا سمجھتا ہوں کہ لوگوں نے اسے نوٹ کیا لیکن ان میں سے کچھ لوگ میری زندگی یا میرے بارے میں نہیں جانتے اس وجہ سے میں ان باتوں پر توجہ نہیں دیتا۔ مجھے معلوم ہے کہ میں کون ہوں اور میرے لیے یہی ضروری ہے۔ اگر آپ زندگی میں کچھ اچھا کر رہے ہیں تو لوگ یا تو آپ سے نفرت کریں گے یا محبت لیکن آپ مرتکز ہیں اور محنت کررہے ہیں تو پھر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ کیا کہتے ہیں‘۔
شہزار فٹنس کے دلدادہ ہیں اور کراچی میں ایک بہترین جم چلاتے ہیں۔ ’کرکٹر ہونے کی حیثیت سے مجھے ذہنی اور جسمانی تندرستی کا شروع سے ہی خیال تھا۔ یہ ہمیشہ سے میرا شوق رہا ہے۔ 6 سال پہلے اس میں مزید اضافہ ہوا کیونکہ میں کرکٹر کی حیثیت سے خود میں بہتری لانا چاہتا تھا۔ میں نے امریکا سے اسپورٹس بائیو مکینکس اور کراس فٹ کے سرٹیفیکیٹ کورس کیے۔ جب میں نے پاکستان میں اپنا پہلا جم کھولا تو امریکا کے مقابلے میں یہاں اس حوالے سے لوگوں کو بہت کم آگہی تھی۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ اب حالات بدل رہے ہیں‘۔
’اگر لوگ تندرست ہوں گے تو پاکستان تندرست ہوگا۔ میں بہتر زندگی گزارنے کے حوالے سے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتا ہوں۔ فٹنس ٹریننگ نے ذہنی ارتکاز اور صحت مند زندگی گزارنے میں میری مدد کی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ دوسرے بھی اس پر عمل کریں۔ جو کچھ مجھے معلوم ہے اسے دوسروں تک پہنچانے میں مجھے خوشی ہوتی ہے‘۔
انہوں نے کئی کھلاڑیوں اور شوبز شخصیات کے ساتھ کام کرکے ان کی فٹنس بہتر بنانے میں مدد کی ہے۔ ’گزشتہ کچھ سالوں میں مجھے شان مسعود، اظہر علی، سرفراز احمد، اسد شفیق اور صہیب مقصود جیسے کھلاڑیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ اعظم خان میرے ساتھ ٹریننگ کرتے رہے اور انہوں نے ایک سال میں 32 کلوگرام وزن کم کیا۔ یہ ایک جاری رہنے والا کام ہے جو اگلے ڈیڑھ سال جاری رہے گا جس کے بعد وہ مکمل طور پر فٹ ہوجائیں گے‘۔
’میں نے بلال اشرف اور محب مرزا جیسے اداکاروں کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ کھلاڑیوں کے ساتھ کام کرنے کے تجربے سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ جم میں کرکٹرز کا رویہ بہت اچھا ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک مقصد کے حصول کے لیے محنت کررہے ہوتے ہیں۔ مستقبل میں کرکٹ کا سارا دار و مدار صرف فٹنس پر ہوگا۔ ٹی20 ایک تھکا دینے والا فارمیٹ ہے۔ اگر آپ فٹ رہیں گے تو ہی مستقل بہتر کارکردگی دکھا سکیں گے‘۔
اپنے مستقبل کے عزائم کے بارے میں شہزار کا کہنا تھا کہ ’میرا ہمیشہ سے یہی مقصد رہا ہے کہ میں پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلوں۔ میں اسی وجہ سے امریکا سے واپس پاکستان آیا۔ یہاں مجھے فٹنس ٹرینر بننے کا بھی موقع ملا۔ میں پوری کوشش اور محنت کروں گا اور وقت کا بھرپور استعمال کرنے کی کوشش کروں گا‘۔
’جب آپ محنت کرتے ہیں تو سب کچھ خود بخود درست ہونے لگتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میں ان کرکٹرز کے گھرانے میں پیدا ہوا ہوں جنہوں نے پاکستان کے لیے کھیلا، کئی ریکارڈز بنائے اور اس کھیل میں اپنا ایک الگ مقام بنایا۔ ایسے عظیم گھرانے کی نمائندگی کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ ساتھ ہی ساتھ میں ایک ایسی چیز میں بھی نام بنانا چاہتا ہوں جو میں نے خود اپنے لیے بنائی ہو‘۔
شہزار نے اس مٹی سے اپنا رشتہ قائم رکھا ہوا ہے۔ ’لوگ امریکی خواب کی تعبیر کے لیے امریکا جاتے ہیں لیکن میں پاکستانی خواب جینے کے لیے پاکستان واپس آیا ہوں‘۔
یہ مضمون 27 دسمبر 2020ء کو ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔