پاکستان

سال 2020:کورونا وائرس کے باعث انتقال کرجانے والی شخصیات و سیاستدان

اس عالمی وبا نے پاکستان میں ہر شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو متاثر کیا اور کئی نامور شخصیات جہان فانی سے کوچ کرگئیں۔

کسی بھی سال کا آغاز نئی امنگوں، خواہشوں اور سپنوں کے ساتھ ہوتا ہے اور ہر کسی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ آنے والا سال اس کی زندگی میں خوشیاں اور ایسے مواقع لے کر آئے جسے وہ اپنے پیاروں کے ساتھ گزار سکے۔

تاہم 2020 کا آغاز کچھ مختلف تھا یا اگر یوں کہیں کہ حالیہ عرصوں میں یہ لوگوں کے لیے تقریباً ہر اعتبار سے ایک سخت سال تھا تو غلط نہ ہوگا اور اس سال کی مناسبت سے اگر یہ جملہ کہا جائے کہ سال ’’2020 کسی کے سپنے اور بہت سے اپنے لے گیا’‘ تو غلط نہ ہوگا۔

یہ سال جو کہ اب اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے اور ہم بفضل باری تعالیٰ 2021 کا سورج دیکھنے کے منتظر ہیں، بہت سی ایسی شخصیات کو ہم سے دور کرگیا جن کا متبادل شاید آسانی سے نہ مل سکے۔

2020 کا آغاز ایک ایسے وائرس سے ہوتا ہے جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کا نقشہ تبدیل کرکے رکھ دیا اور ہم نے وہ سب کچھ دیکھا جو شاید اس نوجوان نسل نے اپنی زندگی میں پہلی کبھی نہ دیکھا ہو۔

سال 2020 میں ہمارے پڑوسی ملک چین کے شہر ووہان میں انسان سے انسان میں منتقل ہونے والے ایک وائرس کے پھیلنے کی اطلاعات موصول ہوتی ہیں، جو بعدازاں عالمی وبا کورونا وائرس اور اس سے ہونے والی بیماری کو کووِڈ 19 کا نام دیا گیا کیونکہ اس کی ابتدا سال 2019 میں ہی ووہان میں ہوچکی تھی۔

کورونا وائرس کے ووہان میں پھیلنے کے بعد وہاں اور چین کے مختلف شہروں میں ایک سخت قسم کا لاک ڈاؤن نافذ کیا جاتا ہے تاکہ یہ وائرس دیگر علاقوں تک نہ پھیلے تاہم دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں اس وائرس کے کیسز رپورٹ ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

یوں یہ وائرس ایک شہر سے نکل کر دنیا کے مختلف شہروں تک پہنچ جاتا ہے جبکہ اس کو روکنے کے لیے مختلف ممالک کی جانب سے سفری پابندی، بندشیں اور دیگر اقدامات اٹھائے جاتے ہیں تاہم انسان سے انسان میں منتقلی کے باعث اس کے پھیلنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

چین کے بعد اگر خطے کے دیگر ممالک کی بات کریں تو ایران، افغانستان، بھارت میں بھی وائرس کے کیسز آنا شروع ہوتے ہیں اور پھر خطے کے دیگر ممالک کی نسبت کچھ حد تک تاخیر سے اس وائرس کا پہلا کیس پاکستان میں رپورٹ ہوتا ہے۔

سال 2020 کے دوسرے مہینے یعنی فروری کی 26 تاریخ کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایران سےواپس آنے والے ایک شخص میں اس وائرس کی تشخیص ہوتی ہے جو ملک میں کورونا وائرس کا باقاعدہ پہلا کیس ہوتا ہے اور بعد ازاں اس کے کیسز پورے ملک سے رپورٹ ہونا شروع ہوجاتے ہیں جبکہ مارچ کے مہینے میں اس وائرس سے پہلی موت کی بھی تصدیق ہوجاتی ہے۔

اس وائرس کے پھیلاؤ کو کم سے کم رکھنے اور لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جس میں تعلیمی اداروں کی بندش، سفری پابندیاں، لاک ڈاؤن، مختلف مقامات کی بندش، کاروباری و صنعتی شعبوں کا بند ہونا شامل تھا۔

اگرچہ ان اقدامات سے ایک وقت میں کورونا وائرس کے کیسز اور اموات دنیا کے دیگر حصوں کے مقابلے کافی کم رہے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس وائرس کی شدت کبھی تیز تو کبھی کم ہوتی دکھائی دی لیکن اس تمام صورتحال کے دوران لوگ نہ صرف اپنے پیاروں سے محروم ہوئے بلکہ ملک کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس وائرس کا شکار ہوکر دنیا فانی سے کوچ کرگئے جن میں مختلف سیاست دان بھی شامل تھے۔

اس وائرس سے امریکی صدر سے لیکر برطانوی شہزادے تک اور پاکستان میں وفاقی وزرا، سیاسی قائدین سمیت مختلف شخصیات متاثر ہوئیں جن کی اکثریت صحتیاب ہوگئی۔

تاہم جن اہم شخصیات اور سیاست دانوں کو ہم اس وائرس کی وجہ سے 2020 میں کھو بیٹھے ان میں سے چند کا ذکر یہاں کیا جارہا ہے۔

پاکستان میں چونکہ کورونا وائرس کا پہلا کیس فروری کے آخر اور اموات مارچ میں رپورٹ ہونا شروع ہوئیں اور اس ماہ جس شخصیت کا کورونا وائرس سے انتقال ہوا ان کا تعلق کھیل کے شعبہ سے تھا۔

اسکواش چیمپئن اعظم خان

اسکواش جس میں کئی مرتبہ چیمپیئن رہنے والے پاکستانی کھلاڑی اعظم خان اس عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے انتقال کرگئے۔

28 مارچ کو ان کے ٹوئٹر ہینڈل پر ایک پیغام لکھا گیا کہ ہم بھاری دل سے دنیا میں اسکواش سے پیار کرنے والوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ عظیم ورلڈ اسکواش چیمپیئن اعظم خان کووڈ 19 کا شکار ہوکر انتقال کرگئے۔

ان سے متعلق عرب خبررساں ادارے اردو نیوز نے ایک رپورٹ میں یہ بتایا تھا کہ وہ 4 مرتبہ اسکواش کے مقابلے برٹش اوپن میں پاکستان کا نام روشن کرچکے تھے۔

اعظم خان نے 1959 سے 1962 کے دوران 4 مرتبہ برٹش اسکواش چیمپیئن شپ جیتی تھی، ان کے بھائی ہاشم خان اور بیٹی بھی اسکواش کے کھلاڑی ہیں۔

پاکستان کے یہ مایہ ناز کھلاڑی لندن میں مقیم تھے جنہیں انتقال سے ایک ہفتے قبل سانس لینے میں مشکلات کے باعث ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔

کورونا وائرس سے متاثر ہوکر اگلی جس شخصیت کا انتقال ہوا ان کا تعلق بھی کھیل کے شعبے ہی سے تھا۔

کرکٹر ظفر سرفراز

ظفر سرفراز پہلے پاکستانی کرکٹر تھے جو کورونا وائرس کا شکار ہو کر انتقال کرگئے۔

50 سالہ کرکٹر سرفراز ظفر کو اپریل کے اوائل میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہوئی تھیں جس کے بعد انہیں خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں داخل کروایا گیا تھا۔

جہاں وہ کچھ روز تک زیر علاج رہے تاہم 13 اپریل کو کو ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی اور وہ جانبر نہ ہوسکے۔

ہسپتال کے ترجمان نے بتایا تھا کہ انہیں حالت خراب ہونے پر انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں منتقل کیا گیا تھا، جہاں ان کا انتقال ہوا۔

30 اکتوبر 1969 کو پیدا ہونے والے ظفر سرفراز ایک مڈل آرڈر بلے باز تھے جنہوں نے پشاور میں فرسٹ کلاس کھیلوں میں حصہ لیا تھا اور وہ 1994 میں ریٹائر ہوگئے تھے۔

50 سالہ کرکٹر نے اپنے کیریئر میں 15 فرسٹ کلاس اور 6 لسٹ اے میچز کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

اسی ماہ کورونا وائرس سے زندگی کی بازی ہارنے والی اگلی شخصیت کا تعلق شعبہ صحافت سے رہا تھا۔

صحافی ظفر رشید

سرکاری خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے سابق چیف رپورٹر اور اے پی پی ملازمین یونین کے سابق صدر ظفر رشید بھٹی کورونا وائرس کا شکار ہوکر انتقال کرگئے۔

ظفر رشید بھٹی گزشتہ کئی برسوں سے تبلیغی جماعت کے متحرک رکن تھے اور تبلیغ کے سلسلے میں اپنے آخری سفر کے دوران مبینہ طور پر اس وائرس کا شکار ہوگئے تھے۔

سابق چیف رپورٹر اے پی پی ظفر رشید میں وفات سے ایک ماہ قبل کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہوئی تھیں جس کے بعد انہیں راولپنڈی کے قرنطینہ سینٹر منتقل کیا گیا تھا۔

اگر ظفر رشید کی بات کریں تو وہ 1984 میں اے پی پی کا حصہ بنے تھے اور 2010 تک اسی نیوز ایجنسی میں خدمات انجام دی تھیں۔

یہی نہیں بلکہ وہ نوائے وقت اور پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) سمیت کئی خبررساں تنظیموں اور اداروں سے وابستہ رہے تھے۔

ان کے انتقال پر مختلف سیاسی شخصیات نے تعزیت کا اظہار بھی کیا تھا۔

کورونا وائرس کے آنے کے ساتھ ہی جوں جوں وقت گزرتا رہا ملک میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا جانے لگا اور ہسپتالوں میں بستروں کی تعداد کم پڑنے سے بھی متعدد افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔

ڈاکٹر فرقان

اسی طرح کا ایک واقعہ کراچی میں بھی پیش آیا جہاں کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز (کے آئی ایچ ڈی) کے سابق ڈاکٹر فرقان وائرس کا شکار ہو کر جاں بحق ہو گئے۔

ان کی موت سے متعلق پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے بتایا تھا کہ ڈاکٹر فرقان کو شہر کے کئی ہسپتالوں کا دورہ کرنے کے باوجود آئسولیشن وارڈ اور وینٹی لیٹر کی سہولت میسر نہ آ سکی تھی اور وہ دم توڑ گئے تھے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ کہ گلش اقبال بلاک 2 کے رہائشی ڈاکٹر فرقان میں موت سے چار دن قبل وائرس کی تشخیص ہوئی تھی اور ان کی اہلیہ کا بھی کورونا کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔

ان کے مطابق ڈاکٹر فرقان کو سانس لینے میں شدید دشواری پیش آرہی تھی اور انہوں نے ہسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں داخل ہونے کی بھی بہت کوشش کی لیکن انہیں کہیں داخل نہیں کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر قیصر نے بتایا تھا کہ ڈاکٹر فرقان نے اپنی آواز موبائل پر ریکارڈ کر لی تھی جس میں وہ ایمبولینس ڈرائیور کو وینٹی لیٹر کا بندوبست کرنے کا کہہ رہے تھے لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا تھا۔

مذکورہ واقعے پر حکومت سندھ نے تحقیقات کے لیے کمیٹی بنا کر اسے 24 گھنٹے میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

جس کے بعد ڈاکٹر فرقان الحق کی موت کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ سول ہسپتال کے ایک میڈیکل افسر کا ’غلط اندازہ‘ موت کی وجہ بنا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سول ہسپتال کراچی میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر، جس نے مریض کا معائنہ کیا تھا، غفلت دکھائی اور آئی سی یو میں 9 بیڈ موجود ہونے کے باوجود انہیں ایڈمٹ نہیں کیا گیا۔

تاہم رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ابتدا میں ڈاکٹر فرقان کسی بھی ہسپتال میں داخل ہونے سے گریز کررہے تھے۔

میجر محمد اصغر

11 مئی کو کورونا وائرس سے زندگی کی بازی ہارنے والے میجر محمد اصغر تھے، جو فرائض منصبی کے دوران اس وائرس کا شکار ہوئے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے بتایا کہ میجر محمد اصغر طور خم بارڈر ٹرمینل پر اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔

10مئی کو میجر اصغر کو اچانک سینے میں تکلیف محسوس ہوئی تھی جس کے بعد انہیں علاج کے لیے سی ایم ایچ پشاور منتقل کیا گیا تھا۔

جس کے بعد حالت بگڑنے پر انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا لیکن ان کی حالت نہ سنبھل سکی اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے، میجر محمد اصغر کراچی کے رہائشی تھے۔

رکن اسمبلی شاہین رضا

اسی ماہ کی 20 تاریخ کو حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رکن پنجاب اسمبلی شاہین رضا کورونا وائرس کا شکار ہو کر انتقال کر گئیں۔

60 سالہ شاہین رضا کو علیل ہونے پر 17 مئی کو پہلے گوجرانوالہ کے سول ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا تاہم طبیعت بگڑنے پر انہیں لاہور کے میو ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

خاتون رکن اسمبلی کی میو ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر زیرعلاج تھی، جو وہاں سے واپس نہ آسکیں اور خالق حقیقی سے جاملیں۔

ان کا علاج کرنے والے معالجین نے بتایا تھا کہ مرحومہ کو ذیابیطس اور فشار خون کا عارضہ بھی لاحق تھا۔

شاہین رضا کے انتقال پر وزیراعظم پاکستان عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار و دیگر شخصیات نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار اور ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی تھی۔

شاہین رضا 2018 میں ضلع گوجرانوالہ سے صوبائی اسمبلی میں خواتین کے لیے مخصوص نشست پر ایم پی اے منتخب ہوئی تھیں اور گزشتہ کئی سال سے پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ اور متحرک تھیں۔

سابق گورنر فیصل آغا

ان کے انتقال کے اگلے روز ہی کورونا وائرس کا شکار ہونے والی ایک اور شخصیت بلوچستان کے سابق گورنر سید فضل آغا دوران علاج دم توڑ گئے۔

سید فضل آغا موجودہ بلوچستان اسمبلی کے رکن بھی تھے جن میں کورونا کی تشخیص کے بعد انہیں علاج کے لیے کراچی منتقل کیا گیا تھا، تاہم وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔

وہ جمیعت علمائے اسلام (ف) سے وابستہ تھے اور 1997 سے 1999 تک بلوچستان کے گورنر بھی رہے تھے جبکہ 80 کی دہائی کے آخر میں سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین کے فرائض بھی انجام دیے تھے۔

ملک میں اس عالمی وبا کے بعد سے اگر اب تک کوئی مہینہ سب سے زیادہ متاثر رہا ہے تو وہ جون کا ہے اور اس ماہ کے دوران یومیہ کیسز کی تعداد نہ صرف 6 ہزار سے زائد ہوگئی تھی بلکہ اموات بھی روزانہ 100 سے زیادہ رپورٹ ہورہی تھیں۔

اس مہینے میں ہر روز کسی نہ کسی کے انتقال کی خبریں نہ صرف قومی سطح پر بلکہ ذاتی حلقہ احباب میں بھی سننے کو مل رہی تھی اور کورونا وائرس کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔

صوبائی وزیر غلام بلوچ

جون کے آغاز سے ہی افسوس ناک خبروں میں مزید تیزی آگئی اور 2 جون کو سندھ کے وزیر انسانی تصفیہ غلام مرتضیٰ بلوچ کورونا وائرس کا شکار ہونے کے چند روز بعد انتقال کر گئے۔

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ان کی وفات کی تصدیق کی اور کہا کہ مرتضیٰ بلوچ کا انتقال کورونا کے باعث ہوا، وہ ایک محنتی اور بہادر پارٹی رہنما تھے اور ان کی کمی کو پورا کرنا بہت مشکل ہے۔

سیاستدان جمشید کاکا خیل

3 جون کو حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی اور سابق وزیر ایکسائز خیبرپختونخوا جمشید اللہ کاکا خیل اس عالمی وبا کا شکار بن گئے۔

ان کے خاندانی ذرائع نے بتایا تھا کہ ان کا کورونا وائرس ٹیسٹ مثبت آیا اور طبیعت خرابی پر انہیں ہسپتال میں داخل کروایا گیا تھا۔

ان کے انتقال پر خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان نے افسوس کا اظہار بھی کیا تھا۔

علامہ طالب جوہری

اسی ماہ کے دوران جہان فانی سے کوچ کرنے والی شخصیات میں سے ایک معروف شیعہ عالم اور ذاکر طالب جوہری بھی تھے۔

23 جون کو دنیا سے رخصت ہونے والے علامہ طالب جوہری 15 روز ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں زیر علاج رہے اور 80 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔

ان کی وفات پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان اور دیگر اہم شخصیات نے افسوس کا اظہار کیا اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔

اگرچہ ان کی موت کی وجوہات سے متعلق باضابطہ طور پر نہیں بتایا گیا تھا تاہم دو روز بعد سندھ اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران وزیراعلیٰ سندھ نے یہ دعویٰ کیا کہ علامہ طالب جوہری کی موت کورونا وائرس کے باعث ہوئی۔

سندھ اسمبلی کے فلور پر خطاب میں مراد علی شاہ نے کہا تھا کہ علامہ طالب جوہری کا کورونا وائرس کے باعث انتقال ہوا تھا، کیا ہم اسی طرح اپنے اثاثے گنوادیں گے۔

صحافی اے ٹی نظامی

جون کے مہینے میں ہی جس چوتھی شخصیت کا انتقال کورونا وائرس کی وجہ سے ہوا ان کا تعلق شعبہ صحافت سے تھا۔

کورونا وائرس کے دوران جہاں ڈاکٹر، پیرامیڈکس، سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اپنی فرائض کی انجام دہی میں آگے آگے رہے وہیں صحافیوں کی جانب سے بھی عوام کو معلومات فراہم کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی اور اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران متعدد صحافی کورونا وائرس کا شکار ہوئے، جن میں سے کچھ جانبر نہ ہوسکے۔

25 جون کو معروف صحافی ابو طالب نظامی جو اے ٹی نظامی کے نام سے جانے جاتے تھے کورونا وائرس کے باعث انتقال کرگئے۔

88 سالہ صحافی کے انتقال سے متعلق ان کی بیوہ نزہت نظامی نے بتایا تھا کہ چند روز قبل ان کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا اور وہ گھر میں خود ساختہ قرنطینہ میں تھے۔

تاہم وہاں اچانک ان کی طبعیت بگڑی اور وہ جانبر نہ ہوسکے۔

اے ٹی نظامی نے کئی اخبارات میں سینئر عہدوں پر کام کیا تھا اور وہ ڈان میڈیا گروپ کے روزنامہ حریت کے سٹی ایڈیٹر بھی رہے۔

اگرچہ جون کے بعد کورونا وائرس کے یومیہ کیسز اور اموات کچھ حد تک کم ہوئیں تاہم لوگوں کے دنیا سے رخصت ہونے کا سلسلہ جاری رہا اور اس ماہ شعبہ تعلیم اور میڈیکل سے وابستہ ایک استاد سیکڑوں لوگوں کو اداس چھوڑ گئے۔

وائس چانسلر مصطفیٰ کمال پاشا

15 جولائی کو معروف سرجن اور ملتان کی نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مصطفیٰ کمال پاشا ایک ماہ تک کورونا وائرس کا شکار رہنے کے بعد انتقال کرگئے۔

ان سے متعلق نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے پرنسپل ڈاکٹر افتخار نے بتایا کہ ڈاکٹر مصطفیٰ کمال پاشا میں 14 جون کو کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی جس کے بعد وہ چوہدری پرویز الٰہی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی میں زیر علاج تھے، تاہم انہیں 6 جولائی کو وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا تھا، جس کے بعد وہ 15 جولائی کو جہان فانی سے کوچ کرگئے۔

ڈاکٹر مصطفیٰ کمال کے انتقال پر وزیراعظم عمران خان نے بھی ٹوئٹ کی اور اہل خانہ سے ہمدردی کا بھی اظہار کیا تھا۔

نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے انتقال کے روز سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں علاج کے دوران مصطفیٰ کمال پاشا کو یہ کہتے ہوئے دیکھا گیا کہ وہ آئیسولیشن میں ہیں اور جلد صحتیاب ہوجائیں گے۔

تاہم کورونا وائرس ان کی موت کا سبب بن گیا۔

اگست کے مہینے میں اگرچہ صورتحال قدر بہتر ہوگئی تھی اور کورونا کی وجہ سے عائد پابندیوں کو بھی نرم کردیا گیا تھا، لہٰذا یہ مہینہ اس اعتبار سے بہتر رہا کہ اس میں کوئی ایس معروف شخصیت یا سیاست دان کے انتقال کی اطلاع نہیں ملی۔

ماہ ستمبر میں بھی اگرچہ وائرس کا پھیلاؤ نسبتاً کم تھا تاہم اس ماہ بھی کورونا وائرس سے اموات کا سلسلہ جاری رہا اور مختلف افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔

اداکار مرزا شاہی

انہی میں سے ایک پاکستانی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کے نامور اور سینئر اداکار مرزا شاہی بھی تھے۔

ان کا اصل نام مرزا اصغر بیگ ہے، تاہم انہوں نے شوبز انڈسٹری میں مرزا شاہی کے نام سے مقبولیت حاصل کی۔

راقم السطور سمیت متعدد نوجوانوں کے پسندیدہ اداکاروں میں سے چچا کمال یعنی کہ مرزا شاہی کے بارے میں ان کے خاندانی ذرائع نے یہ بتایا تھا کہ وہ کچھ روز قبل کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے جس کے بعد انہیں کراچی کے سول ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

سول ہسپتال میں زیرعلاج رہنے کے دوران ہی ان کی طبعیت اچانک بگڑی اور انہیں وینٹی لیٹر پر متنقل کیا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہوسکے۔

ان کی اداکاری کے کیریئر پر اگر ایک نظر دوڑائیں تو انہوں نے 1965 میں پاکستانی فلم ’بہانا‘ کے ایک گانے میں پرفارم کر کے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔

جس کے بعد فلم ’چکوری‘ ہو یا ’چھوٹے صاحب‘ یا نوکر وٹی دا، میں مرزا شاہی نے اپنی اداکاری سے پرستاروں کو محظوظ کیا۔

تاہم حالیہ عرصوں میں ان کی مقبولیت کی وجہ جیو ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والا کامیڈی ڈارمہ ’نادانیاں‘ بنا جس میں انہوں نے چچا کمال کا کردار بخوبی نبھایا جسے بے حد پسند کیا گیا۔

یہی نہیں بلکہ لیجنڈ اداکار معین اختر کے ساتھ بھی ان کا ڈرامہ عید ٹرین بھی کافی مقبول ہوا، اس کے علاوہ انہوں نے دیگر ڈراموں میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔

سیاستدان جعفر شاہ

سال کے 10ویں مہینے میں کورونا وائرس سے انتقال کرنے والی سیاسی شخصیات میں سے ایک پاکستان تحریک انصاف کے گلگت بلتستان کے صدر اور سینئر سیاست دان سید جعفر شاہ بھی تھے۔

75 سالہ سید جعفر شاہ 11 اکتوبر کو کورونا وائرس کے باعث اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں انتقال کرگئے تھے۔

وہ ایک ماہ تک کورونا وائرس کا شکار رہے تھے تاہم انتقال سے 2 روز قبل ان کی طبیعت اچانک خراب ہوئی تھی کیونکہ ان کے پھیپھڑے اور دل متاثر ہوگئے تھے۔

سید جعفر شاہ 3 بار شمالی علاقہ جات کونسل کے رکن منتخب ہوئے تھے، انہوں نے 80 کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں شمولیت اختیار کی تھی، 2012 سے 2015 تک پارٹی کے صدر رہے تھے جبکہ 2012 سے 2016 تک گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ میں جج بھی رہے۔

مزید یہ کہ جج کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی جس کے بعد انہیں 2019 میں گلگت بلتستان میں پارٹی صدر بنادیا گیا تھا۔

صوبائی معاون راشد ربانی

کورونا وائرس کی اس وبا کے دوران اگلی سیاسی شخصیات جو اس دنیا سے رخصت ہوئیں وہ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما راشد ربانی کی تھی۔

راشد ربانی اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے معاون خصوصی بھی تھے۔

انہیں کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد کراچی کے مقامی ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا جہاں حالت بگڑنے کے باعث وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا تھا اور کئی روز زیر علاج رہنے کے بعد انتقال کر گئے۔

راشد ربانی کے انتقال پر چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے 3 روزہ سوگ کا اعلان بھی کیا تھا۔

یہی نہیں بلکہ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ راشد ربانی آمروں کے خلاف جدوجہد میں صفِ اول کے سپاہی تھے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، پارٹی قیادت اور کارکنان کو راشد ربانی ہمیشہ یاد رہیں گے۔

کورونا وائرس کے کیسز ایک مرتبہ پھر تیزی کی طرف بڑھ رہے تھے اور ملک میں اس عالمی وبا کی دوسری لہر کے آنے سے اموات بھی بڑھنے لگی تھی۔

نومبر میں یکے بعد دیگرے جج، سیاستدان اور صحافی کورونا وائرس کا شکار ہوئے اور یہ مہینہ گزشتہ ماہ کے مقابلے میں زیادہ اموات والا رہا۔

چیف جسٹس وقار سیٹھ

12 نومبر کو پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کورونا وائرس کے باعث انتقال کرگئے۔

ان کے پروٹوکول افسر نے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے یہ بتایا کہ چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی طبیعت کچھ روز سے خراب تھی اور وہ اسلام آباد کے کلثوم انٹرنیشنل ہسپتال میں زیر علاج تھے۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ میں 22 اکتوبر کو کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی اور ابتدا میں وہ پشاور کے ہسپتال میں زیر علاج رہے تھے تاہم پھر انہیں اسلام آباد منتقل کردیا گیا تھا۔

ان کے انتقال پر وزیراعظم، آرمی چیف و دیگر شخصیات نے بھی اظہار افسوس کیا تھا۔

پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اس لیے بھی خبروں کی زینت بنے تھے کہ وہ اس 3 رکنی بینچ کے سربراہ تھے جنہوں نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی تھی۔

انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ ’اگر پرویز مشرف سزا سے پہلے فوت ہوجاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے'۔

1985 سے عملی وکالت میں آنے والے جسٹس وقار احمد سیٹھ جون 2018 میں پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے تھے اور تقریباً ڈھائی سال بعد اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے۔

رکن اسمبلی جام مدد علی

جسٹس وقار کے انتقال کے اگلے روز ہی یعنی 13 نومبر کو پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن سندھ اسمبلی جام مدد علی کورونا وائرس کی وجہ سے انتقال کرگئے۔

ان کے حوالے سے پارٹی رہنماؤں اور قریبی دوستوں نے بتایا تھا کہ 15 روز قبل کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے، جس پر انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ دم توڑ گئے۔

ان کے انتقال پر گورنر اور وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے تعزیت کا اظہار کیا گیا تھا اور مراد علی شاہ نے انہیں ایک بہترین انسان اور اچھا دوست قرار دیا تھا۔

جام مدد علی 2002، 2008 اور 2013 کے انتخابات میں فنکشنل لیگ کے ٹکٹ پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

وہ 2008 سے 2011 تک سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف رہے جبکہ 2017 میں انہوں نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی اور سانگھڑ کے صوبائی اسمبلی کے حلقے 43 سے رکن منتخب ہوئے تھے۔

صحافی ارشد وحید چوہدری

نومبر کے مہینے میں جو اگلی شخصیت کورونا وائرس کے باعث انتقال کرگئی وہ سینئر صحافی ارشد وحید چوہدری تھے۔

ارشد وحید چوہدری نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ کے سینئر رپورٹر تھے اور وہ اسی چینل پر ’جیو پارلیمنٹ‘ پروگرام کے میزبان بھی تھے جبکہ سیاسی و صحافی حلقوں میں معروف تھے۔

سینئر صحافی میں کورونا وائرس کی تشخیص انتقال سے چند روز قبل ہوئی تھی اور وہ اسلام آباد میں زیر علاج تھے۔

دوران علاج طبعیت خراب ہونے پر انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا تھا، جہاں وہ جانبر نہ ہوسکے۔

ارشد وحید چوہدری نہ صرف جیو سے وابستہ تھے بلکہ وہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے نائب صدر بھی تھے۔

ان کے انتقال پر حلقہ سیاست و صحافت سے وابستہ افراد کی جانب سےا ظہار تعزیت کیا گیا تھا۔

اس سال کا آخری مہینہ بھی بہت سے لوگوں کے لیے غمی کا باعث بنا اور اس میں بھی کئی لوگ اپنے پیاروں سے محروم ہوگئے۔

سابق جج ارشد ملک

مہینے کے اوائل میں ہی اسلام آباد سے سابق جج ارشد ملک کے کورونا وائرس سے انتقال کی خبر سامنے آئی۔

ارشد ملک وہی جج تھے جنہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنائی تھی۔

سابق جج کے بہنوئی نے ان کی موت کی تصدیق کی تھی اور یہ بتایا تھا کہ ارشد ملک گزشتہ 25 روز سے اسلام آباد کے شفا ہسپتال میں زیر علاج تھے۔

تاہم انہیں حالت بگڑنے پر وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا تھا، جہاں سے وہ واپس نہ آسکے۔

نواز شریف کو سزا سنانے والے ارشد ملک سے متعلق ان کی زندگی میں ہی ایک تنازع سامنے آیا تھا۔

انہوں نے 4 دسمبر 2018 کو العزیزیہ اسٹیل ملز کرپشن ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹس سے متعلق دوسرے ریفرنس میں بری کردیا تھا۔

تاہم 6 جولائی 2019 کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔

ویڈیو میں ارشد ملک کو اعتراف کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ سابق وزیراعظم نواز کو العزیزیہ ریفرنس میں 'دباؤ اور بلیک میل' ہوکر سزا سنائی اور نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔

بعد ازاں معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے آیا تھا جنہوں نے ارشد ملک کو کام سے روکتے ہوئے لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کو کہا تھا۔

اگرچہ ارشد ملک نے ایک بیان حلفی میں ویڈیو میں لگائے گئے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔

تاہم لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ارشد ملک کو سیشن کورٹ میں او ایس ڈی تعینات کیا تھا، مزید یہ ان کے معاملے پر انکوائری بھی کی گئی تھی جس کی رپورٹ آنے پر 3 جولائی 2020 کو لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی نے انہیں عہدے سے برطرف کردیا تھا۔

عالم دین زرولی خان

دسمبر میں کورونا وائرس سے انتقال کرنے والی اگلی شخصیت کا نام مفتی زرولی خان تھا۔

ممتاز عالم دین اور جامعہ احسن العلوم کراچی کے مہتمم شیخ الحدیث و التفسیر مفتی زر ولی خان کے انتقال کی تصدیق 8 دسمبر کو کی گئی۔

ترجمان انڈس ہسپتال کے مطابق مفتی زر ولی خان کورونا کے سبب ہسپتال میں زیر علاج تھے، جہاں ان کا انتقال ہوا۔

تاہم جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال کے ترجمان نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ مفتی زر ولی خان کا انتقال کورونا وائرس کے باعث نہیں ہوا، ان کو ہر سال کی طرح اس بار بھی موسم سرما میں سانس کی تکلیف کی وجہ سے دو دن قبل ہسپتال داخل کیا گیا تھا۔

معروف عالم دین نے 1978 میں دینی درسگاہ جامعہ احسن العلوم قائم کی تھی اور اپنی پوری زندگی درس و تدریس سے وابستہ رہے تھے۔

آپ کئی کتب کے مصنف، ہزاروں علما کے استاد، درس تفسیر و حدیث میں منفرد مقام رکھنے والے تھے اور آپ سے استفادہ کے لیے ملک بھر سے طلبہ آتے تھے۔

سینیٹر کلثوم پروین

سال کے آخری 10 روز میں کورونا وائرس سے انتقال کرنے والی خاتون کا تعلق حلقہ سیاست سے تھا۔

21 دسمبر کو مسلم لیگ (ن) بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سینیٹر کلثوم پروین کے کورونا وائرس سے انتقال کی خبر سامنے آئی۔

وہ کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد ہسپتال میں زیر علاج تھیں اور بعد ازاں وینٹی لیٹر پر تھیں۔

ان کے انتقال پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا تھا۔