پاکستان کرکٹ ٹیم ان دنوں نیوزی لینڈ کے دورے پر ہے جہاں اس کو ٹی20 سیریز میں شکست کے بعد اب 2 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز کے پہلے میچ میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
اس سیریز کا نتیجہ کیا ہوگا یہ تو آنے والے دنوں میں سامنے آہی جائے گا لیکن اگر دونوں ٹیموں کا موازنہ کیا جائے تو نیوزی لینڈ کی ٹیم اس سیریز میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے فیورٹ ہے۔ اگر میزبان ٹیم یہ سیریز جیت گئی تو یہ پہلا موقع ہوگا کہ نیوزی لینڈ اپنے ملک میں پاکستان کے خلاف مسلسل 2 سیریز میں کامیاب ہو۔
پاکستان نے ملک کے اندر اور ملک سے باہر اپنی تاریخ کی اوّلین ٹیسٹ سیریز نیوزی لینڈ کے خلاف جیتی تھی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے 65ء-1964ء میں پہلی مرتبہ نیوزی لینڈ کا دورہ کیا تھا۔ یہ وہ ملک ہے جہاں پاکستان کی فتح کا تناسب میزبان ٹیم سے بہتر ہے۔ پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لیے پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہونے والے ماضی کے کچھ دلچسپ اور تاریخی مقابلوں کا احوال پیش کر رہے ہیں۔
پاکستان کی ملک سے باہر ٹیسٹ سیریز میں پہلی فتح
پاکستان کرکٹ ٹیم 73ء-1972ء کے سیزن میں 3 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز کھیلنے نیوزی لینڈ پہنچی۔ اس سیریز کے تمام میچ 4 دن کے دورانیے کے تھے۔ اس دورے کا اوّلین ٹیسٹ میچ ہار جیت کی فیصلے کے بغیر ختم ہوا۔ سیریز کا دوسرا ٹیسٹ نیوزی لینڈ کے شہر ڈنیڈن میں کھیلا گیا جس میں قومی ٹیم کے کپتان انتخاب عالم نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔
پاکستان نے پہلی اننگ میں مشتاق محمد کی ڈبل سنچری اور آصف اقبال کی سنچری کی بدولت 6 وکٹوں کے نقصان پر 507 رنز بنا کر اننگ ڈیکلیئر کردی۔ اس اننگ میں آصف اقبال اور مشتاق محمد نے 350 رنز کی شراکت قائم کرکے پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں چوتھی وکٹ کی سب سے بڑی شراکت کا ریکارڈ قائم کردیا۔ 47 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ ریکارڈ آج بھی قائم ہے۔
جواب میں نیوزی لینڈ کی ٹیم انتخاب عالم کی تباہ کن باؤلنگ کے باعث اپنی پہلی اننگ میں صرف 156 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔ فالو آن کے بعد نیوزی لینڈ نے جب اپنی دوسری اننگ کا آغاز کیا تو اس بار ان کو انتخاب عالم کے ساتھ ساتھ مشتاق محمد کی لیگ اسپن باؤلنگ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ دوسری اننگ میں ان دونوں لیگ اسپنرز نے مجموعی طور پر 9 وکٹیں حاصل کیں اور قومی ٹیم کو اس ٹیسٹ میچ میں ایک اننگز اور 166 رنز کے مارجن سے فتح دلوادی۔
اس میچ میں مشتاق محمد ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے دوسرے کھلاڑی بن گئے جنہوں نے ایک ہی ٹیسٹ میں 200 رنز کی اننگ کھیلنے کے ساتھ ساتھ 5 وکٹیں لینے کا کارنامہ بھی انجام دیا ہو۔
اس سیریز کا تیسرا اور آخری مقابلہ آکلینڈ کے مقام پر کھیلا گیا اور وہ بھی ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوا، یوں پاکستان نے دوسرے ٹیسٹ میچ میں کامیابی کی بدولت یہ سیریز 0-1 سے جیت کر ملک سے باہر اپنی پہلی ٹیسٹ سیریز جیت لی۔
اس سیریز کے تیسرے میچ میں نیوزی لینڈ کی پہلی اننگ میں برائن ہیسٹنگز اور رچرڈز کولن نے 10ویں وکٹ کے لیے 151 نز بناکر نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اس ریکارڈ کو 24 سال بعد اظہر محمود اور مشتاق احمد نے جنوبی افریقہ کے خلاف برابر کیا جبکہ جوئے روٹ اور جیمس اینڈرسن نے 2014ء میں بھارت کے خلاف 198 رنز بناکر یہ ریکارڈ توڑ ڈالا۔
اس دورے کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ دونوں ٹیموں کے درمیان پہلی مرتبہ بین الاقوامی ایک روزہ میچ کھیلا گیا جس میں نیوزی لینڈ کو 22 سے کامیابی ملی۔
وسیم اکرم کی دریافت
85ء-1984ء کے سیزن میں قومی ٹیم جاوید میانداد کی قیادت میں ایک مرتبہ پھر 3 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل ٹیسٹ سیریز کھیلنے نیوزی لینڈ پہنچی۔ اس سیریز کی خاص بات ایک نوجوان باؤلر کی شمولیت تھی۔ یہ دبلا پتلا نوجوان چند مہینے قبل دورہ پاکستان کے لیے آئی ہوئی نیوزی لینڈ کی ٹیم کے خلاف سائیڈ میچ میں شاندار کارکردگی دکھانے کی وجہ سے دورہ نیوزی لینڈ کے لیے منتخب ہوا۔
اس دورے کا پہلا ٹیسٹ ویلنگٹن میں کھیلا گیا جو ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوا۔ آکلینڈ میں کھیلے گئے دوسرے میچ میں قومی ٹیم کو یکطرفہ مقابلے کے بعد ایک اننگز اور 99 رنز سے شکست ہوئی۔ یہ ٹیسٹ وسیم اکرم کے زبردست کیریئر کا پہلا میچ تھا جس میں انہوں نے صرف 2 وکٹیں ہی حاصل کیں۔
سیریز کا تیسرا ٹیسٹ میچ ڈنیڈن کے مقام پر کھیلا گیا۔ اس میچ میں نیوزی لینڈ کے کپتان نے ٹاس جیت کر پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ پاکستانی ٹیم پہلی اننگ میں قاسم عمر اور جاوید میانداد کی نصف سنچریوں کی بدولت 274 رنز بنانے میں کامیاب رہی۔ جواب میں نیوزی لینڈ کی ٹیم اپنی پہلی اننگ میں 220 رنز ہی بنا پائی اور یوں قومی ٹیم کو 54 رنز کی برتری حاصل ہوگئی۔ اس اننگ کی خاص بات وسیم اکرم کی باؤلنگ رہی جنہوں نے پہلی مرتبہ 5 وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔