یہ نتائج ویکسینز کے لیے اچھی خبر ہیں جو اینٹی باڈیز بناکر مدافعتی نظام کو متحرک کرسکیں گی۔
یو ایس نیشنل کینسر انسٹیٹوٹ کے محققین نے دریافت کیا کہ بیماری کے نتیجے میں جسم میں بننے والی اینٹی باڈیز سے لوگوں کے لیے خطرہ کم ہوتا ہے اور اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اس طرح کا تحفظ ایک موثر ویکسین سے بھی مل سکے گا۔
یو ایس نیشنل کینسر انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نیڈ شارپ لیس نے بتایا 'نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ایک بار اس بیماری کے شکار ہونے کے بعد ری انفیکشن کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے'۔
ان دونوں تحقیقی رپورٹس میں 2 اقسام کے ٹیسٹوں کو استعمال کیا گیا تھا، ایک میں خون میں اینٹی باڈیز کو ٹیسٹ کیا گیا، جو بیماری کے کی ماہ بعد جسم میں موجود ہوتی ہیں۔
دوسرے ٹیسٹ میں پی سی آر یا دیگر کے ذریعے نمونوں حاصل کرکے جسم میں وائرس کی موجودگی کو جاننے کی کوشش کی گئی۔
پہلی تحقیق طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع ہوئی، جس میں آکسفورڈ یونیورسٹی ہاسپٹلز کے 12 ہزار سے زائد طبی ورکرز کو شامل کیا گیا تھا۔
ان میں سے 1265 میں کورونا وائرس اینٹی باڈیز کو 6 ماہ بعد دریافت کیا گیا جبکہ صرف 2 میں وائرس کا ٹیسٹ مثبت رہا، تاہم ان میں بھی علامات سامنے نہیں آئیں۔
دوسری تحقیق امریکا کے نیشنل کینسر انسٹیٹوٹ کی تھی ج میں 30 لاکھ سے زائد افراد کو شامل کیا تھا، جن کی جانب سے امریکا کی 2 پرائیویٹ لیبارٹریز سے اینٹی باڈی ٹیسٹ کرائے گئے تھے۔
ان میں سے صرف 0.3 فیصد ایسے تھے جن میں ابتدا میں اینٹی باڈیز کو دیکھا گیا مگر بعد میں کورونا وائرس کی موجودگی ثابت ہوئی۔
ڈاکٹر نیڈ شارپ لیس نے اس حوالے سے کہا 'یہ بہت اطمینان بخش ہے کہ ہماری طرح آکسفورڈ کے محققین نے بھی دوبارہ بیماری کے خطرے میں اتنی ہی کمی کو دریافت کیا، درحقیقت اگر اینٹی باڈیز موجود رہیں تو ری انفیکشن کا خطرہ 10 گنا کم ہوجاتا ہے'۔
ان کے اندر کی جانب سے تحقیق کے نتائج طبی جریدے کی بجائے ویب سائٹ پر جاری کیے گئے۔
امریکا کے سینٹ جوڈ چلڈرنز ریسرچ ہاسپٹل کے وبائی امراض کے ماہر جوشوا وولف نے کہا 'نتائج حیران کن نہیں، مگر اس سے یقین دہانی ہوتی ہے کہ وائرس سے متاثر ہونے کے بعد اس کے خلاف مدافعت عام ہوتی ہے'۔
انہوں نے کہا اینٹی باڈیز بذات خود تحفظ فراہم نہیں کرسکتیں، مگر اس سے اشاترہ ملتا ہے کہ مدافعتی نظام کے دیگر حصے جیسے ٹی سیلز وائرس کے کسی بھی نئے حملے سے لڑنے کے کے قابل ہیں۔