سال 2020ء پاکستانی فلمی صنعت کے لیے کیسا رہا؟
پوری دنیا میں تمام شعبہ ہائے زندگی کورونا کی وبا سے متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بھی دیگر بہت سارے شعبوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی فلمی صنعت پر بھی وبائی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ رواں برس 2020ء میں صرف ایک پاکستانی فلم سنیماؤں میں نمائش کے لیے پیش ہوئی، جبکہ میرے لکھے ہوئے گزشتہ فلمی سالنامے کے مطابق کئی درجن فلموں کی نمائش متوقع تھی۔
آپ کے ذہن میں اگر یہ سوال ابھر رہا ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت کی موجودہ ابتری اور زوال کی وجہ کورونا کی وبا ہے تو جواب نفی میں ہے۔ اس بحرانی کیفیت اور فلمی صنعت کی تنزلی کی اصل وجوہات جاننے کے لیے ذرا تفصیل میں جانا پڑے گا۔
یہ الگ بات ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت کے تابوت میں آخری کیل کورونا کی وبا نے ٹھوکی ہے مگر اس زوال کی ابتدا کے پیچھے بہت سارے عوامل ہیں، بقول قابل اجمیری ’وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘۔
پاکستانی فلمی صنعت کا روشن ماضی
قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی ادوار میں 3 بڑے فلمی مراکز کراچی، لاہور اور ڈھاکہ تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں سالانہ 200 سے 250 فلمیں بنتی تھیں۔ اسکرینوں کی تعداد بھی 700 یا 800 سے زائد تھی، اور ہر بڑے چھوٹے شہر میں فلم کی نمائش کی سہولت موجود تھی اور پاکستانی معاشرے میں سنیما جاکر فلم دیکھنا ایک اہم ثقافتی سرگرمی تھی جس میں خاندان کے تمام افراد شریک ہوتے تھے۔
اس وقت کے فلم ساز بھی جہاں ایک طرف رومانوی اور ایکشن فلمیں تخلیق کرتے تھے وہیں دوسری طرف تہذیبی و ثقافتی اقدار کی حامل فلمیں بھی بنا کرتی تھیں۔ پاکستانی معاشرے کی طرح فلمی صنعت بھی توازن میں تھی۔
پھر پاکستان میں جمہوری روایات پر شب خون مارا گیا، مشرقی پاکستان الگ ہوا اور ایک فلمی مرکز ہاتھ سے چلا گیا۔ یکے بعد دیگرے مارشل لا لگائے گئے اور باقی 2 مراکز کا بھی ستیاناس ہوگیا۔ خاص طور پر جنرل ضیا کی آمریت نے پاکستانی فنون لطیفہ اور بالخصوص فلم کا بوریا بستر سمیٹ دیا۔
اس کی کچھ تلافی مشرف کے آمرانہ دور میں ہوئی مگر خسارہ زیادہ تھا اور وصولی انتہائی محدود تھی۔ نئی صدی کے آغاز پر فلم کی بحالی کا نعرہ لگایا گیا لیکن 20 سال گزر گئے پاکستانی سنیما کی بحالی ہوکر نہیں دے رہی۔ آمرانہ حکومتیں ہوں یا پھر جمہوری سرکار کسی کی بھی ترجیحات میں فلم کا شعبہ نہیں ہے، یہاں سے اندازہ لگائیے کہ ماضی میں فلمی صنعت کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک سرکاری ادارہ ’نیف ڈیک‘ بنایا گیا تھا مگر وہ بھی بند ہوگیا۔
پاکستان فلم پروڈیوسر ایسوسی ایشن کا کاغذی پھول
پاکستان میں ایک مرکزی فلم پروڈیوسر ایسوسی ایشن ہے جو صرف کاغذی پھولوں کی مانند ہے جس میں سے خوشبو کا آنا ممکن نہیں ہے۔ اس فلمی صنعت کی تنظیم بازی میں مختلف دھڑے آپس میں دست و گریباں ہیں۔ فلم کے زوال پر فکر اور اس کے حل کے لیے نہ پہلے کسی کی دلچسپی تھی اور نہ اب ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب ان کی لڑائی بڑھتے بڑھتے عدالت کے کٹہرے تک جاپہنچی ہے۔
اندازہ لگائیے کہ پاکستان فلم پروڈیوسر ایسوسی ایشن کا وفد اسلام آباد جاکر وزیرِاعظم پاکستان سے ملتا ہے اور وزیرِ اطلاعات فلمی صنعت پر کچھ بیان دیتے ہیں۔ پھر سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چوہدی بھی فلموں کے لیے پاکستانی ڈیجیٹل پورٹلز (او ٹی ٹی - OTT) پلیٹ فارم بنانے کی بات کرتے ہیں۔ اس بات کو کئی مہینے گزر گئے لیکن اس پر کتنا کام ہوا اس بارے میں کوئی خبر نہیں۔ ہر کوئی صرف زبانی جمع خرچ کرنے میں مصروف ہے۔ یہ منتشر خیالی کہاں فلمی صنعت کو یکجا کرپائے گی۔
فلمی صنعت میں ہُو کا عالم اور سکتے کی فضا
کورونا کے بعد پوری دنیا میں فلم کا منظرنامہ بدل گیا ہے مگر پاکستان میں ہُو کا عالم ہے۔ ایسا سناٹا ہے جیسے اس ملک میں کبھی فلمیں بنی ہی نہیں۔ اصل میں یہ سناٹے سے زیادہ سکتے والی کیفیت ہے۔
ہمارے پاکستانی فلم سازوں کے پاس کوئی ’پلان بی‘ نہیں ہوتا، اسی لیے جب ان کے ’پلان اے‘ پر کورونا نے جھاڑو پھیر دی اب تو ان کو سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کیا کریں۔ ایک عرصے تک پاکستانی مین اسٹریم نیوز چینلز بھی اس بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھوتے رہے، دوسروں کی فلموں پر اپنے نام کے ٹھپے لگا کر فلمیں ریلیز کرتے رہے، اب فلم سازوں کا ڈھول بھی خاموش ہے اور ان اکثریتی چینلوں کی بولتی بھی بند۔
یہ سب فلم کی بحالی میں اپنا عملی کردار نبھانے کا راگ الاپتے رہتے تھے۔ میں نے گزشتہ برس لکھے ہوئے سالنامے میں تفصیل سے بتا دیا تھا کہ ہماری فلمی صنعت دنیا میں ’جعلی باکس‘ رکھنے والی واحد فلمی صنعت ہے، تو یہ تنزلی اور سکتے کی کیفیت ایک دم نہیں آئی، اس کو کئی دہائیاں لگی ہیں۔
پاکستان میں ابتدائی طور پر، جب یہ ملک روشن خیال اقدار کا حامی تھا، تو یہاں فنونِ لطیفہ نے بھی انہی رجحانات کے ساتھ ترقی کی۔ فلمی صنعت میں بھی بے حد عمدہ کام ہوا، مگر پھر بات بگڑنے لگی۔ ماضی میں ہماری فلمیں پوری دنیا میں نمائش کے لیے پیش ہوتی تھیں، لیکن اب تو اپنے ملک میں ان کی نمائش زیادہ دنوں تک نہیں ہوسکتی، کیونکہ آج بھی پورا زور فارمولا فلمیں بنانے پر ہے۔
اس دور میں خاص طور پر کامیڈی فلموں کے فارمولے پر فلمیں ذوق و شوق سے بنائی گئیں لیکن ابتری کا سلسلہ ہے جو دراز ہوتے ہوتے یہاں تک آگیا ہے۔ آگے نظر نہیں آرہا کہ اس ملک میں کورونا ختم ہونے کے بعد بھی فلمیں ریلیز ہوں گی یا نہیں؟ بہت ساری وجوہات کے ساتھ اس کی ایک کلیدی وجہ بھی ہے، جس پر عام لوگوں کی نظر نہیں ہے اور وہی اصل وجہ ہے۔ جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
بدلتے ہوئے سنیما کا مستقبل ۔ ڈیجیٹیل پورٹلز (او ٹی ٹی)
ہولی وڈ، یورپی ممالک اور دنیا کے دیگر ممالک میں کورونا کے بعد فلم سازوں نے ڈیجٹیل اور آن لائن پلیٹ فارمز کا رخ کرلیا۔ ان کے لیے پیشہ وارانہ اصطلاح ’اوٹی ٹی‘ یعنی ’اُوور دی ٹاپ‘ استعمال ہوتی ہے، یعنی ویب سیریز اور فلموں کو ایک عام ناظر تک بذریعہ انٹرنیٹ پہنچا دیا جائے۔
اس نظام کے تحت امریکا اور بھارت سمیت بڑی فلمی صنعتوں نے اپنی فلموں اور ویب سیریز کو بغیر کسی انتظار کے ان پلیٹ فارمز پر ریلیز کرنا شروع کردیا۔ لطف کی بات یہ ہے، ناظرین جو کورونا کی وبا سے گھروں میں محدود تھے وہ اس سے خوب مستفید ہوئے۔ کئی ایک آن لائن پورٹل اب بہت مقبول ہوچکے ہیں ان میں پاکستان میں نیٹ فلیکس سرِفہرست ہے، جبکہ دنیا کے دیگر پورٹلز بھی رفتہ رفتہ مقبول ہو رہے ہیں۔ مگر اس پر پاکستانی فلمیں اور ڈرامے برائے نام ہیں۔ اب پاکستانیوں کو بھی ہوش آیا ہے کہ اس طرح کے پلیٹ فارمز بنانے چاہئیں۔
حکومتِ پاکستان نے بھی نیٹ فلیکس جیسے پورٹل کو بنانے کا اعلان کیا ہے، مگر یہ نہیں جانتے کہ ان کی مقبولیت یا فین فالوونگ میں اتنی جلدی کیسے اضافہ کریں گے کیونکہ وہ تو فلموں اور ویب سیریز کے نام پر بنتی ہے، جبکہ ان کا دامن تو خالی ہے۔ پھر ستم بالائے ستم دیکھیں کہ بڑے بڑے پروڈکشن ہاؤسز، میڈیا ہاؤسز اور فلم سازوں نے یوٹیوب کے ذریعے فلموں کو ریلیز کرنے کا بھی عندیہ دیا، یوں لگتا ہے ان میں سے اکثریت کو ابھی بھی سمجھ نہیں آیا کہ مستقبل کا سنیما مختلف ہوگا۔
زمانے کے انداز بدلے گئے لیکن ہنوز سکتے کا عالم ہے اور سب ٹامک ٹوئیاں مارنے میں مصروف ہیں۔ چاہے پاکستان میں سنیما ہال ہوں یا آن لائن پورٹل پورا سال گزر چکا ہے اور ہر طرف خاموشی ہے۔ آگے کافی عرصے تک سنیما آباد ہوتے دکھائی نہیں دے رہے چاہے کورونا کا دور ختم بھی ہوجائے۔ کیوں؟ اس کی وجہ جان لیجیے۔
پاکستان میں فلموں کی ترسیل و تشکیل کا انتظامی ڈھانچہ
پاکستان میں فلمی صنعت کا نظام اور اس کی ترسیل کا عمل کچھ یوں ہے کہ پاکستان میں کوئی فلم ساز فلم بناتا ہے، پھر وہ کسی ڈسٹری بیوٹر (فلمیں تقسیم کرنے والا ادارہ) کو دیتا ہے، وہ فلمیں خرید کر انہیں سنیما ہالز میں لگاتا ہے، ان میں اکثر سنیما ہالز کرائے پر ہوتے ہیں، وہ ان کو کرایہ ادا کرتا ہے۔ پھر سنیما ہال میں ملازمین کی تنخواہیں ان کرایوں سے نکلتی ہیں۔
یعنی پورا نظام کچھ یوں ہے کہ سنیما ہال کے مالک کو جو کرایہ ملتا ہے، اس سے وہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں دیتا ہے، ڈسٹری بیوٹر کو اپنا معاوضہ ملتا ہے، جبکہ فلم ساز کو اپنی رقم واپس ملتی ہے اور بعض اوقات منافع بھی۔
لیکن موجودہ صورتحال یہ ہے کورونا آنے سے کئی مہینے بلکہ تقریباً سال بھر کا کرایہ سنیما مالکان کو ادا نہیں کیا گیا تھا، پھر مارچ میں کورونا آگیا، کئی مہینے سنیمائوں کی بندش برقرار رہی، اب جب بالترتیب سماجی حالات معمول پر آرہے ہیں تو ایک ایک کرکے چیزیں کھل رہی ہیں، لیکن سنیما ہال اب بھی بند ہیں کیونکہ ان کے مالکان کو ڈسٹری بیوٹرز نے کورونا سے پہلے کے واجبات ادا نہیں کیے پھر مالکان نے انہی واجبات میں کورونا کا عرصہ بھی شامل کردیا، جس پر ڈسٹری بیوٹرز راضی نہیں ہیں۔
اب دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سنیما ہالز بدستور بند ہیں۔ سنیما مالکان کو کرایہ نہیں ملا، ڈسٹری بیوٹر کو فلم ساز کی طرف سے معاوضہ نہیں ملا، فلم ساز کو باکس آفس سے منافع اور لاگت واپس نہیں ملی، سب ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں اور خسارہ ہے کہ پوری فلمی صنعت پر حاوی ہوگیا ہے اور فلمی صنعت بھی وہ، جو پہلے ہی لاغر و بے حال تھی۔
بین الاقوامی فلموں کے لیے پاکستان بلیک لسٹ میں شامل
وہ فلمیں جو انگریزی تھیں، وہ بھی پاکستان میں نمائش کے لیے پیش نہیں ہوسکیں گی کیونکہ پاکستان میں جتنے ڈسٹری بیوٹر وہ فلمیں خریدتے تھے ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی سب نے بین الاقوامی فلموں کے ڈسٹری بیوٹرز کو پیسے نہیں دیے، پھر جنوبی ایشیا ریجن میں انڈیا اس خطے کا سربراہ ہے تو انگریزی فلموں کے بین الاقوامی تقسیم کار بھی بھارتی ہیں۔
پاکستان نے بھارت کی فلمیں اپنے ملک میں بند کی ہوئی ہیں اب کورونا کی وجہ سے پاکستانی ڈسٹری بیوٹرز کی طرف سے عدم ادائیگیوں کو وجہ بناکر انہیں بلیک لسٹ کردیا گیا ہے۔ اب ایک آدھ پاکستانی ڈسٹری بیوٹر جو اس صورتحال سے محفوظ رہا وہ اکلوتا پورے پاکستان کی کھپت کو کس طرح پورا کرتا؟ تو عالمی فلمی منڈی سے بھی فلمیں آنا بند ہوگئیں۔
بھارتی فلموں پر ویسے ہی پابندی ہے، حالانکہ لطف کی بات یہ ہے کہ ڈیجیٹل پورٹلز پر یہ سب کچھ پاکستانی بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستانی فلموں میں دو چار فلموں کے ناموں کی بازگشت ہے، جن کو ریلیز کیا جاسکتا ہے لیکن ان سے یہ سارے اخراجات پورے نہیں ہوں گے۔ تو اب اس صورتحال میں سنیما اگلے کئی مہینوں یا شاید سالوں تک کھلتے نظر نہیں آرہے، کم از کم اس وقت رواں برس کے اختتام پر تو یہی منظرنامہ ہے۔
فلمی صنعت کے لیے آئینی سقم اور ناقص حکومتی پالیسیاں
دوسری طرف ہماری حکومتوں کا حال دیکھیے، آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بااختیار کیا گیا تو وہیں صوبوں کے الگ الگ سینسر بورڈز بنا دیے گئے۔ اب پاکستان میں اس وقت 3 سینسر بورڈز ہیں، سندھ سینسر بورڈ، پنجاب سینسر بورڈ اور وفاقی سینسر بورڈ یعنی اسلام آباد۔
وفاق کا سینسر بورڈ بھی علامتی ہی ہے کیونکہ آئینی طور پر وہ دیگر صوبوں کے بورڈز پر اثر انداز نہیں ہوسکتا ہے۔ تینوں مراکز ایک ہی فلم کو الگ الگ سینسر کرتے ہیں۔ یعنی ایک عجیب سی صورتحال ہے۔ پاکستان میں فلمی صنعت کی قومی پالیسی کیا ہوگی کسی کو کچھ نہیں پتہ، جس کو جدھر کی سمجھ آرہی ہے فی الحال وہ ادھر کو جا رہا ہے۔
وفاقی حکومت میں ثقافتی وزیر ہی نہیں ہے جو اس طرح کے معاملات پر ساتھ بیٹھے اور ان کا حل نکالے۔ پوری دنیا میں ثقافت اور سنیما کو سافٹ امیج بنانے اورپراپیگنڈہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن پاکستان نے اپنا یہ محاذ ہی خالی چھوڑا ہوا ہے۔
حرفِ آخر
موجودہ سال پاکستان کی فلمی صنعت کا بدترین سال ثابت ہوا ہے۔ 4، 6 فلموں کی شنید تھی، اگر کورونا نہ آتا اور وہ چند ایک فلمیں ریلیز ہو بھی جاتیں تو اس سے کیا ہوتا؟ فروری کے مہینے میں ایک فلم ریلیز ہوئی جس کا نام ’ریکارڈ‘ تھا، اس نے اپنی ریلیز کا منفرد ریکارڈ ہی قائم کردیا۔ پاکستان میں سنیما کی بحالی تب ہی ہوگی جب سنیما ہال بھرے ہوں گے اور وہ تب ہوں گے جب بین الاقوامی فلمیں بشمول انڈین فلمیں پاکستان میں ریلیز ہوں گی۔
ایک غلغلہ یہ بھی اٹھا کے ترکی سمیت دیگر اسلامی ممالک کی فلمیں بھی یہاں ریلیز کی جائیں گی مگر وہ خبر بھی ہوا ہوگئی۔ پاکستان میں ویسے بھی ملٹی پلیکس طرز کے سنیما اسی بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے تھے کہ بیرونی فلموں پر انحصار کیا جائے گا۔
پھر ہمارا حال یہ ہے کہ ٹی وی ڈرامے اور ویب سیریز کے مزاج میں جو فرق ہونا چاہیے، وہ ہمارے تخلیق کاروں کی اکثریت کو پتہ نہیں ہے، یہ ایک پوری الگ بحث ہے، اس پر بات ہوسکتی ہے اور ابھی پاکستانی او ٹی ٹی کا کوئی انتظام و انصرام فی الحال ہمارے پاس ہے ہی نہیں اور راوی چین لکھتا ہے۔ اس ختم ہوتے سال اور نئے سال کے چہرے پر یہی سوال نمودار ہے جس کا جواب فی الحال کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔