لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹروپیکل میڈیسین کے سینٹر فار میتھمیٹکل موڈلنگ آف انفیکیشز ڈیزیز کی اس تحقیق کو ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں کیا گیا۔
تحقیق میں کیسز، ہسپتال میں زیرعلاج مریضوں اور دیگر اقسام کے ڈیٹا کا موازنہ کیا گیا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایسے شواہد نہیں ملے کہ یہ نئی قسم دیگر کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا ہے۔
تاہم محققین کے تخمینے کے مطابق یہ نئی قسم دیگر کے مقابے میں 56 فیصد زیادہ متعدی ہے جبکہ برطانوی حکومت کی گزشتہ دنوں جاری ابتدائی رپورٹ میں اسے 70 فیصد زیادہ متعدی قرار دیا گیا تھا۔
اس نئی قسم کی دریافت کا اعلان رواں ماہ کے وسط میں کیا گیا تھا جو لندن اور مختلف حصوں میں تیزی سے پھیل رہی ہے، جس میں متعدد میوٹیشنز ہوئی ہیں جو اسے زیادہ متعدی بناتی ہیں۔
تحقیق میں مزید شواہد دریافت کیے گئے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نئی قسم دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے۔
محققین نے مختلف ریاضیاتی ماڈلز تیار کرکے ان کی آزمائش کی تاکہ اس نئی قسم کے پپھیلاؤ کی وضاحت کرسکیں۔
انہوں نے تجزیہ کیا کہ کونسا ماڈل پھیلاؤ کی زیادہ بہتر پیشگوئی کرسکتا ہے جس کی تصدیق بھی ممکن ہو۔
تحقیقی ٹیم نے اندازہ لگایا کہ آئندہ 6 ماہ کے دوران اس نئی قسم سے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور مختلف پابندیوں کے اثرات کے یے ماڈلز بھی تیار کیے، جس میں ویکسینز کے اجرا کو شامل نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ویکسینز کے بغیر اس نئی قسم کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج مریضوں کی تعداد، آئی سی یو میں داخے اور اموات کی شرح 2020 کے مقابلے میں 2021 میں زیادہ ہوسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اضافی پابندیوں کو اٹھانے سے کیسز کی تعداد میں دوبارہ نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔