اسرائیل سے پہلا کمرشل طیارہ مراکش میں اتر گیا
یہودی ریاست اور ایک عرب ملک کے درمیان امریکا کی ثالثی میں ہونے والے سفارتی تعلقات معمول پر لانے کے تازہ ترین معاہدے کے موقع پر اسرائیل سے اڑنے والی پہلی براہ راست تجارتی پرواز شمالی افریقہ کی سلطنت مراکش میں اتر گئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور وائٹ ہاؤس کے مشیر جیرڈ کشنر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے قومی سلامتی کے مشیر میر بین شبات کے ہمراہ اس طیارے میں سوار تھے۔
مراکشی عہدیداروں نے امریکی-اسرائیلی وفد کا ایئرپورٹ پر استقبال کیا جس کے بعد کی مصروفیات میں شاہی محل میں شاہ محمد ششم سے ملاقات اور شاہ محمد پنجم کی قبر کی زیارت شامل ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل اور سعودی عرب کا واضح پیغام: جو بائیڈن اب کیا کریں گے؟
اس سفر کا مقصد ٹرمپ کی جگہ صدر منتخب ہونے والے جو بائیڈن کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں ان کی جگہ لینے سے چند ہفتوں قبل مشرق وسطیٰ کی سفارت کاری میں ٹرمپ انتظامیہ کی کامیابیوں کی نمائش کرنا تھا۔
رواں سال متحدہ اعرب امارات اور بحرین کے بعد مراکش تیسری عرب ریاست ہے جو امریکا سے معاہدے کے تحت اسرائیل سے تعلقات معمول پر لائی ہے جبکہ سوڈان نے بھی اس معاملے پر عمل کرنے کا وعدہ کررکھا ہے۔
روانگی سے قبل اسرائیل کے بین گورین ہوائی اڈے پر خطاب کرتے ہوئے جیرڈ کشنر نے کہا تھا کہ اسرائیل کے حالیہ معاہدے یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک معمول کے عدم تعاون کی سمت ایک قدم ہیں۔
انہوں نے طیارے میں سوار ہونے سے قبل کہا تھا کہ 'ہم جس ریاست میں گزشتہ 75 سالوں سے رہ رہے ہیں جہاں یہودی اور مسلمان الگ ہو چکے ہیں، یہ قدرتی ریاست نہیں ہے'۔
ایک اسرائیلی سرکاری ذرائع نے بتایا کہ دونوں فریقین کے درمیان براہ راست ہوائی رابطوں اور پانی کے انتظام، اپنے مالیاتی نظام کو جوڑنے اور سفارتکاروں کے لیے ویزا چھوٹ کے انتظامات کی راہ ہموار کرنے کے معاہدوں پر دستخط کرنے کی توقع کی جارہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کی خلیجی ممالک سے معاہدوں کے بعد مغربی کنارے میں پہلی آبادکاری کی منظوری
مراکش میں تقریبا 3 ہزار افراد پر مشتمل شمالی افریقہ کی یہودیوں کی سب سے بڑی آبادی رہتی ہے اور اسرائیل مراکش سے تعلق رکھنے والے 7 لاکھ یہودیوں کا گھر ہے۔
اب تک ایک سال میں 70 ہزار اسرائیلی سیاح مراکش کا دورہ کرچکے ہیں تاہم انہیں تیسرے ملک کے ذریعے سفر کرنا پڑتا ہے مراکش نے سن 2000 میں فلسطین کے خلاف مظالم پر تل ابیب میں اپنا رابطہ دفتر بند کردیا تھا۔
شاہ محمد ششم نے کہا تھا کہ مراکش فلسطینیوں کی وکالت کرتا رہے گا۔
10 دسمبر کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے اعلان کے ساتھ ہی بادشاہ نے فلسطینیوں کو مراکش کے 'منصف فلسطینی مقاصد کے لیے مستقل عزم' کی یقین دہانی کرائی تھی۔