معیاری تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے یا افراد کی؟
ورکی فاؤنڈیشن اور یونیسکو کے زیرِ اہتمام 10 لاکھ ڈالر مالیت کا گلوبل ٹیچر پرائز 2020ء مہاراشٹرا کے ایک استاد رنجیت سنھ دیسل کو دیا گیا ہے۔ رنجیت مہاراشٹرا کے ایک گاؤں میں واقع پرائمری اسکول میں مقامی قبائل سے تعلق رکھنے والی بچیوں کو پڑھاتے ہیں۔ رنجیت کا انتخاب 140 ممالک کے 12 ہزار امیدواروں میں سے کیا گیا۔
رنجیت میں 2 ایسی خوبیاں ہیں جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ رنجیت جس جگہ پڑھاتے ہیں انہوں نے وہاں کی مقامی زبان سیکھی تاکہ وہ طلبہ کو ان کی مادری زبان میں ہی درسی کتاب پڑھائیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ رنجیت ہمارے تمام وزیروں اور پالیسی ساز افراد سے زیادہ قابل اور سمجھدار ہیں اور یہ خوبی رنجیت کو اس انعام کا اہل بناتی ہے۔
رنجیت کی دوسری خوبی یہ ہے کہ ان کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو خود سے بڑھ کر سوچتے ہیں۔ اس انعام کے حقدار کا تعین کرنے کے لیے رنجیت سمیت 10 افراد کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔
رنجیت نے انعام کی آدھی رقم یعنی 5 لاکھ ڈالر باقی 9 افراد میں تقسیم کردی ہے۔ رنجیت کا کہنا ہے کہ ’باقی افراد کی محنت بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ اگر میں انعام کی رقم باقی اساتذہ کے ساتھ بانٹ لوں تو انہیں بھی اپنا کام جاری رکھنے میں مدد ملے گی اور اس طرح ہم زیادہ سے زیادہ بچوں تک پہنچ کر ان کی زندگیوں کو بہتر بنا سکتے ہیں‘۔
مزید پڑھیے: بچے کو ابتدائی تعلیم انگریزی میں کیوں نہیں دینی چاہیے
بحیثیت استاد رنجیت کی دانائی اور عزم کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے، اور اسی وجہ سے انہیں دنیا بھر میں سراہا بھی گیا ہے۔ دلائی لاما نے بھی ان کی جانب سے انعامی رقم کو دیگر اساتذہ میں تقسیم کرنے کے قدم کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’بچوں اور خاص طور پر غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں کو تعلیم دینے سے بہتر کچھ نہیں ہے۔ اس طرح ہم ایک بہتر دنیا کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں‘۔
لیکن جہاں میں رنجیت جیسے اساتذہ کو سراہ رہا ہوں وہیں میرے ذہن میں یہ سوال بھی جنم لے رہا ہے کہ آخر دلائی لاما اور ان جیسی ہی شہرت رکھنے والے دیگر افراد نے اس موقع پر دنیا کے سامنے یہ سوال کیوں نہیں رکھا کہ آخر کیوں دنیا بھر میں لاکھوں بچے آج بھی تعلیم کے لیے خیرات پر انحصار کرتے ہیں؟
اگر رنجیت تدریس کے علاوہ کوئی اور پیشہ اختیار کرتے تو اس گاؤں کے طلبہ کا کیا بنتا؟ اور آخر ہمیں تمام ضرورت مند طلبہ کو پڑھانے کے لیے کتنے رنجیت درکار ہوں گے؟ مولانا رومی نے صدیوں پہلے کہا تھا کہ ‘اگر تم سمندر کے پانی کو ایک جگ میں ڈالو گے تو صرف ایک دن کے استعمال کا پانی ہی آئے گا‘۔
کیا ہم ایک ایسی دنیا کو قبول کرلیں جس میں بچے تعلیم کو اپنا حق نہ کہہ سکیں اور جہاں بچوں کی اکثریت بھیک مانگ رہی ہو یا دوسروں کی مدد کی متلاشی ہو؟ دنیا کو بہتر بنانے کا حل خیرات میں نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ بہتر دنیا عدم مساوات کے خاتمے کے لیے صرف رنجیت جیسے افراد پر انحصار کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی چیز ہے جو درست نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم جانے ان جانے اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں۔
ہمیں معلوم ہے کہ تعلیم کا حق ہمیں آئین دیتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’ریاست 5 سے 16 سال کی عمر تک کے ہر بچے کو قانون کے مطابق مفت اور ضروری تعلیم فراہم کرے گی‘۔
آئین میں یہ بھی درج ہے کہ ’ریاست کم سے کم وقت میں ناخواندگی کو ختم کرے گی اور پرائمری اور سیکنڈری سطح پر مفت لازمی تعلیم فراہم کرے گی‘۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ وعدوں اور عملی اقدامات میں واضح فرق ہے۔ اسکول جانے کی عمر کے 44 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آخر بچوں کی اکثریت اسکولوں میں جو تعلیم حاصل کررہی ہے اس تعلیم کا معیار کیا ہے؟ اور کیا ایک ہی ملک میں بچوں کو دی جانے والی تعلیم میں فرق ہونا چاہیے؟
تعلیم کے معیار کے ساتھ ساتھ اس تک رسائی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نہیں معلوم کہ اس وقت کون زیادہ خوش قسمت ہے، وہ جو اسکولوں سے باہر ہیں یا پھر وہ جو اسکولوں میں ہیں اور ناقص تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
اگر تعلیم تک رسائی کا مسئلہ حل ہو بھی جائے تو پھر بھی تعلیم کے معیار اور اس حوالے سے امتیازی سلوک کا مسئلہ باقی رہتا ہے۔ اس وجہ سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہر بچے کو یکساں معیار کی بنیادی تعلیم ملنی چاہیے یا اس کا انحصار والدین کی دولت پر ہونا چاہیے؟
مزید پڑھیے: پاکستان میں پڑھا لکھا کون ہے؟
کیا تعلیم منڈی میں فروخت ہونے والی کوئی چیز ہے کہ جس نے چاہا اس نے زیادہ بہتر چیز خرید لی اور باقی لوگ خیرات پر منحصر رہیں، وہ بھی اس صورت میں کہ اگر وہ خوش قسمت ہوں؟ شاید کوئی بھی اس طرزِ عمل کی حمایت نہیں کرے گا۔
یہ بات واضح ہے کہ یکساں قومی نصاب معیاری تعلیم کے حصول میں برابری پیدا نہیں کرسکتا۔ اس کا انحصار تو استاد کی قابلیت پر ہے جس کا براہِ راست تعلق اس تنخواہ سے ہوتا جو اسکول اس استاد کو ادا کرتا ہے، جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ فیس کی مد میں اسکول کتنے پیسے لے رہے ہیں۔
ہم اس وقت تک ایک بہتر دنیا کی تعمیر نہیں کرسکتے جب تک ہم اس سوال کا جواب حاصل نہیں کرلیتے۔ رنجیت کی کامیابی پر ہماری خوشی جائز ہے لیکن ہمیں ساتھ ہی یہ بھی سوچنا ہوگا کہ آخر ہم نے اس دنیا کو کیا بنا دیا ہے کہ اب ہمیں رنجیت جیسے ہیرو کی ضرورت پڑ رہی ہے۔
یہ مضمون 23 دسمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) کے شعبہ برائے ہیومینٹیز، سوشل سائنسز اور لاء کے ڈین رہ چکے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔