اسٹیٹن آئی لینڈ یونیورسٹی ہاسپٹل کے ڈاکٹر تھامس گٹ کے مطابق 'ہم جانتے ہیں کہ کووڈ 19 کے مریضوں کو پھیپھڑوں اور دل کے بہت زیادہ ورم اور بلڈ کلاٹنگ کا سامنا ہوتا ہے، جس سے ان اعضا کے لیے دوران خون کی دستیابی متاثر ہوسکتی ہے۔'۔
انہوں نے کہا 'اگر ہم بیماری کے بعد جسمانی طور پر دوبارہ متحرک ہوتے ہیں، تو دل اور پھیپھڑوں کو زیادہ خون درکار ہوتا ہے، جس کے باعث مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے'۔
ویسے تو کووڈ 19 کو پھیپھڑوں کی علامات سے منسلک کیا جاتا ہے مگر اس کے دل پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔
کووڈ 19 سے ڑے دل کے مسائل کے باعث لوگوں کو دل کی بے ترتیب دھڑکنوں یا اچانک حرکت قلب بند ہونے سے موت کے خطرے کا سامنا ہوسکتا ہے۔
کووڈ 19 اور دل
ایک تخمینے کے مطابق کووڈ 19 کے ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے لگ بھگ 25 فیصد افراد کے دل کے ٹشوز کو انجری کا سامنا ہوتا ہے۔
کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد کو بلڈ کلاٹس کا سامنا بھی ہوتا ہے۔
اس حوالے سے نیویارک یونیورسٹی کے گراسمین اسکول آف میڈیسین کے اسسٹنٹ پروفیسسر ڈاکٹر سین ہیفرسن نے بتایا 'ہمیں مریضوں کے دل کے حوالے سے تشویش ہے، کیونکہ اب تک ایسا بہت زیادہ ڈیٹا سامنے آچکا ہے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے کووڈ 19 کے مریضوں کے دل کے مسلز کی سرگرمیاں اس وائرس سے متاثر ہوتی ہیں'۔
انہوں نے مزید کہا 'ان تفصیلات کے ساتھ، ہمیں کووڈ 19 کے نتیجے مین دل کی ساخت اور افعال پر طویل المعیاد بنیادوں پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کا خدشہ ہے اور بیماری کے بعد جسمانی سرگرمیوں سے لوگوں کے متاثر ہونے کا امکان بھی ہے'۔
ماہرین کے مطابق بیماری سے صحتیاب ہوتے ہیں ورزش کو فوری طور پر دوبارہ کرنا یا بہت زیادہ سخت جسمانی سرگرمیوں کرنے سے اس وقت تک گریز کرنا چاہیے جب تک دل پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال نہ ہوجائے۔
کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات پر ابھی تحقیقی کام جاری ہے اور ڈاکٹر تھامس گٹ کے مطابق 'جسم، دل اور پھیپھڑوں کو طلب کے مطابق خون نہیں مل پاتا، جسم کو جسمانی سرگرمیوں کے دوران زیادہ دوران خون اور آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا 'اگر دل یا پھیہھڑوں کو نقصان پہنچا ہو یا خون کی فراہمی محدود ہو، تو ان دونوں اعضا کو نقصان پہنچنے لگتا ہے'۔
کن مریضوں کو دل کا معائنہ کرانا چاہیے؟ کووڈ 19 سے معمولی یا معتدل حد یا بغیر علامات والے مریضوں کو دل کا معانہ کرانے کی ضرورت نہیں، تاہم اگر پہلے سے امراض قلب کے شکار ہوں تو پھر ایسا کرلینا چاہیے۔
نیویارک Presbyterian میڈیکل گروپ کے ڈاکٹر Sahadeo Ramnauth نے بتایا 'بیماری کی شدت جتنی زیادہ ہوگی، انہیں صحتیابی کے بعد معمولات زندگی کو اپنانے سے قبل اتنی ہی احتیاط کرنے کی ضرورت ہوگی'۔
انہوں نے مزید کہا 'جو لوگ بیماری کے باعث ہسپتال میں داخل رہے یا سنگین شدت کے باعث سانس لینے کے لیے کسی قسم کی سپورٹ لینے پر مجبور ہوئے، انہیں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے'۔