برطانوی حکومت کے چیف سائنٹیفک آفیسر سر پیٹرک ویلانس نے نئی قسم کے پھیلاؤ کی رفتار کے اعدادوشمار تو نہیں بتائے، مگر یہ اسے وی یو آئے 202012/01 کا نام دیتے ہوئے کہا کہ یہ یہ تیزی سے پھیل رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس نئی قسم میں 23 مختلف جینیاتی تبدیلیاں ہوئی ہیں، جن میں بیشتر کا تعلق وائرس کے ان حصوں سے ہے جو وائرس کو انسانی خلیات جکڑنے میں مدد دیتے ہیں۔
سر پیٹرک ویلانس کے مطابق لندن میں اس وقت 60 فیصد نئے کیسز اسی قسم کا نتیجہ ہیں، جو بہت تیزی سے پھیل کر بالادست قسم بن رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ نئی قسم سب سے پہلے ستمبر میں سامنے آئی تھی،نومبر کے وسط میں لندن میں 28 فیصد نئے کیسز اس کا نتیجہ تھے، جبکہ 9 دسمبر تک یہ شرح 62 فیصد تک پہنچ گئی۔
رپورٹ کے مطابق وائرس کی یہ نئی قسم کم از کم 3 دیگر ممالک تک پھیل چکی ہے۔
نیدرلینڈز نے 19 دسمبر کو اس قسم والے ایک کیس کو شناخت کیا تھا اور اس کے بعد ڈچ حکومت نے برطانیہ سے تمام مسافروں پروازوں کو یکم جنوری تک روک دیا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ڈنمارک میں اس قسم کے اب تک 9 کیسز سامنے آچکے ہیں جبکہ ایک کیس کی تشخیص آسٹریلیا میں ہوئی۔
عالمی ادارہ صحت نے یورپی ممالک کو برطانیہ میں نئی قسم کے پھیلاؤ کے حوالے سے اقدامات کی ہدایت کی تھی۔
عالمی ادارہ صحت کے یورپ آفس کی ایک ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا ؛یورپ بھر میں وائرس کا پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے، ممالک کو بیماری کو قابو کرنے اور روک تھام کی حکمت عملیوں کو بہتر بنانا چاہیے۔'۔
برطانیہ میں وائرس کی نئی قسم کے انکشاف کے بعد اٹلی، بیلجیئم اور آسٹریا نے وہاں سے آنے والی تمام پروازوں اور ٹرینوں کو 21 دسمبر تک کے لیے روک دیا تھا، جبکہ آئرلینڈ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے بھی ایسے اقدامات پر غور کیا جارہا ہے۔
جنوری میں نئے کورونا وائرس کے پہلے جینیاتی سیکونس کو تیار کرنے کے بعد سے اب تک اس میں جینیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جاچکا ہے۔
ان میں سے کچھ اس کے پھیلاؤ میں اضافے سے منسلک ہیں، مگر کسی بھی تبدیلی سے وائرس کی شدت میں اضافہ یا کمی نہیں آئی۔
سر پیٹرک کا کہنا تھا کہ یہ نئی قسم ایسی تبدیلیوں کا مجموعہ ہے جو ہمارے خیال میں اہم ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایسے شواہد اب تک نہیں ملے کہ یہ نئی قسم زیادہ خطرناک ہے، مگر کچھ وجوہات سے لگتا ہے کہ یہ انسانی مدافعتی ردعمل کو بدل سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اس حوالے سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔
سائنسدانوں کی جانب سے یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کیا یہ نئی قسم زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے، کیا اس سے لوگوں میں بیماری کی شدت سنگین ہوسکتی ہے اور کیا ویکسینز اس کے خلاف موثر ثابت ہوں گی یا نہیں۔
جب برطانوی وزیر صحت میٹ ہینکوک نے اس نی قسم کی موجودگی کا اعلان کیا تھا تو بیشتر سائنسدانوں نے اس پر شکوک ظاہر کیے تھے۔
مگر گزشتہ چند دنوں میں حالات میں تبدیلی آئی اور متعدد ساندانوں کا اب کہنا ہے کہ یہ وبا کی روک تھام کے لیے حوالے سے ایک سنجیدہ چیلنج ہوسکتا ہے۔