لانگ کووڈ کی اصطلاح ایسے مریضوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو ابتدا میں تو بیماری کو شکست دے دیتے ہیں، مگر ان کی علامات کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی برقرار رہتی ہیں۔
اس حوالے سے حالیہ مہینوں میں کئی تحقیقی رپورٹس سامنے آئی ہیں جس میں لانگ کووڈ کا جائزہ لیا گیا، مگر برطانوی ادارے کی تحقیق اس حوالے سے اب تک کا سب سے بڑا تحقیقی کام ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس حوالے سے کام ابھی جاری ہے، تاہم کچھ اہم تفصیلات اس حوالے سے ضرور بتائی گئی ہیں۔
اس مقصد کے لیے برطانیہ کے لاکھوں افراد کے انفیکشن سروے کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ نومبر 2020 کے آخری ہفتے کے دوران ملک میں ایک لاکھ 86 ہزار افراد کو لانگ کووڈ کی علامات کا سامنا تھا، جن کا دورانیہ 5 سے 12 ہفتے کے درمیان تھا۔
سب سے عام علامت تھکاوٹ تھی،، جس کے بعد کھانسی، سردرد، سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی، گلے کی سوجن، بخار، سانس لینے میں مشکلات، متلی، ہیضہ اور پیٹ درد نمایاں تھے۔
اس رپورٹ کے حوالے سے ایکسٹر میڈیکل اسکول کے ڈاکٹر ڈیوڈ اسٹرین کا کہنا تھا کہ ابتدائی ڈیٹا تشویشناک ہے۔
ڈاکٹر ڈیوڈ اس سروے میں براہ راست شامل نہیں تھے اور ان کا کہنا تھا اس ڈیٹا سے ہمیں پپچیدگیوں کے بارے میں تفصیلاتا ملتی ہیں، مثال کے طور پر کووڈ 19 کے مریضوں میں ہارٹ اٹیک، فاللج یا ہارٹ فیلیئر کا خطرہ کسی اور بیماری کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے افراد کے مقابلے میں 12 گنا زیادہ ہوتا ہے، جبکہ ذیابیطس یا گردے کے امراض میں مبتلا ہونے کا امکان بالترتیب 9 اور 10 گنا زیادہ ہوتا ہے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس یہ تصدیق ہوتی ہے کہ یہ وائرس نظام تنفس کی کوئی عام بیماری نہیں بلکہ یہ ملٹی سسٹم مرض ہے۔
دیگر رپورٹس میں یہ دیکھا گیا ہے کہ کووڈ 19 کے نتیجے میں مختلف ذہنی مسائل جیسے انزائٹی یا ڈپریشن کا خطرہ بیماری کے 3 ماہ کے اندر زیادہ ہوتا ہے۔
لانگ کووڈ کی وجہ کیا ہے، مگر اس مسئلے کا سامنا ممکنہ طور پر دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو ہورہا ہے۔