کیا ہمارے پاس سرمایہ دارانہ نظام کا متبادل موجود ہے؟
سال 2008ء سے 2020ء تک کا عرصہ عالمی معیشت کے لیے بہت مشکل رہا۔ 2008ء میں آنے والی عالمی گراوٹ یا گریٹ ریسیشن سے کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا تھا اور معاشی شرح نمو بھی بہت کم ہوگئی تھیں۔ اسی طرح 2020ء میں کورونا وائرس نے عالمی معاشی نظام کو ایک اور جھٹکا دیا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے اعداد و شمار بھی ہیں جو کسی کو بھی حیرت زدہ کردینے کے لیے کافی ہیں۔ جیسے 2009ء میں ایمازون کے بانی جیف بیزوس کی کل دولت 6 ارب 80 کروڑ ڈالر تھی جو 2020ء میں بڑھ کر 184 ارب ڈالر ہوگئی۔
اسی طرح سال 2009ء میں فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کی کل دولت 2 ارب ڈالر تھی لیکن 2020ء میں وہ 103 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ اسی عرصے کے دوران امریکا کے 400 امیر ترین افراد کی دولت 2009ء میں ایک کھرب 27 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2020ء میں 3 کھرب 20 ارب ڈالر ہوگئی۔
ایک سوئس بینک یو بی ایس نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اپریل سے جولائی 2020ء کے دوران جب کورونا وائرس کی شدت اپنے عروج پر تھی اسی عرصے کے دوران دنیا کے امیر ترین افراد کی دولت 27 فیصد اضافے کے ساتھ 10 کھرب 20 ارب ڈالر ہوگئی۔ عالمی بینک کے اندازے کے مطابق اسی عرصے میں 1998ء کے بعد پہلی مرتبہ اس قدر تیزی سے انتہائی غربت کی شرح میں اضافہ ہوگا کہ تقریباً 11 کروڑ مزید افراد اس میں شامل ہوجائیں گے۔ مزید برآں، 1970ء کی دہائی کے بعد سے عالمی آمدنی میں مزدوروں کا حصہ بھی کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔
مزید پڑھیے: دنیا تبدیل ہونے کو ہے، انقلاب آنے کو ہے!
اگرچہ اس عالمی سرمایہ دارانہ نظام نے انسانیت کی ترقی کے لیے بے مثال کام کیے ہیں لیکن یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس کی بنیاد میں کوئی ایسی چیز ضرور موجود ہے جو درست نہیں ہے۔
اگر آمدن اور دولت کے دستیاب ریکارڈ کو دیکھا جائے تو اس وقت آمدن کی تقسیم سب سے زیادہ غیر منصفانہ ہے۔ تاریخی طور پر عالمی وبائیں توازن کا باعث بنتی ہیں یعنی وہ امیر اور غریب کے درمیان دولت کے فرق کو کم کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر قرون وسطیٰ میں یورپ کو تباہ کردینے والا طاعون یا بلیک ڈیتھ آمدنی میں موجود عدم مساوات کو کم کرنے کا باعث بنا۔ لیکن آج کورونا جیسی وبا بھی اس فرق کو کم نہ کرسکی۔ یہاں تک کہ پوپ فرانسس نے بھی ’بے عیب سرمایہ دارانہ نظام‘ کے ’نئے مظالم‘ اور ’پیسے کی پرستش‘ کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے معاشی عدم مساوات، بے روزگای اور بدحالی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
تو آخر ایسا کیا ہوا کہ جس نظام نے صدیوں تک عالمی معیشت کے لیے عمدگی سے کام کیا، اس نے وال اسٹریٹ اور مین اسٹریٹ یعنی ایک فیصد اور 99 فیصد کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا؟ اس کا جواب سیدھا سادہ نہیں ہے بلکہ اس کی تلاش کے لیے تاریخی عوامل کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے پاس اب اتنی تحقیق اور تحریری مواد موجود ہے کہ ہم اس نظام کے ارتقا کا ایک خاکہ بنا سکتے ہیں۔
مزید پڑھیے: یہ وقت تو اختیارات دینے کا ہے لینے کا نہیں
ابتدائی تہذیبوں سے لے کر بعد کے ہزاروں سالوں تک تجارتی سرمایہ داری نے ہی معیشتوں کا پہیہ چلایا ہے۔ تہذیبوں اور سلطنتوں کے فروغ کے ساتھ ساتھ تجارت میں بھی اضافہ ہوا اور اس تجارت کو جاری رکھنے کے لیے نئے نئے خیالات نے جنم لیا۔
مثال کے طور پر یونان کی شہری ریاستوں نے اپنے مال بردار بحری جہازوں کی انشورنس کروائی ہوئی تھی۔ 9ویں صدی کے آس پاس چین کے مختلف علاقوں میں تجارت میں سہولت کے لیے کاغذ کی کرنسی استعمال ہونے لگی۔ اسی طرح ’صنعتی سرمایہ داری‘ کے ابتدائی شواہد ایمسٹرڈیم جیسے علاقوں میں قائم ہونے والے اسٹاک ایکسچینچ سے ملتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ اس سفر میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ مثال کے طور پر فرڈینیڈ براڈیل (Ferdinand Braudel) نے اپنی کتاب Civilisation and Capitalism میں بتایا ہے کہ کس طرح معاشی نمو کا پنڈولم یورپ کی مختلف شہری ریاستوں کے درمیان جھولتا رہا۔ یہ نظام مجموعی طور پر اس طرح کا تھا کہ دولت کسی نہ کسی طرح اعلیٰ طبقے سے نچلے طبقے تک پہنچ جاتی تھی۔
اس بات کو جدید معاشیات کے بانی سمجھے جانے والے ایڈم اسمتھ (Adam Smith) نے بھی تسلیم کیا ہے۔ ان کے دیے ہوئے ایک نسبتاً غیر معروف نظریے ’تھیوری آف مورل سینٹیمنٹس‘ میں ان کا کہنا ہے کہ ‘امیر لوگ غریبوں کے مقابلے میں کچھ ہی زیادہ صرف کرتے ہیں اور اپنی فطری خود غرضی اور بے رحمی کے باوجود وہ اپنی پیداوار کو غریبوں کے ساتھ بانٹتے ہیں۔ وہ ایک ان دیکھی قوت کے تحت تمام ضروریاتِ زندگی کی تقسیم بھی کرتے ہیں‘ (قارئین توجہ دیں کہ ان دیکھی قوت کا ذکر شاید پہلی دفعہ یہیں ہوا ہے)۔
لیکن 20ویں صدی نے جس ’مالیاتی سرمایہ داری‘ کا عروج دیکھا، اس نظام کی بنیاد میں مالیاتی ادارے موجود تھے۔ ان اداروں کے کام کرنے کا طریقہ پیچیدہ فارمولوں پر مبنی ہوتا تھا جن کے ذریعے اثاثوں کی مالیت کا تعین ہوتا تھا۔ لیکن یہاں اصل مسئلہ یہ تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کی یہ شکل ہر کسی کو سمجھ نہیں آئی۔ تجارت ایک ایسی چیز ہے جو غریب ترین افراد بھی سمجھ لیتے ہیں لیکن مالیاتی سرمایہ داری ذہین ترین افراد کی سمجھ میں بھی مشکل سے ہی آتی ہے۔
ایک پریشان کن حقیقت یہ بھی ہے کہ آمدن کی اکثریت بہت مختصر اقلیت کے پاس جاتی ہے۔ چیزوں کو تناظر میں رکھنے کے لیے یہ سمجھیے کہ ماضی میں رومن سلطنت کا خاتمہ بڑے پیمانے پر معاشی گراوٹ کا باعث بنا تھا لیکن 21ویں صدی میں نیویارک کے ایک کونے میں صرف 2 اداروں (Bear Stearns اور Lehman Brothers) کا خاتمہ ہی ایک ایسی معاشی گراوٹ کے آغاز کا سبب بنا جس کی وجہ سے ناصرف عالمی دولت اور جی ڈی پی میں کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا بلکہ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا۔
تو کیا ہمارے پاس کوئی متبادل ہے؟ مجوزہ آپشنز میں غیر منطقی متبادل بھی ہیں اور منطقی بھی۔ سب سے زیادہ غیر منطقی متبادل تو یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو ہی ختم کردیا جائے۔ اس قسم کی دلیل کے پیچھے یہ خیال ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک ہی ہے، لیکن درحقیقت دنیا بھر میں اس نظام کی مختلف شکلوں پر عمل ہورہا ہے۔
مثال کے طور پر ہمیں امریکا میں اس نظام کی بہت خوبصورت شکل دیکھنے کو ملتی ہے لیکن چین میں یہ سرمایہ دارانہ نظام ریاست کے ماتحت ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس دلیل میں اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا کہ اس نظام کے سب سے بڑے ناقد مارکس نے بھی اس نظام کے تحت چلنے والی پیداواری قوتوں کی طاقت کو تسلیم کیا ہے۔
مزید پڑھیے: کورونا وائرس نے ایک بار پھر سرمایہ دارانہ نظام کی قلعی کھول دی
لیکن اس ضمن میں جو منطقی دلائل پیش کیے گئے ہیں ان میں ایسی پالیسی پر زور دیا گیا ہے جس کے تحت معاشی نمو کے عمل میں سب کو شامل کیا جائے اور اس حوالے سے ہر ملک اپنا الگ طریقہ کار اختیار کرسکتا ہے۔
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ ریاست معاشی سرگرمیوں میں اپنے کردار پر نظرثانی کرے جس کے نتیجے میں عموماً مافیا جنم لیتے ہیں، جس کی ایک مثال چینی مافیا ہے جو ریاست کی جانب سے دی گئی سبسڈی سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
اس بات کو تو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کے طریقہ کار کے حوالے سے مشکلات درپیش ہیں لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جہاں تک ترقی اور خوشحالی کی بات ہے تو اس نظام سے بہتر کوئی متبادل نہیں ہے۔ جو لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے انہیں سوویت یونین کا ٹوٹنا یا پھر موجودہ دور میں وینزویلا کا حال دیکھ لینا چاہیے کہ متبادل نظام کی کیا قیمت ادا کرنی پڑسکتی ہے۔
یہ مضمون 18 دسمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری ماہر معیشت اور PIDE میں سینئر فیلو ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔