نقطہ نظر

مہنگی مرغی اور خان کا وعدہ

ڈھائی کلو فیڈ کھانے سے مرغی کا ایک کلو گرام وزن بڑھتا ہے۔ اس اعتبار سے زندہ مرغی کی فی کلو قیمت فارم پر 300 روپے سےتجاوز کرجاتی ہے

اتوار کا دن تھا اس لیے کچھ دیر سے سو کر اٹھا۔ بیگم نے کہا کہ بچے کہہ رہے ہیں کہ بروسٹ بنایا جائے، اس لیے آپ گھر پر ہیں تو بازار سے مرغی کا گوشت لے آئیں۔ میں نے اپنے پرس سے 1000 روپے نکالے اور بازار کی طرف چل پڑا۔ میرے اندازے کے مطابق اگر مرغی کا گوشت 250 روپے کلو گرام ہوا تو میں کم از کم 3 کلوگرام گوشت اور درجن بھر انڈے تو خرید ہی لوں گا۔

گھر سے نکلنے کے بعد کچھ آگے پہنچا تو میرے آگے ایک محنت کش باپ اپنے 2 چھوٹے بچوں کی انگلی پکڑے جارہا تھا۔ بچوں کے چہروں پر خوشی نمایاں تھی۔ محنت کش مجھ سے چند لمحے قبل ہی مرغی کی دکان پر پہنچ چکا تھا اور میرے پہنچنے تک اس محنت کش کا رنگ اڑ چکا تھا۔ پھر اچانک وہ دکان سے چند قدم پیچھے ہوا اور بچوں کے چہرے کی مسکراہٹ ماند پڑگئی۔ دکان پر پہنچتے ہی مجھے بھی ایک دھچکا لگا اور میری ساری شماریات پر بھی پانی پھر گیا کیونکہ مرغی کے گوشت کی قیمت 250 نہیں بلکہ 450 روپے لکھی ہوئی تھی۔

اسی دوران میرے کان میں آواز پڑی کہ ’بھائی کیا ابّا مرغی نہیں خرید رہے؟‘ بھائی بھی کیا جواب دیتا۔ محنت کش نے اپنے بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر اپنی جیب میں رکھے پیسوں کو گنا۔ ان پیسوں کو دیکھ کر واضح محسوس ہورہا تھا کہ اس نے کئی دن کی تھوڑی تھوڑی بچت کے بعد یہ جمع کیے تھے کیونکہ یہ تمام نوٹ 10 اور 20 روپے مالیت کے تھے۔

باپ نے تقریباً ڈانٹتے ہوئے اپنے بچے کو خاموش رہنے کا کہا اور پھر دکاندار سے گویا ہوا کہ بھائی آدھا کلو میں کتنی بوٹیاں ہوجائیں گی؟ دکاندار نے جواب دیا کہ 8 سے 10 بوٹی بن جائے گی۔ محنت کش نے اپنی جیب میں رکھی رقم دکاندار کے حوالے کی اور مرغی کے گوشت کی تھیلی اٹھائی اور بڑبڑاتا ہوا واپس مڑ گیا۔

مرغی کی قیمت سن کر تو میرا بھی خریداری کا منصوبہ بُری طرح متاثر ہوچکا تھا۔ مجبوراً 2 کلو مرغی ہی خریدی اور جو سو روپے میرے پاس باقی رہ گئے تھے، سوچا چلو اس کے انڈے خرید لیتا ہوں مگر بیکری پر دوسرا دھچکا میرا متنظر تھا۔ جب انڈوں کی فی درجن قیمت پوچھی تو معلوم ہوا کہ وہ بھی مرغی کی طرح دگنی قیمت پر دستیاب ہیں، یعنی قیمت 220 روپے درجن تک پہنچ چکی ہے۔

اس تمام تر صورتحال میں مجھے عمران خان کی 2 سال قبل کی گئی تقریر یاد آگئی جو انہوں نے وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد 2 ایکسرے اٹھا کر کی تھی، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ کیسے پاکستان کی بڑی آبادی زرعی ملک ہونے کے باوجود غذائی قلت کا شکار ہے۔ پاکستان کے 45 فیصد یعنی ہر دوسرے بچے کو غذا پوری نہیں مل رہی ہے اور یوں وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ عمران خان نے اسی تقریر میں کہا کہ اس تمام تر صورتحال کے ذمہ دار ملک پر حکومت کرنے والے کرپٹ افراد ہیں۔

مگر عمران خان کی حکومت کے 2 سال مکمل ہونے پر بھی غذائی قلت کے شکار لوگوں کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ملک میں سال 2016ء میں مرغی کے گوشت کی فی کس کھپت 9 کلوگرام سالانہ تھی جو اب کم ہوکر 7 کلوگرام سالانہ رہ گئی ہے۔ جبکہ دنیا میں مرغی کے گوشت کی کھپت 40 کلوگرام فی کس سالانہ اور انڈے 300 فی کس سالانہ کے تناسب سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق انسان کے لیے یومیہ 27 گرام حیوانی پروٹین استعمال ضروری ہے لیکن اس کے برعکس پاکستان میں 17 گرام ہے۔ اس طرح ہر پاکستانی 10 گرام یومیہ پروٹین کی قلت کا شکار ہوتا ہے۔

مرغی اور انڈے کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کی وجہ جاننے کے لیے معروف صدیقی سے رابطہ کیا جو پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے ترجمان ہیں۔ معروف صاحب اپنا تمام تر ریکارڈ اٹھا کر پریس کلب پہنچ گئے اور فرمانے لگے کہ اب پوچھیں کیا پوچھتے ہیں۔

ہم نے پہلا سوال یہی کیا کہ ’یہ بتائیں مرغی اور انڈے اتنے مہنگے کیوں ہوگئے ہیں؟ آپ لوگوں نے تو غریب سے پروٹین حاصل کرنے کا سب سے سستا ذریعہ بھی چھین لیا ہے‘۔

معروف صاحب نے فرمایا کہ ’مرغی مہنگی نہیں ہوئی بلکہ اس کی قیمت بہتر ہوئی ہے‘۔ یہ سن کر ہم سے رہا نہ گیا، اور بات مکمل ہونے سے پہلے ہی پوچھ لیا کہ ’وہ کیسے؟ کیونکہ چند ماہ قبل تک مرغی کا گوشت 200 روپے کلوگرام تھا اور اب وہ 450 روپے تک پہنچ گیا ہے‘۔

معروف صدیقی نے کہا کہ پہلے ہماری بات تو سن لیں۔ وہ گویا ہوئے کہ ’مرغی اور انڈے کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ طلب و رسد کے فرق کی وجہ سے اور ڈالر کے مہنگا ہونے کی وجہ سے، اور ان دونوں وجوہات کو آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں۔ آپ اس بات کو تو تسلیم کریں گے کہ پولٹری کی صنعت ملک میں سستا ترین گوشت فراہم کرنے والی صنعت ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا مگر سستا ترین شہر بھی ہے۔ یہاں بکرے گا گوشت 1200 سے 1400 روپے فی کلوگرام، جبکہ بچھیا کا گوشت 550 روپے سے لے کر 700 روپے فی کلوگرام کی قیمت پر فروخت ہورہا ہے۔ جبکہ اس وقت مرغی کا گوشت 425 سے 430 روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ زندہ مرغی 250 سے 300 روپے فی کلوگرام دستیاب ہے اور انڈے بھی 220 روپے درجن تک مل رہے ہیں‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’معاملہ کچھ یوں ہے کہ گزشتہ 2 سال سے مرغی کا فارمر نقصان اٹھا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے 25 فیصد پیداواری صلاحیت کم ہوگئی ہے۔ یعنی اگر چند ماہ قبل تک 20 ہزار افراد مرغبانی سے وابستہ تھے تو ان کی تعداد کم ہوکر 15 ہزار رہ گئی ہے اور اس کی وجہ مسلسل ہونے والا نقصان ہے۔ زندہ مرغی کا کاروبار بہت ہی مشکل ہے۔ جب مرغی مارکیٹ کرنے کے قابل ہوجائے تو اس کو ایک گھنٹہ رکھنا بھی نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے جب فروری میں کورونا کی وجہ سے اچانک لاک ڈاون ہوا تو مرغی کی طلب بھی کم ہوگئی جبکہ رسد اپنی جگہ برقرار تھی۔ پاکستان میں یومیہ 80 ہزار کلوگرام مرغی کا گوشت سپلائی کیا جاتا ہے، اگر طلب کم ہوگی تو مرغی کی قیمت گرجائے گی کیونکہ پاکستانی تازہ گوشت کھانے کے عادی ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے فارمر کو مرغی پیداواری لاگت سے بھی کم قیمت پر بیچنا پڑی۔ جب لاک ڈاون کھلا اور پھر دوبارہ مرغی کی فارمنگ کی گئی تو اس مرتبہ مون سون کی بارشوں نے کسر پوری کردی۔ سیلاب اور بارش کی وجہ سے فارمر کا پورے کا پورا اسٹاک ہی مرگیا یا بہہ گیا اور جو بچ گیا اس کی سیلاب کی وجہ سے ترسیل نہ ہوسکی اور پھر فارمر کو مزید نقصان اٹھانا پڑا‘۔

اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے معروف صدیقی نے کہا کہ ’اب آجائیں ڈالر کی قیمت میں اضافے پر۔ مرغی کی فیڈ تو پاکستان میں بنتی ہے مگر اس میں استعمال ہونے والے سویا بین اور دیگر اجزا کو درآمد کرنا پڑتا ہے۔ پہلےسویابین بھارت سے آتا تھا اور سستا پڑتا تھا مگر بھارت سے تجارت بند ہونے بعد برازیل سے سویابین منگوانا پڑرہا ہے۔ عالمی منڈی میں سویا بین کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔ سویابین کی فی من قیمت 3 ہزار 273 سے بڑھ کر 4 ہزار 160 روپے ہوگئی ہے۔ پھر صرف سویابین ہی مہنگا نہیں ہوا بلکہ مرغی کی فیڈ میں استعمال ہونے والی مکئی کی فی من بوری ایک ہزار 132 روپے سے بڑھ کر 4 ہزار 160 روپے کی ہوگئی ہے۔ اسی طرح ٹوٹے چاول کی فی من قیمت ایک ہزار 371 روپے سے بڑھ کر ایک ہزار 900 روپے ہوگئی ہے۔ کنولا کی قیمت 2 ہزار 412 روپے سے بڑھ کر 2 ہزار 508 روپے ہوگئی ہے اور سورج مکھی کے بیج کی قیمت ایک ہزار 421 سے بڑھ کر 2 ہزار 160 روپے ہوگئی ہے۔ اس اضافے سے ایک ٹن فیڈ کی قیمت میں 13 ہزار 900 روپے کا اضافہ ہوگیا ہے اور یہ فیڈ مرغبانی کی کل لاگت کا 75 سے 80 فیصد ہوتی ہے‘۔

مجھے سے پھر نہ رہا گیا۔ سوال کر ہی لیا کہ ’ملک میں مکئی اور چاول کی تو بڑی پیداوار ہوتی ہے، جبکہ سورج مکھی اور کنولا بھی تو ملک میں ہی پیدا ہوتے ہیں تو ان کی قیمت کیوں بڑھ گئی؟‘، جواب ایک ہی تھا کہ بڑے پیمانے پر ان کی ذخیرہ اندوزی کی گئی ہے۔

معروف صدیقی نے بتایا کہ ’تقریباً ڈھائی کلوگرام فیڈ کھانے سے مرغی کا ایک کلو گرام وزن بڑھتا ہے۔ اس پوری لاگت کو شامل کیا جائے تو زندہ مرغی کی فی کلوگرام قیمت فارم پر 300 روپے سے تجاوز کر جاتی ہے۔ یہ تو کچھ نہیں، اب میں بتاتا ہوکہ بحران اس سے بھی گہرا ہے۔ مرغی کی طلب میں کمی، مسلسل نقصان اٹھانے اور فیڈ کی مہنگائی کی وجہ سے بریڈرز جو چوزوں کا کاروبار کرتے ہیں انہوں نے اپنے زائد العمر مرغی مرغے ذبح کرنا شروع کردیے ہیں تاکہ فیڈ کی بچت کی جاسکے‘۔

مرغی کا ایک چوزہ جو 30 روپے میں ملتا تھا اب 60 روپے میں مل رہا ہے۔ بریڈرز کے قبل از وقت ذبح کردینے سے نئے بریڈرز کی تیاری میں بہت زیادہ وقت درکار ہوگا۔ پولٹری صنعت میں 725 بریڈرز 37 لاکھ 50 ہزار کلوگرام گوشت کی پیداوار کرتے ہیں، اور اس حساب کتاب میں کچھ گڑبڑ ہوجائے تو گوشت کی سپلائی چین بہت شدید انداز میں متاثر ہوجاتی ہے۔

معروف صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انڈا بھی انہی تمام وجوہات کی بنیاد پر مہنگا ہوا ہے۔

اس تمام تر بحران کے باوجود حکومت عوام کو یہ بتا رہی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوگیا ہے، بڑی صنعتوں کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے بڑھ گئی ہے، روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں کتنے پیسے آگئے ہیں اور اس سب سے بڑھ کر یہ کہ اپوزیشن چور ہے۔

میں یہاں حکومت کو کہنا چاہتا ہوں کہ اگر اس سب سے کچھ وقت بچ جائے تو مرغی اور انڈوں کی قیمتوں پر بھی توجہ دے دی جائے تاکہ عام آدمی کو بکرا اور بچھیا نہ سہی جو مرغی دستیاب تھی وہ تو ان سے دُور نہ چلی جائے۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔