اسلام آباد کا آخری چڑیا گھر بھی جانوروں کی منتقلی کے بعد بند
دارالحکومت اسلام آباد کا آخری چڑیا گھر بھی باقی جانوروں کی بیرون ملک منتقلی کے بعد بند کردیا گیا۔
اس چڑیا گھر کی انتظامیہ کی طرف سے تنہا ترین ہاتھی 'کاوَن' کے ساتھ بُرا برتاؤ روا رکھے جانے پر بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔
دو ہمالین ریچھ 'ببلو' اور 'سوزی' وہ آخری دو جانور تھے جنہیں کاون کی کمبوڈیا منتقلی سے تقریباً تین ہفتے بعد اس چڑیا گھر سے منتقل کیا گیا۔
ملک کی وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ترجمان سلیم شیخ نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کو بتایا کہ 'اسلام آباد کا چڑیا گھر عوام اور عملے سب کے لیے مکمل بند کردیا گیا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'دونوں ریچھوں کو اردن میں محفوظ مقام پر منتقل کردیا جائے گا'۔
سلیم شیخ کا کہنا تھا کہ یہ اقدام فور پوز انٹرنیشنل کی مدد سے اٹھایا گیا ہے، اسی گروپ کی سربراہی میں کاون کی محفوظ منتقلی کی گئی تھی، جبکہ گلوکارہ و آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ چیر بھی اس عمل میں پیش پیش رہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چِڑیا گھر حراستی کیمپ، پنجرے تکلیف دہ ہیں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
وہ پہلے کاون کی روانگی کے لیے پاکستان پہنچیں اور پھر کمبوڈیا پہنچنے پر اس کا استقبال کیا۔
اسلام آباد کے چڑیا گھر میں 35 برس کا طیل عرصہ گزارنے والے کاون کی گرتی ہوئی صحت سے چڑیا گھر کی خراب صورتحال سامنے آئی، جہاں کی صورتحال اتنی خراب تھی کہ مئی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کے تمام جانوروں کی منتقلی کا حکم دیا تھا۔
جانوروں کی منتقلی کے دوران 2 شیر اور ایک شتر مرغ انتظامی غفلت کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کا یہ چڑیا گھر 1978 میں 10 ہیکٹر رقبے پر قائم کیا گیا تھا اور وہاں قیمتی جانور رکھے گئے تھے۔
انتظامیہ اب اسے جنگلی حیات کے تحفظ کا مرکز بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
جانوروں کی حفاظت و بہبود کے لیے قوانین نہ ہونے کے باعث پاکستان بھر میں چڑیا گھروں کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔
مزید پڑھیں: تنہا ترین ہاتھی قرار دیا جانے والا 'کاون' کمبوڈیا پہنچ گیا
سال 2018 میں پشاور میں نئے چڑیا گھر کھلنے کے چند ماہ کے اندر ہی تقریباً 30 جانور ہلاک ہوگئے تھے، جس میں برفانی چیتے کے 3 بچے بھی شامل تھے۔
چند روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 6 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا کہ انسانوں کی تفریح کے لیے جانوروں کو ان کے قدرتی ماحول سے محروم کرنا غیر انسانی سلوک تھا، ریچھوں کو ایک دہائی سے زائد عرصہ چڑیا گھر کے پنجروں میں قید رکھا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ چڑیا گھر میں کتنی ہی بہتر سہولیات کیوں نہ ہوں وہ جانوروں کے لیے حراستی کیمپ سے کم نہیں، قید کے دوران جانوروں کا غیر فطری رویہ ناقابل تصور اور تکلیف کا عکاس ہے۔