20 ممالک میں ہونے والی 54 تحقیقی رپورٹس کے ایک تجزیے میں یہ نتیجہ نکالا گیا۔
طبی جریدے جرنل جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ خاندان کے دیگر افراد کے مقابلے میں مریض کے شریک حیات میں اس وائرس کی منتقلی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ یہ خطرہ اس وقت سے بڑھنے لگتا ہے کہ جب گھر کے کسی فرد میں کووڈ 19 کی علامات جیسے کھانسی، بخار، سردی لگنا اور جسم میں درد ظاہر ہوجاتی ہیں۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ بالغ اور بچوں کی بجائے بالغ سے بالغ افراد میں وائرس کی منتقلی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس سے قبل چند ہفتوں قبل امریکا کے وینڈربیلٹ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کی تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ نیا کورونا وائرس درحقیقت سابقہ توقعات سے بھی زیادہ تیزرفتاری اور بڑے پیمانے پر ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق 53 فیصد سے زیادہ مریض ایسے ہیں جو کووڈ 19 کا شکار اس وقت ہوئے جب ان کے ساتھ رہنے والا اس وائرس سے متاثر ہوا۔
اپنے گھر کے کسی فرد کے باعث کووڈ 19 کا شکار ہونے والے 75 فیصد لوگوں میں یہ بیماری پہلے فرد کے بیمار ہونے کے 5 دن کے اندر منتقل ہوئی۔
اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ اب ہم جانتے ہیں کہ اگر گھر میں کسی کو کورونا وائرس کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اپنے گھر کے کم از کم 50 فیصد لوگوں کو اس کا شکار بنادیتا ہے اور وائرس کی منتقلی کا یہ عمل بہت تیزی سے ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی مہینوں کے دوران ہم اپنے خاندانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بعد ذہنی طور پر تھک چکے ہیں اور اپنے خاندان کے لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں، مگر بدقسمتی سے وائرس نہیں تھکا اور بلاتکان متحرک ہے اور خاندان سے ملاقاتوں کو پھیلاؤ کا ذریعہ بناسکتا ہے۔
خیال رہے کہ ایک سے دوسرے تک وائرس کی منتقلی اس کے پھیلاؤ کا سب سے عام ذریعہ ہے۔
تحقیق میں کہا گیا کہ ہمیں اپنے خاندان کو تحفظ فراہم کرنے کو اولین ترجیح بنانا چاہیے خاص طور پر سب سے کمزور یعنی بزرگوں کو یا جو پہلے ہی کسی بیماری کے شکار ہوں۔