مارگلہ ہلز کی حدود سے باہر اسٹون کرشنگ کی اجازت دینے کی درخواست مسترد
اسلام آباد میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے میٹروپولیٹن اسلام آباد کے اختیارات کی سی ڈی اے کو منتقلی پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ بنیادی حقوق کے معاملے میں حکومت کو ٹانگ نہیں اڑانے دیں گے۔
اسلام آباد میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
عدالت نے ماحولیاتی ایجنسی سے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کر لی۔
عدالت نے نیشنل پارک مارگلہ ہلز کی حدود سے باہر اسٹون کرشنگ کی اجازت دینے کی درخواست مسترد کردی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک جانب سے کرشنگ کی اجازت دے دی گئی تو پوری مارگلہ ہلز کرش کر دی جائیں گی، موٹروے پر سفر کریں تو کرش شدہ مارگلہ ہلز دیکھ کر شدید تشویش ہوتی ہے، پہلے درختوں کو کاٹ کر پہاڑی کو بنجر بنایا جاتا ہے پھر پہاڑی ہی اڑا دی جاتی ہے، یہ سلسلہ چلتا رہا تو ملک کا ماحول تباہ ہو کر رہ جائے گا۔
درخواست گزار کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ سی پیک روڈ کی تعمیر کے لیے بہترین لائم اسٹون مٹیریل اسی پہاڑی میں دستیاب ہے، یہاں سے پتھر نکالنے کی اجازت دینا بھی قوم کے مفاد میں ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ قوم کے مفاد کی نہیں کرشر کے مالیاتی مفاد کی بات کر رہے ہیں، مطلوبہ پتھر کہیں دور سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے، اگر کرشرز کو پہاڑ توڑنے کی اجازت دے دیں تو یہ کے ٹو بھی اڑا کر رکھ دیں گے، ہمیں قومی اثاثے کی حفاظت کرنی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا مونال ریسٹورنٹ کی توسیع کا عمل روکنے کا حکم
انہوں نے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی پہاڑ اس طرح نہیں کاٹے جاتے اور دنیا بھر میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام ہو رہا ہے۔
وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ تو ایسا ہی ہے کہ مچھیرے کو مچھلی کا شکار کرنے سے روک دیا جائے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ مچھیرے کو مچھلی کے شکار کی اجازت سے نہیں روکتے کیونکہ مچھلی دوبارہ پیدا ہو جاتی ہے، پہاڑ ایک مرتبہ توڑ دیا جائے تو دوبارہ نہیں بنتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کے جینے کے حق کو ختم نہیں کیا جا سکتا، کیا کرشرز چاہتے ہیں کہ نیشنل پارک ختم ہوجائے؟ کرشنگ سے ہونے والے ماحولیاتی نقصان کا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔
اس موقع پر وکیل اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ مارگلہ ہلز سے جنوبی ایشا کا سب سے قیمتی لائم اسٹون نکلتا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ہماری مشینری اور مٹیریل ضبط کر لیے گئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا سامان واپس کرنے کا حکم دے دیں گے لیکن اعتزاز احسن صاحب، آپ ایک تاجر کی نمائندگی نہ کریں ملک کا مفاد دیکھیں۔
انہوں نے کہا کہ مارگلہ ہلز کی حفاظت سپریم کورٹ کر رہی ہے، اگر سپریم کورٹ نہ روکتی تو مارگلہ ہلز پر ہوٹل اور ہاؤسنگ سوسائٹیز بن چکی ہوتیں، پیسہ آنی جانی چیز ہے پہاڑیاں واپس نہیں آئیں گی۔
وکیل اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اس طرح تو پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) بھی آنی جانی چیز ہوئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سی پیک کا چاہے بعد میں نام بدل دیا جائے مگر جب ہونا ہوا مکمل ہو جائے گا، مارگلہ ہلز کے علاوہ حکومت دوسرے قومی معدنی وسائل کی طرف بھی توجہ دے۔
عدالت عظمیٰ نے میٹرو پولیٹین اسلام آباد سے سی ڈی اے کو اختیارات کی منتقلی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے قائم مقام میئر اسلام آباد کو طلب کرلیا۔
مزید پڑھیں: ’سب سے بڑا ذخیرہ سندھ میں ہونے کے باوجود صوبے کے عوام پانی کو ترس رہے ہیں‘
چیف کمشنر اسلام آباد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسٹریٹ لائٹس، سڑکوں کی تعمیر سمیت پانچ اختیارات سی ڈی اے کو عارضی طور پر دیے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میئر اسلام آباد سے اختیارات لینا آئین کی خلاف ورزی ہے۔
اس پر چیف کمشنر اسلام آباد نے بتایا کہ میئر اسلام آباد کی جانب سے پانچ ادارے خود سی ڈی اے کو دیے گئے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے اختیارات بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، آرٹیکل 140 تو پھر اسلام آباد میں غیر فعال ہوگیا؟ قانون عمل کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور بنیادی حقوق کے معاملے میں حکومت کو ٹانگ اڑانے نہیں دیں گے۔
کمشنر اسلام آباد نے بتایا کہ میٹروپولیٹن اسلام آباد کے رولز آف بزنس بنا کر کابینہ کو بھجوا دیے گئے ہیں۔
عدالت نے حکومت کو اسلام آباد میٹروپولیٹین کے رولز ایک ہفتے میں نوٹیفائی کرنے کا حکم دے دیا۔
بعد ازاں قائم مقام میئر اسلام آباد عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے قائم مقام میئر سے سوال کیا کہ آپ کو اسلام آباد کے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں؟ آپ نے سارے اختیارات سی ڈی اے کو دے دیے ہیں، آپ صبح سے شام دفتر میں کیا کرتے ہیں؟
قائم مقام میئر اسلام آباد نے جواب دیا کہ کرنے کو کچھ بھی نہیں، صبح سے شام دفتر میں بیٹھے رہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے مزید دریافت کیا کہ آپ جہاں سے منتخب ہو کر آئے ہیں وہاں لوگ نہیں پوچھتے کہ کیا کام کرتے ہیں آپ؟ افسوسناک بات ہے کہ اسلام آباد میں مقامی حکومت کے پاس اختیارات نہیں کراچی میں بھی یہی کہا جاتا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس کے استفسار پر چیف کمشنر نے بتایا کہ اسلام آباد میں 100 پبلک ٹوائلٹس بنارہے ہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ 100 ٹوائلٹس سے کیا ہوگا، سڑک کے ساتھ ہر کلومیٹر پر پبلک ٹوائلٹ ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں 500 پبلک ٹوائلٹس بنائیں، بلیو ایریا میں سروس روڈ پر پارکنگ ایریا بنا ہوا ہے، سڑک کے قریب پارکنگ کی اجازت نہیں ہوگی، شاپنگ مالز ختم کر دیں یا انہیں کہیں اپنی پارکنگ کی جگہ بنائیں۔
عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا کہ اس سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کیا جائے گا۔