نقطہ نظر

معاشی اعتبار سے سال 2020ء پاکستان کے لیے کیسا رہا؟

صرف ڈالر پر معاشی صورتحال کا دارومدار نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ بھی دیگر عوامل ہیں جو معاشی سمت کا تعین کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔

سال 2020ء اپنے اختتام کو ہے۔ یہ سال کیسا گزرا، ہر شخص کے تجربات مختلف ہوں گے لیکن ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ کرہِ ارض پر شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو جو سال 2020ء میں کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی صورتحال سے متاثر نہ ہوا ہو۔

ترقی یافتہ ممالک سے لے کر ترقی پذیر قوموں تک سب متاثر ہوئے ہیں۔ ایک سال میں پاکستانی معیشت کس حد تک متاثر ہوئی اور کورونا کے علاوہ دیگر عوامل نے پاکستان کی معاشی حالت پر کیا اثرات چھوڑے ہیں، آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی معیشت کا دار و مدار ڈالر کے اتار اور چڑھاؤ کے ساتھ منسلک ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ صرف ڈالر ہی معاشی ترقی و تنزلی کا پیمانہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر عوامل موجود ہیں جو معاشی سمت کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آج ہم بیشتر پہلوؤں کا جائزہ لیں گے۔ آئیے سب سے پہلے ڈالر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

یکم جنوری 2020ء کو پاکستان میں ڈالر کی قیمت تقریباً 154 روپے تھی اور دسمبر 2020ء میں اس کی قیمت تقریباً 160 روپے کے آس پاس ہے۔ لیکن اس ایک سال میں ڈالر کی قیمت 170 کے قریب بھی پہنچی تھی۔

ڈالر کی قیمت میں بے ترتیب اتار چڑھاؤ کی وجہ آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ ہے۔ اس کے مطابق اسٹیٹ بینک ڈالر کو کنٹرول نہیں کرے گا اور طلب اور رسد کی بنیاد پر مارکیٹ خود ہی قیمت کا تعین کرے گی۔ لیکن ایک سال میں جو اتار چڑھاؤ دیکھا گیا ہے ماضی میں ایسی مثالیں بہت کم ہیں۔ ماضی میں ڈالر کی قیمت میں بڑا اضافہ تو ہوتا رہا ہے لیکن تقریباً 12 روپے کی کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔

2014ء میں جب ڈالر کی قیمت 108 روپے تک پہنچی تھی تو شیخ رشید نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت ڈالر کی قیمت 100 روپے پر نہیں لاسکتی، مگر اس وقت کے وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار نے سعودی عرب کی جانب سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی مبیّنہ امداد کو استعمال کرتے ہوئے ڈالر کی قیمت 97 روپے تک لانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔۔

لیکن وہ ایک مصنوعی طریقہ تھا جبکہ موجودہ کمی مارکیٹ کے اصولوں کے تحت ہوئی ہے۔ حکومت نے ڈالرز کے ذخائر بڑھانے کے لیے جو قانون سازی کی ہے اس نے ملک میں روپے کی قدر کو مضبوط کیا ہے۔

روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس

میں یہاں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے، اس نے بیرونِ ملک پاکستانیوں سے امیدیں باندھ لی تھیں، مگر عمران خان صاحب کی درخواست کے باوجود بھی وہ پاکستان میں ڈالر بھیجنے پر راضی نہیں تھے۔ حکومت نے بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ڈالر اکاؤنٹس پر 7 فیصد تک منافع کی پیشکش کی جبکہ دنیا میں یہ شرح 0.5 فیصد سے ایک فیصد کے درمیان ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ بیرونِ ملک بیٹھے پاکستانیوں کو آسان شرائط پر آن لائن اکاؤنٹ کھلوانے کی سہولت بھی مہیا کردی گئی۔ ادائیگیاں بھی آن لائن ہوں گی اور وصولیاں بھی، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چند ماہ میں ہزاروں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کھل گئے ہیں، اور اب تک ان میں کروڑوں ڈالر جمع ہوچکے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کے مطابق پاکستان روزانہ تقریباً 20 لاکھ ڈالر روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں وصول کر رہا ہے اور 23 نومبر 2020ء تک پاکستان تقریباً 16 ارب روپے حاصل کرچکا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کا کردار

اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کے سخت قوانین نے ڈالر کو 170 روپے کی سطح سے نیچے لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سخت سزاؤں کی بدولت جعلی منی چینجرز نے کاروبار بند کردیے ہیں اور بیرونِ ملک پاکستانی قانونی راستے کے ذریعے رقم پاکستان بھجوانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

کورونا وائرس کا کردار

ایک اہم وجہ کورونا وائرس بھی ہے جس کی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف ملا ہے۔ پاکستان جی20 ممالک سے بھی تقریباً 80 کروڑ ڈالر قرضوں کی ادائیگیوں میں وقت لینے میں کامیاب ہوگیا ہے۔

گوکہ آج بھی ڈالر کی قیمت جنوری 2020ء سے زیادہ ہے لیکن ڈالر کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے حکومتی کاوشیں بہتر دکھائی دیتی ہیں۔

برآمدات کسی بھی ملک کی ترقی میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ کاروبار کا دور ہے اور کارپوریٹ سیکٹر ہی اصل حکمران ہے۔ آج کے ترقی یافتہ ممالک وہ ہیں جن کے تاجر خوشحال ہیں۔ اگر آپ دنیا کو اپنی چیزیں بیچ نہیں سکتے تو آپ چاہے بے پناہ ذخائر کے مالک ہی کیوں نہ ہوں آپ معاشی طور پر مضبوط نہیں ہوسکتے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے بھی برآمدات بڑھانے کے دعوے کیے تھے جس میں خاطر خواہ اضافہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اگر پچھلے 12 ماہ کی بات کی جائے تو نومبر 2019ء میں پاکستان کی برآمدات تقریباً 2 ارب ڈالر تھیں اور نومبر 2020ء کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو ان کے مطابق برآمدات میں صرف 7.2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ایک سال میں یہ کارکردگی زیادہ حوصلہ افزا دکھائی نہیں دے رہی۔ اگر ان 12 مہینوں کے درمیان کارکردگی دیکھی جائے تو کئی مہینوں میں تو برآمدات ڈیڑھ ارب ڈالر سے بھی کم رہی ہیں۔ تسلی بخش کارکردگی نہ ہونے کی وجہ کورونا کو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن ایشیا کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں معاشی سرگرمیاں کم عرصے تک بند رہی ہیں۔ ہندوستان اور چین میں ہونے والے نقصان کا فائدہ پاکستان نے اٹھایا ہے۔ ٹیکسٹائل کے شعبے کے بیشتر آرڈر چین اور ہندوستان سے کٹ کر پاکستان کو ملے ہیں، لیکن برآمدات میں مطلوبہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آرہا۔

چاولوں کی برآمدات

جولائی 2020ء میں چاولوں کی برآمدات جولائی 2019ء کی نسبت کم رہی ہیں۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق جولائی 2019ء میں چاولوں کی برآمدات 3 لاکھ 65 ہزار 138 ٹن تھی جو جولائی 2020ء میں کم ہوکر 2 لاکھ 66 ہزار 206 ٹن رہ گئی ہے۔

رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سینئر وائس چیئرمین فیصل جہانگیر کے مطابق چاول پاکستان میں کپاس کے بعد دوسری بڑی برآمدات ہے۔ لیکن حکومت کی طرف سے عدم توجہی کے باعث ہماری برآمدات کم ہو رہی ہیں۔ 2010ء میں پاکستان سے چاولوں کی برآمدات تقریباً 3 ارب ڈالر تھی جو آج کم ہو کر تقریباً 2 ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر کام نہ ہونا ہے۔

کالا شاہ کاکو رائس ریسرچ انسٹیٹیوشن، پاکستان بننے سے پہلے قائم ہوا تھا لیکن آج تک چاولوں اور خاص طور پر باسمتی کی کاشت بہتر بنانے کے لیے کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا۔ باسمتی چاول میں ہندوستان کی فی ایکڑ پیداوار تقریباً 120 من ہے جبکہ پاکستانی کسان صرف 70 من حاصل کر پاتا ہے۔ بیرونِ ملک خصوصی طور پر عرب امارات میں پاکستانی تاجر پہلے پاکستانی باسمتی چاول خرید کر بیچا کرتے تھے لیکن اب ہندوستانی باسمتی چاول کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے پاکستانی تاجر بھی ہندوستانی باسمتی چاول خرید کر بیچنے پر مجبور ہیں۔ فیصل جہانگیر کے مطابق اگر حکومت نے چاولوں کی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر توجہ نہ دی تو 2 ارب ڈالر کی یہ برآمدات اگلے سال ڈیڑھ ارب ڈالر تک گر سکتی ہے۔

ٹیکسٹائل اور کپاس کی برآمدات

اگر ٹیسکٹائل برآمدات کی بات کریں تو پچھلے چند ماہ سے بہتری دیکھنے میں آرہی ہے۔ حکومتی دعوؤں کے مطابق ٹیکسٹائل سیکٹر اپنی مکمل استعداد پر کام کر رہا ہے۔

پچھلے چند ماہ میں حکومت نے ٹیکس ریفنڈ اور بجلی کے نرخوں میں ٹیکسٹائل سیکٹر کو جو مراعات دی ہیں اس کو مدِنظر رکھتے ہوئے ابھی تک ڈالر ویلیو میں ٹیسکٹائل برآمدات میں مطلوبہ بہتری نظر نہیں آرہی۔ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کے اثرات بہتر ہوں لیکن سال 2020ء میں ٹیسکٹائل سیکٹر کی کارکردگی زیادہ متاثر کن دکھائی نہیں دی۔

میں یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس سال کپاس کی پیداوار پچھلے سال کی نسبت کم ہوئی ہے۔ اس کی وجہ کسانوں کی کپاس کی پیداوار میں عدم دلچسپی ہے۔ فی ایکڑ پیداوار اتنی کم ہوتی ہے کہ کسان کو جیب سے پیسہ لگانا پڑ جاتا ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کو کپاس کی وہی قیمت مل رہی ہے جو چین، بھارت اور بنگلا دیش کو ملتی ہے لیکن فی ایکڑ پیداوار کم ہونے کی وجہ سے اخراجات بھی پورے نہیں ہو پاتے، اس لیے کپاس کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔

بس اسی وجہ سے ٹیکسٹائل سیکٹر اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے کپاس درآمد کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ اس لیے یہاں یہ سوال ضرور اٹھانا چاہیے کہ ٹیکسٹائل میں یہ کیسی بہتری ہے کہ ایک جانب برآمدات بڑھنے کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے اور دوسری جانب کپاس کی درآمدات بڑھ گئی ہے۔ جس شعبے پر ہمیں سب سے زیادہ فخر ہے اگر وہاں یہ صورتحال ہے تو باقی شعبوں کے بارے میں بہتری کی امید کرنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ اگر ٹیکسٹائل برآمدات سے حقیقی فائدہ اٹھانا ہے تو کپاس کی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔

پاک افغان تجارت

سال 2020ء اس اعتبار سے بہتر ہے کہ برآمدات کو بڑھانے کے لیے پاک افغان تنازعات کو کم کرنے کی عملی کوشش کی گئی ہے۔ وفود آ جا رہے ہیں اور سفارتی سطح پر ملاقاتیں جاری ہیں۔

اکتوبر 2020ء میں افغانی وفد پاکستان آیا اور تجارت بڑھانے کی بات ہوئی۔ نومبر 2020ء میں وزیرِاعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد صاحب افغانستان پہنچے اور سب سے آخر میں وزیرِاعظم عمران خان بھی افغان صدر سے ملاقات کرنے پہنچ گئے۔ اس دورے سے تجارت کے راستے میں موجود بہت سی رکاوٹیں ختم ہوئیں۔ سب سے اہم موضوع پاکستان کے ٹرکوں کو ازبکستان، تاجکستان اور آزربائیجان تک براہِ راست رسائی دینے سے متعلق تھا۔ خبر ہے کہ اس معاملے پر کافی کام ہوچکا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ راستے پاکستان کے لیے کھل جائیں گے جس سے برآمدات بڑھانے میں مدد ملے گی۔

اس کے علاوہ پاک افغان بارڈر پر سامان کا بک جانا اور فائلوں کا پیٹ کاغذوں سے بھرنے جیسے معاملات بھی زیرِ غور آئے ہیں۔ بارڈر پر جدید اسکیننگ کا نظام نافذ کرنے، بارڈر فینسنگ کروانے اور نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے آپشنز پر سختی سے عمل کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ اس کے علاوہ دونوں اطراف کے چیمبرز آف کامرس کے مشترکہ دفاتر طورخم اور کابل میں بنانے پر اتفاق ہونے کی خبریں ہیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو یقینی طور پر وہ تمام مسائل گھنٹوں میں حل ہوجائیں گے جن کے لیے ابھی سالوں لگ جاتے ہیں۔ افغان اسپیئر پارٹس اور سگریٹ پاکستان کی منفی لسٹ میں شامل ہیں جس سے پاکستان میں استعمال شدہ گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس مہنگے ہوگئے ہیں۔ ان میٹنگز میں انہیں منفی لسٹ میں سے نکالنے پر بھی کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ ان اقدامات نے تاجروں کے لیے نئی امیدیں پیدا کی ہیں اور دونوں اطراف کی کاروباری برادریاں اپنی حکومتوں سے خوش دکھائی دے رہی ہے۔

کسی بھی ملک کی معیشت میں ٹیکس آمدن جسم میں خون جیسی حیثیت رکھتی ہے۔ ٹیکس وصول ہوگا تو ملک چلے گا۔ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس اکٹھا کرنے کا نظام بہت سادہ اور ڈیجیٹل ہے جبکہ پاکستان میں حالات تھوڑے مختلف ہیں۔ یہاں ٹیکس کا نظام پیچیدہ بھی ہے اور اس کے بدلے سرکاری مراعات بھی نہیں ملتیں۔

اگر سال 2020ء کی بات کی جائے تو جن کمپنیوں اور افراد کا مالی سال جون 2020ء میں ختم ہوتا ہے ان کی ریٹرن جمع کروانے کی آخری تاریخ 8 دسمبر 2020ء مقرر کی گئی تھی۔

اس تاریخ تک تقریباً 18 لاکھ لوگوں نے ریٹرنز جمع کروائے جبکہ پچھلے سال مارچ تک وقت بڑھا دیا گیا تھا جس کے باعث تقریباً 28 لاکھ لوگوں نے ریٹرنز جمع کروائے تھے۔ اس لحاظ سے اس سال کی کاردگی بہتر دکھائی نہیں دیتی۔ ماہرین کے مطابق تاریخ میں چند دن کی توسیع سے تقریباً 30 لاکھ سے زائد ریٹرنز جمع ہونے کی امید تھی جو اب شاید نہ ہوسکیں۔

حکومتی دعویٰ ہے کہ پچھلے سال اسی دورانیے کے دوران تقریباً 17 لاکھ 30 ہزار ریٹرنز جمع کروائے گئے تھے جو اس سال کی نسبت 4 فیصد کم ہیں۔ اسی طرح پچھلے سال اسی دورانیے میں 13.5 ارب روپے ٹیکس اکٹھا ہوا تھا جبکہ اس سال 22 ارب روپے ٹیکس اکٹھا ہوا ہے جو 63 فیصد زیادہ ہے۔ لیکن اس طرح کے دعوے کرنے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے۔ اصل اعداد و شمار جون 2021ء تک سامنے آئیں گے۔ جب تمام لوگ ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کی سہولت استعمال کرچکے ہوں گے اور ٹیکس بھی اکٹھا ہوچکا ہوگا، کیونکہ یہ بات بھی سچ ہے کہ پاکستان میں آخری تاریخوں میں ریکارڈ ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے کیونکہ ہمیں ہر کام آخری تاریخ پر کرنے کی عادت ہے۔

پچھلے سال 8 دسمبر ریٹرن جمع کروانے کا آخری دن نہیں تھا بلکہ وہ ایک عام دن تھا۔ اس لیے ان کا موازنہ کرنا شاید مناسب نہیں ہے۔ اگر 3 لاکھ وہ لوگ جنہوں نے ایکسٹنشن فائل کی ہے وہ بھی ریٹرنز جمع کروا دیتے ہیں تو تعداد 21 لاکھ ہوجائے گی، جو پچھلے سال سے تقریباً 8 لاکھ کم ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کتنے لوگ لیٹ فیس کے ساتھ ریٹرنز جمع کرواتے ہیں۔ پچھلے سال کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تقریباً 8 لاکھ لوگوں کا لیٹ فیس کے ساتھ ریٹرنز جمع کروانا ضروری ہے، جو مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس حوالے سے سخت اقدامات اٹھاتی ہے یا نہیں۔

اگر ملکی سالانہ ٹیکس آمدن کی بات کی جائے تو آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد پچھلے سال ٹیکس ہدف ساڑھے 5 کھرب روپے تھا جبکہ صرف 4 کھرب کے قریب ٹیکس اکٹھا ہوسکا تھا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن حکومت کی جانب سے کورونا کو اس کی بڑی وجہ قرار دیا گیا۔

اگر اس سال کا ذکر کریں تو اس مالی سال کا ٹیکس ہدف 4.963 ٹریلین روپے طے کیا گیا ہے۔ حکومت یہ ٹیکس ہدف حاصل کر پاتی ہے یا نہیں اس کا صحیح حساب جون 2021ء میں ہوسکے گا لیکن ابھی تک کے اعداد و شمار کے مطابق نئے مالی سال کی پہلے سہ ماہی کا جو ٹیکس ہدف مقرر کیا گیا تھا، حکومت نے اس سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرلیا ہے۔ درآمدات میں کمی کے باوجود ٹیکس ہدف کا حصول یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک کے اندر مقامی سطح پر اشیا کی تیاری کا رجحان بڑھ رہا ہے اور وہ مارکیٹ میں بک بھی رہی ہیں یعنی کہ کسٹمر مقامی سطح پر بنی چیزوں کو خرید رہے ہیں۔

ابھی تک دسمبر 2020ء کے اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے جس کے باعث موجودہ سہ ماہی کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن حکومتی حلقوں میں امید کی جارہی ہے کہ دوسری سہ ماہی جو 31 دسمبر کو ختم ہوگی اس کا ٹیکس ہدف بھی حاصل کرلیا جائے گا۔

اگر مہنگائی کی بات کریں تو سال 2020ء انتہائی مشکل سال تھا۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت نے ہر چیز کو پَر لگا دیے ہیں۔ اگر ڈالر 10 فیصد بڑھتا ہے تو مارکیٹ میں ہر چیز کی قیمت 50 فیصد تک بڑھا دی جاتی ہے اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔

اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے اور مافیا کے ہتھکنڈوں کی بدولت عام آدمی کے لیے بجٹ بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ کبھی آٹے کی قلت، کبھی چینی مارکیٹ سے غائب اور کبھی ٹماٹر آسمان سے باتیں کرتے دکھائی دیے۔ بعض رپورٹس کے مطابق سال 2020ء میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ جولائی 2020ء میں نئے مالی سال کے شروع کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 9.3 فیصد رہی اور حکومتی دعوؤں کے باوجود ستمبر میں یہ شرح 9 فیصد ہے۔

مہنگائی اور قوتِ خرید کے حالات یہ ہوگئے ہیں کہ جس شخص کے پاس 20 لاکھ روپے تھے تو پچھلے 2 سالوں میں اس کی قدر 10 لاکھ کے برابر ہوگئی ہے۔ جس ماں نے بیٹی کے جہیز کے لیے 5 لاکھ روپے جوڑ رکھے تھے اب ڈھائی لاکھ میں بھی وہ سامان نہیں آتا۔ کسی شخص نے 18 سو سی سی ہنڈا سوک کے لیے 27 لاکھ روپے کا بجٹ رکھا تھا تو اب اس میں ہنڈا سٹی بھی نہیں آرہی ہے۔ جس نے 10 مرلے کے گھر کے لیے سوا کروڑ روپے رکھے ہوئے تھے اب اس میں 5 مرلے کا نیا گھر نہیں آرہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سال 2020ء میں عوام کے معاشی حالات بہت پتلے رہے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔

اگر بے روزگاری کی بات کی جائے تو سال 2020ء زیادہ غیر متوقع نہیں رہا۔ یہاں معاملہ صرف پاکستان کا نہیں، بلکہ بے روزگاری کے حساب سے 2020ء میں شاید پوری دنیا بُرے وقت سے گزر رہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ کورونا وائرس ہے۔ سب سے زیادہ بے روزگاری امریکا میں دیکھنے میں آئی ہے۔ لیکن دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح اتنی زیادہ نہیں بڑھی ہے۔ سال 2019ء میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح تقریباً 4.5 فیصد تھی جبکہ سن 2020ء میں بھی یہ شرح 4.5 فیصد ہی رہی ہے۔

اسے حکومت کی کامیاب حکمتِ عملی قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک ماہ کے مکمل لاک ڈاؤن نے ملک میں بے روزگاری میں اضافہ کیا لیکن بعد ازاں وزیرِاعظم عمران خان نے اسے بڑی غلطی قرار دیا اور جس وقت کورونا اپنے عروج پر تھا حکومت نے لاک ڈاؤن ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ جس سے کاروبار کھلے اور بے روزگاری میں زیادہ اضافہ نہیں ہوسکا۔ یہ بات بھی قابلِ تحسین ہے کہ وزیرِاعظم عمران خان کی اس پالیسی کی دنیا معترف ہوئی۔ جس طرح پاکستان میں کورونا اور معیشت دونوں ساتھ چلے ہیں دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی، بلکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے دنیا کو پاکستان سے سیکھنے کا مشورہ بھی دیا۔

پاکستان میں بے روزگاری کی شرح رواں سال بھی گزشتہ سال کے برابر 4.5 فیصد رہی، لیکن آنے والے دنوں میں شاید یہ صورتحال برقرار نہ رہ سکے۔ اعداد و شمار کے مطابق بے روزگاری کی یہ شرح بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سال 21ء-2020ء میں بے روزگاری کی شرح 7 سے 10 فیصد تک ہوسکتی ہے۔

یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ آنے والے دنوں میں اگر بے روزگاری بڑھتی ہے تو اس کی وجہ کورونا کو قرار دینا شاید مشکل ہوجائے کیونکہ کورونا کی وجہ سے جو کاروبار بند ہوئے تھے وہ دوبارہ چل پڑے ہیں اور پہلے سے زیادہ قوت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح بڑھنے کی وجہ بین الاقوامی ہوسکتی ہے کیونکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکا سے بہت سے بے روزگار لوگ پاکستان واپس آرہے ہیں اور اس کا بوجھ پاکستانی معیشت پر پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

حکومت کے مطابق سال 2020ء اس حوالے سے بھی بہتر رہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم ہوکر سرپلس میں تبدیل ہوگیا ہے۔ پچھلے 4 ماہ سے مسلسل کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رپورٹ ہو رہا ہے جو خوش آئند ہے۔

لیکن میں یہاں بتانا چاہتا ہوں کہ خسارہ کم ہونے کی وجہ برآمدات میں اضافہ نہیں بلکہ درآمدات میں کمی ہے۔ میں یہاں یہ نہیں کہنا چاہ رہا کہ برآمدات میں بالکل بھی اضافہ نہیں ہوا لیکن جو اضافہ ہوا ہے اس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم نہیں کیا جاسکتا۔ آپ یوں سمجھ لیجیے کہ آپ 3 وقت کا کھانا کم کرکے 2 وقت کردیں اور مہینے کے آخر میں دعویٰ کردیں کہ میں نے 5 کلو آٹا بچا لیا ہے اور یہ میری کامیابی ہے۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا یہ کامیابی ہے یا مفلسی؟

پاکستانی کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس آنے میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ پیسے بچانا اچھا اقدام ہے لیکن اس سے معیشت خوشحال نہیں ہوسکتی۔ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس سے حقیقی معنوں میں فائدہ اٹھانے کے لیے برآمدات بڑھانا پڑیں گی۔ یعنی زیادہ توجہ پیسے پچانے کے بجائے پیسے کمانے پر دینا ہوگی۔ سہولیات سے محروم ہوکر پیسہ بچانے کو کبھی بھی کامیابی نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اصل کامیابی یہ ہے کہ سہولیات اور آسائشیں بھی بڑھیں اور کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس بھی بڑھے۔

حکومتی ڈالر کے ذخائر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ پچھلے ماہ کی رپورٹ کے مطابق ڈالر ذخائر ساڑھے 3 سال کی بلند ترین سطح پر آگئے ہیں۔ 2020ء میں ڈالر کے ذخائر 20 ارب 40 کروڑ ڈالر ہوگئے ہیں۔

اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم وجہ دوست ممالک کی جانب سے قرضوں کی ادائیگیوں میں ملنے والا ریلیف ہے۔ اس کے علاوہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ اور ایف اے ٹی ایف بل کی منظوری ایسے اقدامات ہیں جن کے بغیر یہ سطح برقرار رکھنا مشکل تھا۔ میں یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ستمبر 2020ء میں ریکوڈک کیس میں پاکستان کو بین الاقوامی عدالت کی جانب سے ملنے والا ریلیف کافی حوصلہ افزا خبر تھی۔ جس نے وقتی طور پر 6 ارب ڈالر کی ادائیگی کی لٹکتی ہوئی تلوار ہٹا دی۔ اگر پاکستان کو یہ ڈالر ادا کرنے پڑ جاتے تو ذخائر کی یہ سطح شاید برقرار نہیں رکھی جا سکتی تھی۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق جون 2018ء سے جون 2020ء میں ختم ہونے والے تحریک انصاف کی حکومت کے 2 مالی سالوں میں قرضوں میں ساڑھے 18 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ قرضوں کی مالیت 112 ارب ڈالر ہے اور قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے مزید قرض لینے کے منصوبے زیرِ غور ہیں۔

اسی مالی سال کے اختتام تک پاکستان نے تقریباً 11 ارب 89 کروڑ ڈالر کے قرض واپس کیے ہیں جو 19ء-2018ء کی نسبت 23 فیصد زیادہ ہیں۔ لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے کچھ قرضوں کی ادائیگیوں میں ریلیف بھی ملا ہے۔ اس میں سب سے بڑا ریلیف جی20 ممالک کی جانب سے ہے۔

حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے تقریباً 80 کروڑ ڈالرز کے قرض معاف کروا لیے ہیں اور باقی ایک ارب ڈالر کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ یہ خبر پاکستان کے لیے اچھی ہے لیکن بہت بڑی سفارتی کامیابی نہیں ہے کیونکہ پاکستان اس ریلیف میں اکیلا نہیں ہے۔ افریقہ کے کئی ممالک سمیت بیسیوں غریب ممالک کو یہ رعایت خودکار نظام کے تحت دی گئی ہے۔

اگر فوراً واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کی بات کی جائے تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت نے 4 ارب ڈالر کے قرض واپس مانگ لیے ہیں، جو دسمبر سے فروری تک واجب الادا ہیں۔ سال 2020ء میں ہی سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر واپس مانگا تھا جو پاکستان نے چین سے لے کر سعودی عرب کو دے دیا تھا۔ لیکن اب صورتحال تھوڑی مشکل دکھائی دیتی ہے کیونکہ ان کے ساتھ چین کے بھی 3 ارب ڈالر کی ادائیگی کا وقت ہو رہا ہے۔

حکومت کشمکش میں ہے اب چین سے مزید قرض مانگا جائے یا پہلا قرض ری شیڈول کروایا جائے۔ ان حالات میں سعودی عرب سے سفارتی تعلقات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کے پیش نظر یہ امید کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں بہتر صورتحال سامنے آسکے گی۔ بعض رپورٹس کے مطابق حکومت کامیاب سفارت کاری کی بدولت 4 ارب ڈالرز کے قرض کو مزید ایک سال بڑھانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

یاد رہے کہ ان پے در پے ریلیف کے پیچھے کورونا وائرس بھی ایک مضبوط وجہ ہے۔ آنے والے سالوں میں یہ قرض ادا کرنے ہوں گے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سے انتظامات مکمل رکھے جائیں تاکہ وقت آنے پر پھر سے پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

پاکستانی معیشت میں مہنگائی کی ایک وجہ اشیا کی قیمتوں میں غیر حقیقی اضافہ اور اس پر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھا ہے جس کا کام اشیا کی قیمتوں میں غیر ضروری اضافہ روکنا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے 2009ء میں سیمنٹ اندسٹری نے لاہور ہائیکورٹ میں ایک پٹیشن دائر کرکے سی سی پی کے خلاف اسٹے لے لیا۔ سیمنٹ کے بعد باقی صنعتوں جیسے شوگر، آئل اینڈ گیس، فرٹیلائزر، ایجوکیشن، ٹیلی کام، ریئل اسٹیٹ، دودھ اور جوس بنانے والے کئی اداروں نے عدالت سے اسٹے لے لیا، جو 11 سال بعد 2020ء میں ختم ہوا ہے۔ جس کے بعد یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ اشیا کی قیمت اس وقت تک نہیں بڑھائی جاسکیں گی جب تک اس کا مکمل حساب کتاب حکومت کے ساتھ شیئر نہیں کر لیا جاتا۔

آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ ڈالر کی قیمت اگر 10 فیصد بڑھتی ہے تو گاڑیوں کی قیمت 25 فیصد بڑھ جاتی ہے اور جب ڈالر کی قیمت کم ہوتی ہے تو گاڑیوں کی قیمت کم نہیں کی جاتی۔ یہ مسئلہ دراصل عدالت میں موجود اسٹے کی وجہ سے تھا جو اب ختم ہوگیا ہے جس کے ساتھ ہی کمیشن نے کام بھی تیز کردیا ہے۔ نومبر میں سی سی پی نے سیمنٹ سیکٹر پر چھاپے مار کر ریکارڈ قبضے میں لیا ہے۔ یہ چھاپہ اس اطلاع کے بعد مارا گیا کہ سیمنٹ کی قیمتوں میں غیر ضروری اضافہ کیا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر یہ ادارہ اپنی اصل روح کے ساتھ کام شروع کردے تو پاکستان میں اشیا کی ویلیو فار منی کو یقینی بنایا جاسکے گا اور مہنگائی میں بھی خاطر خواہ کمی ہوسکے گی۔

سال 2020ء اس لحاظ سے بہتر رہا ہے کہ اس میں ایف اے ٹی ایف کا بل منظور ہوگیا ہے۔ اینٹی منی لانڈرنگ قوانین پاکستانی معیشت میں بہتری کے لیے ناگزیر ہوگئے تھے۔ انہیں اسمبلی سے منظور کروانے کے لیے حکومت کے پاس مطلوبہ تعداد موجود نہیں تھی اور اپوزیشن اس بل کی منظوری کے حق میں بھی نہیں تھی لیکن حکومت نے بہترین حکمت عملی کے تحت اسے اسمبلی سے منظور کروا لیا۔ جس کے بعد پاکستان سے ڈالروں کی منی لانڈرنگ میں کمی ہونے کی امید ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں ڈالر کی قدر میں کمی اور ڈالر ذخائر میں مسلسل اضافے کی ایک وجہ بھی یہی ہے۔ جیسے ہی یہ بل تیار ہونے اور منظور ہونے کا عمل شروع ہوا تو جعلی منی چینجرز نے دکانیں بند کرنا شروع کردیں اور ڈالر بینکوں اور منی چینجرز کو بیچ دیے۔ اس سے پاکستان میں بیرونِ ملک سے آنے والی ترسیلاتِ زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا بلکہ اگست کے مہینے میں پاکستانی تاریخ کی سب سے زیادہ ترسیلات موصول ہوئی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق غیر قانونی راستے محدود ہونے کی وجہ سے بیرونِ ملک پاکستانی رقوم کی منتقلی کے لیے قانونی راستے استعمال کر رہے ہیں۔

آج کل پاکستانی معیشت کا ذکر آئی ایم ایف کے ذکر کے بغیر ناممکن ہے, کیونکہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض کی ڈیل کر رکھی ہے، جس کی شرائط پوری نہ ہونے کی صورت میں فنڈز روک دیے جاتے ہیں۔

جولائی 2019ء سے پاکستان اور آئی ایم ایف کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہ کرنا اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، نقصان والے اداروں کو بیچنا اور اداروں میں اصلاحات سمیت کئی معاملات میں پیش رفت نہیں ہونا ہے۔ حکومت کی حالت ایسی ہے کہ وہ نہ تو نگل سکتی ہے اور نہ ہی اگل سکتی ہے۔ گوکہ وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ اور وزیرِ اطلاعات شبلی فراز سب اچھے کی آواز لگا رہے ہیں اور پچھلے ڈیڑھ سال سے امیدیں دلائی جارہی ہیں، لیکن ماہرین کے مطابق 2020ء کے اختتام پر بھی پروگرام دوبارہ ٹریک پر آتا دکھائی نہیں دے رہا۔

اگر حکومت برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو آئی ایم ایف سے بلیک میل ہونے کے امکانات کم ہوسکتے ہیں لیکن فی الحال ایسی کوئی صورتحال بھی نظر نہیں آرہی۔ یاد رہے کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہیں کر پاتا تو ورلڈ بینک سمیت کئی عالمی ادارے اور ممالک پاکستان کے ساتھ نہیں چل سکیں گے۔ مزید قرض لینا مشکل ہوجائے گا اور پہلے لیے ہوئے قرضوں کی ادائیگی کا دباؤ بڑھ جائے گا۔ اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف سے ملنے والا ممکنہ ریلیف بھی شاید حاصل نہ ہوسکے۔

کورونا نے جہاں پوری دنیا کی معیشت کو بدل کر رکھ دیا ہے وہیں پاکستانی معیشت پر بھی گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ گھروں پر فارغ بیٹھنے سے جس شعبے کی طرف سب سے زیادہ رجحان بڑھا ہے وہ فری لانسنگ ہے۔ یعنی کہ آپ کو اگر کوئی بھی کام آتا ہے تو لیپ ٹاپ کھولیں، کسی بھی فری لانسنگ سائٹ پر جائیں، اپنا اکاونٹ بنائیں اور لوگوں کو بتائیں کہ آپ کیا سروس دے سکتے ہیں۔ جنہیں آپ کی سروس کی ضرورت ہوگی وہ آپ سے رابطہ کریں گے اور آپ گھر بیٹھے کمائی شروع کرسکیں گے۔

سال 2020ء میں اچھی خبر یہ بھی آئی کہ پاکستان میں فری لانسنگ کی گروتھ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ پہلے نمبر پر امریکا، دوسرے پر برطانیہ، تیسرے پر برازیل اور چوتھے پر پاکستان ہے۔ یعنی پاکستان ایشیائی ممالک میں پہلے نمبر ہے۔

اس خبر کا پاکستانی معیشت کو بہت فائدہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق فری لانسنگ سے پاکستان سالانہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ زرِمبادلہ کما رہا ہے۔ یہ آمدن کمانے والے اکثر لوگوں کی عمریں 25 سے 35 سال ہے۔ وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری صاحب نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان بہت جلد 93 ارب ڈالرز کی گیمنگ اور اینی میشن مارکیٹ میں داخل ہونے جارہا ہے۔

پاکستان سرکاری سطح پر گیمنگ سرٹیفیکیٹس جاری کرے گا جس سے پاکستانی نوجوان بین الاقومی مارکیٹ میں کام کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ یہ بہت اچھی خبر ہے کیونکہ اس سے جہاں بچوں کا ٹیکنالوجی کے استعمال کی طرف رجحان بڑھے گا وہاں فری لانسنگ سے حاصل آمدن میں بھی اضافہ ہوسکے گا۔

حکومت کا جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ چلنے کا عزم نجی شعبے کو بھی پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ بہت سے گیمنگ سافٹ ویئر ہاؤسز پاکستان آکر کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن حکومتی عدم دلچسپی کے باعث ہمت نہیں کر پاتے تھے۔ فواد چوہدری صاحب کے اس اقدام سے پاکستان میں روزگار بڑھے گا اور سوفٹ ویئر کی برآمدات میں اضافہ ہوگا۔

ماہرین کے مطابق فری لانسنگ پاکستان جیسے معاشرے کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ آپ جیسے ہی لیپ ٹاپ کھولتے ہیں دنیا بھر کی نوکریاں اور کام کروانے والے آپ کے سامنے حاضر ہوجاتے ہیں اور آپ اپنی مرضی سے اور وقت کے مطابق کام کرتے ہیں۔ جب دل چاہا لیپ ٹاپ بند کیا اور دیگر مصروفیات میں وقت صرف کرلیا۔

اس کا فائدہ دو طرفہ ہے۔ عمومی طور پر یورپ اور امریکا میں کسی کام کے اگر 20 ہزار ڈالر لیے جاتے ہیں وہاں پاکستان میں فری لانسنگ سائٹ پر بیٹھا نوجوان وہ کام صرف ایک ہزار ڈالر میں کردیتا ہے، جو پاکستانی کرنسی میں تقریب ایک لاکھ 60 ہزار روپے بنتے ہیں۔ پاکستان میں پڑھا لکھا نوجوان اوسطاً 20 سے 30 ہزار روپے کماتا ہے۔ وہ یہ رقم ایک مہینے کی محنت کے بعد حاصل کرتا ہے، جبکہ فری لانسر 2 سے 3 دن میں ایک لاکھ 60 ہزار روپے کما سکتا ہے۔

اس سے جہاں پاکستان میں بیٹھے بے روزگار شخص کو روزگار مل رہا ہے وہیں امریکا اور یورپ میں بیٹھے فرد یا کمپنی کو اے پلس کوالٹی کا کام انتہائی کم قیمت میں مل رہا ہے۔

یاد رہے کہ یہ کامیابی ایک ایسے وقت میں حاصل کی جارہی ہے جب پاکستان میں بین الاقوامی ادائیگیوں کا نظام پے پال موجود نہیں ہے اور دنیا کے سب سے بڑے آن لائن اسٹور ایمازون پر پاکستان میں بیٹھ کر قانونی طریقے سے آن لائن تجارت نہیں کی جاسکتی۔

اگر حکومت بینکنگ نظام پر تھوڑی سی توجہ دے تو ان اداروں کو پاکستان لایا جا سکتا ہے اور پاکستان فری لانسنگ کی دنیا میں پہلے نمبر پر بھی آسکتا ہے۔ اسی سال عبدالرزاق داؤد صاحب نے بھی پے پال کو پاکستان لانے کی ہامی بھری ہے اور کوششیں بھی جاری ہیں۔

امید ہے کہ پاکستانی معیشت آنے والے دنوں میں صحیح معنوں میں فائدہ اٹھا سکے گی۔


بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالم نگار ہیں، جبکہ ورلڈ کالمسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے ممبر بھی ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالم نگار ہیں، جبکہ ورلڈ کالمسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔