سال 2020 میں سامنے آنے والے پاکستان کے اہم تنازعات
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے لیے 2020 میں کورونا وائرس معیشت سمیت دیگر شعبوں کے لیے مہلک ثابت ہوا، صنعتیں اور کاروبار کی بندشوں سے ہزاروں افراد بے روزگار ہوئے اور غربت میں بھی اضافہ ہوا جبکہ ایک عرصے تک سیاسی سرگرمیاں بھی ماند پڑ گئیں لیکن حالات میں بہتری آتے ہی سیاسی گرما گرمی دیکھی گئی اور کئی تنازعات نے جنم لیا۔
پاکستان میں 2020 میں کورونا سے قبل بھی سیاسی تنازعات اور اسکینڈلز سامنے آنے لگے تھے جبکہ کورونا کے دوران لاک ڈاؤن اور کراچی میں بارش سمیت دیگر معاملات پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سندھ حکومت کے درمیان تنازعات سامنے آتے رہے تاہم اپوزیشن اتحاد کی جانب سے رواں سال ستمبر میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی تشکیل سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان دراڑ مزید گہری ہوئی۔
حکومت نے پی ڈی ایم کے جلسوں کو روکنے کے لیے مختلف حربے آزمائے تو اپوزیشن نے بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کا کوئی موقع جانے نہیں دیا، جس کے باعث ملک میں سیاسی افراتفری کی کیفیت پیدا ہوئی، پی ڈی ایم نے حکومت کو جعلی اور سلیکٹڈ قرار دیتے ہوئے اس کو گھر بھیجنے کے لیے لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے استعفوں کا اعلان کیا اور اس اعلان کے بعد اب دونوں فریقین کا امتحان ہے کہ وہ ملک کے جمہوری نظام کو نقصان پہنچائے بغیر عوام کے فلاح کا راستہ نکال لیں اور سیاسی بے یقینی کو بھی ختم کریں۔
سال بھر کے دوران سامنے آنے والے مختلف تنازعات میں سے چند تنازعات درج ذیل ہیں۔
رواں برس 22 مئی کو کراچی میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا جس میں سوار صرف 2 افراد بچ گئے جبکہ عملے کے 8 افراد سمیت دیگر تمام 91 مسافر جاں بحق ہوئے، حادثے کے بعد اس وقت کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کراچی کا دورہ کیا اور اعلان کیا کہ تحقیقات کرکے حادثے کی اصل وجوہات کا سراغ لگایا جائے گا۔
بعد ازاں وزیر ہوائی بازی غلام سرور خان نے 24 جون 2020 کو قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔
وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے مسافر طیارے کو پیش آنے والے حادثے کا ذمہ دار پائلٹ اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کو قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں نے مروجہ طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پائلٹ اور معاون کے ذہنوں پر کورونا سوار تھا، ضرورت سے زیادہ اعتماد اور توجہ ہونے کے باعث ہمیں سانحے سے گزرنا پڑا تھا اور ابتدائی رپورٹ کے مطابق بدقسمت طیارہ پرواز کے لیے 100 فیصد ٹھیک تھا اس میں کسی قسم کی کوئی تکنیکی خرابی نہیں تھی۔
بعد ازاں وفاقی وزیر غلام سرور خان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان میں ایئر لائنز میں 753 اور غیر ملکی ایئرلائنز میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس کی تعداد 107 ہے اور مجموعی تعداد 860 ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 28 پائلٹس کے لائسنس جعلی ثابت، کیس کابینہ میں لے جانے کا فیصلہ
انہوں نے کہا تھا کہ پی آئی اے میں 450، ایئربلو میں 87، سرین میں 47 اور شاہین میں 68 پائلٹس کام کررہے ہیں جبکہ مختلف ایئرلائنز اور فلائنگ کلبز میں 101 کے لگ بھگ پائلٹس ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، سرین سے 10، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں اور یہ سارے مشتبہ ہیں'۔
انہوں نے کہا تھا کہ '121 پائلٹس ایسے ہیں جن کے فرانزک کرنے کے بعد پتا چلا کہ ان کا ایک پرچہ بوگس تھا اور ان کی جگہ کسی اور نے بیٹھ کر پرچہ دیا، دو بوگس پرچے والے پائلٹس 39، تین بوگس پرچے والے 21، 4 بوگس پرچے والے 15، 5 بوگس برچے والے 11، 6 بوگس پرچے والے 11، 7 بوگس پرچے والے 10 اور 8 بوگس پرچے والے 34 پائلٹس ہیں جبکہ مجموعی پرچے 8 ہوتے ہیں'۔
غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 'اس عمل میں سول ایوی ایشن کے جو لوگ ملوث تھے اور 5 لوگوں کو معطل کرکے ان کے خلاف انکوائری شروع کردی گئی ہے اور کریمنل انکوائری کے لیے مشورہ کیا جارہا ہے'۔
وفاقی وزیر کے اس بیان کے بعد 30 جون کو یورپی یونین نے پی آئی اے کی پروازوں پر 6 ماہ کی پابندی عائد کی۔
یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے پی آئی اے کو لکھے گئے 4 صفحات پر مشتمل خط میں کہا تھا کہ 'یورپی پارلیمنٹ اور کونسل کے آرٹیکل (1) 82 ریگولیشن (ای یو) 2018/1039، کمیشن ریگولیشن (ای یو) نمبر 452/2014 کے اے آر ٹی، 235 (اے) کے ضمیمہ نمبر 2 (پارٹ-اے آر ٹی) کے تحت یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ایاسا) پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کارپوریشن لمیٹڈ کو (17 مئی 2016) کو جاری کردہ تھرڈ کنٹری آپریٹر (ٹی سی او) اجازت نامہ نمبر EASA.TCO.PAK-O001.01 معطل کرتی ہے'۔
مزید پڑھیں: یورپی ممالک کیلئے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی
یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے کہا تھا کہ ہماری معلومات کے مطابق 24 جون کو وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے پاکستانی پارلیمنٹ میں تحقیقات کے نتائج سے آگاہ کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ پاکستانی حکام سے جاری کردہ اور پاکستانی آپریٹرز کے پائلٹس کی جانب سے استعمال کرنے والے لائسنسز میں 860 میں سے 260 سے زائد کے لائسنس جعلی ہیں۔
خط میں کہا گیا تھا کہ 'ان معلومات کی بنیاد پر ایاسا کو پاکستانی پائلٹ کے لائسنز کی توثیق کے حوالے سے تشویش ہے اور آپریٹر کی ریاست کی حیثیت سے پاکستان، قابل اطلاق بین الاقوامی معیار کے مطابق اپنے آپریٹرز اور ہوائی جہاز کی تصدیق اور نگرانی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا'۔
علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے ڈپارٹمنٹ آف سیفٹی اینڈ سیکیورٹی (یو این ڈی ایس ایس) نے پاکستانی ایئرلائن کو اپنی 'تجویز کردہ فہرست' سے ہٹا دیا اور پاکستان میں موجودہ اقوام متحدہ کے عملے کو مئی 2020 میں کراچی میں ہونے والے پی آئی اے کے مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقات کے تناظر میں پاکستان میں رجسٹرڈ کسی ایئرلائن میں سفر نہ کرنے کی ہدایت کی۔
سپریم کورٹ میں 15 دسمبر کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے ارشد محمود ملک کی بطور پی آئی اے سربراہ تعیناتی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران پی آئی اے کے وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ 141 پائلٹس کے لائسنس معطل جبکہ 15 منسوخ کیے گئے ہیں، سپریم کورٹ نے پائلٹس کے جعلی لائسنس سے متعلق سول ایوی ایشن اتھارٹی سے رپورٹ طلب کی اور حکم دیا کہ پائلٹس کے لائسنسز سے متعلق تفصیلی رپورٹ فراہم کی جائے۔
بعد ازاں وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا کہ انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کی ضروریات پر پورا اترنے کے لیے حکام نے تمام 860 کمرشل پائلٹس کے لائسنسز کا جائزہ لیا اور جانچ پڑتال کے بعد ان میں سے صرف 50 کو منسوخ کیا۔
پائلٹ سید ثقلین حیدر جن کی اسناد جعلی ثابت ہوئی تھیں، کی دائر کردہ درخواست پر جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے رپورٹ جمع کروائی جس میں کہا گیا کہ یہ پائلٹس قومی ایئرلائن سمیت پاکستانی نجی اور غیرملکی ایئرلائنز کے لیے کام کر رہے تھے، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ ان پائلٹس کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے غیرمنصفانہ ذرائع سے لائسنسز حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 25 جنوری 2019 کو سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل نے پائلٹس کے لائسنسنز کے لیے امتحان کے دوران بےضابطگی، غلطی/ کمیشن کی تحقیقات کے لیے ایوی ایشن سیکریٹری سے ایک بورڈ آف انکوائری کی تشکیل کی درخواست کی تھی،اسی تناظر میں بورڈ آف انکوائری تشکیل دیا گیا اور اس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کمپیوٹر ڈیٹا کے فرانزک ثبوت کے مطابق 262 پائلٹس کے لائسنسز ’جعلی’ امتحانات پر مبنی تھے۔
بعد ازاں 26 جون 2020 کو سی اے اے نے 262 پائلٹس اور ان کے لائسنسز کو تصدیق کے لیے معطل کردیا، ان 262 پائلٹس کے نام عوام کے سامنے لائے گئے تاکہ دیگر پائلٹس بمشول پاکستان سے باہر کام کرنے والوں پر کوئی منفی تاثر نہیں جائے، تاہم 30 جون کو یورپین یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے یورپ کے لیے پی آئی اے کی پروازوں کو 6 ماہ کے لیے معطل کردیا، اس طرح کی معطلی کو سائٹ یا ریموٹ آڈٹ پر تسلی کے بعد ہی ختم کیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 259 لائسنسز کی تصدیق کا عمل مکمل کرلیا گیا، ایک مناسب عمل کے بعد 6 جولائی کو 28 پائلٹس کے لائسنسز کی منسوخی کے لیے ایک سمری وفاقی کابینہ کو جمع کروائی گئی، جسے اگلے ہی روز منظور کرلیا گیا، بعد ازاں 24 جولائی کو ایک شکایت پر حکام نے ایف آئی اے سے درخواست کی کہ وہ مشکوک لائسنسز کے اجرا میں ملوث مشتبہ سی اے اے حکام/ افراد اور پائلٹس کے خلاف انکوائری کرے، ایف آئی اے کی انکوائری تاحال جاری ہے۔
کابینہ میں 11 ستمبر کو دیگر 22 پائلٹس کے لائسنسز کی منسوخی کے لیے ایک اور سمری جمع کروائی گئی جسے 15 تاریخ کو منظور کرلیا گیا، بین الاقوامی ہوا بازی کے ادارے، اقوام متحدہ کی ایجنسی جو بین الاقوامی ہوا بازی کی صنعت کی حفاظت کی نگرانی کرتی ہے، اس نے اپنے 18 ستمبر کے ایک خط میں تمام موجودہ لائسنسز کا جائزہ لینے کی تجویز دی۔
جس کے نتیجے میں یہ سامنے آیا کہ 860 فعال پائلٹس کے لائسنسز کا جائزہ لیا گیا جس میں 262 مشتبہ پائے گئے اور معطل کردیے گئے تاہم تصدیق کے بعد 172 لائسنسز درست رہے جبکہ 50 لائسنسز تصدیق کے عمل میں ناکام رہے اور انہیں کابینہ کی منظوری کے ساتھ منسوخ کردیا گیا۔
پی آئی اے حکام نے 20 اکتوبر کو سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ 'قومی ایئر لائن کی پروازیں برطانیہ کے لیے دوبارہ شروع ہو رہی ہیں'۔
ملک میں 2020 کے اوائل میں چینی بحران نے جنم لیا اور چینی کی قیمت دیکھتے ہی دیکھتے بڑھنے لگی اور دکانوں میں ناپید ہونے لگی جس پر وفاقی حکومت نے تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی اور اس کمیٹی کی رپورٹ کے فرانزک کے بعد اسکینڈل میں حکمران جماعت کے سینئر رہنما جہانگیر ترین اور وفاقی وزرا کے نام بھی سامنے آئے اور حکومت پر دباؤ بڑھنے لگا۔
وفاقی حکومت نے 21 فروری کو ملک بھر میں چینی کی قیمت میں یکدم اضافے اور اس کے بحران کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی، کمیٹی کے سامنے تفتیش کے لیے بنیادی سوال تھا کہ ‘کیا رواں برس چینی کی پیداوار گزشتہ برس کے مقابلے میں کم تھی، کیا کم پیداوار ہی قیمت میں اضافے کی وجہ تھی’ اور کمیٹی سے کہا گیا تھا کہ وہ تفتیش کرے کہ ‘کیا کم از کم قیمت کافی تھی’ اور تیسرا سوال دیا گیا تھا کہ ‘کیا شوگر ملوں نے گنے کو مہنگا خریدا، اگر ہاں تو اس کی وجوہات معلوم کی جائیں’۔
بعدازاں چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے 4 اپریل کو اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
جس کے بعد 21 مئی کو حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ منظرعام پر لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، 2 کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کی کئی ماہ بعد وطن واپسی
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔
معاون خصوصی نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔
چنانچہ 7 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔
بعدازاں 10 جون کو پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) نے انکوائری کمیشن کی تشکیل اور اس کی رپورٹ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی جس کے بعد 11 جون کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکومت کو شوگر انکوائری کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرنے سے روک دیا تھا، اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی منصفانہ اور غیر جانبدار ہوگی، چنانچہ 20 جون کو اپنے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر کارروائی روکنے کے لیے شوگر ملزم ایسوسی ایشن اور ملز مالکان کی جانب سے دائر درخواست کو مسترد کرتے ہوئے چینی رپورٹ پر کارروائی کی اجازت دے دی تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں چینی انکوائری کمیشن کی تشکیل درست قرار دی تھی جبکہ حکومتی ارکان کو چینی کیس پر غیر ضروری بیان بازی سے روکتے ہوئے ہدایت دی تھی کہ چینی کیس میں تمام فریقین منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنائیں۔
دوسری جانب جون کے مہینے ہی میں میرپور خاص شوگر ملز اور سندھ کی دیگر 19 ملز نے چینی کی ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف مرتب کی گئی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور رپورٹ کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی، 23 جون کو عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ قابل وکیل کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات قابل غور ہیں اور ساتھ ہی وفاقی حکومت کو 30 جون تک تحقیقاتی رپورٹ پر عملدرآمد سے روک دیا تھا اور 30 جون کو سندھ ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت تک حکم امتناع میں توسیع کردی تھی۔
وفاقی حکومت نے 28 جون کو شوگر کمیشن رپورٹ پر عمل درآمد روکنے کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی اور 14 جولائی کو سپریم کورٹ نے شوگر انکوائری رپورٹ پر عمل درآمد سے روکنے سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا حکم امتناع خارج کرتے ہوئے حکومت کو کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی تھی۔
اس سے قبل ابتدائی رپورٹ کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین شوگر کمیشن کے اہم ملزمان کی فہرست میں شامل ہونے کے باوجود جون میں خاموشی کے ساتھ برطانیہ روانہ ہو گئے تھے، وہ انکوائری کمیشن کی جانب سے چینی بحران کی فرانزک آڈٹ رپورٹ جاری کرنے سے قبل ہی ملک سے باہر چلے گئے تھے جہاں وہ کئی ماہ مقیم رہے اور نومبر میں واپس آگئے جبکہ ایف آئی اے نے انہیں تحقیقات کے لیے کئی نوٹسز بھی جاری کیے تھے تاہم انہیں نیب کی جانب سے کسی قسم کی پیشی یا تحقیقات کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔
تحریک انصاف کے رہنما کی بیرون ملک روانگی پر اپوزیشن نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا، مسلم لیگ (ن) نے جہانگیر ترین کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے پر سوالات اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم پر مخصوص لوگوں کے احتساب کا الزام عائد کیا تھا۔
دوسری جانب جہانگیر ترین نے اسکینڈل میں انہیں ملوث کرنے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ چینی کے لیے حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی تمام ملز کو حاصل ہوئی جبکہ انہوں نے کم ریٹ پر چینی جاری کی تھی۔
برطانیہ سے کئی ماہ بعد وطن واپسی پر لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے بتایا تھا کہ وہ علاج کے لیے بیرون ملک گئے تھے اور وہ اس مقصد سے گزشتہ 7 سال سے بیرون ملک جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں علاج مکمل ہونے کے بعد اب وطن واپس آ گیا ہو، خدا کا شکر گزار ہوں کہ میرا کاروبار صاف شفاف ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے لیے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے ایک سال مکمل ہونے پر 5 اگست کو اپنے ایک بیان میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے حوالے سے سخت لہجے میں بات کی تھی، جس کو سفارتی حلقوں میں منفی انداز میں دیکھا گیا اور ملک کے اندر بھی اس بیان کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے لیے بدشگون قرار دیا گیا تاہم بعد ازاں وزیر خارجہ نے اپنے بیان کی وضاحت بھی کی۔
وزیرخارجہ نے اپنے بیان میں سعودی عرب کی زیر قیادت او آئی سی سے کہا تھا کہ وہ کشمیر کے بارے میں وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کے انعقاد کے سلسلے میں پس و پیش سے کام لینا بند کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ایک بار پھر احترام کے ساتھ او آئی سی کو بتا رہا ہوں کہ ہم وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کی توقع کرتے ہیں، اگر آپ اس کو طلب نہیں کرسکتے ہیں تو پھر میں وزیراعظم عمران خان کو ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کرنے پر مجبور کروں گا جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے لیے تیار ہیں، اگر او آئی سی، وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس طلب کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پاکستان او آئی سی کے باہر اجلاس بلانے کے لیے تیار ہوجائے گا، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان مزید انتظار نہیں کرسکتا۔
اسی طرح ایک روز قبل ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کے لیے سی ایف ایم کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر امت مسلمہ کی طرف سے واضح پیغام بھیجنے کی ضرورت ہے، پاکستان گزشتہ دسمبر میں سعودی عرب کی درخواست پر کوالالمپور سمٹ میں شریک نہیں ہوا تھا اور اب پاکستانی مسلمان ریاض سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اس معاملے پر قائدانہ صلاحیتیں دکھائیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہماری اپنی حساسیت ہے، آپ کو اس کا احساس کرنا ہوگا، خلیجی ممالک کو یہ سمجھنا چاہیے اور اب ہم مزید سفارتی نزاکتوں میں الجھ کر نہیں رہ سکتے، اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا تھا کہ وہ جذباتی نہیں ہو رہے ہیں اور اپنے بیان کے مضمرات کو پوری طرح سے سمجھتے ہیں، یہ درست ہے، میں سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود ایک مؤقف اپنا رہا ہوں، ہم کشمیریوں کے دکھوں پر اب خاموش نہیں رہ سکتے۔
بعد ازاں نومبر میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جہاں شاہ محمود قریشی نے سعودی ہم منصب فیصل بن فرحان السعود سے ملاقات کی جبکہ اجلاس میں کشمیر میں بھارتی مظالم کے حوالے سے قرار داد بھی منظور کی گئی۔
امریکا میں موجود پاکستانی صحافی احمد نورانی نے رواں برس 27 اگست کو ایک غیر معروف ویب سائٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے اہل خانہ کے اربوں مالیت کے کاروبار اور جائیدادوں کا انکشاف کیا تھا، جس سے پاکستانی سیاست اور میڈیا میں بھونچال آگیا اور اپوزیشن نے نیب سے تحقیقات کا مطالبہ کیا اور انہیں پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کے چیئرمین اور وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، پی ڈی ایم کے جلسوں میں سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت دیگر رہنماؤں نے سیاست دانوں کی طرح ان کے خلاف بھی تفتیش کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔
احمد نورانی کی خبر میں الزام لگایا گیا تھا کہ عاصم سلیم باجوہ نے اپنی اہلیہ، بچوں اور بھائیوں کے آف شور کاروبار بنانے میں اپنے دفتر کا استعمال کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عاصم باجوہ کے چھوٹے بھائیوں نے 2002 میں پہلا پاپا جوہن پیزا ریسٹورنٹ کھولا اور یہ وہی سال تھا جب عاصم باجوہ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے اسٹاف میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر کام شروع کیا تھا، 53 سالہ ندیم باجوہ، جنہوں نے پیزا ریسٹورنٹ فرنچائز کے لیے ڈیلوری ڈرائیور کے طور پر کام کا آغاز کیا تھا، اب ان کے بھائیوں اور عاصم سلیم باجوہ کی اہلیہ اور بیٹے ایک اپنا کاروبار رکھتے ہیں جس کی 4 ممالک میں 99 کمپنیاں ہیں جس میں 3 کروڑ 99 لاکھ ڈالر مالیت کے 133 ریسٹورنٹس کے ساتھ پیزا فرنچائزز بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان 99 کمپنیوں میں سے 66 مرکزی کمپنیاں ہیں، 33 مرکزی کمپنیوں کی ذیلی کمپنیاں ہیں جبکہ 5 کمپنیاں اب ختم ہوچکی ہیں۔
بعد ازاں عاصم سلیم باجوہ نے مذکورہ معاملے پر ہونے والی بحث کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو بھجوادیا تھا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا اور اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے پیش کئے گئے ثبوت اور وضاحت سے مطمئن ہیں۔
اپوزیشن کے جلسوں اور ان کے رہنماؤں کی جانب سے عاصم باجوہ کے اثاثوں سے متعلق تنقید مسلسل جاری رہی، جس کے بعد عاصم باجوہ نے بالآخر 12 اکتوبر کو ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ انہوں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کا عہدہ چھوڑ دیا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ قبول کرلیا جبکہ وہ بدستور سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین کام کرتے رہیں گے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ ان کے بھائیوں کے کاروبار میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ ان کے بچوں نے خود کاروبار شروع کیا اور اس میں ان کی کوئی شراکت داری نہیں ہے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے اوپر لگائے جانے والے ان الزامات کی تردید کی تھی اور مذکورہ خبر سے متعلق 4 صفحات پر مشتمل تفصیلی بیان جاری کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'احمد نورانی نے 27 اگست 2020 کو نامعلوم ویب سائٹ پر میرے بارے میں خبر شائع کی، جسے غلط اور جھوٹی قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا ہوں'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'خبر میں الزام لگایا گیا کہ میں نے 22 جون 2020 کو بطور معاوں خصوصی اپنے غلط اثاثے ظاہر کیے اور میں نے اپنی اہلیہ کی بیرون ملک سرمایہ کاری ظاہر نہیں کی، میرے بھائیوں نے امریکا میں کاروبار کیے جن میں ان کی ترقی کا تعلق پاک آرمی میں میری ترقی سے ہے جبکہ میرے بھائیوں اور بچوں کی ملکیت میں موجود مختلف کمپنیاں، کاروبار اور جائیدادیں ظاہر کی گئیں اور ان کی ملکیت اور مالیت سے متعلق بے بنیاد الزامات لگائے گئے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 22 جون 2020 کو اہلیہ کے اثاثے اپنے ڈکلیئریشن میں چھپانے کا الزام بنیادی طور پر غلط ہے کیونکہ اس وقت میری اہلیہ بیرون ملک کسی کاروبار میں سرمایہ کار یا شیئرہولڈر نہیں رہی تھیں، میری بیوی نے یکم جون 2020 کو بیرون ملک کی تمام کمپنیوں سے سرمایہ نکال لیا تھا اور امریکا کی سرکاری دستاویز میں اس کا ریکارڈ موجود ہے'۔
کراچی اور سندھ میں جولائی اور اگست میں بارشوں اور سیلاب سے بدترین نقصان ہوا، پورے سندھ میں 100 سے زائد اموات ہوئیں، لاکھوں لوگ متاثر ہوئے، بدترین حالات کے پیش نظر حکومت سندھ نے کراچی سمیت سندھ کے 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 3 ستمبر کو کراچی میں پریس کانفرنس میں سندھ میں بارش سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں بدین، عمر کوٹ، میرپورخاص، سانگھڑ اور شہید بینظیر آباد کے کچھ علاقے دریا کا منظر پیش کررہے ہیں، ان علاقوں میں موجود کچے مکانات تباہ ہوگئے ہیں اور بڑے شہر یعنی تعلقہ ہیڈکوارٹرز کو بھی چاروں طرف سے پانی نے گھیرا ہوا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کسی تعلقہ ہیڈکوارٹر کے مرکزی علاقوں میں پانی نہیں رکا، متاثرہ علاقوں میں لوگ اپنے خاندان سمیت سڑکوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بارش سے ہونے والے جانی نقصان سے آگاہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا تھا کہ پورے سندھ میں 100 اموات ہوئیں جس میں 63 کراچی اور 35 سندھ کے دیگر اضلاع میں ہوئیں۔
انہوں نے مزید بتایا تھا کہ جوہی میں تقریباً 2 لاکھ 40 ہزار لوگ متاثر ہوئے، 23 ہزار ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہوگئیں، ایک ہزار 80 کچے گھر مکمل طور پر منہدم، ایک ہزار 640 جزوی متاثر اور 30 پکے مکمل منہدم جبکہ 355 جزوی متاثر ہوئے، تعلقہ سانگھڑ میں 48 ہزار افراد، تعلقہ کھیپرو میں 80 سے 81 ہزار افراد متاثر ہوئے، تعلقہ عمر کوٹ میں 3 لاکھ، سامارو میں ایک لاکھ 25 ہزار 500، کنڈری میں ایک لاکھ 55 ہزار 200، پتھور میں 85 ہزار 100 افراد سیلابی صورتحال سے متاثر ہوئے۔
کراچی کے بارے میں انہوں نے بتایا تھا کہ ضلع وسطی میں 29 پکے مکانات مکمل تباہ جبکہ 2 کو جزوی نقصان پہنچا، ایک چھت منہدم ہوئی، 48 اسکول، ایک ہسپتال، ایک سرکاری دفتر، 4 مساجد کو نقصان پہنچا، کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی نکالنے میں بہت وقت لگا، خاص کر کھارادر کے علاقے میں سب سے زیادہ مشکلات پیش آئیں۔
بعد ازاں وزیراعظم عمران خان، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کراچی کا دورہ کیا تھا اور بحالی کے لیے پیکیج کا اعلان کیا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2 ستمبر کو کراچی کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے شہر کا فضائی اور اربن فلڈنگ سے متاثرہ علاقوں کا معائنہ کیا، جس کے بعد کور ہیڈکوارٹرز پہنچے جہاں انہیں حالیہ تاریخ کے بدترین شہری سیلاب اور سندھ بھر میں بالخصوص کراچی میں آرمی کی جانب سے سول انتظامیہ کی مدد کے حوالے سے آگاہ کیا گیا، انہیں بتایا گیا کہ غیر معمولی بارشوں نے کئی دہائیوں کی شہری آبادی، کسی منصوبہ بندی کے بغیر آباد کاری اور بنیادی ڈھانچے کے امور کے ساتھ مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔
آرمی چیف نے کراچی میں امدادی سرگرمیوں کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ مشترکہ عوامی افادیت والے علاقوں اور بدترین متاثرہ آبادیوں کو پہلے ترجیح دی جانی چاہیے جبکہ کسی خاص مقام یا برادری کے کسی بھی اثر و رسوخ کو ضرورت مندوں کی طرف سے توجہ یا وسائل منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ ایک قومی تباہی ہے اور سب اس میں شامل ہیں، فوج ضرورت کے وقت عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔
وزیراعظم عمران خان 5 ستمبر کو کراچی کے دورے کے موقع پر شہر کے لیے اقدامات کے حوالے سے خصوصی اجلاس کی سربراہی کے بعد سندھ کے گورنر عمران اسمٰعیل اور وزیراعلٰی مراد علی شاہ کے ہمراہ نیوز کانفرنس کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ اب جو بھی فیصلے کیے جائیں گے اس کی نگرانی پرووِینشل کوآرڈینیشن اینڈ امپلمینٹیشن کمیٹی (پی سی آئی سی) کرے گی، کمیٹی میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں تاہم پاک فوج کا اس میں بہت بڑا کردار ہے کیوں کہ سیلاب اور صفائی کے معاملات پر ہمیں فوج کی ضرورت ہوگی۔
وزیراعظم عمران خان نے کراچی کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے 11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں تعاون کریں گی۔
کراچی پیکج کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے اور اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ کے فور منصوبے کے ایک حصے کو صوبائی حکومت جبکہ دوسرا حصہ وفاقی حکومت مکمل کرے گی اور اسے جلد از جلد مکمل کر کے آئندہ 3 برس میں کراچی کا پانی کا مسئلہ مستقل طور پر حل کردیا جائے۔
انہوں نے کہا تھا کہ دوسرا مسئلہ نالوں کا ہے جہاں تجاوزات ہیں اور غریب لوگ رہائش پذیر ہیں، اس کے لیے این ڈی ایم اے نالے صاف کررہی ہے جبکہ وہاں بسے افراد کو متبادل جگہ فراہم کرنے کی ذمہ داری سندھ حکومت نے اٹھائی ہے، کراچی میں سیوریج سسٹم کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر فیصلہ کیا گیا کہ 11 سو ارب روپے کے پیکج میں سیوریج سسٹم کے مسئلے کو بھی مکمل طور پر حل کیا جائے گا، ساتھ ہی ایک ہی دفعہ سالڈ ویسٹ (کچرے) کے مسئلے کو بھی حل کر کے ایک نظام تشکیل دیا جائے گا، ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ کراچی کے سرکلر ریلوے کو اسی پیکج میں مکمل کیا جائے گا اور سڑکوں کے مختلف مسائل بھی حل کیے جائیں گے۔
لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ستمبر میں خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ پیش آیا جس پر ملک بھر میں غم وغصے کا اظہار کیا گیا اور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے اور اسی دوران لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ نے بیان دیا کہ خاتون کو رات دیر سے اکیلے باہر نہیں جانا چاہیے تھا، اس بیان نے تنازع کو مزید ہوا دی اور جہاں احتجاج میں شدت آئی وہی پولیس افسر کے خلاف بھی لوگوں نے احتجاج کیا۔
مذکورہ واقعے کی تفصیلات کے حوالے سے بتایا گیا کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔
واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئی تھیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔
اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔
تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظار کررہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔
اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔
تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: متاثرہ خاتون نے ملزم عابد کی شناخت کرلی
بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔
یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔
علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔
تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔
14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا تھا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا۔
بعد ازاں موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو 12 اکتوبر کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔
چار رکنی گینگ کا سربراہ عابد پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج 10 دیگر مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔
پولیس نے 21 اکتوبر کو بتایا کہ کیمپ جیل میں ملزم کی شناخت پریڈ کا عمل مکمل کیا گیا جہاں متاثرہ خاتون نے ملزم کی شناخت کرلی اور اب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی میزبانی میں 20 ستمبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) منعقد ہوئی اور حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا گیا، مشترکہ اعلامیے میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دیں اور اس کے ساتھ ہی 26 نکاتی مطالبات بھی پیش کیے گئے۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ
پی ڈی ایم نے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اپنی پہلی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جہاں اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو، محمود خان اچکزئی کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور عسکری قیادت پر الزامات عائد کیے جس سے ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
نواز شریف نے کہا کہ چند لوگوں کی خواہش ہے کہ میری آواز عوام تک نہ پہنچے اور ان کی آواز مجھ تک نہ پہنچے، لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مار دیا ہے، نہ جانے کس بے شرمی سے یہ لوگ میڈیا پر آکر اِدھر اُدھر کی کہانیاں سناتے ہیں، یہ کس کا قصور ہے؟ عمران خان نیازی کا یہ انہیں لانے والوں کا؟ اصل قصوروار کون ہے؟ عوام کا ووٹ کس نے چوری کیا، انتخابات میں کس نے دھاندلی کی؟ جو ووٹ آپ نے ڈالا تھا وہ کسی اور کے ڈبے میں کیسے پہنچ گیا؟ رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس کس نے بند کیا؟ نتائج کیوں روکے رکھے گئے؟ اور ہاری ہوئی پی ٹی آئی کو کس نے جتوایا؟ عوام کے ووٹ کی امانت میں کس نے خیانت کی؟ کس نے سلیکٹڈ حکومت بنانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا بازار دوبارہ کس نے گرم کیا؟
نواز شریف نے کہا تھا کہ اب اصل قصورواروں کو سامنے لانے سے نہیں ڈریں گے، ہم گائے بھینسیں نہیں ہیں، باضمیر لوگ ہیں اور اپنا ضمیر کبھی نہیں بیچیں گے، عوام کو اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی دو متوازی حکومتوں کا کون ذمہ دار ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے؟ صحافیوں کو اغوا کرکے ان پر تشدد کرنے کا کون ذمہ دار ہے؟' انہوں نے اپنی تقریر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر بھی سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ 'یہ سب کچھ آپ کے ہاتھوں سے ہوا ہے، آپ کو نواز شریف کو غدار کہنا ہے ضرور کہیں، اشتہاری کہنا ہے ضرور کہیں، نواز شریف کے اثاثے جائیداد ضبط کرنا ہے ضرور کریں، جھوٹے مقدمات بنوانے ہیں بنوائیے لیکن نواز شریف مظلوم عوام کی آواز بنتا رہے گا، نواز شریف عوام کو ان کے ووٹ کی عزت دلوا کر رہے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم جلسہ: رہنماؤں کے حکومت پر وار،نواز شریف کا ویڈیو لنک سے خطاب، فوجی قیادت پر الزامات
دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل پی پی پی کے چیئرمین نے غیرملکی میڈیا کو انٹرویو میں نواز شریف کی جانب سے اداروں کے سربراہوں کا نام لینے سے متعلق حیرانی کا اظہار کیا تھا اور کھل کر اس بیان کی حمایت یا تردید نہیں کی۔
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ ملاقات کی خبر میڈیا پر آئی اور ملک میں ایک نئے تنازع نے جنم لیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری قیادت کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات، 'فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے'
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 16ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے تقریباً 15 رہنماؤں نے شرکت کی جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور کچھ حکومتی وزرا نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں شریک چند رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اجلاس کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرنا تھا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے تھی مگر یہ ملاقات اس وقت مختلف شکل اختیار کر گئی جب اس میں گلگت بلتستان انتخابات، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے، اپوزیشن نے اس موقع کو دیگر معاملات پر اپنے تحفظات پیش کرنے کے لیے استعمال کیا بالخصوص فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور احتساب کے بہانے اس کے رہنماؤں پر ظلم و ستم کے الزامات وغیرہ۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان کو مقامی انتخابات کے بعد صوبے کا درجہ دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اس خبر کے بعد اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے خصوصی گفتگو میں آرمی چیف سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں سے متعلق سوال کہا کہ 'چیف آف آرمی اسٹاف سے محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی، ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے مریم نواز اور نواز شریف صاحب سے متعلق بات کی، ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جائے گا'۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست پر نہیں کیں اور ان کا مقصد کوئی ریلیف لینا بھی نہیں تھا۔
نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا تھا کہ 'جنرل قمر جاوید باجوہ سے میرے تعلقات اسکول، کالج کے دور سمیت 40 سے زیادہ عرصے سے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے کیریئر اور میرے پورے کیریئر کے دوران مختلف اوقات میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، خاندانی سطح پر ملاقاتیں رہیں اور کھانا پینا بھی ہوتا رہا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی ملاقاتیں نہیں تھیں'۔
محمد زبیر نے کہا کہ 'میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود مسلم لیگ (ن)، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر کیسز، مریم نواز اور شہباز شریف کے کیسز سے متعلق جتنی بھی مشکلات آئیں کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں کیا، 2018 کے انتخابات میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی میں نے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی درخواست کی، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی پوزیشن حساس ہے اور میں ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں'۔
ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے ملاقات کے آغاز میں ہی واضح کردیا تھا کہ میں یہاں ذاتی، پارٹی یا پھر شہباز شریف، مریم نواز یا نواز شریف کسی کے لیے کوئی ریلیف لینے نہیں آیا اور مجھے کسی نے نہیں بھیجا، میں نے مسلسل دو باتیں بتائیں کہ میں ریلیف لینے یا کسی کے کہنے پر یہاں نہیں آیا اور بحث زیادہ تر معیشت پر تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'آرمی چیف سے حکومت گرانے یا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی بات نہیں کی بلکہ میں نے معیشت پر اعداد و شمار کے ساتھ بات کی، پہلی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی موجود نہیں تھے تاہم دوسری ملاقات میں وہ موجود تھے لیکن وہ میری درخواست نہیں تھی'۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
رواں برس 22 مئی کو کراچی میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا جس میں سوار صرف 2 افراد بچ گئے جبکہ عملے کے 8 افراد سمیت دیگر تمام 91 مسافر جاں بحق ہوئے، حادثے کے بعد اس وقت کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کراچی کا دورہ کیا اور اعلان کیا کہ تحقیقات کرکے حادثے کی اصل وجوہات کا سراغ لگایا جائے گا۔
بعد ازاں وزیر ہوائی بازی غلام سرور خان نے 24 جون 2020 کو قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔
وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے مسافر طیارے کو پیش آنے والے حادثے کا ذمہ دار پائلٹ اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کو قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں نے مروجہ طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پائلٹ اور معاون کے ذہنوں پر کورونا سوار تھا، ضرورت سے زیادہ اعتماد اور توجہ ہونے کے باعث ہمیں سانحے سے گزرنا پڑا تھا اور ابتدائی رپورٹ کے مطابق بدقسمت طیارہ پرواز کے لیے 100 فیصد ٹھیک تھا اس میں کسی قسم کی کوئی تکنیکی خرابی نہیں تھی۔
بعد ازاں وفاقی وزیر غلام سرور خان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان میں ایئر لائنز میں 753 اور غیر ملکی ایئرلائنز میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس کی تعداد 107 ہے اور مجموعی تعداد 860 ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 28 پائلٹس کے لائسنس جعلی ثابت، کیس کابینہ میں لے جانے کا فیصلہ
انہوں نے کہا تھا کہ پی آئی اے میں 450، ایئربلو میں 87، سرین میں 47 اور شاہین میں 68 پائلٹس کام کررہے ہیں جبکہ مختلف ایئرلائنز اور فلائنگ کلبز میں 101 کے لگ بھگ پائلٹس ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، سرین سے 10، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں اور یہ سارے مشتبہ ہیں'۔
انہوں نے کہا تھا کہ '121 پائلٹس ایسے ہیں جن کے فرانزک کرنے کے بعد پتا چلا کہ ان کا ایک پرچہ بوگس تھا اور ان کی جگہ کسی اور نے بیٹھ کر پرچہ دیا، دو بوگس پرچے والے پائلٹس 39، تین بوگس پرچے والے 21، 4 بوگس پرچے والے 15، 5 بوگس برچے والے 11، 6 بوگس پرچے والے 11، 7 بوگس پرچے والے 10 اور 8 بوگس پرچے والے 34 پائلٹس ہیں جبکہ مجموعی پرچے 8 ہوتے ہیں'۔
غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 'اس عمل میں سول ایوی ایشن کے جو لوگ ملوث تھے اور 5 لوگوں کو معطل کرکے ان کے خلاف انکوائری شروع کردی گئی ہے اور کریمنل انکوائری کے لیے مشورہ کیا جارہا ہے'۔
وفاقی وزیر کے اس بیان کے بعد 30 جون کو یورپی یونین نے پی آئی اے کی پروازوں پر 6 ماہ کی پابندی عائد کی۔
یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے پی آئی اے کو لکھے گئے 4 صفحات پر مشتمل خط میں کہا تھا کہ 'یورپی پارلیمنٹ اور کونسل کے آرٹیکل (1) 82 ریگولیشن (ای یو) 2018/1039، کمیشن ریگولیشن (ای یو) نمبر 452/2014 کے اے آر ٹی، 235 (اے) کے ضمیمہ نمبر 2 (پارٹ-اے آر ٹی) کے تحت یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ایاسا) پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کارپوریشن لمیٹڈ کو (17 مئی 2016) کو جاری کردہ تھرڈ کنٹری آپریٹر (ٹی سی او) اجازت نامہ نمبر EASA.TCO.PAK-O001.01 معطل کرتی ہے'۔
مزید پڑھیں: یورپی ممالک کیلئے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی
یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے کہا تھا کہ ہماری معلومات کے مطابق 24 جون کو وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے پاکستانی پارلیمنٹ میں تحقیقات کے نتائج سے آگاہ کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ پاکستانی حکام سے جاری کردہ اور پاکستانی آپریٹرز کے پائلٹس کی جانب سے استعمال کرنے والے لائسنسز میں 860 میں سے 260 سے زائد کے لائسنس جعلی ہیں۔
خط میں کہا گیا تھا کہ 'ان معلومات کی بنیاد پر ایاسا کو پاکستانی پائلٹ کے لائسنز کی توثیق کے حوالے سے تشویش ہے اور آپریٹر کی ریاست کی حیثیت سے پاکستان، قابل اطلاق بین الاقوامی معیار کے مطابق اپنے آپریٹرز اور ہوائی جہاز کی تصدیق اور نگرانی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا'۔
علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے ڈپارٹمنٹ آف سیفٹی اینڈ سیکیورٹی (یو این ڈی ایس ایس) نے پاکستانی ایئرلائن کو اپنی 'تجویز کردہ فہرست' سے ہٹا دیا اور پاکستان میں موجودہ اقوام متحدہ کے عملے کو مئی 2020 میں کراچی میں ہونے والے پی آئی اے کے مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقات کے تناظر میں پاکستان میں رجسٹرڈ کسی ایئرلائن میں سفر نہ کرنے کی ہدایت کی۔
سپریم کورٹ میں 15 دسمبر کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے ارشد محمود ملک کی بطور پی آئی اے سربراہ تعیناتی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران پی آئی اے کے وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ 141 پائلٹس کے لائسنس معطل جبکہ 15 منسوخ کیے گئے ہیں، سپریم کورٹ نے پائلٹس کے جعلی لائسنس سے متعلق سول ایوی ایشن اتھارٹی سے رپورٹ طلب کی اور حکم دیا کہ پائلٹس کے لائسنسز سے متعلق تفصیلی رپورٹ فراہم کی جائے۔
بعد ازاں وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا کہ انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کی ضروریات پر پورا اترنے کے لیے حکام نے تمام 860 کمرشل پائلٹس کے لائسنسز کا جائزہ لیا اور جانچ پڑتال کے بعد ان میں سے صرف 50 کو منسوخ کیا۔
پائلٹ سید ثقلین حیدر جن کی اسناد جعلی ثابت ہوئی تھیں، کی دائر کردہ درخواست پر جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے رپورٹ جمع کروائی جس میں کہا گیا کہ یہ پائلٹس قومی ایئرلائن سمیت پاکستانی نجی اور غیرملکی ایئرلائنز کے لیے کام کر رہے تھے، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ ان پائلٹس کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے غیرمنصفانہ ذرائع سے لائسنسز حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 25 جنوری 2019 کو سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل نے پائلٹس کے لائسنسنز کے لیے امتحان کے دوران بےضابطگی، غلطی/ کمیشن کی تحقیقات کے لیے ایوی ایشن سیکریٹری سے ایک بورڈ آف انکوائری کی تشکیل کی درخواست کی تھی،اسی تناظر میں بورڈ آف انکوائری تشکیل دیا گیا اور اس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کمپیوٹر ڈیٹا کے فرانزک ثبوت کے مطابق 262 پائلٹس کے لائسنسز ’جعلی’ امتحانات پر مبنی تھے۔
بعد ازاں 26 جون 2020 کو سی اے اے نے 262 پائلٹس اور ان کے لائسنسز کو تصدیق کے لیے معطل کردیا، ان 262 پائلٹس کے نام عوام کے سامنے لائے گئے تاکہ دیگر پائلٹس بمشول پاکستان سے باہر کام کرنے والوں پر کوئی منفی تاثر نہیں جائے، تاہم 30 جون کو یورپین یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے یورپ کے لیے پی آئی اے کی پروازوں کو 6 ماہ کے لیے معطل کردیا، اس طرح کی معطلی کو سائٹ یا ریموٹ آڈٹ پر تسلی کے بعد ہی ختم کیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 259 لائسنسز کی تصدیق کا عمل مکمل کرلیا گیا، ایک مناسب عمل کے بعد 6 جولائی کو 28 پائلٹس کے لائسنسز کی منسوخی کے لیے ایک سمری وفاقی کابینہ کو جمع کروائی گئی، جسے اگلے ہی روز منظور کرلیا گیا، بعد ازاں 24 جولائی کو ایک شکایت پر حکام نے ایف آئی اے سے درخواست کی کہ وہ مشکوک لائسنسز کے اجرا میں ملوث مشتبہ سی اے اے حکام/ افراد اور پائلٹس کے خلاف انکوائری کرے، ایف آئی اے کی انکوائری تاحال جاری ہے۔
کابینہ میں 11 ستمبر کو دیگر 22 پائلٹس کے لائسنسز کی منسوخی کے لیے ایک اور سمری جمع کروائی گئی جسے 15 تاریخ کو منظور کرلیا گیا، بین الاقوامی ہوا بازی کے ادارے، اقوام متحدہ کی ایجنسی جو بین الاقوامی ہوا بازی کی صنعت کی حفاظت کی نگرانی کرتی ہے، اس نے اپنے 18 ستمبر کے ایک خط میں تمام موجودہ لائسنسز کا جائزہ لینے کی تجویز دی۔
جس کے نتیجے میں یہ سامنے آیا کہ 860 فعال پائلٹس کے لائسنسز کا جائزہ لیا گیا جس میں 262 مشتبہ پائے گئے اور معطل کردیے گئے تاہم تصدیق کے بعد 172 لائسنسز درست رہے جبکہ 50 لائسنسز تصدیق کے عمل میں ناکام رہے اور انہیں کابینہ کی منظوری کے ساتھ منسوخ کردیا گیا۔
پی آئی اے حکام نے 20 اکتوبر کو سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ 'قومی ایئر لائن کی پروازیں برطانیہ کے لیے دوبارہ شروع ہو رہی ہیں'۔
ملک میں 2020 کے اوائل میں چینی بحران نے جنم لیا اور چینی کی قیمت دیکھتے ہی دیکھتے بڑھنے لگی اور دکانوں میں ناپید ہونے لگی جس پر وفاقی حکومت نے تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی اور اس کمیٹی کی رپورٹ کے فرانزک کے بعد اسکینڈل میں حکمران جماعت کے سینئر رہنما جہانگیر ترین اور وفاقی وزرا کے نام بھی سامنے آئے اور حکومت پر دباؤ بڑھنے لگا۔
وفاقی حکومت نے 21 فروری کو ملک بھر میں چینی کی قیمت میں یکدم اضافے اور اس کے بحران کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی، کمیٹی کے سامنے تفتیش کے لیے بنیادی سوال تھا کہ ‘کیا رواں برس چینی کی پیداوار گزشتہ برس کے مقابلے میں کم تھی، کیا کم پیداوار ہی قیمت میں اضافے کی وجہ تھی’ اور کمیٹی سے کہا گیا تھا کہ وہ تفتیش کرے کہ ‘کیا کم از کم قیمت کافی تھی’ اور تیسرا سوال دیا گیا تھا کہ ‘کیا شوگر ملوں نے گنے کو مہنگا خریدا، اگر ہاں تو اس کی وجوہات معلوم کی جائیں’۔
بعدازاں چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے 4 اپریل کو اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
جس کے بعد 21 مئی کو حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ منظرعام پر لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، 2 کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کی کئی ماہ بعد وطن واپسی
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔
معاون خصوصی نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔
چنانچہ 7 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔
بعدازاں 10 جون کو پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) نے انکوائری کمیشن کی تشکیل اور اس کی رپورٹ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی جس کے بعد 11 جون کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکومت کو شوگر انکوائری کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرنے سے روک دیا تھا، اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی منصفانہ اور غیر جانبدار ہوگی، چنانچہ 20 جون کو اپنے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر کارروائی روکنے کے لیے شوگر ملزم ایسوسی ایشن اور ملز مالکان کی جانب سے دائر درخواست کو مسترد کرتے ہوئے چینی رپورٹ پر کارروائی کی اجازت دے دی تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں چینی انکوائری کمیشن کی تشکیل درست قرار دی تھی جبکہ حکومتی ارکان کو چینی کیس پر غیر ضروری بیان بازی سے روکتے ہوئے ہدایت دی تھی کہ چینی کیس میں تمام فریقین منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنائیں۔
دوسری جانب جون کے مہینے ہی میں میرپور خاص شوگر ملز اور سندھ کی دیگر 19 ملز نے چینی کی ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف مرتب کی گئی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور رپورٹ کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی، 23 جون کو عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ قابل وکیل کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات قابل غور ہیں اور ساتھ ہی وفاقی حکومت کو 30 جون تک تحقیقاتی رپورٹ پر عملدرآمد سے روک دیا تھا اور 30 جون کو سندھ ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت تک حکم امتناع میں توسیع کردی تھی۔
وفاقی حکومت نے 28 جون کو شوگر کمیشن رپورٹ پر عمل درآمد روکنے کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی اور 14 جولائی کو سپریم کورٹ نے شوگر انکوائری رپورٹ پر عمل درآمد سے روکنے سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا حکم امتناع خارج کرتے ہوئے حکومت کو کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی تھی۔
اس سے قبل ابتدائی رپورٹ کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین شوگر کمیشن کے اہم ملزمان کی فہرست میں شامل ہونے کے باوجود جون میں خاموشی کے ساتھ برطانیہ روانہ ہو گئے تھے، وہ انکوائری کمیشن کی جانب سے چینی بحران کی فرانزک آڈٹ رپورٹ جاری کرنے سے قبل ہی ملک سے باہر چلے گئے تھے جہاں وہ کئی ماہ مقیم رہے اور نومبر میں واپس آگئے جبکہ ایف آئی اے نے انہیں تحقیقات کے لیے کئی نوٹسز بھی جاری کیے تھے تاہم انہیں نیب کی جانب سے کسی قسم کی پیشی یا تحقیقات کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔
تحریک انصاف کے رہنما کی بیرون ملک روانگی پر اپوزیشن نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا، مسلم لیگ (ن) نے جہانگیر ترین کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے پر سوالات اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم پر مخصوص لوگوں کے احتساب کا الزام عائد کیا تھا۔
دوسری جانب جہانگیر ترین نے اسکینڈل میں انہیں ملوث کرنے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ چینی کے لیے حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی تمام ملز کو حاصل ہوئی جبکہ انہوں نے کم ریٹ پر چینی جاری کی تھی۔
برطانیہ سے کئی ماہ بعد وطن واپسی پر لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے بتایا تھا کہ وہ علاج کے لیے بیرون ملک گئے تھے اور وہ اس مقصد سے گزشتہ 7 سال سے بیرون ملک جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں علاج مکمل ہونے کے بعد اب وطن واپس آ گیا ہو، خدا کا شکر گزار ہوں کہ میرا کاروبار صاف شفاف ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے لیے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے ایک سال مکمل ہونے پر 5 اگست کو اپنے ایک بیان میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے حوالے سے سخت لہجے میں بات کی تھی، جس کو سفارتی حلقوں میں منفی انداز میں دیکھا گیا اور ملک کے اندر بھی اس بیان کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے لیے بدشگون قرار دیا گیا تاہم بعد ازاں وزیر خارجہ نے اپنے بیان کی وضاحت بھی کی۔
وزیرخارجہ نے اپنے بیان میں سعودی عرب کی زیر قیادت او آئی سی سے کہا تھا کہ وہ کشمیر کے بارے میں وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کے انعقاد کے سلسلے میں پس و پیش سے کام لینا بند کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ایک بار پھر احترام کے ساتھ او آئی سی کو بتا رہا ہوں کہ ہم وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کی توقع کرتے ہیں، اگر آپ اس کو طلب نہیں کرسکتے ہیں تو پھر میں وزیراعظم عمران خان کو ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کرنے پر مجبور کروں گا جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے لیے تیار ہیں، اگر او آئی سی، وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس طلب کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پاکستان او آئی سی کے باہر اجلاس بلانے کے لیے تیار ہوجائے گا، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان مزید انتظار نہیں کرسکتا۔
اسی طرح ایک روز قبل ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کے لیے سی ایف ایم کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر امت مسلمہ کی طرف سے واضح پیغام بھیجنے کی ضرورت ہے، پاکستان گزشتہ دسمبر میں سعودی عرب کی درخواست پر کوالالمپور سمٹ میں شریک نہیں ہوا تھا اور اب پاکستانی مسلمان ریاض سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اس معاملے پر قائدانہ صلاحیتیں دکھائیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہماری اپنی حساسیت ہے، آپ کو اس کا احساس کرنا ہوگا، خلیجی ممالک کو یہ سمجھنا چاہیے اور اب ہم مزید سفارتی نزاکتوں میں الجھ کر نہیں رہ سکتے، اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا تھا کہ وہ جذباتی نہیں ہو رہے ہیں اور اپنے بیان کے مضمرات کو پوری طرح سے سمجھتے ہیں، یہ درست ہے، میں سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود ایک مؤقف اپنا رہا ہوں، ہم کشمیریوں کے دکھوں پر اب خاموش نہیں رہ سکتے۔
بعد ازاں نومبر میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جہاں شاہ محمود قریشی نے سعودی ہم منصب فیصل بن فرحان السعود سے ملاقات کی جبکہ اجلاس میں کشمیر میں بھارتی مظالم کے حوالے سے قرار داد بھی منظور کی گئی۔
امریکا میں موجود پاکستانی صحافی احمد نورانی نے رواں برس 27 اگست کو ایک غیر معروف ویب سائٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے اہل خانہ کے اربوں مالیت کے کاروبار اور جائیدادوں کا انکشاف کیا تھا، جس سے پاکستانی سیاست اور میڈیا میں بھونچال آگیا اور اپوزیشن نے نیب سے تحقیقات کا مطالبہ کیا اور انہیں پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کے چیئرمین اور وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، پی ڈی ایم کے جلسوں میں سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت دیگر رہنماؤں نے سیاست دانوں کی طرح ان کے خلاف بھی تفتیش کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔
احمد نورانی کی خبر میں الزام لگایا گیا تھا کہ عاصم سلیم باجوہ نے اپنی اہلیہ، بچوں اور بھائیوں کے آف شور کاروبار بنانے میں اپنے دفتر کا استعمال کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عاصم باجوہ کے چھوٹے بھائیوں نے 2002 میں پہلا پاپا جوہن پیزا ریسٹورنٹ کھولا اور یہ وہی سال تھا جب عاصم باجوہ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے اسٹاف میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر کام شروع کیا تھا، 53 سالہ ندیم باجوہ، جنہوں نے پیزا ریسٹورنٹ فرنچائز کے لیے ڈیلوری ڈرائیور کے طور پر کام کا آغاز کیا تھا، اب ان کے بھائیوں اور عاصم سلیم باجوہ کی اہلیہ اور بیٹے ایک اپنا کاروبار رکھتے ہیں جس کی 4 ممالک میں 99 کمپنیاں ہیں جس میں 3 کروڑ 99 لاکھ ڈالر مالیت کے 133 ریسٹورنٹس کے ساتھ پیزا فرنچائزز بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان 99 کمپنیوں میں سے 66 مرکزی کمپنیاں ہیں، 33 مرکزی کمپنیوں کی ذیلی کمپنیاں ہیں جبکہ 5 کمپنیاں اب ختم ہوچکی ہیں۔
بعد ازاں عاصم سلیم باجوہ نے مذکورہ معاملے پر ہونے والی بحث کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو بھجوادیا تھا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا اور اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے پیش کئے گئے ثبوت اور وضاحت سے مطمئن ہیں۔
اپوزیشن کے جلسوں اور ان کے رہنماؤں کی جانب سے عاصم باجوہ کے اثاثوں سے متعلق تنقید مسلسل جاری رہی، جس کے بعد عاصم باجوہ نے بالآخر 12 اکتوبر کو ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ انہوں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کا عہدہ چھوڑ دیا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ قبول کرلیا جبکہ وہ بدستور سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین کام کرتے رہیں گے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ ان کے بھائیوں کے کاروبار میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ ان کے بچوں نے خود کاروبار شروع کیا اور اس میں ان کی کوئی شراکت داری نہیں ہے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے اوپر لگائے جانے والے ان الزامات کی تردید کی تھی اور مذکورہ خبر سے متعلق 4 صفحات پر مشتمل تفصیلی بیان جاری کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'احمد نورانی نے 27 اگست 2020 کو نامعلوم ویب سائٹ پر میرے بارے میں خبر شائع کی، جسے غلط اور جھوٹی قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا ہوں'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'خبر میں الزام لگایا گیا کہ میں نے 22 جون 2020 کو بطور معاوں خصوصی اپنے غلط اثاثے ظاہر کیے اور میں نے اپنی اہلیہ کی بیرون ملک سرمایہ کاری ظاہر نہیں کی، میرے بھائیوں نے امریکا میں کاروبار کیے جن میں ان کی ترقی کا تعلق پاک آرمی میں میری ترقی سے ہے جبکہ میرے بھائیوں اور بچوں کی ملکیت میں موجود مختلف کمپنیاں، کاروبار اور جائیدادیں ظاہر کی گئیں اور ان کی ملکیت اور مالیت سے متعلق بے بنیاد الزامات لگائے گئے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 22 جون 2020 کو اہلیہ کے اثاثے اپنے ڈکلیئریشن میں چھپانے کا الزام بنیادی طور پر غلط ہے کیونکہ اس وقت میری اہلیہ بیرون ملک کسی کاروبار میں سرمایہ کار یا شیئرہولڈر نہیں رہی تھیں، میری بیوی نے یکم جون 2020 کو بیرون ملک کی تمام کمپنیوں سے سرمایہ نکال لیا تھا اور امریکا کی سرکاری دستاویز میں اس کا ریکارڈ موجود ہے'۔
کراچی اور سندھ میں جولائی اور اگست میں بارشوں اور سیلاب سے بدترین نقصان ہوا، پورے سندھ میں 100 سے زائد اموات ہوئیں، لاکھوں لوگ متاثر ہوئے، بدترین حالات کے پیش نظر حکومت سندھ نے کراچی سمیت سندھ کے 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 3 ستمبر کو کراچی میں پریس کانفرنس میں سندھ میں بارش سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں بدین، عمر کوٹ، میرپورخاص، سانگھڑ اور شہید بینظیر آباد کے کچھ علاقے دریا کا منظر پیش کررہے ہیں، ان علاقوں میں موجود کچے مکانات تباہ ہوگئے ہیں اور بڑے شہر یعنی تعلقہ ہیڈکوارٹرز کو بھی چاروں طرف سے پانی نے گھیرا ہوا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کسی تعلقہ ہیڈکوارٹر کے مرکزی علاقوں میں پانی نہیں رکا، متاثرہ علاقوں میں لوگ اپنے خاندان سمیت سڑکوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بارش سے ہونے والے جانی نقصان سے آگاہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا تھا کہ پورے سندھ میں 100 اموات ہوئیں جس میں 63 کراچی اور 35 سندھ کے دیگر اضلاع میں ہوئیں۔
انہوں نے مزید بتایا تھا کہ جوہی میں تقریباً 2 لاکھ 40 ہزار لوگ متاثر ہوئے، 23 ہزار ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہوگئیں، ایک ہزار 80 کچے گھر مکمل طور پر منہدم، ایک ہزار 640 جزوی متاثر اور 30 پکے مکمل منہدم جبکہ 355 جزوی متاثر ہوئے، تعلقہ سانگھڑ میں 48 ہزار افراد، تعلقہ کھیپرو میں 80 سے 81 ہزار افراد متاثر ہوئے، تعلقہ عمر کوٹ میں 3 لاکھ، سامارو میں ایک لاکھ 25 ہزار 500، کنڈری میں ایک لاکھ 55 ہزار 200، پتھور میں 85 ہزار 100 افراد سیلابی صورتحال سے متاثر ہوئے۔
کراچی کے بارے میں انہوں نے بتایا تھا کہ ضلع وسطی میں 29 پکے مکانات مکمل تباہ جبکہ 2 کو جزوی نقصان پہنچا، ایک چھت منہدم ہوئی، 48 اسکول، ایک ہسپتال، ایک سرکاری دفتر، 4 مساجد کو نقصان پہنچا، کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی نکالنے میں بہت وقت لگا، خاص کر کھارادر کے علاقے میں سب سے زیادہ مشکلات پیش آئیں۔
بعد ازاں وزیراعظم عمران خان، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کراچی کا دورہ کیا تھا اور بحالی کے لیے پیکیج کا اعلان کیا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2 ستمبر کو کراچی کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے شہر کا فضائی اور اربن فلڈنگ سے متاثرہ علاقوں کا معائنہ کیا، جس کے بعد کور ہیڈکوارٹرز پہنچے جہاں انہیں حالیہ تاریخ کے بدترین شہری سیلاب اور سندھ بھر میں بالخصوص کراچی میں آرمی کی جانب سے سول انتظامیہ کی مدد کے حوالے سے آگاہ کیا گیا، انہیں بتایا گیا کہ غیر معمولی بارشوں نے کئی دہائیوں کی شہری آبادی، کسی منصوبہ بندی کے بغیر آباد کاری اور بنیادی ڈھانچے کے امور کے ساتھ مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔
آرمی چیف نے کراچی میں امدادی سرگرمیوں کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ مشترکہ عوامی افادیت والے علاقوں اور بدترین متاثرہ آبادیوں کو پہلے ترجیح دی جانی چاہیے جبکہ کسی خاص مقام یا برادری کے کسی بھی اثر و رسوخ کو ضرورت مندوں کی طرف سے توجہ یا وسائل منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ ایک قومی تباہی ہے اور سب اس میں شامل ہیں، فوج ضرورت کے وقت عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔
وزیراعظم عمران خان 5 ستمبر کو کراچی کے دورے کے موقع پر شہر کے لیے اقدامات کے حوالے سے خصوصی اجلاس کی سربراہی کے بعد سندھ کے گورنر عمران اسمٰعیل اور وزیراعلٰی مراد علی شاہ کے ہمراہ نیوز کانفرنس کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ اب جو بھی فیصلے کیے جائیں گے اس کی نگرانی پرووِینشل کوآرڈینیشن اینڈ امپلمینٹیشن کمیٹی (پی سی آئی سی) کرے گی، کمیٹی میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں تاہم پاک فوج کا اس میں بہت بڑا کردار ہے کیوں کہ سیلاب اور صفائی کے معاملات پر ہمیں فوج کی ضرورت ہوگی۔
وزیراعظم عمران خان نے کراچی کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے 11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں تعاون کریں گی۔
کراچی پیکج کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے اور اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ کے فور منصوبے کے ایک حصے کو صوبائی حکومت جبکہ دوسرا حصہ وفاقی حکومت مکمل کرے گی اور اسے جلد از جلد مکمل کر کے آئندہ 3 برس میں کراچی کا پانی کا مسئلہ مستقل طور پر حل کردیا جائے۔
انہوں نے کہا تھا کہ دوسرا مسئلہ نالوں کا ہے جہاں تجاوزات ہیں اور غریب لوگ رہائش پذیر ہیں، اس کے لیے این ڈی ایم اے نالے صاف کررہی ہے جبکہ وہاں بسے افراد کو متبادل جگہ فراہم کرنے کی ذمہ داری سندھ حکومت نے اٹھائی ہے، کراچی میں سیوریج سسٹم کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر فیصلہ کیا گیا کہ 11 سو ارب روپے کے پیکج میں سیوریج سسٹم کے مسئلے کو بھی مکمل طور پر حل کیا جائے گا، ساتھ ہی ایک ہی دفعہ سالڈ ویسٹ (کچرے) کے مسئلے کو بھی حل کر کے ایک نظام تشکیل دیا جائے گا، ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ کراچی کے سرکلر ریلوے کو اسی پیکج میں مکمل کیا جائے گا اور سڑکوں کے مختلف مسائل بھی حل کیے جائیں گے۔
لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ستمبر میں خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ پیش آیا جس پر ملک بھر میں غم وغصے کا اظہار کیا گیا اور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے اور اسی دوران لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ نے بیان دیا کہ خاتون کو رات دیر سے اکیلے باہر نہیں جانا چاہیے تھا، اس بیان نے تنازع کو مزید ہوا دی اور جہاں احتجاج میں شدت آئی وہی پولیس افسر کے خلاف بھی لوگوں نے احتجاج کیا۔
مذکورہ واقعے کی تفصیلات کے حوالے سے بتایا گیا کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔
واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئی تھیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔
اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔
تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظار کررہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔
اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔
تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: متاثرہ خاتون نے ملزم عابد کی شناخت کرلی
بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔
یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔
علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔
تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔
14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا تھا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا۔
بعد ازاں موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو 12 اکتوبر کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔
چار رکنی گینگ کا سربراہ عابد پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج 10 دیگر مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔
پولیس نے 21 اکتوبر کو بتایا کہ کیمپ جیل میں ملزم کی شناخت پریڈ کا عمل مکمل کیا گیا جہاں متاثرہ خاتون نے ملزم کی شناخت کرلی اور اب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی میزبانی میں 20 ستمبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) منعقد ہوئی اور حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا گیا، مشترکہ اعلامیے میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دیں اور اس کے ساتھ ہی 26 نکاتی مطالبات بھی پیش کیے گئے۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ
پی ڈی ایم نے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اپنی پہلی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جہاں اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو، محمود خان اچکزئی کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور عسکری قیادت پر الزامات عائد کیے جس سے ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
نواز شریف نے کہا کہ چند لوگوں کی خواہش ہے کہ میری آواز عوام تک نہ پہنچے اور ان کی آواز مجھ تک نہ پہنچے، لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مار دیا ہے، نہ جانے کس بے شرمی سے یہ لوگ میڈیا پر آکر اِدھر اُدھر کی کہانیاں سناتے ہیں، یہ کس کا قصور ہے؟ عمران خان نیازی کا یہ انہیں لانے والوں کا؟ اصل قصوروار کون ہے؟ عوام کا ووٹ کس نے چوری کیا، انتخابات میں کس نے دھاندلی کی؟ جو ووٹ آپ نے ڈالا تھا وہ کسی اور کے ڈبے میں کیسے پہنچ گیا؟ رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس کس نے بند کیا؟ نتائج کیوں روکے رکھے گئے؟ اور ہاری ہوئی پی ٹی آئی کو کس نے جتوایا؟ عوام کے ووٹ کی امانت میں کس نے خیانت کی؟ کس نے سلیکٹڈ حکومت بنانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا بازار دوبارہ کس نے گرم کیا؟
نواز شریف نے کہا تھا کہ اب اصل قصورواروں کو سامنے لانے سے نہیں ڈریں گے، ہم گائے بھینسیں نہیں ہیں، باضمیر لوگ ہیں اور اپنا ضمیر کبھی نہیں بیچیں گے، عوام کو اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی دو متوازی حکومتوں کا کون ذمہ دار ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے؟ صحافیوں کو اغوا کرکے ان پر تشدد کرنے کا کون ذمہ دار ہے؟' انہوں نے اپنی تقریر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر بھی سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ 'یہ سب کچھ آپ کے ہاتھوں سے ہوا ہے، آپ کو نواز شریف کو غدار کہنا ہے ضرور کہیں، اشتہاری کہنا ہے ضرور کہیں، نواز شریف کے اثاثے جائیداد ضبط کرنا ہے ضرور کریں، جھوٹے مقدمات بنوانے ہیں بنوائیے لیکن نواز شریف مظلوم عوام کی آواز بنتا رہے گا، نواز شریف عوام کو ان کے ووٹ کی عزت دلوا کر رہے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم جلسہ: رہنماؤں کے حکومت پر وار،نواز شریف کا ویڈیو لنک سے خطاب، فوجی قیادت پر الزامات
دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل پی پی پی کے چیئرمین نے غیرملکی میڈیا کو انٹرویو میں نواز شریف کی جانب سے اداروں کے سربراہوں کا نام لینے سے متعلق حیرانی کا اظہار کیا تھا اور کھل کر اس بیان کی حمایت یا تردید نہیں کی۔
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ ملاقات کی خبر میڈیا پر آئی اور ملک میں ایک نئے تنازع نے جنم لیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری قیادت کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات، 'فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے'
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 16ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے تقریباً 15 رہنماؤں نے شرکت کی جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور کچھ حکومتی وزرا نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں شریک چند رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اجلاس کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرنا تھا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے تھی مگر یہ ملاقات اس وقت مختلف شکل اختیار کر گئی جب اس میں گلگت بلتستان انتخابات، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے، اپوزیشن نے اس موقع کو دیگر معاملات پر اپنے تحفظات پیش کرنے کے لیے استعمال کیا بالخصوص فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور احتساب کے بہانے اس کے رہنماؤں پر ظلم و ستم کے الزامات وغیرہ۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان کو مقامی انتخابات کے بعد صوبے کا درجہ دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اس خبر کے بعد اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے خصوصی گفتگو میں آرمی چیف سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں سے متعلق سوال کہا کہ 'چیف آف آرمی اسٹاف سے محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی، ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے مریم نواز اور نواز شریف صاحب سے متعلق بات کی، ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جائے گا'۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست پر نہیں کیں اور ان کا مقصد کوئی ریلیف لینا بھی نہیں تھا۔
نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا تھا کہ 'جنرل قمر جاوید باجوہ سے میرے تعلقات اسکول، کالج کے دور سمیت 40 سے زیادہ عرصے سے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے کیریئر اور میرے پورے کیریئر کے دوران مختلف اوقات میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، خاندانی سطح پر ملاقاتیں رہیں اور کھانا پینا بھی ہوتا رہا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی ملاقاتیں نہیں تھیں'۔
محمد زبیر نے کہا کہ 'میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود مسلم لیگ (ن)، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر کیسز، مریم نواز اور شہباز شریف کے کیسز سے متعلق جتنی بھی مشکلات آئیں کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں کیا، 2018 کے انتخابات میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی میں نے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی درخواست کی، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی پوزیشن حساس ہے اور میں ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں'۔
ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے ملاقات کے آغاز میں ہی واضح کردیا تھا کہ میں یہاں ذاتی، پارٹی یا پھر شہباز شریف، مریم نواز یا نواز شریف کسی کے لیے کوئی ریلیف لینے نہیں آیا اور مجھے کسی نے نہیں بھیجا، میں نے مسلسل دو باتیں بتائیں کہ میں ریلیف لینے یا کسی کے کہنے پر یہاں نہیں آیا اور بحث زیادہ تر معیشت پر تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'آرمی چیف سے حکومت گرانے یا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی بات نہیں کی بلکہ میں نے معیشت پر اعداد و شمار کے ساتھ بات کی، پہلی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی موجود نہیں تھے تاہم دوسری ملاقات میں وہ موجود تھے لیکن وہ میری درخواست نہیں تھی'۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
رواں برس 22 مئی کو کراچی میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا جس میں سوار صرف 2 افراد بچ گئے جبکہ عملے کے 8 افراد سمیت دیگر تمام 91 مسافر جاں بحق ہوئے، حادثے کے بعد اس وقت کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کراچی کا دورہ کیا اور اعلان کیا کہ تحقیقات کرکے حادثے کی اصل وجوہات کا سراغ لگایا جائے گا۔
بعد ازاں وزیر ہوائی بازی غلام سرور خان نے 24 جون 2020 کو قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔
وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے مسافر طیارے کو پیش آنے والے حادثے کا ذمہ دار پائلٹ اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کو قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں نے مروجہ طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پائلٹ اور معاون کے ذہنوں پر کورونا سوار تھا، ضرورت سے زیادہ اعتماد اور توجہ ہونے کے باعث ہمیں سانحے سے گزرنا پڑا تھا اور ابتدائی رپورٹ کے مطابق بدقسمت طیارہ پرواز کے لیے 100 فیصد ٹھیک تھا اس میں کسی قسم کی کوئی تکنیکی خرابی نہیں تھی۔
بعد ازاں وفاقی وزیر غلام سرور خان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان میں ایئر لائنز میں 753 اور غیر ملکی ایئرلائنز میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس کی تعداد 107 ہے اور مجموعی تعداد 860 ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 28 پائلٹس کے لائسنس جعلی ثابت، کیس کابینہ میں لے جانے کا فیصلہ
انہوں نے کہا تھا کہ پی آئی اے میں 450، ایئربلو میں 87، سرین میں 47 اور شاہین میں 68 پائلٹس کام کررہے ہیں جبکہ مختلف ایئرلائنز اور فلائنگ کلبز میں 101 کے لگ بھگ پائلٹس ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، سرین سے 10، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں اور یہ سارے مشتبہ ہیں'۔
انہوں نے کہا تھا کہ '121 پائلٹس ایسے ہیں جن کے فرانزک کرنے کے بعد پتا چلا کہ ان کا ایک پرچہ بوگس تھا اور ان کی جگہ کسی اور نے بیٹھ کر پرچہ دیا، دو بوگس پرچے والے پائلٹس 39، تین بوگس پرچے والے 21، 4 بوگس پرچے والے 15، 5 بوگس برچے والے 11، 6 بوگس پرچے والے 11، 7 بوگس پرچے والے 10 اور 8 بوگس پرچے والے 34 پائلٹس ہیں جبکہ مجموعی پرچے 8 ہوتے ہیں'۔
غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 'اس عمل میں سول ایوی ایشن کے جو لوگ ملوث تھے اور 5 لوگوں کو معطل کرکے ان کے خلاف انکوائری شروع کردی گئی ہے اور کریمنل انکوائری کے لیے مشورہ کیا جارہا ہے'۔
وفاقی وزیر کے اس بیان کے بعد 30 جون کو یورپی یونین نے پی آئی اے کی پروازوں پر 6 ماہ کی پابندی عائد کی۔
یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے پی آئی اے کو لکھے گئے 4 صفحات پر مشتمل خط میں کہا تھا کہ 'یورپی پارلیمنٹ اور کونسل کے آرٹیکل (1) 82 ریگولیشن (ای یو) 2018/1039، کمیشن ریگولیشن (ای یو) نمبر 452/2014 کے اے آر ٹی، 235 (اے) کے ضمیمہ نمبر 2 (پارٹ-اے آر ٹی) کے تحت یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ایاسا) پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کارپوریشن لمیٹڈ کو (17 مئی 2016) کو جاری کردہ تھرڈ کنٹری آپریٹر (ٹی سی او) اجازت نامہ نمبر EASA.TCO.PAK-O001.01 معطل کرتی ہے'۔
مزید پڑھیں: یورپی ممالک کیلئے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی
یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے کہا تھا کہ ہماری معلومات کے مطابق 24 جون کو وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے پاکستانی پارلیمنٹ میں تحقیقات کے نتائج سے آگاہ کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ پاکستانی حکام سے جاری کردہ اور پاکستانی آپریٹرز کے پائلٹس کی جانب سے استعمال کرنے والے لائسنسز میں 860 میں سے 260 سے زائد کے لائسنس جعلی ہیں۔
خط میں کہا گیا تھا کہ 'ان معلومات کی بنیاد پر ایاسا کو پاکستانی پائلٹ کے لائسنز کی توثیق کے حوالے سے تشویش ہے اور آپریٹر کی ریاست کی حیثیت سے پاکستان، قابل اطلاق بین الاقوامی معیار کے مطابق اپنے آپریٹرز اور ہوائی جہاز کی تصدیق اور نگرانی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا'۔
علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے ڈپارٹمنٹ آف سیفٹی اینڈ سیکیورٹی (یو این ڈی ایس ایس) نے پاکستانی ایئرلائن کو اپنی 'تجویز کردہ فہرست' سے ہٹا دیا اور پاکستان میں موجودہ اقوام متحدہ کے عملے کو مئی 2020 میں کراچی میں ہونے والے پی آئی اے کے مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقات کے تناظر میں پاکستان میں رجسٹرڈ کسی ایئرلائن میں سفر نہ کرنے کی ہدایت کی۔
سپریم کورٹ میں 15 دسمبر کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے ارشد محمود ملک کی بطور پی آئی اے سربراہ تعیناتی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران پی آئی اے کے وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ 141 پائلٹس کے لائسنس معطل جبکہ 15 منسوخ کیے گئے ہیں، سپریم کورٹ نے پائلٹس کے جعلی لائسنس سے متعلق سول ایوی ایشن اتھارٹی سے رپورٹ طلب کی اور حکم دیا کہ پائلٹس کے لائسنسز سے متعلق تفصیلی رپورٹ فراہم کی جائے۔
بعد ازاں وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا کہ انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کی ضروریات پر پورا اترنے کے لیے حکام نے تمام 860 کمرشل پائلٹس کے لائسنسز کا جائزہ لیا اور جانچ پڑتال کے بعد ان میں سے صرف 50 کو منسوخ کیا۔
پائلٹ سید ثقلین حیدر جن کی اسناد جعلی ثابت ہوئی تھیں، کی دائر کردہ درخواست پر جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے رپورٹ جمع کروائی جس میں کہا گیا کہ یہ پائلٹس قومی ایئرلائن سمیت پاکستانی نجی اور غیرملکی ایئرلائنز کے لیے کام کر رہے تھے، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ ان پائلٹس کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے غیرمنصفانہ ذرائع سے لائسنسز حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 25 جنوری 2019 کو سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل نے پائلٹس کے لائسنسنز کے لیے امتحان کے دوران بےضابطگی، غلطی/ کمیشن کی تحقیقات کے لیے ایوی ایشن سیکریٹری سے ایک بورڈ آف انکوائری کی تشکیل کی درخواست کی تھی،اسی تناظر میں بورڈ آف انکوائری تشکیل دیا گیا اور اس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کمپیوٹر ڈیٹا کے فرانزک ثبوت کے مطابق 262 پائلٹس کے لائسنسز ’جعلی’ امتحانات پر مبنی تھے۔
بعد ازاں 26 جون 2020 کو سی اے اے نے 262 پائلٹس اور ان کے لائسنسز کو تصدیق کے لیے معطل کردیا، ان 262 پائلٹس کے نام عوام کے سامنے لائے گئے تاکہ دیگر پائلٹس بمشول پاکستان سے باہر کام کرنے والوں پر کوئی منفی تاثر نہیں جائے، تاہم 30 جون کو یورپین یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے یورپ کے لیے پی آئی اے کی پروازوں کو 6 ماہ کے لیے معطل کردیا، اس طرح کی معطلی کو سائٹ یا ریموٹ آڈٹ پر تسلی کے بعد ہی ختم کیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 259 لائسنسز کی تصدیق کا عمل مکمل کرلیا گیا، ایک مناسب عمل کے بعد 6 جولائی کو 28 پائلٹس کے لائسنسز کی منسوخی کے لیے ایک سمری وفاقی کابینہ کو جمع کروائی گئی، جسے اگلے ہی روز منظور کرلیا گیا، بعد ازاں 24 جولائی کو ایک شکایت پر حکام نے ایف آئی اے سے درخواست کی کہ وہ مشکوک لائسنسز کے اجرا میں ملوث مشتبہ سی اے اے حکام/ افراد اور پائلٹس کے خلاف انکوائری کرے، ایف آئی اے کی انکوائری تاحال جاری ہے۔
کابینہ میں 11 ستمبر کو دیگر 22 پائلٹس کے لائسنسز کی منسوخی کے لیے ایک اور سمری جمع کروائی گئی جسے 15 تاریخ کو منظور کرلیا گیا، بین الاقوامی ہوا بازی کے ادارے، اقوام متحدہ کی ایجنسی جو بین الاقوامی ہوا بازی کی صنعت کی حفاظت کی نگرانی کرتی ہے، اس نے اپنے 18 ستمبر کے ایک خط میں تمام موجودہ لائسنسز کا جائزہ لینے کی تجویز دی۔
جس کے نتیجے میں یہ سامنے آیا کہ 860 فعال پائلٹس کے لائسنسز کا جائزہ لیا گیا جس میں 262 مشتبہ پائے گئے اور معطل کردیے گئے تاہم تصدیق کے بعد 172 لائسنسز درست رہے جبکہ 50 لائسنسز تصدیق کے عمل میں ناکام رہے اور انہیں کابینہ کی منظوری کے ساتھ منسوخ کردیا گیا۔
پی آئی اے حکام نے 20 اکتوبر کو سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ 'قومی ایئر لائن کی پروازیں برطانیہ کے لیے دوبارہ شروع ہو رہی ہیں'۔
ملک میں 2020 کے اوائل میں چینی بحران نے جنم لیا اور چینی کی قیمت دیکھتے ہی دیکھتے بڑھنے لگی اور دکانوں میں ناپید ہونے لگی جس پر وفاقی حکومت نے تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی اور اس کمیٹی کی رپورٹ کے فرانزک کے بعد اسکینڈل میں حکمران جماعت کے سینئر رہنما جہانگیر ترین اور وفاقی وزرا کے نام بھی سامنے آئے اور حکومت پر دباؤ بڑھنے لگا۔
وفاقی حکومت نے 21 فروری کو ملک بھر میں چینی کی قیمت میں یکدم اضافے اور اس کے بحران کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی، کمیٹی کے سامنے تفتیش کے لیے بنیادی سوال تھا کہ ‘کیا رواں برس چینی کی پیداوار گزشتہ برس کے مقابلے میں کم تھی، کیا کم پیداوار ہی قیمت میں اضافے کی وجہ تھی’ اور کمیٹی سے کہا گیا تھا کہ وہ تفتیش کرے کہ ‘کیا کم از کم قیمت کافی تھی’ اور تیسرا سوال دیا گیا تھا کہ ‘کیا شوگر ملوں نے گنے کو مہنگا خریدا، اگر ہاں تو اس کی وجوہات معلوم کی جائیں’۔
بعدازاں چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے 4 اپریل کو اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
جس کے بعد 21 مئی کو حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ منظرعام پر لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، 2 کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کی کئی ماہ بعد وطن واپسی
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔
معاون خصوصی نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔
چنانچہ 7 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔
بعدازاں 10 جون کو پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) نے انکوائری کمیشن کی تشکیل اور اس کی رپورٹ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی جس کے بعد 11 جون کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکومت کو شوگر انکوائری کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرنے سے روک دیا تھا، اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی منصفانہ اور غیر جانبدار ہوگی، چنانچہ 20 جون کو اپنے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر کارروائی روکنے کے لیے شوگر ملزم ایسوسی ایشن اور ملز مالکان کی جانب سے دائر درخواست کو مسترد کرتے ہوئے چینی رپورٹ پر کارروائی کی اجازت دے دی تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں چینی انکوائری کمیشن کی تشکیل درست قرار دی تھی جبکہ حکومتی ارکان کو چینی کیس پر غیر ضروری بیان بازی سے روکتے ہوئے ہدایت دی تھی کہ چینی کیس میں تمام فریقین منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنائیں۔
دوسری جانب جون کے مہینے ہی میں میرپور خاص شوگر ملز اور سندھ کی دیگر 19 ملز نے چینی کی ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف مرتب کی گئی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور رپورٹ کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی، 23 جون کو عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ قابل وکیل کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات قابل غور ہیں اور ساتھ ہی وفاقی حکومت کو 30 جون تک تحقیقاتی رپورٹ پر عملدرآمد سے روک دیا تھا اور 30 جون کو سندھ ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت تک حکم امتناع میں توسیع کردی تھی۔
وفاقی حکومت نے 28 جون کو شوگر کمیشن رپورٹ پر عمل درآمد روکنے کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی اور 14 جولائی کو سپریم کورٹ نے شوگر انکوائری رپورٹ پر عمل درآمد سے روکنے سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا حکم امتناع خارج کرتے ہوئے حکومت کو کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی تھی۔
اس سے قبل ابتدائی رپورٹ کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین شوگر کمیشن کے اہم ملزمان کی فہرست میں شامل ہونے کے باوجود جون میں خاموشی کے ساتھ برطانیہ روانہ ہو گئے تھے، وہ انکوائری کمیشن کی جانب سے چینی بحران کی فرانزک آڈٹ رپورٹ جاری کرنے سے قبل ہی ملک سے باہر چلے گئے تھے جہاں وہ کئی ماہ مقیم رہے اور نومبر میں واپس آگئے جبکہ ایف آئی اے نے انہیں تحقیقات کے لیے کئی نوٹسز بھی جاری کیے تھے تاہم انہیں نیب کی جانب سے کسی قسم کی پیشی یا تحقیقات کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔
تحریک انصاف کے رہنما کی بیرون ملک روانگی پر اپوزیشن نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا، مسلم لیگ (ن) نے جہانگیر ترین کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے پر سوالات اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم پر مخصوص لوگوں کے احتساب کا الزام عائد کیا تھا۔
دوسری جانب جہانگیر ترین نے اسکینڈل میں انہیں ملوث کرنے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ چینی کے لیے حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی تمام ملز کو حاصل ہوئی جبکہ انہوں نے کم ریٹ پر چینی جاری کی تھی۔
برطانیہ سے کئی ماہ بعد وطن واپسی پر لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے بتایا تھا کہ وہ علاج کے لیے بیرون ملک گئے تھے اور وہ اس مقصد سے گزشتہ 7 سال سے بیرون ملک جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں علاج مکمل ہونے کے بعد اب وطن واپس آ گیا ہو، خدا کا شکر گزار ہوں کہ میرا کاروبار صاف شفاف ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے لیے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے ایک سال مکمل ہونے پر 5 اگست کو اپنے ایک بیان میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے حوالے سے سخت لہجے میں بات کی تھی، جس کو سفارتی حلقوں میں منفی انداز میں دیکھا گیا اور ملک کے اندر بھی اس بیان کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے لیے بدشگون قرار دیا گیا تاہم بعد ازاں وزیر خارجہ نے اپنے بیان کی وضاحت بھی کی۔
وزیرخارجہ نے اپنے بیان میں سعودی عرب کی زیر قیادت او آئی سی سے کہا تھا کہ وہ کشمیر کے بارے میں وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کے انعقاد کے سلسلے میں پس و پیش سے کام لینا بند کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ایک بار پھر احترام کے ساتھ او آئی سی کو بتا رہا ہوں کہ ہم وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کی توقع کرتے ہیں، اگر آپ اس کو طلب نہیں کرسکتے ہیں تو پھر میں وزیراعظم عمران خان کو ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کرنے پر مجبور کروں گا جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے لیے تیار ہیں، اگر او آئی سی، وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس طلب کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پاکستان او آئی سی کے باہر اجلاس بلانے کے لیے تیار ہوجائے گا، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان مزید انتظار نہیں کرسکتا۔
اسی طرح ایک روز قبل ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کے لیے سی ایف ایم کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر امت مسلمہ کی طرف سے واضح پیغام بھیجنے کی ضرورت ہے، پاکستان گزشتہ دسمبر میں سعودی عرب کی درخواست پر کوالالمپور سمٹ میں شریک نہیں ہوا تھا اور اب پاکستانی مسلمان ریاض سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اس معاملے پر قائدانہ صلاحیتیں دکھائیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہماری اپنی حساسیت ہے، آپ کو اس کا احساس کرنا ہوگا، خلیجی ممالک کو یہ سمجھنا چاہیے اور اب ہم مزید سفارتی نزاکتوں میں الجھ کر نہیں رہ سکتے، اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا تھا کہ وہ جذباتی نہیں ہو رہے ہیں اور اپنے بیان کے مضمرات کو پوری طرح سے سمجھتے ہیں، یہ درست ہے، میں سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود ایک مؤقف اپنا رہا ہوں، ہم کشمیریوں کے دکھوں پر اب خاموش نہیں رہ سکتے۔
بعد ازاں نومبر میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جہاں شاہ محمود قریشی نے سعودی ہم منصب فیصل بن فرحان السعود سے ملاقات کی جبکہ اجلاس میں کشمیر میں بھارتی مظالم کے حوالے سے قرار داد بھی منظور کی گئی۔
امریکا میں موجود پاکستانی صحافی احمد نورانی نے رواں برس 27 اگست کو ایک غیر معروف ویب سائٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے اہل خانہ کے اربوں مالیت کے کاروبار اور جائیدادوں کا انکشاف کیا تھا، جس سے پاکستانی سیاست اور میڈیا میں بھونچال آگیا اور اپوزیشن نے نیب سے تحقیقات کا مطالبہ کیا اور انہیں پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کے چیئرمین اور وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، پی ڈی ایم کے جلسوں میں سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت دیگر رہنماؤں نے سیاست دانوں کی طرح ان کے خلاف بھی تفتیش کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔
احمد نورانی کی خبر میں الزام لگایا گیا تھا کہ عاصم سلیم باجوہ نے اپنی اہلیہ، بچوں اور بھائیوں کے آف شور کاروبار بنانے میں اپنے دفتر کا استعمال کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عاصم باجوہ کے چھوٹے بھائیوں نے 2002 میں پہلا پاپا جوہن پیزا ریسٹورنٹ کھولا اور یہ وہی سال تھا جب عاصم باجوہ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے اسٹاف میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر کام شروع کیا تھا، 53 سالہ ندیم باجوہ، جنہوں نے پیزا ریسٹورنٹ فرنچائز کے لیے ڈیلوری ڈرائیور کے طور پر کام کا آغاز کیا تھا، اب ان کے بھائیوں اور عاصم سلیم باجوہ کی اہلیہ اور بیٹے ایک اپنا کاروبار رکھتے ہیں جس کی 4 ممالک میں 99 کمپنیاں ہیں جس میں 3 کروڑ 99 لاکھ ڈالر مالیت کے 133 ریسٹورنٹس کے ساتھ پیزا فرنچائزز بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان 99 کمپنیوں میں سے 66 مرکزی کمپنیاں ہیں، 33 مرکزی کمپنیوں کی ذیلی کمپنیاں ہیں جبکہ 5 کمپنیاں اب ختم ہوچکی ہیں۔
بعد ازاں عاصم سلیم باجوہ نے مذکورہ معاملے پر ہونے والی بحث کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو بھجوادیا تھا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا اور اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے پیش کئے گئے ثبوت اور وضاحت سے مطمئن ہیں۔
اپوزیشن کے جلسوں اور ان کے رہنماؤں کی جانب سے عاصم باجوہ کے اثاثوں سے متعلق تنقید مسلسل جاری رہی، جس کے بعد عاصم باجوہ نے بالآخر 12 اکتوبر کو ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ انہوں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کا عہدہ چھوڑ دیا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ قبول کرلیا جبکہ وہ بدستور سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین کام کرتے رہیں گے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ ان کے بھائیوں کے کاروبار میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ ان کے بچوں نے خود کاروبار شروع کیا اور اس میں ان کی کوئی شراکت داری نہیں ہے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے اوپر لگائے جانے والے ان الزامات کی تردید کی تھی اور مذکورہ خبر سے متعلق 4 صفحات پر مشتمل تفصیلی بیان جاری کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'احمد نورانی نے 27 اگست 2020 کو نامعلوم ویب سائٹ پر میرے بارے میں خبر شائع کی، جسے غلط اور جھوٹی قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا ہوں'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'خبر میں الزام لگایا گیا کہ میں نے 22 جون 2020 کو بطور معاوں خصوصی اپنے غلط اثاثے ظاہر کیے اور میں نے اپنی اہلیہ کی بیرون ملک سرمایہ کاری ظاہر نہیں کی، میرے بھائیوں نے امریکا میں کاروبار کیے جن میں ان کی ترقی کا تعلق پاک آرمی میں میری ترقی سے ہے جبکہ میرے بھائیوں اور بچوں کی ملکیت میں موجود مختلف کمپنیاں، کاروبار اور جائیدادیں ظاہر کی گئیں اور ان کی ملکیت اور مالیت سے متعلق بے بنیاد الزامات لگائے گئے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 22 جون 2020 کو اہلیہ کے اثاثے اپنے ڈکلیئریشن میں چھپانے کا الزام بنیادی طور پر غلط ہے کیونکہ اس وقت میری اہلیہ بیرون ملک کسی کاروبار میں سرمایہ کار یا شیئرہولڈر نہیں رہی تھیں، میری بیوی نے یکم جون 2020 کو بیرون ملک کی تمام کمپنیوں سے سرمایہ نکال لیا تھا اور امریکا کی سرکاری دستاویز میں اس کا ریکارڈ موجود ہے'۔
کراچی اور سندھ میں جولائی اور اگست میں بارشوں اور سیلاب سے بدترین نقصان ہوا، پورے سندھ میں 100 سے زائد اموات ہوئیں، لاکھوں لوگ متاثر ہوئے، بدترین حالات کے پیش نظر حکومت سندھ نے کراچی سمیت سندھ کے 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 3 ستمبر کو کراچی میں پریس کانفرنس میں سندھ میں بارش سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں بدین، عمر کوٹ، میرپورخاص، سانگھڑ اور شہید بینظیر آباد کے کچھ علاقے دریا کا منظر پیش کررہے ہیں، ان علاقوں میں موجود کچے مکانات تباہ ہوگئے ہیں اور بڑے شہر یعنی تعلقہ ہیڈکوارٹرز کو بھی چاروں طرف سے پانی نے گھیرا ہوا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کسی تعلقہ ہیڈکوارٹر کے مرکزی علاقوں میں پانی نہیں رکا، متاثرہ علاقوں میں لوگ اپنے خاندان سمیت سڑکوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بارش سے ہونے والے جانی نقصان سے آگاہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا تھا کہ پورے سندھ میں 100 اموات ہوئیں جس میں 63 کراچی اور 35 سندھ کے دیگر اضلاع میں ہوئیں۔
انہوں نے مزید بتایا تھا کہ جوہی میں تقریباً 2 لاکھ 40 ہزار لوگ متاثر ہوئے، 23 ہزار ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہوگئیں، ایک ہزار 80 کچے گھر مکمل طور پر منہدم، ایک ہزار 640 جزوی متاثر اور 30 پکے مکمل منہدم جبکہ 355 جزوی متاثر ہوئے، تعلقہ سانگھڑ میں 48 ہزار افراد، تعلقہ کھیپرو میں 80 سے 81 ہزار افراد متاثر ہوئے، تعلقہ عمر کوٹ میں 3 لاکھ، سامارو میں ایک لاکھ 25 ہزار 500، کنڈری میں ایک لاکھ 55 ہزار 200، پتھور میں 85 ہزار 100 افراد سیلابی صورتحال سے متاثر ہوئے۔
کراچی کے بارے میں انہوں نے بتایا تھا کہ ضلع وسطی میں 29 پکے مکانات مکمل تباہ جبکہ 2 کو جزوی نقصان پہنچا، ایک چھت منہدم ہوئی، 48 اسکول، ایک ہسپتال، ایک سرکاری دفتر، 4 مساجد کو نقصان پہنچا، کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی نکالنے میں بہت وقت لگا، خاص کر کھارادر کے علاقے میں سب سے زیادہ مشکلات پیش آئیں۔
بعد ازاں وزیراعظم عمران خان، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کراچی کا دورہ کیا تھا اور بحالی کے لیے پیکیج کا اعلان کیا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2 ستمبر کو کراچی کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے شہر کا فضائی اور اربن فلڈنگ سے متاثرہ علاقوں کا معائنہ کیا، جس کے بعد کور ہیڈکوارٹرز پہنچے جہاں انہیں حالیہ تاریخ کے بدترین شہری سیلاب اور سندھ بھر میں بالخصوص کراچی میں آرمی کی جانب سے سول انتظامیہ کی مدد کے حوالے سے آگاہ کیا گیا، انہیں بتایا گیا کہ غیر معمولی بارشوں نے کئی دہائیوں کی شہری آبادی، کسی منصوبہ بندی کے بغیر آباد کاری اور بنیادی ڈھانچے کے امور کے ساتھ مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔
آرمی چیف نے کراچی میں امدادی سرگرمیوں کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ مشترکہ عوامی افادیت والے علاقوں اور بدترین متاثرہ آبادیوں کو پہلے ترجیح دی جانی چاہیے جبکہ کسی خاص مقام یا برادری کے کسی بھی اثر و رسوخ کو ضرورت مندوں کی طرف سے توجہ یا وسائل منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ ایک قومی تباہی ہے اور سب اس میں شامل ہیں، فوج ضرورت کے وقت عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔
وزیراعظم عمران خان 5 ستمبر کو کراچی کے دورے کے موقع پر شہر کے لیے اقدامات کے حوالے سے خصوصی اجلاس کی سربراہی کے بعد سندھ کے گورنر عمران اسمٰعیل اور وزیراعلٰی مراد علی شاہ کے ہمراہ نیوز کانفرنس کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ اب جو بھی فیصلے کیے جائیں گے اس کی نگرانی پرووِینشل کوآرڈینیشن اینڈ امپلمینٹیشن کمیٹی (پی سی آئی سی) کرے گی، کمیٹی میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں تاہم پاک فوج کا اس میں بہت بڑا کردار ہے کیوں کہ سیلاب اور صفائی کے معاملات پر ہمیں فوج کی ضرورت ہوگی۔
وزیراعظم عمران خان نے کراچی کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے 11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں تعاون کریں گی۔
کراچی پیکج کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے اور اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ کے فور منصوبے کے ایک حصے کو صوبائی حکومت جبکہ دوسرا حصہ وفاقی حکومت مکمل کرے گی اور اسے جلد از جلد مکمل کر کے آئندہ 3 برس میں کراچی کا پانی کا مسئلہ مستقل طور پر حل کردیا جائے۔
انہوں نے کہا تھا کہ دوسرا مسئلہ نالوں کا ہے جہاں تجاوزات ہیں اور غریب لوگ رہائش پذیر ہیں، اس کے لیے این ڈی ایم اے نالے صاف کررہی ہے جبکہ وہاں بسے افراد کو متبادل جگہ فراہم کرنے کی ذمہ داری سندھ حکومت نے اٹھائی ہے، کراچی میں سیوریج سسٹم کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر فیصلہ کیا گیا کہ 11 سو ارب روپے کے پیکج میں سیوریج سسٹم کے مسئلے کو بھی مکمل طور پر حل کیا جائے گا، ساتھ ہی ایک ہی دفعہ سالڈ ویسٹ (کچرے) کے مسئلے کو بھی حل کر کے ایک نظام تشکیل دیا جائے گا، ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ کراچی کے سرکلر ریلوے کو اسی پیکج میں مکمل کیا جائے گا اور سڑکوں کے مختلف مسائل بھی حل کیے جائیں گے۔
لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ستمبر میں خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ پیش آیا جس پر ملک بھر میں غم وغصے کا اظہار کیا گیا اور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے اور اسی دوران لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ نے بیان دیا کہ خاتون کو رات دیر سے اکیلے باہر نہیں جانا چاہیے تھا، اس بیان نے تنازع کو مزید ہوا دی اور جہاں احتجاج میں شدت آئی وہی پولیس افسر کے خلاف بھی لوگوں نے احتجاج کیا۔
مذکورہ واقعے کی تفصیلات کے حوالے سے بتایا گیا کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔
واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئی تھیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔
اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔
تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظار کررہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔
اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔
تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: متاثرہ خاتون نے ملزم عابد کی شناخت کرلی
بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔
یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔
علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔
تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔
14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا تھا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا۔
بعد ازاں موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو 12 اکتوبر کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔
چار رکنی گینگ کا سربراہ عابد پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج 10 دیگر مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔
پولیس نے 21 اکتوبر کو بتایا کہ کیمپ جیل میں ملزم کی شناخت پریڈ کا عمل مکمل کیا گیا جہاں متاثرہ خاتون نے ملزم کی شناخت کرلی اور اب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی میزبانی میں 20 ستمبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) منعقد ہوئی اور حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا گیا، مشترکہ اعلامیے میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دیں اور اس کے ساتھ ہی 26 نکاتی مطالبات بھی پیش کیے گئے۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ
پی ڈی ایم نے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اپنی پہلی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جہاں اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو، محمود خان اچکزئی کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور عسکری قیادت پر الزامات عائد کیے جس سے ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
نواز شریف نے کہا کہ چند لوگوں کی خواہش ہے کہ میری آواز عوام تک نہ پہنچے اور ان کی آواز مجھ تک نہ پہنچے، لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مار دیا ہے، نہ جانے کس بے شرمی سے یہ لوگ میڈیا پر آکر اِدھر اُدھر کی کہانیاں سناتے ہیں، یہ کس کا قصور ہے؟ عمران خان نیازی کا یہ انہیں لانے والوں کا؟ اصل قصوروار کون ہے؟ عوام کا ووٹ کس نے چوری کیا، انتخابات میں کس نے دھاندلی کی؟ جو ووٹ آپ نے ڈالا تھا وہ کسی اور کے ڈبے میں کیسے پہنچ گیا؟ رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس کس نے بند کیا؟ نتائج کیوں روکے رکھے گئے؟ اور ہاری ہوئی پی ٹی آئی کو کس نے جتوایا؟ عوام کے ووٹ کی امانت میں کس نے خیانت کی؟ کس نے سلیکٹڈ حکومت بنانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا بازار دوبارہ کس نے گرم کیا؟
نواز شریف نے کہا تھا کہ اب اصل قصورواروں کو سامنے لانے سے نہیں ڈریں گے، ہم گائے بھینسیں نہیں ہیں، باضمیر لوگ ہیں اور اپنا ضمیر کبھی نہیں بیچیں گے، عوام کو اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی دو متوازی حکومتوں کا کون ذمہ دار ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے؟ صحافیوں کو اغوا کرکے ان پر تشدد کرنے کا کون ذمہ دار ہے؟' انہوں نے اپنی تقریر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر بھی سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ 'یہ سب کچھ آپ کے ہاتھوں سے ہوا ہے، آپ کو نواز شریف کو غدار کہنا ہے ضرور کہیں، اشتہاری کہنا ہے ضرور کہیں، نواز شریف کے اثاثے جائیداد ضبط کرنا ہے ضرور کریں، جھوٹے مقدمات بنوانے ہیں بنوائیے لیکن نواز شریف مظلوم عوام کی آواز بنتا رہے گا، نواز شریف عوام کو ان کے ووٹ کی عزت دلوا کر رہے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم جلسہ: رہنماؤں کے حکومت پر وار،نواز شریف کا ویڈیو لنک سے خطاب، فوجی قیادت پر الزامات
دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل پی پی پی کے چیئرمین نے غیرملکی میڈیا کو انٹرویو میں نواز شریف کی جانب سے اداروں کے سربراہوں کا نام لینے سے متعلق حیرانی کا اظہار کیا تھا اور کھل کر اس بیان کی حمایت یا تردید نہیں کی۔
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ ملاقات کی خبر میڈیا پر آئی اور ملک میں ایک نئے تنازع نے جنم لیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری قیادت کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات، 'فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے'
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 16ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے تقریباً 15 رہنماؤں نے شرکت کی جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور کچھ حکومتی وزرا نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں شریک چند رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اجلاس کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرنا تھا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے تھی مگر یہ ملاقات اس وقت مختلف شکل اختیار کر گئی جب اس میں گلگت بلتستان انتخابات، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے، اپوزیشن نے اس موقع کو دیگر معاملات پر اپنے تحفظات پیش کرنے کے لیے استعمال کیا بالخصوص فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور احتساب کے بہانے اس کے رہنماؤں پر ظلم و ستم کے الزامات وغیرہ۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان کو مقامی انتخابات کے بعد صوبے کا درجہ دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اس خبر کے بعد اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے خصوصی گفتگو میں آرمی چیف سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں سے متعلق سوال کہا کہ 'چیف آف آرمی اسٹاف سے محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی، ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے مریم نواز اور نواز شریف صاحب سے متعلق بات کی، ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جائے گا'۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست پر نہیں کیں اور ان کا مقصد کوئی ریلیف لینا بھی نہیں تھا۔
نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا تھا کہ 'جنرل قمر جاوید باجوہ سے میرے تعلقات اسکول، کالج کے دور سمیت 40 سے زیادہ عرصے سے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے کیریئر اور میرے پورے کیریئر کے دوران مختلف اوقات میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، خاندانی سطح پر ملاقاتیں رہیں اور کھانا پینا بھی ہوتا رہا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی ملاقاتیں نہیں تھیں'۔
محمد زبیر نے کہا کہ 'میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود مسلم لیگ (ن)، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر کیسز، مریم نواز اور شہباز شریف کے کیسز سے متعلق جتنی بھی مشکلات آئیں کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں کیا، 2018 کے انتخابات میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی میں نے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی درخواست کی، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی پوزیشن حساس ہے اور میں ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں'۔
ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے ملاقات کے آغاز میں ہی واضح کردیا تھا کہ میں یہاں ذاتی، پارٹی یا پھر شہباز شریف، مریم نواز یا نواز شریف کسی کے لیے کوئی ریلیف لینے نہیں آیا اور مجھے کسی نے نہیں بھیجا، میں نے مسلسل دو باتیں بتائیں کہ میں ریلیف لینے یا کسی کے کہنے پر یہاں نہیں آیا اور بحث زیادہ تر معیشت پر تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'آرمی چیف سے حکومت گرانے یا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی بات نہیں کی بلکہ میں نے معیشت پر اعداد و شمار کے ساتھ بات کی، پہلی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی موجود نہیں تھے تاہم دوسری ملاقات میں وہ موجود تھے لیکن وہ میری درخواست نہیں تھی'۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
ملک میں 2020 کے اوائل میں چینی بحران نے جنم لیا اور چینی کی قیمت دیکھتے ہی دیکھتے بڑھنے لگی اور دکانوں میں ناپید ہونے لگی جس پر وفاقی حکومت نے تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی اور اس کمیٹی کی رپورٹ کے فرانزک کے بعد اسکینڈل میں حکمران جماعت کے سینئر رہنما جہانگیر ترین اور وفاقی وزرا کے نام بھی سامنے آئے اور حکومت پر دباؤ بڑھنے لگا۔
وفاقی حکومت نے 21 فروری کو ملک بھر میں چینی کی قیمت میں یکدم اضافے اور اس کے بحران کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی، کمیٹی کے سامنے تفتیش کے لیے بنیادی سوال تھا کہ ‘کیا رواں برس چینی کی پیداوار گزشتہ برس کے مقابلے میں کم تھی، کیا کم پیداوار ہی قیمت میں اضافے کی وجہ تھی’ اور کمیٹی سے کہا گیا تھا کہ وہ تفتیش کرے کہ ‘کیا کم از کم قیمت کافی تھی’ اور تیسرا سوال دیا گیا تھا کہ ‘کیا شوگر ملوں نے گنے کو مہنگا خریدا، اگر ہاں تو اس کی وجوہات معلوم کی جائیں’۔
بعدازاں چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے 4 اپریل کو اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
جس کے بعد 21 مئی کو حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ منظرعام پر لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، 2 کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کی کئی ماہ بعد وطن واپسی
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔
معاون خصوصی نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔
چنانچہ 7 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔
بعدازاں 10 جون کو پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) نے انکوائری کمیشن کی تشکیل اور اس کی رپورٹ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی جس کے بعد 11 جون کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکومت کو شوگر انکوائری کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرنے سے روک دیا تھا، اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی منصفانہ اور غیر جانبدار ہوگی، چنانچہ 20 جون کو اپنے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر کارروائی روکنے کے لیے شوگر ملزم ایسوسی ایشن اور ملز مالکان کی جانب سے دائر درخواست کو مسترد کرتے ہوئے چینی رپورٹ پر کارروائی کی اجازت دے دی تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں چینی انکوائری کمیشن کی تشکیل درست قرار دی تھی جبکہ حکومتی ارکان کو چینی کیس پر غیر ضروری بیان بازی سے روکتے ہوئے ہدایت دی تھی کہ چینی کیس میں تمام فریقین منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنائیں۔
دوسری جانب جون کے مہینے ہی میں میرپور خاص شوگر ملز اور سندھ کی دیگر 19 ملز نے چینی کی ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف مرتب کی گئی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور رپورٹ کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی، 23 جون کو عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ قابل وکیل کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات قابل غور ہیں اور ساتھ ہی وفاقی حکومت کو 30 جون تک تحقیقاتی رپورٹ پر عملدرآمد سے روک دیا تھا اور 30 جون کو سندھ ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت تک حکم امتناع میں توسیع کردی تھی۔
وفاقی حکومت نے 28 جون کو شوگر کمیشن رپورٹ پر عمل درآمد روکنے کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی اور 14 جولائی کو سپریم کورٹ نے شوگر انکوائری رپورٹ پر عمل درآمد سے روکنے سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا حکم امتناع خارج کرتے ہوئے حکومت کو کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی تھی۔
اس سے قبل ابتدائی رپورٹ کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین شوگر کمیشن کے اہم ملزمان کی فہرست میں شامل ہونے کے باوجود جون میں خاموشی کے ساتھ برطانیہ روانہ ہو گئے تھے، وہ انکوائری کمیشن کی جانب سے چینی بحران کی فرانزک آڈٹ رپورٹ جاری کرنے سے قبل ہی ملک سے باہر چلے گئے تھے جہاں وہ کئی ماہ مقیم رہے اور نومبر میں واپس آگئے جبکہ ایف آئی اے نے انہیں تحقیقات کے لیے کئی نوٹسز بھی جاری کیے تھے تاہم انہیں نیب کی جانب سے کسی قسم کی پیشی یا تحقیقات کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔
تحریک انصاف کے رہنما کی بیرون ملک روانگی پر اپوزیشن نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا، مسلم لیگ (ن) نے جہانگیر ترین کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے پر سوالات اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم پر مخصوص لوگوں کے احتساب کا الزام عائد کیا تھا۔
دوسری جانب جہانگیر ترین نے اسکینڈل میں انہیں ملوث کرنے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ چینی کے لیے حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی تمام ملز کو حاصل ہوئی جبکہ انہوں نے کم ریٹ پر چینی جاری کی تھی۔
برطانیہ سے کئی ماہ بعد وطن واپسی پر لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے بتایا تھا کہ وہ علاج کے لیے بیرون ملک گئے تھے اور وہ اس مقصد سے گزشتہ 7 سال سے بیرون ملک جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں علاج مکمل ہونے کے بعد اب وطن واپس آ گیا ہو، خدا کا شکر گزار ہوں کہ میرا کاروبار صاف شفاف ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے لیے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے ایک سال مکمل ہونے پر 5 اگست کو اپنے ایک بیان میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے حوالے سے سخت لہجے میں بات کی تھی، جس کو سفارتی حلقوں میں منفی انداز میں دیکھا گیا اور ملک کے اندر بھی اس بیان کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے لیے بدشگون قرار دیا گیا تاہم بعد ازاں وزیر خارجہ نے اپنے بیان کی وضاحت بھی کی۔
وزیرخارجہ نے اپنے بیان میں سعودی عرب کی زیر قیادت او آئی سی سے کہا تھا کہ وہ کشمیر کے بارے میں وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کے انعقاد کے سلسلے میں پس و پیش سے کام لینا بند کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ایک بار پھر احترام کے ساتھ او آئی سی کو بتا رہا ہوں کہ ہم وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کی توقع کرتے ہیں، اگر آپ اس کو طلب نہیں کرسکتے ہیں تو پھر میں وزیراعظم عمران خان کو ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کرنے پر مجبور کروں گا جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے لیے تیار ہیں، اگر او آئی سی، وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس طلب کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پاکستان او آئی سی کے باہر اجلاس بلانے کے لیے تیار ہوجائے گا، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان مزید انتظار نہیں کرسکتا۔
اسی طرح ایک روز قبل ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کے لیے سی ایف ایم کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر امت مسلمہ کی طرف سے واضح پیغام بھیجنے کی ضرورت ہے، پاکستان گزشتہ دسمبر میں سعودی عرب کی درخواست پر کوالالمپور سمٹ میں شریک نہیں ہوا تھا اور اب پاکستانی مسلمان ریاض سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اس معاملے پر قائدانہ صلاحیتیں دکھائیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہماری اپنی حساسیت ہے، آپ کو اس کا احساس کرنا ہوگا، خلیجی ممالک کو یہ سمجھنا چاہیے اور اب ہم مزید سفارتی نزاکتوں میں الجھ کر نہیں رہ سکتے، اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا تھا کہ وہ جذباتی نہیں ہو رہے ہیں اور اپنے بیان کے مضمرات کو پوری طرح سے سمجھتے ہیں، یہ درست ہے، میں سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود ایک مؤقف اپنا رہا ہوں، ہم کشمیریوں کے دکھوں پر اب خاموش نہیں رہ سکتے۔
بعد ازاں نومبر میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جہاں شاہ محمود قریشی نے سعودی ہم منصب فیصل بن فرحان السعود سے ملاقات کی جبکہ اجلاس میں کشمیر میں بھارتی مظالم کے حوالے سے قرار داد بھی منظور کی گئی۔
امریکا میں موجود پاکستانی صحافی احمد نورانی نے رواں برس 27 اگست کو ایک غیر معروف ویب سائٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے اہل خانہ کے اربوں مالیت کے کاروبار اور جائیدادوں کا انکشاف کیا تھا، جس سے پاکستانی سیاست اور میڈیا میں بھونچال آگیا اور اپوزیشن نے نیب سے تحقیقات کا مطالبہ کیا اور انہیں پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کے چیئرمین اور وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، پی ڈی ایم کے جلسوں میں سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت دیگر رہنماؤں نے سیاست دانوں کی طرح ان کے خلاف بھی تفتیش کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔
احمد نورانی کی خبر میں الزام لگایا گیا تھا کہ عاصم سلیم باجوہ نے اپنی اہلیہ، بچوں اور بھائیوں کے آف شور کاروبار بنانے میں اپنے دفتر کا استعمال کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عاصم باجوہ کے چھوٹے بھائیوں نے 2002 میں پہلا پاپا جوہن پیزا ریسٹورنٹ کھولا اور یہ وہی سال تھا جب عاصم باجوہ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے اسٹاف میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر کام شروع کیا تھا، 53 سالہ ندیم باجوہ، جنہوں نے پیزا ریسٹورنٹ فرنچائز کے لیے ڈیلوری ڈرائیور کے طور پر کام کا آغاز کیا تھا، اب ان کے بھائیوں اور عاصم سلیم باجوہ کی اہلیہ اور بیٹے ایک اپنا کاروبار رکھتے ہیں جس کی 4 ممالک میں 99 کمپنیاں ہیں جس میں 3 کروڑ 99 لاکھ ڈالر مالیت کے 133 ریسٹورنٹس کے ساتھ پیزا فرنچائزز بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان 99 کمپنیوں میں سے 66 مرکزی کمپنیاں ہیں، 33 مرکزی کمپنیوں کی ذیلی کمپنیاں ہیں جبکہ 5 کمپنیاں اب ختم ہوچکی ہیں۔
بعد ازاں عاصم سلیم باجوہ نے مذکورہ معاملے پر ہونے والی بحث کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو بھجوادیا تھا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا اور اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے پیش کئے گئے ثبوت اور وضاحت سے مطمئن ہیں۔
اپوزیشن کے جلسوں اور ان کے رہنماؤں کی جانب سے عاصم باجوہ کے اثاثوں سے متعلق تنقید مسلسل جاری رہی، جس کے بعد عاصم باجوہ نے بالآخر 12 اکتوبر کو ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ انہوں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کا عہدہ چھوڑ دیا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ قبول کرلیا جبکہ وہ بدستور سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین کام کرتے رہیں گے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ ان کے بھائیوں کے کاروبار میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ ان کے بچوں نے خود کاروبار شروع کیا اور اس میں ان کی کوئی شراکت داری نہیں ہے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے اوپر لگائے جانے والے ان الزامات کی تردید کی تھی اور مذکورہ خبر سے متعلق 4 صفحات پر مشتمل تفصیلی بیان جاری کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'احمد نورانی نے 27 اگست 2020 کو نامعلوم ویب سائٹ پر میرے بارے میں خبر شائع کی، جسے غلط اور جھوٹی قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا ہوں'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'خبر میں الزام لگایا گیا کہ میں نے 22 جون 2020 کو بطور معاوں خصوصی اپنے غلط اثاثے ظاہر کیے اور میں نے اپنی اہلیہ کی بیرون ملک سرمایہ کاری ظاہر نہیں کی، میرے بھائیوں نے امریکا میں کاروبار کیے جن میں ان کی ترقی کا تعلق پاک آرمی میں میری ترقی سے ہے جبکہ میرے بھائیوں اور بچوں کی ملکیت میں موجود مختلف کمپنیاں، کاروبار اور جائیدادیں ظاہر کی گئیں اور ان کی ملکیت اور مالیت سے متعلق بے بنیاد الزامات لگائے گئے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 22 جون 2020 کو اہلیہ کے اثاثے اپنے ڈکلیئریشن میں چھپانے کا الزام بنیادی طور پر غلط ہے کیونکہ اس وقت میری اہلیہ بیرون ملک کسی کاروبار میں سرمایہ کار یا شیئرہولڈر نہیں رہی تھیں، میری بیوی نے یکم جون 2020 کو بیرون ملک کی تمام کمپنیوں سے سرمایہ نکال لیا تھا اور امریکا کی سرکاری دستاویز میں اس کا ریکارڈ موجود ہے'۔
کراچی اور سندھ میں جولائی اور اگست میں بارشوں اور سیلاب سے بدترین نقصان ہوا، پورے سندھ میں 100 سے زائد اموات ہوئیں، لاکھوں لوگ متاثر ہوئے، بدترین حالات کے پیش نظر حکومت سندھ نے کراچی سمیت سندھ کے 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 3 ستمبر کو کراچی میں پریس کانفرنس میں سندھ میں بارش سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں بدین، عمر کوٹ، میرپورخاص، سانگھڑ اور شہید بینظیر آباد کے کچھ علاقے دریا کا منظر پیش کررہے ہیں، ان علاقوں میں موجود کچے مکانات تباہ ہوگئے ہیں اور بڑے شہر یعنی تعلقہ ہیڈکوارٹرز کو بھی چاروں طرف سے پانی نے گھیرا ہوا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کسی تعلقہ ہیڈکوارٹر کے مرکزی علاقوں میں پانی نہیں رکا، متاثرہ علاقوں میں لوگ اپنے خاندان سمیت سڑکوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بارش سے ہونے والے جانی نقصان سے آگاہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا تھا کہ پورے سندھ میں 100 اموات ہوئیں جس میں 63 کراچی اور 35 سندھ کے دیگر اضلاع میں ہوئیں۔
انہوں نے مزید بتایا تھا کہ جوہی میں تقریباً 2 لاکھ 40 ہزار لوگ متاثر ہوئے، 23 ہزار ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہوگئیں، ایک ہزار 80 کچے گھر مکمل طور پر منہدم، ایک ہزار 640 جزوی متاثر اور 30 پکے مکمل منہدم جبکہ 355 جزوی متاثر ہوئے، تعلقہ سانگھڑ میں 48 ہزار افراد، تعلقہ کھیپرو میں 80 سے 81 ہزار افراد متاثر ہوئے، تعلقہ عمر کوٹ میں 3 لاکھ، سامارو میں ایک لاکھ 25 ہزار 500، کنڈری میں ایک لاکھ 55 ہزار 200، پتھور میں 85 ہزار 100 افراد سیلابی صورتحال سے متاثر ہوئے۔
کراچی کے بارے میں انہوں نے بتایا تھا کہ ضلع وسطی میں 29 پکے مکانات مکمل تباہ جبکہ 2 کو جزوی نقصان پہنچا، ایک چھت منہدم ہوئی، 48 اسکول، ایک ہسپتال، ایک سرکاری دفتر، 4 مساجد کو نقصان پہنچا، کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی نکالنے میں بہت وقت لگا، خاص کر کھارادر کے علاقے میں سب سے زیادہ مشکلات پیش آئیں۔
بعد ازاں وزیراعظم عمران خان، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کراچی کا دورہ کیا تھا اور بحالی کے لیے پیکیج کا اعلان کیا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2 ستمبر کو کراچی کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے شہر کا فضائی اور اربن فلڈنگ سے متاثرہ علاقوں کا معائنہ کیا، جس کے بعد کور ہیڈکوارٹرز پہنچے جہاں انہیں حالیہ تاریخ کے بدترین شہری سیلاب اور سندھ بھر میں بالخصوص کراچی میں آرمی کی جانب سے سول انتظامیہ کی مدد کے حوالے سے آگاہ کیا گیا، انہیں بتایا گیا کہ غیر معمولی بارشوں نے کئی دہائیوں کی شہری آبادی، کسی منصوبہ بندی کے بغیر آباد کاری اور بنیادی ڈھانچے کے امور کے ساتھ مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔
آرمی چیف نے کراچی میں امدادی سرگرمیوں کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ مشترکہ عوامی افادیت والے علاقوں اور بدترین متاثرہ آبادیوں کو پہلے ترجیح دی جانی چاہیے جبکہ کسی خاص مقام یا برادری کے کسی بھی اثر و رسوخ کو ضرورت مندوں کی طرف سے توجہ یا وسائل منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ ایک قومی تباہی ہے اور سب اس میں شامل ہیں، فوج ضرورت کے وقت عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔
وزیراعظم عمران خان 5 ستمبر کو کراچی کے دورے کے موقع پر شہر کے لیے اقدامات کے حوالے سے خصوصی اجلاس کی سربراہی کے بعد سندھ کے گورنر عمران اسمٰعیل اور وزیراعلٰی مراد علی شاہ کے ہمراہ نیوز کانفرنس کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ اب جو بھی فیصلے کیے جائیں گے اس کی نگرانی پرووِینشل کوآرڈینیشن اینڈ امپلمینٹیشن کمیٹی (پی سی آئی سی) کرے گی، کمیٹی میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں تاہم پاک فوج کا اس میں بہت بڑا کردار ہے کیوں کہ سیلاب اور صفائی کے معاملات پر ہمیں فوج کی ضرورت ہوگی۔
وزیراعظم عمران خان نے کراچی کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے 11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں تعاون کریں گی۔
کراچی پیکج کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے اور اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ کے فور منصوبے کے ایک حصے کو صوبائی حکومت جبکہ دوسرا حصہ وفاقی حکومت مکمل کرے گی اور اسے جلد از جلد مکمل کر کے آئندہ 3 برس میں کراچی کا پانی کا مسئلہ مستقل طور پر حل کردیا جائے۔
انہوں نے کہا تھا کہ دوسرا مسئلہ نالوں کا ہے جہاں تجاوزات ہیں اور غریب لوگ رہائش پذیر ہیں، اس کے لیے این ڈی ایم اے نالے صاف کررہی ہے جبکہ وہاں بسے افراد کو متبادل جگہ فراہم کرنے کی ذمہ داری سندھ حکومت نے اٹھائی ہے، کراچی میں سیوریج سسٹم کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر فیصلہ کیا گیا کہ 11 سو ارب روپے کے پیکج میں سیوریج سسٹم کے مسئلے کو بھی مکمل طور پر حل کیا جائے گا، ساتھ ہی ایک ہی دفعہ سالڈ ویسٹ (کچرے) کے مسئلے کو بھی حل کر کے ایک نظام تشکیل دیا جائے گا، ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ کراچی کے سرکلر ریلوے کو اسی پیکج میں مکمل کیا جائے گا اور سڑکوں کے مختلف مسائل بھی حل کیے جائیں گے۔
لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ستمبر میں خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ پیش آیا جس پر ملک بھر میں غم وغصے کا اظہار کیا گیا اور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے اور اسی دوران لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ نے بیان دیا کہ خاتون کو رات دیر سے اکیلے باہر نہیں جانا چاہیے تھا، اس بیان نے تنازع کو مزید ہوا دی اور جہاں احتجاج میں شدت آئی وہی پولیس افسر کے خلاف بھی لوگوں نے احتجاج کیا۔
مذکورہ واقعے کی تفصیلات کے حوالے سے بتایا گیا کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔
واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئی تھیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔
اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔
تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظار کررہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔
اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔
تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: متاثرہ خاتون نے ملزم عابد کی شناخت کرلی
بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔
یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔
علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔
تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔
14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا تھا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا۔
بعد ازاں موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو 12 اکتوبر کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔
چار رکنی گینگ کا سربراہ عابد پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج 10 دیگر مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔
پولیس نے 21 اکتوبر کو بتایا کہ کیمپ جیل میں ملزم کی شناخت پریڈ کا عمل مکمل کیا گیا جہاں متاثرہ خاتون نے ملزم کی شناخت کرلی اور اب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی میزبانی میں 20 ستمبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) منعقد ہوئی اور حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا گیا، مشترکہ اعلامیے میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دیں اور اس کے ساتھ ہی 26 نکاتی مطالبات بھی پیش کیے گئے۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ
پی ڈی ایم نے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اپنی پہلی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جہاں اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو، محمود خان اچکزئی کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور عسکری قیادت پر الزامات عائد کیے جس سے ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
نواز شریف نے کہا کہ چند لوگوں کی خواہش ہے کہ میری آواز عوام تک نہ پہنچے اور ان کی آواز مجھ تک نہ پہنچے، لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مار دیا ہے، نہ جانے کس بے شرمی سے یہ لوگ میڈیا پر آکر اِدھر اُدھر کی کہانیاں سناتے ہیں، یہ کس کا قصور ہے؟ عمران خان نیازی کا یہ انہیں لانے والوں کا؟ اصل قصوروار کون ہے؟ عوام کا ووٹ کس نے چوری کیا، انتخابات میں کس نے دھاندلی کی؟ جو ووٹ آپ نے ڈالا تھا وہ کسی اور کے ڈبے میں کیسے پہنچ گیا؟ رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس کس نے بند کیا؟ نتائج کیوں روکے رکھے گئے؟ اور ہاری ہوئی پی ٹی آئی کو کس نے جتوایا؟ عوام کے ووٹ کی امانت میں کس نے خیانت کی؟ کس نے سلیکٹڈ حکومت بنانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا بازار دوبارہ کس نے گرم کیا؟
نواز شریف نے کہا تھا کہ اب اصل قصورواروں کو سامنے لانے سے نہیں ڈریں گے، ہم گائے بھینسیں نہیں ہیں، باضمیر لوگ ہیں اور اپنا ضمیر کبھی نہیں بیچیں گے، عوام کو اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی دو متوازی حکومتوں کا کون ذمہ دار ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے؟ صحافیوں کو اغوا کرکے ان پر تشدد کرنے کا کون ذمہ دار ہے؟' انہوں نے اپنی تقریر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر بھی سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ 'یہ سب کچھ آپ کے ہاتھوں سے ہوا ہے، آپ کو نواز شریف کو غدار کہنا ہے ضرور کہیں، اشتہاری کہنا ہے ضرور کہیں، نواز شریف کے اثاثے جائیداد ضبط کرنا ہے ضرور کریں، جھوٹے مقدمات بنوانے ہیں بنوائیے لیکن نواز شریف مظلوم عوام کی آواز بنتا رہے گا، نواز شریف عوام کو ان کے ووٹ کی عزت دلوا کر رہے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم جلسہ: رہنماؤں کے حکومت پر وار،نواز شریف کا ویڈیو لنک سے خطاب، فوجی قیادت پر الزامات
دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل پی پی پی کے چیئرمین نے غیرملکی میڈیا کو انٹرویو میں نواز شریف کی جانب سے اداروں کے سربراہوں کا نام لینے سے متعلق حیرانی کا اظہار کیا تھا اور کھل کر اس بیان کی حمایت یا تردید نہیں کی۔
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ ملاقات کی خبر میڈیا پر آئی اور ملک میں ایک نئے تنازع نے جنم لیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری قیادت کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات، 'فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے'
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 16ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے تقریباً 15 رہنماؤں نے شرکت کی جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور کچھ حکومتی وزرا نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں شریک چند رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اجلاس کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرنا تھا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے تھی مگر یہ ملاقات اس وقت مختلف شکل اختیار کر گئی جب اس میں گلگت بلتستان انتخابات، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے، اپوزیشن نے اس موقع کو دیگر معاملات پر اپنے تحفظات پیش کرنے کے لیے استعمال کیا بالخصوص فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور احتساب کے بہانے اس کے رہنماؤں پر ظلم و ستم کے الزامات وغیرہ۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان کو مقامی انتخابات کے بعد صوبے کا درجہ دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اس خبر کے بعد اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے خصوصی گفتگو میں آرمی چیف سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں سے متعلق سوال کہا کہ 'چیف آف آرمی اسٹاف سے محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی، ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے مریم نواز اور نواز شریف صاحب سے متعلق بات کی، ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جائے گا'۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست پر نہیں کیں اور ان کا مقصد کوئی ریلیف لینا بھی نہیں تھا۔
نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا تھا کہ 'جنرل قمر جاوید باجوہ سے میرے تعلقات اسکول، کالج کے دور سمیت 40 سے زیادہ عرصے سے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے کیریئر اور میرے پورے کیریئر کے دوران مختلف اوقات میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، خاندانی سطح پر ملاقاتیں رہیں اور کھانا پینا بھی ہوتا رہا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی ملاقاتیں نہیں تھیں'۔
محمد زبیر نے کہا کہ 'میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود مسلم لیگ (ن)، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر کیسز، مریم نواز اور شہباز شریف کے کیسز سے متعلق جتنی بھی مشکلات آئیں کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں کیا، 2018 کے انتخابات میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی میں نے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی درخواست کی، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی پوزیشن حساس ہے اور میں ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں'۔
ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے ملاقات کے آغاز میں ہی واضح کردیا تھا کہ میں یہاں ذاتی، پارٹی یا پھر شہباز شریف، مریم نواز یا نواز شریف کسی کے لیے کوئی ریلیف لینے نہیں آیا اور مجھے کسی نے نہیں بھیجا، میں نے مسلسل دو باتیں بتائیں کہ میں ریلیف لینے یا کسی کے کہنے پر یہاں نہیں آیا اور بحث زیادہ تر معیشت پر تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'آرمی چیف سے حکومت گرانے یا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی بات نہیں کی بلکہ میں نے معیشت پر اعداد و شمار کے ساتھ بات کی، پہلی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی موجود نہیں تھے تاہم دوسری ملاقات میں وہ موجود تھے لیکن وہ میری درخواست نہیں تھی'۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
ملک میں 2020 کے اوائل میں چینی بحران نے جنم لیا اور چینی کی قیمت دیکھتے ہی دیکھتے بڑھنے لگی اور دکانوں میں ناپید ہونے لگی جس پر وفاقی حکومت نے تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی اور اس کمیٹی کی رپورٹ کے فرانزک کے بعد اسکینڈل میں حکمران جماعت کے سینئر رہنما جہانگیر ترین اور وفاقی وزرا کے نام بھی سامنے آئے اور حکومت پر دباؤ بڑھنے لگا۔
وفاقی حکومت نے 21 فروری کو ملک بھر میں چینی کی قیمت میں یکدم اضافے اور اس کے بحران کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی، کمیٹی کے سامنے تفتیش کے لیے بنیادی سوال تھا کہ ‘کیا رواں برس چینی کی پیداوار گزشتہ برس کے مقابلے میں کم تھی، کیا کم پیداوار ہی قیمت میں اضافے کی وجہ تھی’ اور کمیٹی سے کہا گیا تھا کہ وہ تفتیش کرے کہ ‘کیا کم از کم قیمت کافی تھی’ اور تیسرا سوال دیا گیا تھا کہ ‘کیا شوگر ملوں نے گنے کو مہنگا خریدا، اگر ہاں تو اس کی وجوہات معلوم کی جائیں’۔
بعدازاں چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے 4 اپریل کو اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
جس کے بعد 21 مئی کو حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ منظرعام پر لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، 2 کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کی کئی ماہ بعد وطن واپسی
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔
معاون خصوصی نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔
چنانچہ 7 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔
بعدازاں 10 جون کو پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) نے انکوائری کمیشن کی تشکیل اور اس کی رپورٹ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی جس کے بعد 11 جون کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکومت کو شوگر انکوائری کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرنے سے روک دیا تھا، اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی منصفانہ اور غیر جانبدار ہوگی، چنانچہ 20 جون کو اپنے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر کارروائی روکنے کے لیے شوگر ملزم ایسوسی ایشن اور ملز مالکان کی جانب سے دائر درخواست کو مسترد کرتے ہوئے چینی رپورٹ پر کارروائی کی اجازت دے دی تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں چینی انکوائری کمیشن کی تشکیل درست قرار دی تھی جبکہ حکومتی ارکان کو چینی کیس پر غیر ضروری بیان بازی سے روکتے ہوئے ہدایت دی تھی کہ چینی کیس میں تمام فریقین منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنائیں۔
دوسری جانب جون کے مہینے ہی میں میرپور خاص شوگر ملز اور سندھ کی دیگر 19 ملز نے چینی کی ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف مرتب کی گئی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور رپورٹ کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی، 23 جون کو عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ قابل وکیل کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات قابل غور ہیں اور ساتھ ہی وفاقی حکومت کو 30 جون تک تحقیقاتی رپورٹ پر عملدرآمد سے روک دیا تھا اور 30 جون کو سندھ ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت تک حکم امتناع میں توسیع کردی تھی۔
وفاقی حکومت نے 28 جون کو شوگر کمیشن رپورٹ پر عمل درآمد روکنے کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی اور 14 جولائی کو سپریم کورٹ نے شوگر انکوائری رپورٹ پر عمل درآمد سے روکنے سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کا حکم امتناع خارج کرتے ہوئے حکومت کو کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی تھی۔
اس سے قبل ابتدائی رپورٹ کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین شوگر کمیشن کے اہم ملزمان کی فہرست میں شامل ہونے کے باوجود جون میں خاموشی کے ساتھ برطانیہ روانہ ہو گئے تھے، وہ انکوائری کمیشن کی جانب سے چینی بحران کی فرانزک آڈٹ رپورٹ جاری کرنے سے قبل ہی ملک سے باہر چلے گئے تھے جہاں وہ کئی ماہ مقیم رہے اور نومبر میں واپس آگئے جبکہ ایف آئی اے نے انہیں تحقیقات کے لیے کئی نوٹسز بھی جاری کیے تھے تاہم انہیں نیب کی جانب سے کسی قسم کی پیشی یا تحقیقات کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔
تحریک انصاف کے رہنما کی بیرون ملک روانگی پر اپوزیشن نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا، مسلم لیگ (ن) نے جہانگیر ترین کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے پر سوالات اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم پر مخصوص لوگوں کے احتساب کا الزام عائد کیا تھا۔
دوسری جانب جہانگیر ترین نے اسکینڈل میں انہیں ملوث کرنے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ چینی کے لیے حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی تمام ملز کو حاصل ہوئی جبکہ انہوں نے کم ریٹ پر چینی جاری کی تھی۔
برطانیہ سے کئی ماہ بعد وطن واپسی پر لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے بتایا تھا کہ وہ علاج کے لیے بیرون ملک گئے تھے اور وہ اس مقصد سے گزشتہ 7 سال سے بیرون ملک جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں علاج مکمل ہونے کے بعد اب وطن واپس آ گیا ہو، خدا کا شکر گزار ہوں کہ میرا کاروبار صاف شفاف ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے لیے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے ایک سال مکمل ہونے پر 5 اگست کو اپنے ایک بیان میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے حوالے سے سخت لہجے میں بات کی تھی، جس کو سفارتی حلقوں میں منفی انداز میں دیکھا گیا اور ملک کے اندر بھی اس بیان کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے لیے بدشگون قرار دیا گیا تاہم بعد ازاں وزیر خارجہ نے اپنے بیان کی وضاحت بھی کی۔
وزیرخارجہ نے اپنے بیان میں سعودی عرب کی زیر قیادت او آئی سی سے کہا تھا کہ وہ کشمیر کے بارے میں وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کے انعقاد کے سلسلے میں پس و پیش سے کام لینا بند کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ایک بار پھر احترام کے ساتھ او آئی سی کو بتا رہا ہوں کہ ہم وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کی توقع کرتے ہیں، اگر آپ اس کو طلب نہیں کرسکتے ہیں تو پھر میں وزیراعظم عمران خان کو ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کرنے پر مجبور کروں گا جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے لیے تیار ہیں، اگر او آئی سی، وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس طلب کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پاکستان او آئی سی کے باہر اجلاس بلانے کے لیے تیار ہوجائے گا، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان مزید انتظار نہیں کرسکتا۔
اسی طرح ایک روز قبل ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کے لیے سی ایف ایم کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر امت مسلمہ کی طرف سے واضح پیغام بھیجنے کی ضرورت ہے، پاکستان گزشتہ دسمبر میں سعودی عرب کی درخواست پر کوالالمپور سمٹ میں شریک نہیں ہوا تھا اور اب پاکستانی مسلمان ریاض سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اس معاملے پر قائدانہ صلاحیتیں دکھائیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہماری اپنی حساسیت ہے، آپ کو اس کا احساس کرنا ہوگا، خلیجی ممالک کو یہ سمجھنا چاہیے اور اب ہم مزید سفارتی نزاکتوں میں الجھ کر نہیں رہ سکتے، اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا تھا کہ وہ جذباتی نہیں ہو رہے ہیں اور اپنے بیان کے مضمرات کو پوری طرح سے سمجھتے ہیں، یہ درست ہے، میں سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود ایک مؤقف اپنا رہا ہوں، ہم کشمیریوں کے دکھوں پر اب خاموش نہیں رہ سکتے۔
بعد ازاں نومبر میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جہاں شاہ محمود قریشی نے سعودی ہم منصب فیصل بن فرحان السعود سے ملاقات کی جبکہ اجلاس میں کشمیر میں بھارتی مظالم کے حوالے سے قرار داد بھی منظور کی گئی۔
امریکا میں موجود پاکستانی صحافی احمد نورانی نے رواں برس 27 اگست کو ایک غیر معروف ویب سائٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے اہل خانہ کے اربوں مالیت کے کاروبار اور جائیدادوں کا انکشاف کیا تھا، جس سے پاکستانی سیاست اور میڈیا میں بھونچال آگیا اور اپوزیشن نے نیب سے تحقیقات کا مطالبہ کیا اور انہیں پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کے چیئرمین اور وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، پی ڈی ایم کے جلسوں میں سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت دیگر رہنماؤں نے سیاست دانوں کی طرح ان کے خلاف بھی تفتیش کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔
احمد نورانی کی خبر میں الزام لگایا گیا تھا کہ عاصم سلیم باجوہ نے اپنی اہلیہ، بچوں اور بھائیوں کے آف شور کاروبار بنانے میں اپنے دفتر کا استعمال کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عاصم باجوہ کے چھوٹے بھائیوں نے 2002 میں پہلا پاپا جوہن پیزا ریسٹورنٹ کھولا اور یہ وہی سال تھا جب عاصم باجوہ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے اسٹاف میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر کام شروع کیا تھا، 53 سالہ ندیم باجوہ، جنہوں نے پیزا ریسٹورنٹ فرنچائز کے لیے ڈیلوری ڈرائیور کے طور پر کام کا آغاز کیا تھا، اب ان کے بھائیوں اور عاصم سلیم باجوہ کی اہلیہ اور بیٹے ایک اپنا کاروبار رکھتے ہیں جس کی 4 ممالک میں 99 کمپنیاں ہیں جس میں 3 کروڑ 99 لاکھ ڈالر مالیت کے 133 ریسٹورنٹس کے ساتھ پیزا فرنچائزز بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان 99 کمپنیوں میں سے 66 مرکزی کمپنیاں ہیں، 33 مرکزی کمپنیوں کی ذیلی کمپنیاں ہیں جبکہ 5 کمپنیاں اب ختم ہوچکی ہیں۔
بعد ازاں عاصم سلیم باجوہ نے مذکورہ معاملے پر ہونے والی بحث کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو بھجوادیا تھا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا اور اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے پیش کئے گئے ثبوت اور وضاحت سے مطمئن ہیں۔
اپوزیشن کے جلسوں اور ان کے رہنماؤں کی جانب سے عاصم باجوہ کے اثاثوں سے متعلق تنقید مسلسل جاری رہی، جس کے بعد عاصم باجوہ نے بالآخر 12 اکتوبر کو ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ انہوں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کا عہدہ چھوڑ دیا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ قبول کرلیا جبکہ وہ بدستور سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین کام کرتے رہیں گے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ ان کے بھائیوں کے کاروبار میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ ان کے بچوں نے خود کاروبار شروع کیا اور اس میں ان کی کوئی شراکت داری نہیں ہے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے اوپر لگائے جانے والے ان الزامات کی تردید کی تھی اور مذکورہ خبر سے متعلق 4 صفحات پر مشتمل تفصیلی بیان جاری کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'احمد نورانی نے 27 اگست 2020 کو نامعلوم ویب سائٹ پر میرے بارے میں خبر شائع کی، جسے غلط اور جھوٹی قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا ہوں'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'خبر میں الزام لگایا گیا کہ میں نے 22 جون 2020 کو بطور معاوں خصوصی اپنے غلط اثاثے ظاہر کیے اور میں نے اپنی اہلیہ کی بیرون ملک سرمایہ کاری ظاہر نہیں کی، میرے بھائیوں نے امریکا میں کاروبار کیے جن میں ان کی ترقی کا تعلق پاک آرمی میں میری ترقی سے ہے جبکہ میرے بھائیوں اور بچوں کی ملکیت میں موجود مختلف کمپنیاں، کاروبار اور جائیدادیں ظاہر کی گئیں اور ان کی ملکیت اور مالیت سے متعلق بے بنیاد الزامات لگائے گئے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 22 جون 2020 کو اہلیہ کے اثاثے اپنے ڈکلیئریشن میں چھپانے کا الزام بنیادی طور پر غلط ہے کیونکہ اس وقت میری اہلیہ بیرون ملک کسی کاروبار میں سرمایہ کار یا شیئرہولڈر نہیں رہی تھیں، میری بیوی نے یکم جون 2020 کو بیرون ملک کی تمام کمپنیوں سے سرمایہ نکال لیا تھا اور امریکا کی سرکاری دستاویز میں اس کا ریکارڈ موجود ہے'۔
کراچی اور سندھ میں جولائی اور اگست میں بارشوں اور سیلاب سے بدترین نقصان ہوا، پورے سندھ میں 100 سے زائد اموات ہوئیں، لاکھوں لوگ متاثر ہوئے، بدترین حالات کے پیش نظر حکومت سندھ نے کراچی سمیت سندھ کے 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 3 ستمبر کو کراچی میں پریس کانفرنس میں سندھ میں بارش سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں بدین، عمر کوٹ، میرپورخاص، سانگھڑ اور شہید بینظیر آباد کے کچھ علاقے دریا کا منظر پیش کررہے ہیں، ان علاقوں میں موجود کچے مکانات تباہ ہوگئے ہیں اور بڑے شہر یعنی تعلقہ ہیڈکوارٹرز کو بھی چاروں طرف سے پانی نے گھیرا ہوا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کسی تعلقہ ہیڈکوارٹر کے مرکزی علاقوں میں پانی نہیں رکا، متاثرہ علاقوں میں لوگ اپنے خاندان سمیت سڑکوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بارش سے ہونے والے جانی نقصان سے آگاہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا تھا کہ پورے سندھ میں 100 اموات ہوئیں جس میں 63 کراچی اور 35 سندھ کے دیگر اضلاع میں ہوئیں۔
انہوں نے مزید بتایا تھا کہ جوہی میں تقریباً 2 لاکھ 40 ہزار لوگ متاثر ہوئے، 23 ہزار ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہوگئیں، ایک ہزار 80 کچے گھر مکمل طور پر منہدم، ایک ہزار 640 جزوی متاثر اور 30 پکے مکمل منہدم جبکہ 355 جزوی متاثر ہوئے، تعلقہ سانگھڑ میں 48 ہزار افراد، تعلقہ کھیپرو میں 80 سے 81 ہزار افراد متاثر ہوئے، تعلقہ عمر کوٹ میں 3 لاکھ، سامارو میں ایک لاکھ 25 ہزار 500، کنڈری میں ایک لاکھ 55 ہزار 200، پتھور میں 85 ہزار 100 افراد سیلابی صورتحال سے متاثر ہوئے۔
کراچی کے بارے میں انہوں نے بتایا تھا کہ ضلع وسطی میں 29 پکے مکانات مکمل تباہ جبکہ 2 کو جزوی نقصان پہنچا، ایک چھت منہدم ہوئی، 48 اسکول، ایک ہسپتال، ایک سرکاری دفتر، 4 مساجد کو نقصان پہنچا، کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی نکالنے میں بہت وقت لگا، خاص کر کھارادر کے علاقے میں سب سے زیادہ مشکلات پیش آئیں۔
بعد ازاں وزیراعظم عمران خان، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کراچی کا دورہ کیا تھا اور بحالی کے لیے پیکیج کا اعلان کیا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2 ستمبر کو کراچی کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے شہر کا فضائی اور اربن فلڈنگ سے متاثرہ علاقوں کا معائنہ کیا، جس کے بعد کور ہیڈکوارٹرز پہنچے جہاں انہیں حالیہ تاریخ کے بدترین شہری سیلاب اور سندھ بھر میں بالخصوص کراچی میں آرمی کی جانب سے سول انتظامیہ کی مدد کے حوالے سے آگاہ کیا گیا، انہیں بتایا گیا کہ غیر معمولی بارشوں نے کئی دہائیوں کی شہری آبادی، کسی منصوبہ بندی کے بغیر آباد کاری اور بنیادی ڈھانچے کے امور کے ساتھ مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔
آرمی چیف نے کراچی میں امدادی سرگرمیوں کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ مشترکہ عوامی افادیت والے علاقوں اور بدترین متاثرہ آبادیوں کو پہلے ترجیح دی جانی چاہیے جبکہ کسی خاص مقام یا برادری کے کسی بھی اثر و رسوخ کو ضرورت مندوں کی طرف سے توجہ یا وسائل منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ ایک قومی تباہی ہے اور سب اس میں شامل ہیں، فوج ضرورت کے وقت عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔
وزیراعظم عمران خان 5 ستمبر کو کراچی کے دورے کے موقع پر شہر کے لیے اقدامات کے حوالے سے خصوصی اجلاس کی سربراہی کے بعد سندھ کے گورنر عمران اسمٰعیل اور وزیراعلٰی مراد علی شاہ کے ہمراہ نیوز کانفرنس کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ اب جو بھی فیصلے کیے جائیں گے اس کی نگرانی پرووِینشل کوآرڈینیشن اینڈ امپلمینٹیشن کمیٹی (پی سی آئی سی) کرے گی، کمیٹی میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں تاہم پاک فوج کا اس میں بہت بڑا کردار ہے کیوں کہ سیلاب اور صفائی کے معاملات پر ہمیں فوج کی ضرورت ہوگی۔
وزیراعظم عمران خان نے کراچی کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے 11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں تعاون کریں گی۔
کراچی پیکج کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے اور اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ کے فور منصوبے کے ایک حصے کو صوبائی حکومت جبکہ دوسرا حصہ وفاقی حکومت مکمل کرے گی اور اسے جلد از جلد مکمل کر کے آئندہ 3 برس میں کراچی کا پانی کا مسئلہ مستقل طور پر حل کردیا جائے۔
انہوں نے کہا تھا کہ دوسرا مسئلہ نالوں کا ہے جہاں تجاوزات ہیں اور غریب لوگ رہائش پذیر ہیں، اس کے لیے این ڈی ایم اے نالے صاف کررہی ہے جبکہ وہاں بسے افراد کو متبادل جگہ فراہم کرنے کی ذمہ داری سندھ حکومت نے اٹھائی ہے، کراچی میں سیوریج سسٹم کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر فیصلہ کیا گیا کہ 11 سو ارب روپے کے پیکج میں سیوریج سسٹم کے مسئلے کو بھی مکمل طور پر حل کیا جائے گا، ساتھ ہی ایک ہی دفعہ سالڈ ویسٹ (کچرے) کے مسئلے کو بھی حل کر کے ایک نظام تشکیل دیا جائے گا، ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ کراچی کے سرکلر ریلوے کو اسی پیکج میں مکمل کیا جائے گا اور سڑکوں کے مختلف مسائل بھی حل کیے جائیں گے۔
لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ستمبر میں خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ پیش آیا جس پر ملک بھر میں غم وغصے کا اظہار کیا گیا اور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے اور اسی دوران لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ نے بیان دیا کہ خاتون کو رات دیر سے اکیلے باہر نہیں جانا چاہیے تھا، اس بیان نے تنازع کو مزید ہوا دی اور جہاں احتجاج میں شدت آئی وہی پولیس افسر کے خلاف بھی لوگوں نے احتجاج کیا۔
مذکورہ واقعے کی تفصیلات کے حوالے سے بتایا گیا کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔
واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئی تھیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔
اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔
تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظار کررہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔
اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔
تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: متاثرہ خاتون نے ملزم عابد کی شناخت کرلی
بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔
یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔
علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔
تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔
14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا تھا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا۔
بعد ازاں موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو 12 اکتوبر کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔
چار رکنی گینگ کا سربراہ عابد پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج 10 دیگر مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔
پولیس نے 21 اکتوبر کو بتایا کہ کیمپ جیل میں ملزم کی شناخت پریڈ کا عمل مکمل کیا گیا جہاں متاثرہ خاتون نے ملزم کی شناخت کرلی اور اب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی میزبانی میں 20 ستمبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) منعقد ہوئی اور حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا گیا، مشترکہ اعلامیے میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دیں اور اس کے ساتھ ہی 26 نکاتی مطالبات بھی پیش کیے گئے۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ
پی ڈی ایم نے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اپنی پہلی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جہاں اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو، محمود خان اچکزئی کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور عسکری قیادت پر الزامات عائد کیے جس سے ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
نواز شریف نے کہا کہ چند لوگوں کی خواہش ہے کہ میری آواز عوام تک نہ پہنچے اور ان کی آواز مجھ تک نہ پہنچے، لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مار دیا ہے، نہ جانے کس بے شرمی سے یہ لوگ میڈیا پر آکر اِدھر اُدھر کی کہانیاں سناتے ہیں، یہ کس کا قصور ہے؟ عمران خان نیازی کا یہ انہیں لانے والوں کا؟ اصل قصوروار کون ہے؟ عوام کا ووٹ کس نے چوری کیا، انتخابات میں کس نے دھاندلی کی؟ جو ووٹ آپ نے ڈالا تھا وہ کسی اور کے ڈبے میں کیسے پہنچ گیا؟ رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس کس نے بند کیا؟ نتائج کیوں روکے رکھے گئے؟ اور ہاری ہوئی پی ٹی آئی کو کس نے جتوایا؟ عوام کے ووٹ کی امانت میں کس نے خیانت کی؟ کس نے سلیکٹڈ حکومت بنانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا بازار دوبارہ کس نے گرم کیا؟
نواز شریف نے کہا تھا کہ اب اصل قصورواروں کو سامنے لانے سے نہیں ڈریں گے، ہم گائے بھینسیں نہیں ہیں، باضمیر لوگ ہیں اور اپنا ضمیر کبھی نہیں بیچیں گے، عوام کو اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی دو متوازی حکومتوں کا کون ذمہ دار ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے؟ صحافیوں کو اغوا کرکے ان پر تشدد کرنے کا کون ذمہ دار ہے؟' انہوں نے اپنی تقریر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر بھی سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ 'یہ سب کچھ آپ کے ہاتھوں سے ہوا ہے، آپ کو نواز شریف کو غدار کہنا ہے ضرور کہیں، اشتہاری کہنا ہے ضرور کہیں، نواز شریف کے اثاثے جائیداد ضبط کرنا ہے ضرور کریں، جھوٹے مقدمات بنوانے ہیں بنوائیے لیکن نواز شریف مظلوم عوام کی آواز بنتا رہے گا، نواز شریف عوام کو ان کے ووٹ کی عزت دلوا کر رہے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم جلسہ: رہنماؤں کے حکومت پر وار،نواز شریف کا ویڈیو لنک سے خطاب، فوجی قیادت پر الزامات
دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل پی پی پی کے چیئرمین نے غیرملکی میڈیا کو انٹرویو میں نواز شریف کی جانب سے اداروں کے سربراہوں کا نام لینے سے متعلق حیرانی کا اظہار کیا تھا اور کھل کر اس بیان کی حمایت یا تردید نہیں کی۔
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ ملاقات کی خبر میڈیا پر آئی اور ملک میں ایک نئے تنازع نے جنم لیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری قیادت کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات، 'فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے'
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 16ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے تقریباً 15 رہنماؤں نے شرکت کی جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور کچھ حکومتی وزرا نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں شریک چند رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اجلاس کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرنا تھا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے تھی مگر یہ ملاقات اس وقت مختلف شکل اختیار کر گئی جب اس میں گلگت بلتستان انتخابات، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے، اپوزیشن نے اس موقع کو دیگر معاملات پر اپنے تحفظات پیش کرنے کے لیے استعمال کیا بالخصوص فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور احتساب کے بہانے اس کے رہنماؤں پر ظلم و ستم کے الزامات وغیرہ۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان کو مقامی انتخابات کے بعد صوبے کا درجہ دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اس خبر کے بعد اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے خصوصی گفتگو میں آرمی چیف سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں سے متعلق سوال کہا کہ 'چیف آف آرمی اسٹاف سے محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی، ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے مریم نواز اور نواز شریف صاحب سے متعلق بات کی، ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جائے گا'۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست پر نہیں کیں اور ان کا مقصد کوئی ریلیف لینا بھی نہیں تھا۔
نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا تھا کہ 'جنرل قمر جاوید باجوہ سے میرے تعلقات اسکول، کالج کے دور سمیت 40 سے زیادہ عرصے سے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے کیریئر اور میرے پورے کیریئر کے دوران مختلف اوقات میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، خاندانی سطح پر ملاقاتیں رہیں اور کھانا پینا بھی ہوتا رہا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی ملاقاتیں نہیں تھیں'۔
محمد زبیر نے کہا کہ 'میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود مسلم لیگ (ن)، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر کیسز، مریم نواز اور شہباز شریف کے کیسز سے متعلق جتنی بھی مشکلات آئیں کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں کیا، 2018 کے انتخابات میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی میں نے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی درخواست کی، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی پوزیشن حساس ہے اور میں ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں'۔
ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے ملاقات کے آغاز میں ہی واضح کردیا تھا کہ میں یہاں ذاتی، پارٹی یا پھر شہباز شریف، مریم نواز یا نواز شریف کسی کے لیے کوئی ریلیف لینے نہیں آیا اور مجھے کسی نے نہیں بھیجا، میں نے مسلسل دو باتیں بتائیں کہ میں ریلیف لینے یا کسی کے کہنے پر یہاں نہیں آیا اور بحث زیادہ تر معیشت پر تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'آرمی چیف سے حکومت گرانے یا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی بات نہیں کی بلکہ میں نے معیشت پر اعداد و شمار کے ساتھ بات کی، پہلی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی موجود نہیں تھے تاہم دوسری ملاقات میں وہ موجود تھے لیکن وہ میری درخواست نہیں تھی'۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے لیے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے ایک سال مکمل ہونے پر 5 اگست کو اپنے ایک بیان میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے حوالے سے سخت لہجے میں بات کی تھی، جس کو سفارتی حلقوں میں منفی انداز میں دیکھا گیا اور ملک کے اندر بھی اس بیان کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے لیے بدشگون قرار دیا گیا تاہم بعد ازاں وزیر خارجہ نے اپنے بیان کی وضاحت بھی کی۔
وزیرخارجہ نے اپنے بیان میں سعودی عرب کی زیر قیادت او آئی سی سے کہا تھا کہ وہ کشمیر کے بارے میں وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کے انعقاد کے سلسلے میں پس و پیش سے کام لینا بند کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ایک بار پھر احترام کے ساتھ او آئی سی کو بتا رہا ہوں کہ ہم وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کی توقع کرتے ہیں، اگر آپ اس کو طلب نہیں کرسکتے ہیں تو پھر میں وزیراعظم عمران خان کو ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کرنے پر مجبور کروں گا جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے لیے تیار ہیں، اگر او آئی سی، وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس طلب کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پاکستان او آئی سی کے باہر اجلاس بلانے کے لیے تیار ہوجائے گا، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان مزید انتظار نہیں کرسکتا۔
اسی طرح ایک روز قبل ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کے لیے سی ایف ایم کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر امت مسلمہ کی طرف سے واضح پیغام بھیجنے کی ضرورت ہے، پاکستان گزشتہ دسمبر میں سعودی عرب کی درخواست پر کوالالمپور سمٹ میں شریک نہیں ہوا تھا اور اب پاکستانی مسلمان ریاض سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اس معاملے پر قائدانہ صلاحیتیں دکھائیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہماری اپنی حساسیت ہے، آپ کو اس کا احساس کرنا ہوگا، خلیجی ممالک کو یہ سمجھنا چاہیے اور اب ہم مزید سفارتی نزاکتوں میں الجھ کر نہیں رہ سکتے، اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا تھا کہ وہ جذباتی نہیں ہو رہے ہیں اور اپنے بیان کے مضمرات کو پوری طرح سے سمجھتے ہیں، یہ درست ہے، میں سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود ایک مؤقف اپنا رہا ہوں، ہم کشمیریوں کے دکھوں پر اب خاموش نہیں رہ سکتے۔
بعد ازاں نومبر میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جہاں شاہ محمود قریشی نے سعودی ہم منصب فیصل بن فرحان السعود سے ملاقات کی جبکہ اجلاس میں کشمیر میں بھارتی مظالم کے حوالے سے قرار داد بھی منظور کی گئی۔
امریکا میں موجود پاکستانی صحافی احمد نورانی نے رواں برس 27 اگست کو ایک غیر معروف ویب سائٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے اہل خانہ کے اربوں مالیت کے کاروبار اور جائیدادوں کا انکشاف کیا تھا، جس سے پاکستانی سیاست اور میڈیا میں بھونچال آگیا اور اپوزیشن نے نیب سے تحقیقات کا مطالبہ کیا اور انہیں پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کے چیئرمین اور وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، پی ڈی ایم کے جلسوں میں سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت دیگر رہنماؤں نے سیاست دانوں کی طرح ان کے خلاف بھی تفتیش کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔
احمد نورانی کی خبر میں الزام لگایا گیا تھا کہ عاصم سلیم باجوہ نے اپنی اہلیہ، بچوں اور بھائیوں کے آف شور کاروبار بنانے میں اپنے دفتر کا استعمال کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عاصم باجوہ کے چھوٹے بھائیوں نے 2002 میں پہلا پاپا جوہن پیزا ریسٹورنٹ کھولا اور یہ وہی سال تھا جب عاصم باجوہ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے اسٹاف میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر کام شروع کیا تھا، 53 سالہ ندیم باجوہ، جنہوں نے پیزا ریسٹورنٹ فرنچائز کے لیے ڈیلوری ڈرائیور کے طور پر کام کا آغاز کیا تھا، اب ان کے بھائیوں اور عاصم سلیم باجوہ کی اہلیہ اور بیٹے ایک اپنا کاروبار رکھتے ہیں جس کی 4 ممالک میں 99 کمپنیاں ہیں جس میں 3 کروڑ 99 لاکھ ڈالر مالیت کے 133 ریسٹورنٹس کے ساتھ پیزا فرنچائزز بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان 99 کمپنیوں میں سے 66 مرکزی کمپنیاں ہیں، 33 مرکزی کمپنیوں کی ذیلی کمپنیاں ہیں جبکہ 5 کمپنیاں اب ختم ہوچکی ہیں۔
بعد ازاں عاصم سلیم باجوہ نے مذکورہ معاملے پر ہونے والی بحث کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو بھجوادیا تھا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا اور اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے پیش کئے گئے ثبوت اور وضاحت سے مطمئن ہیں۔
اپوزیشن کے جلسوں اور ان کے رہنماؤں کی جانب سے عاصم باجوہ کے اثاثوں سے متعلق تنقید مسلسل جاری رہی، جس کے بعد عاصم باجوہ نے بالآخر 12 اکتوبر کو ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ انہوں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کا عہدہ چھوڑ دیا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ قبول کرلیا جبکہ وہ بدستور سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین کام کرتے رہیں گے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ ان کے بھائیوں کے کاروبار میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ ان کے بچوں نے خود کاروبار شروع کیا اور اس میں ان کی کوئی شراکت داری نہیں ہے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے اوپر لگائے جانے والے ان الزامات کی تردید کی تھی اور مذکورہ خبر سے متعلق 4 صفحات پر مشتمل تفصیلی بیان جاری کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'احمد نورانی نے 27 اگست 2020 کو نامعلوم ویب سائٹ پر میرے بارے میں خبر شائع کی، جسے غلط اور جھوٹی قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا ہوں'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'خبر میں الزام لگایا گیا کہ میں نے 22 جون 2020 کو بطور معاوں خصوصی اپنے غلط اثاثے ظاہر کیے اور میں نے اپنی اہلیہ کی بیرون ملک سرمایہ کاری ظاہر نہیں کی، میرے بھائیوں نے امریکا میں کاروبار کیے جن میں ان کی ترقی کا تعلق پاک آرمی میں میری ترقی سے ہے جبکہ میرے بھائیوں اور بچوں کی ملکیت میں موجود مختلف کمپنیاں، کاروبار اور جائیدادیں ظاہر کی گئیں اور ان کی ملکیت اور مالیت سے متعلق بے بنیاد الزامات لگائے گئے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 22 جون 2020 کو اہلیہ کے اثاثے اپنے ڈکلیئریشن میں چھپانے کا الزام بنیادی طور پر غلط ہے کیونکہ اس وقت میری اہلیہ بیرون ملک کسی کاروبار میں سرمایہ کار یا شیئرہولڈر نہیں رہی تھیں، میری بیوی نے یکم جون 2020 کو بیرون ملک کی تمام کمپنیوں سے سرمایہ نکال لیا تھا اور امریکا کی سرکاری دستاویز میں اس کا ریکارڈ موجود ہے'۔
کراچی اور سندھ میں جولائی اور اگست میں بارشوں اور سیلاب سے بدترین نقصان ہوا، پورے سندھ میں 100 سے زائد اموات ہوئیں، لاکھوں لوگ متاثر ہوئے، بدترین حالات کے پیش نظر حکومت سندھ نے کراچی سمیت سندھ کے 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 3 ستمبر کو کراچی میں پریس کانفرنس میں سندھ میں بارش سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں بدین، عمر کوٹ، میرپورخاص، سانگھڑ اور شہید بینظیر آباد کے کچھ علاقے دریا کا منظر پیش کررہے ہیں، ان علاقوں میں موجود کچے مکانات تباہ ہوگئے ہیں اور بڑے شہر یعنی تعلقہ ہیڈکوارٹرز کو بھی چاروں طرف سے پانی نے گھیرا ہوا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کسی تعلقہ ہیڈکوارٹر کے مرکزی علاقوں میں پانی نہیں رکا، متاثرہ علاقوں میں لوگ اپنے خاندان سمیت سڑکوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بارش سے ہونے والے جانی نقصان سے آگاہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا تھا کہ پورے سندھ میں 100 اموات ہوئیں جس میں 63 کراچی اور 35 سندھ کے دیگر اضلاع میں ہوئیں۔
انہوں نے مزید بتایا تھا کہ جوہی میں تقریباً 2 لاکھ 40 ہزار لوگ متاثر ہوئے، 23 ہزار ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہوگئیں، ایک ہزار 80 کچے گھر مکمل طور پر منہدم، ایک ہزار 640 جزوی متاثر اور 30 پکے مکمل منہدم جبکہ 355 جزوی متاثر ہوئے، تعلقہ سانگھڑ میں 48 ہزار افراد، تعلقہ کھیپرو میں 80 سے 81 ہزار افراد متاثر ہوئے، تعلقہ عمر کوٹ میں 3 لاکھ، سامارو میں ایک لاکھ 25 ہزار 500، کنڈری میں ایک لاکھ 55 ہزار 200، پتھور میں 85 ہزار 100 افراد سیلابی صورتحال سے متاثر ہوئے۔
کراچی کے بارے میں انہوں نے بتایا تھا کہ ضلع وسطی میں 29 پکے مکانات مکمل تباہ جبکہ 2 کو جزوی نقصان پہنچا، ایک چھت منہدم ہوئی، 48 اسکول، ایک ہسپتال، ایک سرکاری دفتر، 4 مساجد کو نقصان پہنچا، کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی نکالنے میں بہت وقت لگا، خاص کر کھارادر کے علاقے میں سب سے زیادہ مشکلات پیش آئیں۔
بعد ازاں وزیراعظم عمران خان، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کراچی کا دورہ کیا تھا اور بحالی کے لیے پیکیج کا اعلان کیا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2 ستمبر کو کراچی کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے شہر کا فضائی اور اربن فلڈنگ سے متاثرہ علاقوں کا معائنہ کیا، جس کے بعد کور ہیڈکوارٹرز پہنچے جہاں انہیں حالیہ تاریخ کے بدترین شہری سیلاب اور سندھ بھر میں بالخصوص کراچی میں آرمی کی جانب سے سول انتظامیہ کی مدد کے حوالے سے آگاہ کیا گیا، انہیں بتایا گیا کہ غیر معمولی بارشوں نے کئی دہائیوں کی شہری آبادی، کسی منصوبہ بندی کے بغیر آباد کاری اور بنیادی ڈھانچے کے امور کے ساتھ مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔
آرمی چیف نے کراچی میں امدادی سرگرمیوں کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ مشترکہ عوامی افادیت والے علاقوں اور بدترین متاثرہ آبادیوں کو پہلے ترجیح دی جانی چاہیے جبکہ کسی خاص مقام یا برادری کے کسی بھی اثر و رسوخ کو ضرورت مندوں کی طرف سے توجہ یا وسائل منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ ایک قومی تباہی ہے اور سب اس میں شامل ہیں، فوج ضرورت کے وقت عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔
وزیراعظم عمران خان 5 ستمبر کو کراچی کے دورے کے موقع پر شہر کے لیے اقدامات کے حوالے سے خصوصی اجلاس کی سربراہی کے بعد سندھ کے گورنر عمران اسمٰعیل اور وزیراعلٰی مراد علی شاہ کے ہمراہ نیوز کانفرنس کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ اب جو بھی فیصلے کیے جائیں گے اس کی نگرانی پرووِینشل کوآرڈینیشن اینڈ امپلمینٹیشن کمیٹی (پی سی آئی سی) کرے گی، کمیٹی میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں تاہم پاک فوج کا اس میں بہت بڑا کردار ہے کیوں کہ سیلاب اور صفائی کے معاملات پر ہمیں فوج کی ضرورت ہوگی۔
وزیراعظم عمران خان نے کراچی کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے 11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں تعاون کریں گی۔
کراچی پیکج کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے اور اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ کے فور منصوبے کے ایک حصے کو صوبائی حکومت جبکہ دوسرا حصہ وفاقی حکومت مکمل کرے گی اور اسے جلد از جلد مکمل کر کے آئندہ 3 برس میں کراچی کا پانی کا مسئلہ مستقل طور پر حل کردیا جائے۔
انہوں نے کہا تھا کہ دوسرا مسئلہ نالوں کا ہے جہاں تجاوزات ہیں اور غریب لوگ رہائش پذیر ہیں، اس کے لیے این ڈی ایم اے نالے صاف کررہی ہے جبکہ وہاں بسے افراد کو متبادل جگہ فراہم کرنے کی ذمہ داری سندھ حکومت نے اٹھائی ہے، کراچی میں سیوریج سسٹم کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر فیصلہ کیا گیا کہ 11 سو ارب روپے کے پیکج میں سیوریج سسٹم کے مسئلے کو بھی مکمل طور پر حل کیا جائے گا، ساتھ ہی ایک ہی دفعہ سالڈ ویسٹ (کچرے) کے مسئلے کو بھی حل کر کے ایک نظام تشکیل دیا جائے گا، ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ کراچی کے سرکلر ریلوے کو اسی پیکج میں مکمل کیا جائے گا اور سڑکوں کے مختلف مسائل بھی حل کیے جائیں گے۔
لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ستمبر میں خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ پیش آیا جس پر ملک بھر میں غم وغصے کا اظہار کیا گیا اور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے اور اسی دوران لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ نے بیان دیا کہ خاتون کو رات دیر سے اکیلے باہر نہیں جانا چاہیے تھا، اس بیان نے تنازع کو مزید ہوا دی اور جہاں احتجاج میں شدت آئی وہی پولیس افسر کے خلاف بھی لوگوں نے احتجاج کیا۔
مذکورہ واقعے کی تفصیلات کے حوالے سے بتایا گیا کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔
واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئی تھیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔
اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔
تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظار کررہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔
اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔
تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: متاثرہ خاتون نے ملزم عابد کی شناخت کرلی
بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔
یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔
علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔
تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔
14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا تھا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا۔
بعد ازاں موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو 12 اکتوبر کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔
چار رکنی گینگ کا سربراہ عابد پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج 10 دیگر مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔
پولیس نے 21 اکتوبر کو بتایا کہ کیمپ جیل میں ملزم کی شناخت پریڈ کا عمل مکمل کیا گیا جہاں متاثرہ خاتون نے ملزم کی شناخت کرلی اور اب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی میزبانی میں 20 ستمبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) منعقد ہوئی اور حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا گیا، مشترکہ اعلامیے میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دیں اور اس کے ساتھ ہی 26 نکاتی مطالبات بھی پیش کیے گئے۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ
پی ڈی ایم نے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اپنی پہلی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جہاں اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو، محمود خان اچکزئی کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور عسکری قیادت پر الزامات عائد کیے جس سے ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
نواز شریف نے کہا کہ چند لوگوں کی خواہش ہے کہ میری آواز عوام تک نہ پہنچے اور ان کی آواز مجھ تک نہ پہنچے، لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مار دیا ہے، نہ جانے کس بے شرمی سے یہ لوگ میڈیا پر آکر اِدھر اُدھر کی کہانیاں سناتے ہیں، یہ کس کا قصور ہے؟ عمران خان نیازی کا یہ انہیں لانے والوں کا؟ اصل قصوروار کون ہے؟ عوام کا ووٹ کس نے چوری کیا، انتخابات میں کس نے دھاندلی کی؟ جو ووٹ آپ نے ڈالا تھا وہ کسی اور کے ڈبے میں کیسے پہنچ گیا؟ رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس کس نے بند کیا؟ نتائج کیوں روکے رکھے گئے؟ اور ہاری ہوئی پی ٹی آئی کو کس نے جتوایا؟ عوام کے ووٹ کی امانت میں کس نے خیانت کی؟ کس نے سلیکٹڈ حکومت بنانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا بازار دوبارہ کس نے گرم کیا؟
نواز شریف نے کہا تھا کہ اب اصل قصورواروں کو سامنے لانے سے نہیں ڈریں گے، ہم گائے بھینسیں نہیں ہیں، باضمیر لوگ ہیں اور اپنا ضمیر کبھی نہیں بیچیں گے، عوام کو اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی دو متوازی حکومتوں کا کون ذمہ دار ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے؟ صحافیوں کو اغوا کرکے ان پر تشدد کرنے کا کون ذمہ دار ہے؟' انہوں نے اپنی تقریر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر بھی سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ 'یہ سب کچھ آپ کے ہاتھوں سے ہوا ہے، آپ کو نواز شریف کو غدار کہنا ہے ضرور کہیں، اشتہاری کہنا ہے ضرور کہیں، نواز شریف کے اثاثے جائیداد ضبط کرنا ہے ضرور کریں، جھوٹے مقدمات بنوانے ہیں بنوائیے لیکن نواز شریف مظلوم عوام کی آواز بنتا رہے گا، نواز شریف عوام کو ان کے ووٹ کی عزت دلوا کر رہے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم جلسہ: رہنماؤں کے حکومت پر وار،نواز شریف کا ویڈیو لنک سے خطاب، فوجی قیادت پر الزامات
دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل پی پی پی کے چیئرمین نے غیرملکی میڈیا کو انٹرویو میں نواز شریف کی جانب سے اداروں کے سربراہوں کا نام لینے سے متعلق حیرانی کا اظہار کیا تھا اور کھل کر اس بیان کی حمایت یا تردید نہیں کی۔
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ ملاقات کی خبر میڈیا پر آئی اور ملک میں ایک نئے تنازع نے جنم لیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری قیادت کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات، 'فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے'
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 16ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے تقریباً 15 رہنماؤں نے شرکت کی جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور کچھ حکومتی وزرا نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں شریک چند رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اجلاس کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرنا تھا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے تھی مگر یہ ملاقات اس وقت مختلف شکل اختیار کر گئی جب اس میں گلگت بلتستان انتخابات، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے، اپوزیشن نے اس موقع کو دیگر معاملات پر اپنے تحفظات پیش کرنے کے لیے استعمال کیا بالخصوص فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور احتساب کے بہانے اس کے رہنماؤں پر ظلم و ستم کے الزامات وغیرہ۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان کو مقامی انتخابات کے بعد صوبے کا درجہ دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اس خبر کے بعد اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے خصوصی گفتگو میں آرمی چیف سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں سے متعلق سوال کہا کہ 'چیف آف آرمی اسٹاف سے محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی، ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے مریم نواز اور نواز شریف صاحب سے متعلق بات کی، ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جائے گا'۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست پر نہیں کیں اور ان کا مقصد کوئی ریلیف لینا بھی نہیں تھا۔
نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا تھا کہ 'جنرل قمر جاوید باجوہ سے میرے تعلقات اسکول، کالج کے دور سمیت 40 سے زیادہ عرصے سے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے کیریئر اور میرے پورے کیریئر کے دوران مختلف اوقات میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، خاندانی سطح پر ملاقاتیں رہیں اور کھانا پینا بھی ہوتا رہا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی ملاقاتیں نہیں تھیں'۔
محمد زبیر نے کہا کہ 'میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود مسلم لیگ (ن)، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر کیسز، مریم نواز اور شہباز شریف کے کیسز سے متعلق جتنی بھی مشکلات آئیں کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں کیا، 2018 کے انتخابات میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی میں نے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی درخواست کی، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی پوزیشن حساس ہے اور میں ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں'۔
ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے ملاقات کے آغاز میں ہی واضح کردیا تھا کہ میں یہاں ذاتی، پارٹی یا پھر شہباز شریف، مریم نواز یا نواز شریف کسی کے لیے کوئی ریلیف لینے نہیں آیا اور مجھے کسی نے نہیں بھیجا، میں نے مسلسل دو باتیں بتائیں کہ میں ریلیف لینے یا کسی کے کہنے پر یہاں نہیں آیا اور بحث زیادہ تر معیشت پر تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'آرمی چیف سے حکومت گرانے یا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی بات نہیں کی بلکہ میں نے معیشت پر اعداد و شمار کے ساتھ بات کی، پہلی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی موجود نہیں تھے تاہم دوسری ملاقات میں وہ موجود تھے لیکن وہ میری درخواست نہیں تھی'۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے لیے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے ایک سال مکمل ہونے پر 5 اگست کو اپنے ایک بیان میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے حوالے سے سخت لہجے میں بات کی تھی، جس کو سفارتی حلقوں میں منفی انداز میں دیکھا گیا اور ملک کے اندر بھی اس بیان کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے لیے بدشگون قرار دیا گیا تاہم بعد ازاں وزیر خارجہ نے اپنے بیان کی وضاحت بھی کی۔
وزیرخارجہ نے اپنے بیان میں سعودی عرب کی زیر قیادت او آئی سی سے کہا تھا کہ وہ کشمیر کے بارے میں وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کے انعقاد کے سلسلے میں پس و پیش سے کام لینا بند کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ایک بار پھر احترام کے ساتھ او آئی سی کو بتا رہا ہوں کہ ہم وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کی توقع کرتے ہیں، اگر آپ اس کو طلب نہیں کرسکتے ہیں تو پھر میں وزیراعظم عمران خان کو ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کرنے پر مجبور کروں گا جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے لیے تیار ہیں، اگر او آئی سی، وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس طلب کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پاکستان او آئی سی کے باہر اجلاس بلانے کے لیے تیار ہوجائے گا، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان مزید انتظار نہیں کرسکتا۔
اسی طرح ایک روز قبل ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کے لیے سی ایف ایم کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر امت مسلمہ کی طرف سے واضح پیغام بھیجنے کی ضرورت ہے، پاکستان گزشتہ دسمبر میں سعودی عرب کی درخواست پر کوالالمپور سمٹ میں شریک نہیں ہوا تھا اور اب پاکستانی مسلمان ریاض سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اس معاملے پر قائدانہ صلاحیتیں دکھائیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہماری اپنی حساسیت ہے، آپ کو اس کا احساس کرنا ہوگا، خلیجی ممالک کو یہ سمجھنا چاہیے اور اب ہم مزید سفارتی نزاکتوں میں الجھ کر نہیں رہ سکتے، اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا تھا کہ وہ جذباتی نہیں ہو رہے ہیں اور اپنے بیان کے مضمرات کو پوری طرح سے سمجھتے ہیں، یہ درست ہے، میں سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود ایک مؤقف اپنا رہا ہوں، ہم کشمیریوں کے دکھوں پر اب خاموش نہیں رہ سکتے۔
بعد ازاں نومبر میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جہاں شاہ محمود قریشی نے سعودی ہم منصب فیصل بن فرحان السعود سے ملاقات کی جبکہ اجلاس میں کشمیر میں بھارتی مظالم کے حوالے سے قرار داد بھی منظور کی گئی۔
امریکا میں موجود پاکستانی صحافی احمد نورانی نے رواں برس 27 اگست کو ایک غیر معروف ویب سائٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے اہل خانہ کے اربوں مالیت کے کاروبار اور جائیدادوں کا انکشاف کیا تھا، جس سے پاکستانی سیاست اور میڈیا میں بھونچال آگیا اور اپوزیشن نے نیب سے تحقیقات کا مطالبہ کیا اور انہیں پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کے چیئرمین اور وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، پی ڈی ایم کے جلسوں میں سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت دیگر رہنماؤں نے سیاست دانوں کی طرح ان کے خلاف بھی تفتیش کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔
احمد نورانی کی خبر میں الزام لگایا گیا تھا کہ عاصم سلیم باجوہ نے اپنی اہلیہ، بچوں اور بھائیوں کے آف شور کاروبار بنانے میں اپنے دفتر کا استعمال کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عاصم باجوہ کے چھوٹے بھائیوں نے 2002 میں پہلا پاپا جوہن پیزا ریسٹورنٹ کھولا اور یہ وہی سال تھا جب عاصم باجوہ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے اسٹاف میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر کام شروع کیا تھا، 53 سالہ ندیم باجوہ، جنہوں نے پیزا ریسٹورنٹ فرنچائز کے لیے ڈیلوری ڈرائیور کے طور پر کام کا آغاز کیا تھا، اب ان کے بھائیوں اور عاصم سلیم باجوہ کی اہلیہ اور بیٹے ایک اپنا کاروبار رکھتے ہیں جس کی 4 ممالک میں 99 کمپنیاں ہیں جس میں 3 کروڑ 99 لاکھ ڈالر مالیت کے 133 ریسٹورنٹس کے ساتھ پیزا فرنچائزز بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان 99 کمپنیوں میں سے 66 مرکزی کمپنیاں ہیں، 33 مرکزی کمپنیوں کی ذیلی کمپنیاں ہیں جبکہ 5 کمپنیاں اب ختم ہوچکی ہیں۔
بعد ازاں عاصم سلیم باجوہ نے مذکورہ معاملے پر ہونے والی بحث کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو بھجوادیا تھا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا اور اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے پیش کئے گئے ثبوت اور وضاحت سے مطمئن ہیں۔
اپوزیشن کے جلسوں اور ان کے رہنماؤں کی جانب سے عاصم باجوہ کے اثاثوں سے متعلق تنقید مسلسل جاری رہی، جس کے بعد عاصم باجوہ نے بالآخر 12 اکتوبر کو ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ انہوں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کا عہدہ چھوڑ دیا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ قبول کرلیا جبکہ وہ بدستور سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین کام کرتے رہیں گے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ ان کے بھائیوں کے کاروبار میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ ان کے بچوں نے خود کاروبار شروع کیا اور اس میں ان کی کوئی شراکت داری نہیں ہے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے اوپر لگائے جانے والے ان الزامات کی تردید کی تھی اور مذکورہ خبر سے متعلق 4 صفحات پر مشتمل تفصیلی بیان جاری کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'احمد نورانی نے 27 اگست 2020 کو نامعلوم ویب سائٹ پر میرے بارے میں خبر شائع کی، جسے غلط اور جھوٹی قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا ہوں'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'خبر میں الزام لگایا گیا کہ میں نے 22 جون 2020 کو بطور معاوں خصوصی اپنے غلط اثاثے ظاہر کیے اور میں نے اپنی اہلیہ کی بیرون ملک سرمایہ کاری ظاہر نہیں کی، میرے بھائیوں نے امریکا میں کاروبار کیے جن میں ان کی ترقی کا تعلق پاک آرمی میں میری ترقی سے ہے جبکہ میرے بھائیوں اور بچوں کی ملکیت میں موجود مختلف کمپنیاں، کاروبار اور جائیدادیں ظاہر کی گئیں اور ان کی ملکیت اور مالیت سے متعلق بے بنیاد الزامات لگائے گئے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 22 جون 2020 کو اہلیہ کے اثاثے اپنے ڈکلیئریشن میں چھپانے کا الزام بنیادی طور پر غلط ہے کیونکہ اس وقت میری اہلیہ بیرون ملک کسی کاروبار میں سرمایہ کار یا شیئرہولڈر نہیں رہی تھیں، میری بیوی نے یکم جون 2020 کو بیرون ملک کی تمام کمپنیوں سے سرمایہ نکال لیا تھا اور امریکا کی سرکاری دستاویز میں اس کا ریکارڈ موجود ہے'۔
کراچی اور سندھ میں جولائی اور اگست میں بارشوں اور سیلاب سے بدترین نقصان ہوا، پورے سندھ میں 100 سے زائد اموات ہوئیں، لاکھوں لوگ متاثر ہوئے، بدترین حالات کے پیش نظر حکومت سندھ نے کراچی سمیت سندھ کے 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 3 ستمبر کو کراچی میں پریس کانفرنس میں سندھ میں بارش سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں بدین، عمر کوٹ، میرپورخاص، سانگھڑ اور شہید بینظیر آباد کے کچھ علاقے دریا کا منظر پیش کررہے ہیں، ان علاقوں میں موجود کچے مکانات تباہ ہوگئے ہیں اور بڑے شہر یعنی تعلقہ ہیڈکوارٹرز کو بھی چاروں طرف سے پانی نے گھیرا ہوا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کسی تعلقہ ہیڈکوارٹر کے مرکزی علاقوں میں پانی نہیں رکا، متاثرہ علاقوں میں لوگ اپنے خاندان سمیت سڑکوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بارش سے ہونے والے جانی نقصان سے آگاہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا تھا کہ پورے سندھ میں 100 اموات ہوئیں جس میں 63 کراچی اور 35 سندھ کے دیگر اضلاع میں ہوئیں۔
انہوں نے مزید بتایا تھا کہ جوہی میں تقریباً 2 لاکھ 40 ہزار لوگ متاثر ہوئے، 23 ہزار ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہوگئیں، ایک ہزار 80 کچے گھر مکمل طور پر منہدم، ایک ہزار 640 جزوی متاثر اور 30 پکے مکمل منہدم جبکہ 355 جزوی متاثر ہوئے، تعلقہ سانگھڑ میں 48 ہزار افراد، تعلقہ کھیپرو میں 80 سے 81 ہزار افراد متاثر ہوئے، تعلقہ عمر کوٹ میں 3 لاکھ، سامارو میں ایک لاکھ 25 ہزار 500، کنڈری میں ایک لاکھ 55 ہزار 200، پتھور میں 85 ہزار 100 افراد سیلابی صورتحال سے متاثر ہوئے۔
کراچی کے بارے میں انہوں نے بتایا تھا کہ ضلع وسطی میں 29 پکے مکانات مکمل تباہ جبکہ 2 کو جزوی نقصان پہنچا، ایک چھت منہدم ہوئی، 48 اسکول، ایک ہسپتال، ایک سرکاری دفتر، 4 مساجد کو نقصان پہنچا، کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی نکالنے میں بہت وقت لگا، خاص کر کھارادر کے علاقے میں سب سے زیادہ مشکلات پیش آئیں۔
بعد ازاں وزیراعظم عمران خان، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کراچی کا دورہ کیا تھا اور بحالی کے لیے پیکیج کا اعلان کیا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2 ستمبر کو کراچی کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے شہر کا فضائی اور اربن فلڈنگ سے متاثرہ علاقوں کا معائنہ کیا، جس کے بعد کور ہیڈکوارٹرز پہنچے جہاں انہیں حالیہ تاریخ کے بدترین شہری سیلاب اور سندھ بھر میں بالخصوص کراچی میں آرمی کی جانب سے سول انتظامیہ کی مدد کے حوالے سے آگاہ کیا گیا، انہیں بتایا گیا کہ غیر معمولی بارشوں نے کئی دہائیوں کی شہری آبادی، کسی منصوبہ بندی کے بغیر آباد کاری اور بنیادی ڈھانچے کے امور کے ساتھ مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔
آرمی چیف نے کراچی میں امدادی سرگرمیوں کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ مشترکہ عوامی افادیت والے علاقوں اور بدترین متاثرہ آبادیوں کو پہلے ترجیح دی جانی چاہیے جبکہ کسی خاص مقام یا برادری کے کسی بھی اثر و رسوخ کو ضرورت مندوں کی طرف سے توجہ یا وسائل منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ ایک قومی تباہی ہے اور سب اس میں شامل ہیں، فوج ضرورت کے وقت عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔
وزیراعظم عمران خان 5 ستمبر کو کراچی کے دورے کے موقع پر شہر کے لیے اقدامات کے حوالے سے خصوصی اجلاس کی سربراہی کے بعد سندھ کے گورنر عمران اسمٰعیل اور وزیراعلٰی مراد علی شاہ کے ہمراہ نیوز کانفرنس کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ اب جو بھی فیصلے کیے جائیں گے اس کی نگرانی پرووِینشل کوآرڈینیشن اینڈ امپلمینٹیشن کمیٹی (پی سی آئی سی) کرے گی، کمیٹی میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں تاہم پاک فوج کا اس میں بہت بڑا کردار ہے کیوں کہ سیلاب اور صفائی کے معاملات پر ہمیں فوج کی ضرورت ہوگی۔
وزیراعظم عمران خان نے کراچی کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے 11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں تعاون کریں گی۔
کراچی پیکج کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے اور اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ کے فور منصوبے کے ایک حصے کو صوبائی حکومت جبکہ دوسرا حصہ وفاقی حکومت مکمل کرے گی اور اسے جلد از جلد مکمل کر کے آئندہ 3 برس میں کراچی کا پانی کا مسئلہ مستقل طور پر حل کردیا جائے۔
انہوں نے کہا تھا کہ دوسرا مسئلہ نالوں کا ہے جہاں تجاوزات ہیں اور غریب لوگ رہائش پذیر ہیں، اس کے لیے این ڈی ایم اے نالے صاف کررہی ہے جبکہ وہاں بسے افراد کو متبادل جگہ فراہم کرنے کی ذمہ داری سندھ حکومت نے اٹھائی ہے، کراچی میں سیوریج سسٹم کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر فیصلہ کیا گیا کہ 11 سو ارب روپے کے پیکج میں سیوریج سسٹم کے مسئلے کو بھی مکمل طور پر حل کیا جائے گا، ساتھ ہی ایک ہی دفعہ سالڈ ویسٹ (کچرے) کے مسئلے کو بھی حل کر کے ایک نظام تشکیل دیا جائے گا، ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ کراچی کے سرکلر ریلوے کو اسی پیکج میں مکمل کیا جائے گا اور سڑکوں کے مختلف مسائل بھی حل کیے جائیں گے۔
لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ستمبر میں خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ پیش آیا جس پر ملک بھر میں غم وغصے کا اظہار کیا گیا اور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے اور اسی دوران لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ نے بیان دیا کہ خاتون کو رات دیر سے اکیلے باہر نہیں جانا چاہیے تھا، اس بیان نے تنازع کو مزید ہوا دی اور جہاں احتجاج میں شدت آئی وہی پولیس افسر کے خلاف بھی لوگوں نے احتجاج کیا۔
مذکورہ واقعے کی تفصیلات کے حوالے سے بتایا گیا کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔
واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئی تھیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔
اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔
تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظار کررہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔
اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔
تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: متاثرہ خاتون نے ملزم عابد کی شناخت کرلی
بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔
یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔
علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔
تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔
14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا تھا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا۔
بعد ازاں موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو 12 اکتوبر کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔
چار رکنی گینگ کا سربراہ عابد پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج 10 دیگر مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔
پولیس نے 21 اکتوبر کو بتایا کہ کیمپ جیل میں ملزم کی شناخت پریڈ کا عمل مکمل کیا گیا جہاں متاثرہ خاتون نے ملزم کی شناخت کرلی اور اب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی میزبانی میں 20 ستمبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) منعقد ہوئی اور حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا گیا، مشترکہ اعلامیے میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دیں اور اس کے ساتھ ہی 26 نکاتی مطالبات بھی پیش کیے گئے۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ
پی ڈی ایم نے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اپنی پہلی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جہاں اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو، محمود خان اچکزئی کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور عسکری قیادت پر الزامات عائد کیے جس سے ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
نواز شریف نے کہا کہ چند لوگوں کی خواہش ہے کہ میری آواز عوام تک نہ پہنچے اور ان کی آواز مجھ تک نہ پہنچے، لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مار دیا ہے، نہ جانے کس بے شرمی سے یہ لوگ میڈیا پر آکر اِدھر اُدھر کی کہانیاں سناتے ہیں، یہ کس کا قصور ہے؟ عمران خان نیازی کا یہ انہیں لانے والوں کا؟ اصل قصوروار کون ہے؟ عوام کا ووٹ کس نے چوری کیا، انتخابات میں کس نے دھاندلی کی؟ جو ووٹ آپ نے ڈالا تھا وہ کسی اور کے ڈبے میں کیسے پہنچ گیا؟ رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس کس نے بند کیا؟ نتائج کیوں روکے رکھے گئے؟ اور ہاری ہوئی پی ٹی آئی کو کس نے جتوایا؟ عوام کے ووٹ کی امانت میں کس نے خیانت کی؟ کس نے سلیکٹڈ حکومت بنانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا بازار دوبارہ کس نے گرم کیا؟
نواز شریف نے کہا تھا کہ اب اصل قصورواروں کو سامنے لانے سے نہیں ڈریں گے، ہم گائے بھینسیں نہیں ہیں، باضمیر لوگ ہیں اور اپنا ضمیر کبھی نہیں بیچیں گے، عوام کو اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی دو متوازی حکومتوں کا کون ذمہ دار ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے؟ صحافیوں کو اغوا کرکے ان پر تشدد کرنے کا کون ذمہ دار ہے؟' انہوں نے اپنی تقریر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر بھی سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ 'یہ سب کچھ آپ کے ہاتھوں سے ہوا ہے، آپ کو نواز شریف کو غدار کہنا ہے ضرور کہیں، اشتہاری کہنا ہے ضرور کہیں، نواز شریف کے اثاثے جائیداد ضبط کرنا ہے ضرور کریں، جھوٹے مقدمات بنوانے ہیں بنوائیے لیکن نواز شریف مظلوم عوام کی آواز بنتا رہے گا، نواز شریف عوام کو ان کے ووٹ کی عزت دلوا کر رہے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم جلسہ: رہنماؤں کے حکومت پر وار،نواز شریف کا ویڈیو لنک سے خطاب، فوجی قیادت پر الزامات
دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل پی پی پی کے چیئرمین نے غیرملکی میڈیا کو انٹرویو میں نواز شریف کی جانب سے اداروں کے سربراہوں کا نام لینے سے متعلق حیرانی کا اظہار کیا تھا اور کھل کر اس بیان کی حمایت یا تردید نہیں کی۔
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ ملاقات کی خبر میڈیا پر آئی اور ملک میں ایک نئے تنازع نے جنم لیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری قیادت کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات، 'فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے'
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 16ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے تقریباً 15 رہنماؤں نے شرکت کی جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور کچھ حکومتی وزرا نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں شریک چند رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اجلاس کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرنا تھا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے تھی مگر یہ ملاقات اس وقت مختلف شکل اختیار کر گئی جب اس میں گلگت بلتستان انتخابات، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے، اپوزیشن نے اس موقع کو دیگر معاملات پر اپنے تحفظات پیش کرنے کے لیے استعمال کیا بالخصوص فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور احتساب کے بہانے اس کے رہنماؤں پر ظلم و ستم کے الزامات وغیرہ۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان کو مقامی انتخابات کے بعد صوبے کا درجہ دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اس خبر کے بعد اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے خصوصی گفتگو میں آرمی چیف سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں سے متعلق سوال کہا کہ 'چیف آف آرمی اسٹاف سے محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی، ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے مریم نواز اور نواز شریف صاحب سے متعلق بات کی، ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جائے گا'۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست پر نہیں کیں اور ان کا مقصد کوئی ریلیف لینا بھی نہیں تھا۔
نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا تھا کہ 'جنرل قمر جاوید باجوہ سے میرے تعلقات اسکول، کالج کے دور سمیت 40 سے زیادہ عرصے سے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے کیریئر اور میرے پورے کیریئر کے دوران مختلف اوقات میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، خاندانی سطح پر ملاقاتیں رہیں اور کھانا پینا بھی ہوتا رہا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی ملاقاتیں نہیں تھیں'۔
محمد زبیر نے کہا کہ 'میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود مسلم لیگ (ن)، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر کیسز، مریم نواز اور شہباز شریف کے کیسز سے متعلق جتنی بھی مشکلات آئیں کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں کیا، 2018 کے انتخابات میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی میں نے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی درخواست کی، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی پوزیشن حساس ہے اور میں ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں'۔
ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے ملاقات کے آغاز میں ہی واضح کردیا تھا کہ میں یہاں ذاتی، پارٹی یا پھر شہباز شریف، مریم نواز یا نواز شریف کسی کے لیے کوئی ریلیف لینے نہیں آیا اور مجھے کسی نے نہیں بھیجا، میں نے مسلسل دو باتیں بتائیں کہ میں ریلیف لینے یا کسی کے کہنے پر یہاں نہیں آیا اور بحث زیادہ تر معیشت پر تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'آرمی چیف سے حکومت گرانے یا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی بات نہیں کی بلکہ میں نے معیشت پر اعداد و شمار کے ساتھ بات کی، پہلی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی موجود نہیں تھے تاہم دوسری ملاقات میں وہ موجود تھے لیکن وہ میری درخواست نہیں تھی'۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
امریکا میں موجود پاکستانی صحافی احمد نورانی نے رواں برس 27 اگست کو ایک غیر معروف ویب سائٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے اہل خانہ کے اربوں مالیت کے کاروبار اور جائیدادوں کا انکشاف کیا تھا، جس سے پاکستانی سیاست اور میڈیا میں بھونچال آگیا اور اپوزیشن نے نیب سے تحقیقات کا مطالبہ کیا اور انہیں پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کے چیئرمین اور وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، پی ڈی ایم کے جلسوں میں سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت دیگر رہنماؤں نے سیاست دانوں کی طرح ان کے خلاف بھی تفتیش کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔
احمد نورانی کی خبر میں الزام لگایا گیا تھا کہ عاصم سلیم باجوہ نے اپنی اہلیہ، بچوں اور بھائیوں کے آف شور کاروبار بنانے میں اپنے دفتر کا استعمال کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عاصم باجوہ کے چھوٹے بھائیوں نے 2002 میں پہلا پاپا جوہن پیزا ریسٹورنٹ کھولا اور یہ وہی سال تھا جب عاصم باجوہ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے اسٹاف میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر کام شروع کیا تھا، 53 سالہ ندیم باجوہ، جنہوں نے پیزا ریسٹورنٹ فرنچائز کے لیے ڈیلوری ڈرائیور کے طور پر کام کا آغاز کیا تھا، اب ان کے بھائیوں اور عاصم سلیم باجوہ کی اہلیہ اور بیٹے ایک اپنا کاروبار رکھتے ہیں جس کی 4 ممالک میں 99 کمپنیاں ہیں جس میں 3 کروڑ 99 لاکھ ڈالر مالیت کے 133 ریسٹورنٹس کے ساتھ پیزا فرنچائزز بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان 99 کمپنیوں میں سے 66 مرکزی کمپنیاں ہیں، 33 مرکزی کمپنیوں کی ذیلی کمپنیاں ہیں جبکہ 5 کمپنیاں اب ختم ہوچکی ہیں۔
بعد ازاں عاصم سلیم باجوہ نے مذکورہ معاملے پر ہونے والی بحث کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو بھجوادیا تھا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا اور اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے پیش کئے گئے ثبوت اور وضاحت سے مطمئن ہیں۔
اپوزیشن کے جلسوں اور ان کے رہنماؤں کی جانب سے عاصم باجوہ کے اثاثوں سے متعلق تنقید مسلسل جاری رہی، جس کے بعد عاصم باجوہ نے بالآخر 12 اکتوبر کو ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ انہوں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کا عہدہ چھوڑ دیا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ قبول کرلیا جبکہ وہ بدستور سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین کام کرتے رہیں گے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ ان کے بھائیوں کے کاروبار میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ ان کے بچوں نے خود کاروبار شروع کیا اور اس میں ان کی کوئی شراکت داری نہیں ہے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے اوپر لگائے جانے والے ان الزامات کی تردید کی تھی اور مذکورہ خبر سے متعلق 4 صفحات پر مشتمل تفصیلی بیان جاری کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'احمد نورانی نے 27 اگست 2020 کو نامعلوم ویب سائٹ پر میرے بارے میں خبر شائع کی، جسے غلط اور جھوٹی قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا ہوں'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'خبر میں الزام لگایا گیا کہ میں نے 22 جون 2020 کو بطور معاوں خصوصی اپنے غلط اثاثے ظاہر کیے اور میں نے اپنی اہلیہ کی بیرون ملک سرمایہ کاری ظاہر نہیں کی، میرے بھائیوں نے امریکا میں کاروبار کیے جن میں ان کی ترقی کا تعلق پاک آرمی میں میری ترقی سے ہے جبکہ میرے بھائیوں اور بچوں کی ملکیت میں موجود مختلف کمپنیاں، کاروبار اور جائیدادیں ظاہر کی گئیں اور ان کی ملکیت اور مالیت سے متعلق بے بنیاد الزامات لگائے گئے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 22 جون 2020 کو اہلیہ کے اثاثے اپنے ڈکلیئریشن میں چھپانے کا الزام بنیادی طور پر غلط ہے کیونکہ اس وقت میری اہلیہ بیرون ملک کسی کاروبار میں سرمایہ کار یا شیئرہولڈر نہیں رہی تھیں، میری بیوی نے یکم جون 2020 کو بیرون ملک کی تمام کمپنیوں سے سرمایہ نکال لیا تھا اور امریکا کی سرکاری دستاویز میں اس کا ریکارڈ موجود ہے'۔
کراچی اور سندھ میں جولائی اور اگست میں بارشوں اور سیلاب سے بدترین نقصان ہوا، پورے سندھ میں 100 سے زائد اموات ہوئیں، لاکھوں لوگ متاثر ہوئے، بدترین حالات کے پیش نظر حکومت سندھ نے کراچی سمیت سندھ کے 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 3 ستمبر کو کراچی میں پریس کانفرنس میں سندھ میں بارش سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں بدین، عمر کوٹ، میرپورخاص، سانگھڑ اور شہید بینظیر آباد کے کچھ علاقے دریا کا منظر پیش کررہے ہیں، ان علاقوں میں موجود کچے مکانات تباہ ہوگئے ہیں اور بڑے شہر یعنی تعلقہ ہیڈکوارٹرز کو بھی چاروں طرف سے پانی نے گھیرا ہوا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کسی تعلقہ ہیڈکوارٹر کے مرکزی علاقوں میں پانی نہیں رکا، متاثرہ علاقوں میں لوگ اپنے خاندان سمیت سڑکوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بارش سے ہونے والے جانی نقصان سے آگاہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا تھا کہ پورے سندھ میں 100 اموات ہوئیں جس میں 63 کراچی اور 35 سندھ کے دیگر اضلاع میں ہوئیں۔
انہوں نے مزید بتایا تھا کہ جوہی میں تقریباً 2 لاکھ 40 ہزار لوگ متاثر ہوئے، 23 ہزار ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہوگئیں، ایک ہزار 80 کچے گھر مکمل طور پر منہدم، ایک ہزار 640 جزوی متاثر اور 30 پکے مکمل منہدم جبکہ 355 جزوی متاثر ہوئے، تعلقہ سانگھڑ میں 48 ہزار افراد، تعلقہ کھیپرو میں 80 سے 81 ہزار افراد متاثر ہوئے، تعلقہ عمر کوٹ میں 3 لاکھ، سامارو میں ایک لاکھ 25 ہزار 500، کنڈری میں ایک لاکھ 55 ہزار 200، پتھور میں 85 ہزار 100 افراد سیلابی صورتحال سے متاثر ہوئے۔
کراچی کے بارے میں انہوں نے بتایا تھا کہ ضلع وسطی میں 29 پکے مکانات مکمل تباہ جبکہ 2 کو جزوی نقصان پہنچا، ایک چھت منہدم ہوئی، 48 اسکول، ایک ہسپتال، ایک سرکاری دفتر، 4 مساجد کو نقصان پہنچا، کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی نکالنے میں بہت وقت لگا، خاص کر کھارادر کے علاقے میں سب سے زیادہ مشکلات پیش آئیں۔
بعد ازاں وزیراعظم عمران خان، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کراچی کا دورہ کیا تھا اور بحالی کے لیے پیکیج کا اعلان کیا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2 ستمبر کو کراچی کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے شہر کا فضائی اور اربن فلڈنگ سے متاثرہ علاقوں کا معائنہ کیا، جس کے بعد کور ہیڈکوارٹرز پہنچے جہاں انہیں حالیہ تاریخ کے بدترین شہری سیلاب اور سندھ بھر میں بالخصوص کراچی میں آرمی کی جانب سے سول انتظامیہ کی مدد کے حوالے سے آگاہ کیا گیا، انہیں بتایا گیا کہ غیر معمولی بارشوں نے کئی دہائیوں کی شہری آبادی، کسی منصوبہ بندی کے بغیر آباد کاری اور بنیادی ڈھانچے کے امور کے ساتھ مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔
آرمی چیف نے کراچی میں امدادی سرگرمیوں کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ مشترکہ عوامی افادیت والے علاقوں اور بدترین متاثرہ آبادیوں کو پہلے ترجیح دی جانی چاہیے جبکہ کسی خاص مقام یا برادری کے کسی بھی اثر و رسوخ کو ضرورت مندوں کی طرف سے توجہ یا وسائل منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ ایک قومی تباہی ہے اور سب اس میں شامل ہیں، فوج ضرورت کے وقت عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔
وزیراعظم عمران خان 5 ستمبر کو کراچی کے دورے کے موقع پر شہر کے لیے اقدامات کے حوالے سے خصوصی اجلاس کی سربراہی کے بعد سندھ کے گورنر عمران اسمٰعیل اور وزیراعلٰی مراد علی شاہ کے ہمراہ نیوز کانفرنس کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ اب جو بھی فیصلے کیے جائیں گے اس کی نگرانی پرووِینشل کوآرڈینیشن اینڈ امپلمینٹیشن کمیٹی (پی سی آئی سی) کرے گی، کمیٹی میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں تاہم پاک فوج کا اس میں بہت بڑا کردار ہے کیوں کہ سیلاب اور صفائی کے معاملات پر ہمیں فوج کی ضرورت ہوگی۔
وزیراعظم عمران خان نے کراچی کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے 11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں تعاون کریں گی۔
کراچی پیکج کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے اور اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ کے فور منصوبے کے ایک حصے کو صوبائی حکومت جبکہ دوسرا حصہ وفاقی حکومت مکمل کرے گی اور اسے جلد از جلد مکمل کر کے آئندہ 3 برس میں کراچی کا پانی کا مسئلہ مستقل طور پر حل کردیا جائے۔
انہوں نے کہا تھا کہ دوسرا مسئلہ نالوں کا ہے جہاں تجاوزات ہیں اور غریب لوگ رہائش پذیر ہیں، اس کے لیے این ڈی ایم اے نالے صاف کررہی ہے جبکہ وہاں بسے افراد کو متبادل جگہ فراہم کرنے کی ذمہ داری سندھ حکومت نے اٹھائی ہے، کراچی میں سیوریج سسٹم کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر فیصلہ کیا گیا کہ 11 سو ارب روپے کے پیکج میں سیوریج سسٹم کے مسئلے کو بھی مکمل طور پر حل کیا جائے گا، ساتھ ہی ایک ہی دفعہ سالڈ ویسٹ (کچرے) کے مسئلے کو بھی حل کر کے ایک نظام تشکیل دیا جائے گا، ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ کراچی کے سرکلر ریلوے کو اسی پیکج میں مکمل کیا جائے گا اور سڑکوں کے مختلف مسائل بھی حل کیے جائیں گے۔
لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ستمبر میں خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ پیش آیا جس پر ملک بھر میں غم وغصے کا اظہار کیا گیا اور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے اور اسی دوران لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ نے بیان دیا کہ خاتون کو رات دیر سے اکیلے باہر نہیں جانا چاہیے تھا، اس بیان نے تنازع کو مزید ہوا دی اور جہاں احتجاج میں شدت آئی وہی پولیس افسر کے خلاف بھی لوگوں نے احتجاج کیا۔
مذکورہ واقعے کی تفصیلات کے حوالے سے بتایا گیا کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔
واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئی تھیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔
اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔
تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظار کررہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔
اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔
تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: متاثرہ خاتون نے ملزم عابد کی شناخت کرلی
بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔
یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔
علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔
تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔
14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا تھا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا۔
بعد ازاں موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو 12 اکتوبر کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔
چار رکنی گینگ کا سربراہ عابد پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج 10 دیگر مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔
پولیس نے 21 اکتوبر کو بتایا کہ کیمپ جیل میں ملزم کی شناخت پریڈ کا عمل مکمل کیا گیا جہاں متاثرہ خاتون نے ملزم کی شناخت کرلی اور اب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی میزبانی میں 20 ستمبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) منعقد ہوئی اور حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا گیا، مشترکہ اعلامیے میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دیں اور اس کے ساتھ ہی 26 نکاتی مطالبات بھی پیش کیے گئے۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ
پی ڈی ایم نے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اپنی پہلی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جہاں اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو، محمود خان اچکزئی کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور عسکری قیادت پر الزامات عائد کیے جس سے ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
نواز شریف نے کہا کہ چند لوگوں کی خواہش ہے کہ میری آواز عوام تک نہ پہنچے اور ان کی آواز مجھ تک نہ پہنچے، لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مار دیا ہے، نہ جانے کس بے شرمی سے یہ لوگ میڈیا پر آکر اِدھر اُدھر کی کہانیاں سناتے ہیں، یہ کس کا قصور ہے؟ عمران خان نیازی کا یہ انہیں لانے والوں کا؟ اصل قصوروار کون ہے؟ عوام کا ووٹ کس نے چوری کیا، انتخابات میں کس نے دھاندلی کی؟ جو ووٹ آپ نے ڈالا تھا وہ کسی اور کے ڈبے میں کیسے پہنچ گیا؟ رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس کس نے بند کیا؟ نتائج کیوں روکے رکھے گئے؟ اور ہاری ہوئی پی ٹی آئی کو کس نے جتوایا؟ عوام کے ووٹ کی امانت میں کس نے خیانت کی؟ کس نے سلیکٹڈ حکومت بنانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا بازار دوبارہ کس نے گرم کیا؟
نواز شریف نے کہا تھا کہ اب اصل قصورواروں کو سامنے لانے سے نہیں ڈریں گے، ہم گائے بھینسیں نہیں ہیں، باضمیر لوگ ہیں اور اپنا ضمیر کبھی نہیں بیچیں گے، عوام کو اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی دو متوازی حکومتوں کا کون ذمہ دار ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے؟ صحافیوں کو اغوا کرکے ان پر تشدد کرنے کا کون ذمہ دار ہے؟' انہوں نے اپنی تقریر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر بھی سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ 'یہ سب کچھ آپ کے ہاتھوں سے ہوا ہے، آپ کو نواز شریف کو غدار کہنا ہے ضرور کہیں، اشتہاری کہنا ہے ضرور کہیں، نواز شریف کے اثاثے جائیداد ضبط کرنا ہے ضرور کریں، جھوٹے مقدمات بنوانے ہیں بنوائیے لیکن نواز شریف مظلوم عوام کی آواز بنتا رہے گا، نواز شریف عوام کو ان کے ووٹ کی عزت دلوا کر رہے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم جلسہ: رہنماؤں کے حکومت پر وار،نواز شریف کا ویڈیو لنک سے خطاب، فوجی قیادت پر الزامات
دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل پی پی پی کے چیئرمین نے غیرملکی میڈیا کو انٹرویو میں نواز شریف کی جانب سے اداروں کے سربراہوں کا نام لینے سے متعلق حیرانی کا اظہار کیا تھا اور کھل کر اس بیان کی حمایت یا تردید نہیں کی۔
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ ملاقات کی خبر میڈیا پر آئی اور ملک میں ایک نئے تنازع نے جنم لیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری قیادت کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات، 'فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے'
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 16ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے تقریباً 15 رہنماؤں نے شرکت کی جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور کچھ حکومتی وزرا نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں شریک چند رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اجلاس کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرنا تھا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے تھی مگر یہ ملاقات اس وقت مختلف شکل اختیار کر گئی جب اس میں گلگت بلتستان انتخابات، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے، اپوزیشن نے اس موقع کو دیگر معاملات پر اپنے تحفظات پیش کرنے کے لیے استعمال کیا بالخصوص فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور احتساب کے بہانے اس کے رہنماؤں پر ظلم و ستم کے الزامات وغیرہ۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان کو مقامی انتخابات کے بعد صوبے کا درجہ دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اس خبر کے بعد اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے خصوصی گفتگو میں آرمی چیف سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں سے متعلق سوال کہا کہ 'چیف آف آرمی اسٹاف سے محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی، ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے مریم نواز اور نواز شریف صاحب سے متعلق بات کی، ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جائے گا'۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست پر نہیں کیں اور ان کا مقصد کوئی ریلیف لینا بھی نہیں تھا۔
نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا تھا کہ 'جنرل قمر جاوید باجوہ سے میرے تعلقات اسکول، کالج کے دور سمیت 40 سے زیادہ عرصے سے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے کیریئر اور میرے پورے کیریئر کے دوران مختلف اوقات میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، خاندانی سطح پر ملاقاتیں رہیں اور کھانا پینا بھی ہوتا رہا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی ملاقاتیں نہیں تھیں'۔
محمد زبیر نے کہا کہ 'میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود مسلم لیگ (ن)، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر کیسز، مریم نواز اور شہباز شریف کے کیسز سے متعلق جتنی بھی مشکلات آئیں کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں کیا، 2018 کے انتخابات میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی میں نے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی درخواست کی، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی پوزیشن حساس ہے اور میں ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں'۔
ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے ملاقات کے آغاز میں ہی واضح کردیا تھا کہ میں یہاں ذاتی، پارٹی یا پھر شہباز شریف، مریم نواز یا نواز شریف کسی کے لیے کوئی ریلیف لینے نہیں آیا اور مجھے کسی نے نہیں بھیجا، میں نے مسلسل دو باتیں بتائیں کہ میں ریلیف لینے یا کسی کے کہنے پر یہاں نہیں آیا اور بحث زیادہ تر معیشت پر تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'آرمی چیف سے حکومت گرانے یا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی بات نہیں کی بلکہ میں نے معیشت پر اعداد و شمار کے ساتھ بات کی، پہلی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی موجود نہیں تھے تاہم دوسری ملاقات میں وہ موجود تھے لیکن وہ میری درخواست نہیں تھی'۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
امریکا میں موجود پاکستانی صحافی احمد نورانی نے رواں برس 27 اگست کو ایک غیر معروف ویب سائٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے اہل خانہ کے اربوں مالیت کے کاروبار اور جائیدادوں کا انکشاف کیا تھا، جس سے پاکستانی سیاست اور میڈیا میں بھونچال آگیا اور اپوزیشن نے نیب سے تحقیقات کا مطالبہ کیا اور انہیں پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کے چیئرمین اور وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، پی ڈی ایم کے جلسوں میں سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت دیگر رہنماؤں نے سیاست دانوں کی طرح ان کے خلاف بھی تفتیش کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔
احمد نورانی کی خبر میں الزام لگایا گیا تھا کہ عاصم سلیم باجوہ نے اپنی اہلیہ، بچوں اور بھائیوں کے آف شور کاروبار بنانے میں اپنے دفتر کا استعمال کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عاصم باجوہ کے چھوٹے بھائیوں نے 2002 میں پہلا پاپا جوہن پیزا ریسٹورنٹ کھولا اور یہ وہی سال تھا جب عاصم باجوہ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے اسٹاف میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر کام شروع کیا تھا، 53 سالہ ندیم باجوہ، جنہوں نے پیزا ریسٹورنٹ فرنچائز کے لیے ڈیلوری ڈرائیور کے طور پر کام کا آغاز کیا تھا، اب ان کے بھائیوں اور عاصم سلیم باجوہ کی اہلیہ اور بیٹے ایک اپنا کاروبار رکھتے ہیں جس کی 4 ممالک میں 99 کمپنیاں ہیں جس میں 3 کروڑ 99 لاکھ ڈالر مالیت کے 133 ریسٹورنٹس کے ساتھ پیزا فرنچائزز بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان 99 کمپنیوں میں سے 66 مرکزی کمپنیاں ہیں، 33 مرکزی کمپنیوں کی ذیلی کمپنیاں ہیں جبکہ 5 کمپنیاں اب ختم ہوچکی ہیں۔
بعد ازاں عاصم سلیم باجوہ نے مذکورہ معاملے پر ہونے والی بحث کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو بھجوادیا تھا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا اور اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے پیش کئے گئے ثبوت اور وضاحت سے مطمئن ہیں۔
اپوزیشن کے جلسوں اور ان کے رہنماؤں کی جانب سے عاصم باجوہ کے اثاثوں سے متعلق تنقید مسلسل جاری رہی، جس کے بعد عاصم باجوہ نے بالآخر 12 اکتوبر کو ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ انہوں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کا عہدہ چھوڑ دیا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفیٰ قبول کرلیا جبکہ وہ بدستور سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین کام کرتے رہیں گے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ ان کے بھائیوں کے کاروبار میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ ان کے بچوں نے خود کاروبار شروع کیا اور اس میں ان کی کوئی شراکت داری نہیں ہے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے اوپر لگائے جانے والے ان الزامات کی تردید کی تھی اور مذکورہ خبر سے متعلق 4 صفحات پر مشتمل تفصیلی بیان جاری کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'احمد نورانی نے 27 اگست 2020 کو نامعلوم ویب سائٹ پر میرے بارے میں خبر شائع کی، جسے غلط اور جھوٹی قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا ہوں'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'خبر میں الزام لگایا گیا کہ میں نے 22 جون 2020 کو بطور معاوں خصوصی اپنے غلط اثاثے ظاہر کیے اور میں نے اپنی اہلیہ کی بیرون ملک سرمایہ کاری ظاہر نہیں کی، میرے بھائیوں نے امریکا میں کاروبار کیے جن میں ان کی ترقی کا تعلق پاک آرمی میں میری ترقی سے ہے جبکہ میرے بھائیوں اور بچوں کی ملکیت میں موجود مختلف کمپنیاں، کاروبار اور جائیدادیں ظاہر کی گئیں اور ان کی ملکیت اور مالیت سے متعلق بے بنیاد الزامات لگائے گئے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 22 جون 2020 کو اہلیہ کے اثاثے اپنے ڈکلیئریشن میں چھپانے کا الزام بنیادی طور پر غلط ہے کیونکہ اس وقت میری اہلیہ بیرون ملک کسی کاروبار میں سرمایہ کار یا شیئرہولڈر نہیں رہی تھیں، میری بیوی نے یکم جون 2020 کو بیرون ملک کی تمام کمپنیوں سے سرمایہ نکال لیا تھا اور امریکا کی سرکاری دستاویز میں اس کا ریکارڈ موجود ہے'۔
کراچی اور سندھ میں جولائی اور اگست میں بارشوں اور سیلاب سے بدترین نقصان ہوا، پورے سندھ میں 100 سے زائد اموات ہوئیں، لاکھوں لوگ متاثر ہوئے، بدترین حالات کے پیش نظر حکومت سندھ نے کراچی سمیت سندھ کے 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 3 ستمبر کو کراچی میں پریس کانفرنس میں سندھ میں بارش سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں بدین، عمر کوٹ، میرپورخاص، سانگھڑ اور شہید بینظیر آباد کے کچھ علاقے دریا کا منظر پیش کررہے ہیں، ان علاقوں میں موجود کچے مکانات تباہ ہوگئے ہیں اور بڑے شہر یعنی تعلقہ ہیڈکوارٹرز کو بھی چاروں طرف سے پانی نے گھیرا ہوا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کسی تعلقہ ہیڈکوارٹر کے مرکزی علاقوں میں پانی نہیں رکا، متاثرہ علاقوں میں لوگ اپنے خاندان سمیت سڑکوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بارش سے ہونے والے جانی نقصان سے آگاہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا تھا کہ پورے سندھ میں 100 اموات ہوئیں جس میں 63 کراچی اور 35 سندھ کے دیگر اضلاع میں ہوئیں۔
انہوں نے مزید بتایا تھا کہ جوہی میں تقریباً 2 لاکھ 40 ہزار لوگ متاثر ہوئے، 23 ہزار ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہوگئیں، ایک ہزار 80 کچے گھر مکمل طور پر منہدم، ایک ہزار 640 جزوی متاثر اور 30 پکے مکمل منہدم جبکہ 355 جزوی متاثر ہوئے، تعلقہ سانگھڑ میں 48 ہزار افراد، تعلقہ کھیپرو میں 80 سے 81 ہزار افراد متاثر ہوئے، تعلقہ عمر کوٹ میں 3 لاکھ، سامارو میں ایک لاکھ 25 ہزار 500، کنڈری میں ایک لاکھ 55 ہزار 200، پتھور میں 85 ہزار 100 افراد سیلابی صورتحال سے متاثر ہوئے۔
کراچی کے بارے میں انہوں نے بتایا تھا کہ ضلع وسطی میں 29 پکے مکانات مکمل تباہ جبکہ 2 کو جزوی نقصان پہنچا، ایک چھت منہدم ہوئی، 48 اسکول، ایک ہسپتال، ایک سرکاری دفتر، 4 مساجد کو نقصان پہنچا، کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی نکالنے میں بہت وقت لگا، خاص کر کھارادر کے علاقے میں سب سے زیادہ مشکلات پیش آئیں۔
بعد ازاں وزیراعظم عمران خان، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کراچی کا دورہ کیا تھا اور بحالی کے لیے پیکیج کا اعلان کیا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2 ستمبر کو کراچی کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے شہر کا فضائی اور اربن فلڈنگ سے متاثرہ علاقوں کا معائنہ کیا، جس کے بعد کور ہیڈکوارٹرز پہنچے جہاں انہیں حالیہ تاریخ کے بدترین شہری سیلاب اور سندھ بھر میں بالخصوص کراچی میں آرمی کی جانب سے سول انتظامیہ کی مدد کے حوالے سے آگاہ کیا گیا، انہیں بتایا گیا کہ غیر معمولی بارشوں نے کئی دہائیوں کی شہری آبادی، کسی منصوبہ بندی کے بغیر آباد کاری اور بنیادی ڈھانچے کے امور کے ساتھ مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔
آرمی چیف نے کراچی میں امدادی سرگرمیوں کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ مشترکہ عوامی افادیت والے علاقوں اور بدترین متاثرہ آبادیوں کو پہلے ترجیح دی جانی چاہیے جبکہ کسی خاص مقام یا برادری کے کسی بھی اثر و رسوخ کو ضرورت مندوں کی طرف سے توجہ یا وسائل منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ ایک قومی تباہی ہے اور سب اس میں شامل ہیں، فوج ضرورت کے وقت عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔
وزیراعظم عمران خان 5 ستمبر کو کراچی کے دورے کے موقع پر شہر کے لیے اقدامات کے حوالے سے خصوصی اجلاس کی سربراہی کے بعد سندھ کے گورنر عمران اسمٰعیل اور وزیراعلٰی مراد علی شاہ کے ہمراہ نیوز کانفرنس کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ اب جو بھی فیصلے کیے جائیں گے اس کی نگرانی پرووِینشل کوآرڈینیشن اینڈ امپلمینٹیشن کمیٹی (پی سی آئی سی) کرے گی، کمیٹی میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں تاہم پاک فوج کا اس میں بہت بڑا کردار ہے کیوں کہ سیلاب اور صفائی کے معاملات پر ہمیں فوج کی ضرورت ہوگی۔
وزیراعظم عمران خان نے کراچی کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے 11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں تعاون کریں گی۔
کراچی پیکج کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے اور اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ کے فور منصوبے کے ایک حصے کو صوبائی حکومت جبکہ دوسرا حصہ وفاقی حکومت مکمل کرے گی اور اسے جلد از جلد مکمل کر کے آئندہ 3 برس میں کراچی کا پانی کا مسئلہ مستقل طور پر حل کردیا جائے۔
انہوں نے کہا تھا کہ دوسرا مسئلہ نالوں کا ہے جہاں تجاوزات ہیں اور غریب لوگ رہائش پذیر ہیں، اس کے لیے این ڈی ایم اے نالے صاف کررہی ہے جبکہ وہاں بسے افراد کو متبادل جگہ فراہم کرنے کی ذمہ داری سندھ حکومت نے اٹھائی ہے، کراچی میں سیوریج سسٹم کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر فیصلہ کیا گیا کہ 11 سو ارب روپے کے پیکج میں سیوریج سسٹم کے مسئلے کو بھی مکمل طور پر حل کیا جائے گا، ساتھ ہی ایک ہی دفعہ سالڈ ویسٹ (کچرے) کے مسئلے کو بھی حل کر کے ایک نظام تشکیل دیا جائے گا، ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ کراچی کے سرکلر ریلوے کو اسی پیکج میں مکمل کیا جائے گا اور سڑکوں کے مختلف مسائل بھی حل کیے جائیں گے۔
لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ستمبر میں خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ پیش آیا جس پر ملک بھر میں غم وغصے کا اظہار کیا گیا اور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے اور اسی دوران لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ نے بیان دیا کہ خاتون کو رات دیر سے اکیلے باہر نہیں جانا چاہیے تھا، اس بیان نے تنازع کو مزید ہوا دی اور جہاں احتجاج میں شدت آئی وہی پولیس افسر کے خلاف بھی لوگوں نے احتجاج کیا۔
مذکورہ واقعے کی تفصیلات کے حوالے سے بتایا گیا کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔
واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئی تھیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔
اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔
تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظار کررہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔
اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔
تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: متاثرہ خاتون نے ملزم عابد کی شناخت کرلی
بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔
یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔
علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔
تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔
14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا تھا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا۔
بعد ازاں موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو 12 اکتوبر کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔
چار رکنی گینگ کا سربراہ عابد پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج 10 دیگر مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔
پولیس نے 21 اکتوبر کو بتایا کہ کیمپ جیل میں ملزم کی شناخت پریڈ کا عمل مکمل کیا گیا جہاں متاثرہ خاتون نے ملزم کی شناخت کرلی اور اب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی میزبانی میں 20 ستمبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) منعقد ہوئی اور حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا گیا، مشترکہ اعلامیے میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دیں اور اس کے ساتھ ہی 26 نکاتی مطالبات بھی پیش کیے گئے۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ
پی ڈی ایم نے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اپنی پہلی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جہاں اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو، محمود خان اچکزئی کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور عسکری قیادت پر الزامات عائد کیے جس سے ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
نواز شریف نے کہا کہ چند لوگوں کی خواہش ہے کہ میری آواز عوام تک نہ پہنچے اور ان کی آواز مجھ تک نہ پہنچے، لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مار دیا ہے، نہ جانے کس بے شرمی سے یہ لوگ میڈیا پر آکر اِدھر اُدھر کی کہانیاں سناتے ہیں، یہ کس کا قصور ہے؟ عمران خان نیازی کا یہ انہیں لانے والوں کا؟ اصل قصوروار کون ہے؟ عوام کا ووٹ کس نے چوری کیا، انتخابات میں کس نے دھاندلی کی؟ جو ووٹ آپ نے ڈالا تھا وہ کسی اور کے ڈبے میں کیسے پہنچ گیا؟ رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس کس نے بند کیا؟ نتائج کیوں روکے رکھے گئے؟ اور ہاری ہوئی پی ٹی آئی کو کس نے جتوایا؟ عوام کے ووٹ کی امانت میں کس نے خیانت کی؟ کس نے سلیکٹڈ حکومت بنانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا بازار دوبارہ کس نے گرم کیا؟
نواز شریف نے کہا تھا کہ اب اصل قصورواروں کو سامنے لانے سے نہیں ڈریں گے، ہم گائے بھینسیں نہیں ہیں، باضمیر لوگ ہیں اور اپنا ضمیر کبھی نہیں بیچیں گے، عوام کو اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی دو متوازی حکومتوں کا کون ذمہ دار ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے؟ صحافیوں کو اغوا کرکے ان پر تشدد کرنے کا کون ذمہ دار ہے؟' انہوں نے اپنی تقریر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر بھی سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ 'یہ سب کچھ آپ کے ہاتھوں سے ہوا ہے، آپ کو نواز شریف کو غدار کہنا ہے ضرور کہیں، اشتہاری کہنا ہے ضرور کہیں، نواز شریف کے اثاثے جائیداد ضبط کرنا ہے ضرور کریں، جھوٹے مقدمات بنوانے ہیں بنوائیے لیکن نواز شریف مظلوم عوام کی آواز بنتا رہے گا، نواز شریف عوام کو ان کے ووٹ کی عزت دلوا کر رہے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم جلسہ: رہنماؤں کے حکومت پر وار،نواز شریف کا ویڈیو لنک سے خطاب، فوجی قیادت پر الزامات
دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل پی پی پی کے چیئرمین نے غیرملکی میڈیا کو انٹرویو میں نواز شریف کی جانب سے اداروں کے سربراہوں کا نام لینے سے متعلق حیرانی کا اظہار کیا تھا اور کھل کر اس بیان کی حمایت یا تردید نہیں کی۔
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ ملاقات کی خبر میڈیا پر آئی اور ملک میں ایک نئے تنازع نے جنم لیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری قیادت کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات، 'فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے'
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 16ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے تقریباً 15 رہنماؤں نے شرکت کی جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور کچھ حکومتی وزرا نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں شریک چند رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اجلاس کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرنا تھا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے تھی مگر یہ ملاقات اس وقت مختلف شکل اختیار کر گئی جب اس میں گلگت بلتستان انتخابات، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے، اپوزیشن نے اس موقع کو دیگر معاملات پر اپنے تحفظات پیش کرنے کے لیے استعمال کیا بالخصوص فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور احتساب کے بہانے اس کے رہنماؤں پر ظلم و ستم کے الزامات وغیرہ۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان کو مقامی انتخابات کے بعد صوبے کا درجہ دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اس خبر کے بعد اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے خصوصی گفتگو میں آرمی چیف سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں سے متعلق سوال کہا کہ 'چیف آف آرمی اسٹاف سے محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی، ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے مریم نواز اور نواز شریف صاحب سے متعلق بات کی، ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جائے گا'۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست پر نہیں کیں اور ان کا مقصد کوئی ریلیف لینا بھی نہیں تھا۔
نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا تھا کہ 'جنرل قمر جاوید باجوہ سے میرے تعلقات اسکول، کالج کے دور سمیت 40 سے زیادہ عرصے سے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے کیریئر اور میرے پورے کیریئر کے دوران مختلف اوقات میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، خاندانی سطح پر ملاقاتیں رہیں اور کھانا پینا بھی ہوتا رہا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی ملاقاتیں نہیں تھیں'۔
محمد زبیر نے کہا کہ 'میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود مسلم لیگ (ن)، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر کیسز، مریم نواز اور شہباز شریف کے کیسز سے متعلق جتنی بھی مشکلات آئیں کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں کیا، 2018 کے انتخابات میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی میں نے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی درخواست کی، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی پوزیشن حساس ہے اور میں ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں'۔
ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے ملاقات کے آغاز میں ہی واضح کردیا تھا کہ میں یہاں ذاتی، پارٹی یا پھر شہباز شریف، مریم نواز یا نواز شریف کسی کے لیے کوئی ریلیف لینے نہیں آیا اور مجھے کسی نے نہیں بھیجا، میں نے مسلسل دو باتیں بتائیں کہ میں ریلیف لینے یا کسی کے کہنے پر یہاں نہیں آیا اور بحث زیادہ تر معیشت پر تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'آرمی چیف سے حکومت گرانے یا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی بات نہیں کی بلکہ میں نے معیشت پر اعداد و شمار کے ساتھ بات کی، پہلی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی موجود نہیں تھے تاہم دوسری ملاقات میں وہ موجود تھے لیکن وہ میری درخواست نہیں تھی'۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
کراچی اور سندھ میں جولائی اور اگست میں بارشوں اور سیلاب سے بدترین نقصان ہوا، پورے سندھ میں 100 سے زائد اموات ہوئیں، لاکھوں لوگ متاثر ہوئے، بدترین حالات کے پیش نظر حکومت سندھ نے کراچی سمیت سندھ کے 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 3 ستمبر کو کراچی میں پریس کانفرنس میں سندھ میں بارش سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں بدین، عمر کوٹ، میرپورخاص، سانگھڑ اور شہید بینظیر آباد کے کچھ علاقے دریا کا منظر پیش کررہے ہیں، ان علاقوں میں موجود کچے مکانات تباہ ہوگئے ہیں اور بڑے شہر یعنی تعلقہ ہیڈکوارٹرز کو بھی چاروں طرف سے پانی نے گھیرا ہوا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کسی تعلقہ ہیڈکوارٹر کے مرکزی علاقوں میں پانی نہیں رکا، متاثرہ علاقوں میں لوگ اپنے خاندان سمیت سڑکوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بارش سے ہونے والے جانی نقصان سے آگاہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا تھا کہ پورے سندھ میں 100 اموات ہوئیں جس میں 63 کراچی اور 35 سندھ کے دیگر اضلاع میں ہوئیں۔
انہوں نے مزید بتایا تھا کہ جوہی میں تقریباً 2 لاکھ 40 ہزار لوگ متاثر ہوئے، 23 ہزار ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہوگئیں، ایک ہزار 80 کچے گھر مکمل طور پر منہدم، ایک ہزار 640 جزوی متاثر اور 30 پکے مکمل منہدم جبکہ 355 جزوی متاثر ہوئے، تعلقہ سانگھڑ میں 48 ہزار افراد، تعلقہ کھیپرو میں 80 سے 81 ہزار افراد متاثر ہوئے، تعلقہ عمر کوٹ میں 3 لاکھ، سامارو میں ایک لاکھ 25 ہزار 500، کنڈری میں ایک لاکھ 55 ہزار 200، پتھور میں 85 ہزار 100 افراد سیلابی صورتحال سے متاثر ہوئے۔
کراچی کے بارے میں انہوں نے بتایا تھا کہ ضلع وسطی میں 29 پکے مکانات مکمل تباہ جبکہ 2 کو جزوی نقصان پہنچا، ایک چھت منہدم ہوئی، 48 اسکول، ایک ہسپتال، ایک سرکاری دفتر، 4 مساجد کو نقصان پہنچا، کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی نکالنے میں بہت وقت لگا، خاص کر کھارادر کے علاقے میں سب سے زیادہ مشکلات پیش آئیں۔
بعد ازاں وزیراعظم عمران خان، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کراچی کا دورہ کیا تھا اور بحالی کے لیے پیکیج کا اعلان کیا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2 ستمبر کو کراچی کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے شہر کا فضائی اور اربن فلڈنگ سے متاثرہ علاقوں کا معائنہ کیا، جس کے بعد کور ہیڈکوارٹرز پہنچے جہاں انہیں حالیہ تاریخ کے بدترین شہری سیلاب اور سندھ بھر میں بالخصوص کراچی میں آرمی کی جانب سے سول انتظامیہ کی مدد کے حوالے سے آگاہ کیا گیا، انہیں بتایا گیا کہ غیر معمولی بارشوں نے کئی دہائیوں کی شہری آبادی، کسی منصوبہ بندی کے بغیر آباد کاری اور بنیادی ڈھانچے کے امور کے ساتھ مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔
آرمی چیف نے کراچی میں امدادی سرگرمیوں کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ مشترکہ عوامی افادیت والے علاقوں اور بدترین متاثرہ آبادیوں کو پہلے ترجیح دی جانی چاہیے جبکہ کسی خاص مقام یا برادری کے کسی بھی اثر و رسوخ کو ضرورت مندوں کی طرف سے توجہ یا وسائل منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ ایک قومی تباہی ہے اور سب اس میں شامل ہیں، فوج ضرورت کے وقت عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔
وزیراعظم عمران خان 5 ستمبر کو کراچی کے دورے کے موقع پر شہر کے لیے اقدامات کے حوالے سے خصوصی اجلاس کی سربراہی کے بعد سندھ کے گورنر عمران اسمٰعیل اور وزیراعلٰی مراد علی شاہ کے ہمراہ نیوز کانفرنس کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ اب جو بھی فیصلے کیے جائیں گے اس کی نگرانی پرووِینشل کوآرڈینیشن اینڈ امپلمینٹیشن کمیٹی (پی سی آئی سی) کرے گی، کمیٹی میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں تاہم پاک فوج کا اس میں بہت بڑا کردار ہے کیوں کہ سیلاب اور صفائی کے معاملات پر ہمیں فوج کی ضرورت ہوگی۔
وزیراعظم عمران خان نے کراچی کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے 11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں تعاون کریں گی۔
کراچی پیکج کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے اور اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ کے فور منصوبے کے ایک حصے کو صوبائی حکومت جبکہ دوسرا حصہ وفاقی حکومت مکمل کرے گی اور اسے جلد از جلد مکمل کر کے آئندہ 3 برس میں کراچی کا پانی کا مسئلہ مستقل طور پر حل کردیا جائے۔
انہوں نے کہا تھا کہ دوسرا مسئلہ نالوں کا ہے جہاں تجاوزات ہیں اور غریب لوگ رہائش پذیر ہیں، اس کے لیے این ڈی ایم اے نالے صاف کررہی ہے جبکہ وہاں بسے افراد کو متبادل جگہ فراہم کرنے کی ذمہ داری سندھ حکومت نے اٹھائی ہے، کراچی میں سیوریج سسٹم کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر فیصلہ کیا گیا کہ 11 سو ارب روپے کے پیکج میں سیوریج سسٹم کے مسئلے کو بھی مکمل طور پر حل کیا جائے گا، ساتھ ہی ایک ہی دفعہ سالڈ ویسٹ (کچرے) کے مسئلے کو بھی حل کر کے ایک نظام تشکیل دیا جائے گا، ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ کراچی کے سرکلر ریلوے کو اسی پیکج میں مکمل کیا جائے گا اور سڑکوں کے مختلف مسائل بھی حل کیے جائیں گے۔
لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ستمبر میں خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ پیش آیا جس پر ملک بھر میں غم وغصے کا اظہار کیا گیا اور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے اور اسی دوران لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ نے بیان دیا کہ خاتون کو رات دیر سے اکیلے باہر نہیں جانا چاہیے تھا، اس بیان نے تنازع کو مزید ہوا دی اور جہاں احتجاج میں شدت آئی وہی پولیس افسر کے خلاف بھی لوگوں نے احتجاج کیا۔
مذکورہ واقعے کی تفصیلات کے حوالے سے بتایا گیا کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔
واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئی تھیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔
اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔
تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظار کررہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔
اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔
تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: متاثرہ خاتون نے ملزم عابد کی شناخت کرلی
بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔
یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔
علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔
تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔
14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا تھا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا۔
بعد ازاں موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو 12 اکتوبر کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔
چار رکنی گینگ کا سربراہ عابد پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج 10 دیگر مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔
پولیس نے 21 اکتوبر کو بتایا کہ کیمپ جیل میں ملزم کی شناخت پریڈ کا عمل مکمل کیا گیا جہاں متاثرہ خاتون نے ملزم کی شناخت کرلی اور اب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی میزبانی میں 20 ستمبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) منعقد ہوئی اور حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا گیا، مشترکہ اعلامیے میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دیں اور اس کے ساتھ ہی 26 نکاتی مطالبات بھی پیش کیے گئے۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ
پی ڈی ایم نے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اپنی پہلی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جہاں اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو، محمود خان اچکزئی کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور عسکری قیادت پر الزامات عائد کیے جس سے ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
نواز شریف نے کہا کہ چند لوگوں کی خواہش ہے کہ میری آواز عوام تک نہ پہنچے اور ان کی آواز مجھ تک نہ پہنچے، لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مار دیا ہے، نہ جانے کس بے شرمی سے یہ لوگ میڈیا پر آکر اِدھر اُدھر کی کہانیاں سناتے ہیں، یہ کس کا قصور ہے؟ عمران خان نیازی کا یہ انہیں لانے والوں کا؟ اصل قصوروار کون ہے؟ عوام کا ووٹ کس نے چوری کیا، انتخابات میں کس نے دھاندلی کی؟ جو ووٹ آپ نے ڈالا تھا وہ کسی اور کے ڈبے میں کیسے پہنچ گیا؟ رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس کس نے بند کیا؟ نتائج کیوں روکے رکھے گئے؟ اور ہاری ہوئی پی ٹی آئی کو کس نے جتوایا؟ عوام کے ووٹ کی امانت میں کس نے خیانت کی؟ کس نے سلیکٹڈ حکومت بنانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا بازار دوبارہ کس نے گرم کیا؟
نواز شریف نے کہا تھا کہ اب اصل قصورواروں کو سامنے لانے سے نہیں ڈریں گے، ہم گائے بھینسیں نہیں ہیں، باضمیر لوگ ہیں اور اپنا ضمیر کبھی نہیں بیچیں گے، عوام کو اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی دو متوازی حکومتوں کا کون ذمہ دار ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے؟ صحافیوں کو اغوا کرکے ان پر تشدد کرنے کا کون ذمہ دار ہے؟' انہوں نے اپنی تقریر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر بھی سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ 'یہ سب کچھ آپ کے ہاتھوں سے ہوا ہے، آپ کو نواز شریف کو غدار کہنا ہے ضرور کہیں، اشتہاری کہنا ہے ضرور کہیں، نواز شریف کے اثاثے جائیداد ضبط کرنا ہے ضرور کریں، جھوٹے مقدمات بنوانے ہیں بنوائیے لیکن نواز شریف مظلوم عوام کی آواز بنتا رہے گا، نواز شریف عوام کو ان کے ووٹ کی عزت دلوا کر رہے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم جلسہ: رہنماؤں کے حکومت پر وار،نواز شریف کا ویڈیو لنک سے خطاب، فوجی قیادت پر الزامات
دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل پی پی پی کے چیئرمین نے غیرملکی میڈیا کو انٹرویو میں نواز شریف کی جانب سے اداروں کے سربراہوں کا نام لینے سے متعلق حیرانی کا اظہار کیا تھا اور کھل کر اس بیان کی حمایت یا تردید نہیں کی۔
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ ملاقات کی خبر میڈیا پر آئی اور ملک میں ایک نئے تنازع نے جنم لیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری قیادت کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات، 'فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے'
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 16ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے تقریباً 15 رہنماؤں نے شرکت کی جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور کچھ حکومتی وزرا نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں شریک چند رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اجلاس کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرنا تھا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے تھی مگر یہ ملاقات اس وقت مختلف شکل اختیار کر گئی جب اس میں گلگت بلتستان انتخابات، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے، اپوزیشن نے اس موقع کو دیگر معاملات پر اپنے تحفظات پیش کرنے کے لیے استعمال کیا بالخصوص فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور احتساب کے بہانے اس کے رہنماؤں پر ظلم و ستم کے الزامات وغیرہ۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان کو مقامی انتخابات کے بعد صوبے کا درجہ دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اس خبر کے بعد اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے خصوصی گفتگو میں آرمی چیف سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں سے متعلق سوال کہا کہ 'چیف آف آرمی اسٹاف سے محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی، ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے مریم نواز اور نواز شریف صاحب سے متعلق بات کی، ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جائے گا'۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست پر نہیں کیں اور ان کا مقصد کوئی ریلیف لینا بھی نہیں تھا۔
نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا تھا کہ 'جنرل قمر جاوید باجوہ سے میرے تعلقات اسکول، کالج کے دور سمیت 40 سے زیادہ عرصے سے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے کیریئر اور میرے پورے کیریئر کے دوران مختلف اوقات میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، خاندانی سطح پر ملاقاتیں رہیں اور کھانا پینا بھی ہوتا رہا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی ملاقاتیں نہیں تھیں'۔
محمد زبیر نے کہا کہ 'میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود مسلم لیگ (ن)، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر کیسز، مریم نواز اور شہباز شریف کے کیسز سے متعلق جتنی بھی مشکلات آئیں کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں کیا، 2018 کے انتخابات میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی میں نے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی درخواست کی، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی پوزیشن حساس ہے اور میں ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں'۔
ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے ملاقات کے آغاز میں ہی واضح کردیا تھا کہ میں یہاں ذاتی، پارٹی یا پھر شہباز شریف، مریم نواز یا نواز شریف کسی کے لیے کوئی ریلیف لینے نہیں آیا اور مجھے کسی نے نہیں بھیجا، میں نے مسلسل دو باتیں بتائیں کہ میں ریلیف لینے یا کسی کے کہنے پر یہاں نہیں آیا اور بحث زیادہ تر معیشت پر تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'آرمی چیف سے حکومت گرانے یا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی بات نہیں کی بلکہ میں نے معیشت پر اعداد و شمار کے ساتھ بات کی، پہلی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی موجود نہیں تھے تاہم دوسری ملاقات میں وہ موجود تھے لیکن وہ میری درخواست نہیں تھی'۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
کراچی اور سندھ میں جولائی اور اگست میں بارشوں اور سیلاب سے بدترین نقصان ہوا، پورے سندھ میں 100 سے زائد اموات ہوئیں، لاکھوں لوگ متاثر ہوئے، بدترین حالات کے پیش نظر حکومت سندھ نے کراچی سمیت سندھ کے 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 3 ستمبر کو کراچی میں پریس کانفرنس میں سندھ میں بارش سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں بدین، عمر کوٹ، میرپورخاص، سانگھڑ اور شہید بینظیر آباد کے کچھ علاقے دریا کا منظر پیش کررہے ہیں، ان علاقوں میں موجود کچے مکانات تباہ ہوگئے ہیں اور بڑے شہر یعنی تعلقہ ہیڈکوارٹرز کو بھی چاروں طرف سے پانی نے گھیرا ہوا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کسی تعلقہ ہیڈکوارٹر کے مرکزی علاقوں میں پانی نہیں رکا، متاثرہ علاقوں میں لوگ اپنے خاندان سمیت سڑکوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بارش سے ہونے والے جانی نقصان سے آگاہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا تھا کہ پورے سندھ میں 100 اموات ہوئیں جس میں 63 کراچی اور 35 سندھ کے دیگر اضلاع میں ہوئیں۔
انہوں نے مزید بتایا تھا کہ جوہی میں تقریباً 2 لاکھ 40 ہزار لوگ متاثر ہوئے، 23 ہزار ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہوگئیں، ایک ہزار 80 کچے گھر مکمل طور پر منہدم، ایک ہزار 640 جزوی متاثر اور 30 پکے مکمل منہدم جبکہ 355 جزوی متاثر ہوئے، تعلقہ سانگھڑ میں 48 ہزار افراد، تعلقہ کھیپرو میں 80 سے 81 ہزار افراد متاثر ہوئے، تعلقہ عمر کوٹ میں 3 لاکھ، سامارو میں ایک لاکھ 25 ہزار 500، کنڈری میں ایک لاکھ 55 ہزار 200، پتھور میں 85 ہزار 100 افراد سیلابی صورتحال سے متاثر ہوئے۔
کراچی کے بارے میں انہوں نے بتایا تھا کہ ضلع وسطی میں 29 پکے مکانات مکمل تباہ جبکہ 2 کو جزوی نقصان پہنچا، ایک چھت منہدم ہوئی، 48 اسکول، ایک ہسپتال، ایک سرکاری دفتر، 4 مساجد کو نقصان پہنچا، کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی نکالنے میں بہت وقت لگا، خاص کر کھارادر کے علاقے میں سب سے زیادہ مشکلات پیش آئیں۔
بعد ازاں وزیراعظم عمران خان، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کراچی کا دورہ کیا تھا اور بحالی کے لیے پیکیج کا اعلان کیا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2 ستمبر کو کراچی کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے شہر کا فضائی اور اربن فلڈنگ سے متاثرہ علاقوں کا معائنہ کیا، جس کے بعد کور ہیڈکوارٹرز پہنچے جہاں انہیں حالیہ تاریخ کے بدترین شہری سیلاب اور سندھ بھر میں بالخصوص کراچی میں آرمی کی جانب سے سول انتظامیہ کی مدد کے حوالے سے آگاہ کیا گیا، انہیں بتایا گیا کہ غیر معمولی بارشوں نے کئی دہائیوں کی شہری آبادی، کسی منصوبہ بندی کے بغیر آباد کاری اور بنیادی ڈھانچے کے امور کے ساتھ مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔
آرمی چیف نے کراچی میں امدادی سرگرمیوں کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ مشترکہ عوامی افادیت والے علاقوں اور بدترین متاثرہ آبادیوں کو پہلے ترجیح دی جانی چاہیے جبکہ کسی خاص مقام یا برادری کے کسی بھی اثر و رسوخ کو ضرورت مندوں کی طرف سے توجہ یا وسائل منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ ایک قومی تباہی ہے اور سب اس میں شامل ہیں، فوج ضرورت کے وقت عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔
وزیراعظم عمران خان 5 ستمبر کو کراچی کے دورے کے موقع پر شہر کے لیے اقدامات کے حوالے سے خصوصی اجلاس کی سربراہی کے بعد سندھ کے گورنر عمران اسمٰعیل اور وزیراعلٰی مراد علی شاہ کے ہمراہ نیوز کانفرنس کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ اب جو بھی فیصلے کیے جائیں گے اس کی نگرانی پرووِینشل کوآرڈینیشن اینڈ امپلمینٹیشن کمیٹی (پی سی آئی سی) کرے گی، کمیٹی میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں تاہم پاک فوج کا اس میں بہت بڑا کردار ہے کیوں کہ سیلاب اور صفائی کے معاملات پر ہمیں فوج کی ضرورت ہوگی۔
وزیراعظم عمران خان نے کراچی کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے 11 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں تعاون کریں گی۔
کراچی پیکج کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے اور اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ کے فور منصوبے کے ایک حصے کو صوبائی حکومت جبکہ دوسرا حصہ وفاقی حکومت مکمل کرے گی اور اسے جلد از جلد مکمل کر کے آئندہ 3 برس میں کراچی کا پانی کا مسئلہ مستقل طور پر حل کردیا جائے۔
انہوں نے کہا تھا کہ دوسرا مسئلہ نالوں کا ہے جہاں تجاوزات ہیں اور غریب لوگ رہائش پذیر ہیں، اس کے لیے این ڈی ایم اے نالے صاف کررہی ہے جبکہ وہاں بسے افراد کو متبادل جگہ فراہم کرنے کی ذمہ داری سندھ حکومت نے اٹھائی ہے، کراچی میں سیوریج سسٹم کا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر فیصلہ کیا گیا کہ 11 سو ارب روپے کے پیکج میں سیوریج سسٹم کے مسئلے کو بھی مکمل طور پر حل کیا جائے گا، ساتھ ہی ایک ہی دفعہ سالڈ ویسٹ (کچرے) کے مسئلے کو بھی حل کر کے ایک نظام تشکیل دیا جائے گا، ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ کراچی کے سرکلر ریلوے کو اسی پیکج میں مکمل کیا جائے گا اور سڑکوں کے مختلف مسائل بھی حل کیے جائیں گے۔
لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ستمبر میں خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ پیش آیا جس پر ملک بھر میں غم وغصے کا اظہار کیا گیا اور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے اور اسی دوران لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ نے بیان دیا کہ خاتون کو رات دیر سے اکیلے باہر نہیں جانا چاہیے تھا، اس بیان نے تنازع کو مزید ہوا دی اور جہاں احتجاج میں شدت آئی وہی پولیس افسر کے خلاف بھی لوگوں نے احتجاج کیا۔
مذکورہ واقعے کی تفصیلات کے حوالے سے بتایا گیا کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔
واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئی تھیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔
اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔
تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظار کررہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔
اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔
تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: متاثرہ خاتون نے ملزم عابد کی شناخت کرلی
بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔
یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔
علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔
تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔
14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا تھا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا۔
بعد ازاں موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو 12 اکتوبر کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔
چار رکنی گینگ کا سربراہ عابد پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج 10 دیگر مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔
پولیس نے 21 اکتوبر کو بتایا کہ کیمپ جیل میں ملزم کی شناخت پریڈ کا عمل مکمل کیا گیا جہاں متاثرہ خاتون نے ملزم کی شناخت کرلی اور اب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی میزبانی میں 20 ستمبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) منعقد ہوئی اور حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا گیا، مشترکہ اعلامیے میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دیں اور اس کے ساتھ ہی 26 نکاتی مطالبات بھی پیش کیے گئے۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ
پی ڈی ایم نے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اپنی پہلی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جہاں اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو، محمود خان اچکزئی کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور عسکری قیادت پر الزامات عائد کیے جس سے ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
نواز شریف نے کہا کہ چند لوگوں کی خواہش ہے کہ میری آواز عوام تک نہ پہنچے اور ان کی آواز مجھ تک نہ پہنچے، لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مار دیا ہے، نہ جانے کس بے شرمی سے یہ لوگ میڈیا پر آکر اِدھر اُدھر کی کہانیاں سناتے ہیں، یہ کس کا قصور ہے؟ عمران خان نیازی کا یہ انہیں لانے والوں کا؟ اصل قصوروار کون ہے؟ عوام کا ووٹ کس نے چوری کیا، انتخابات میں کس نے دھاندلی کی؟ جو ووٹ آپ نے ڈالا تھا وہ کسی اور کے ڈبے میں کیسے پہنچ گیا؟ رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس کس نے بند کیا؟ نتائج کیوں روکے رکھے گئے؟ اور ہاری ہوئی پی ٹی آئی کو کس نے جتوایا؟ عوام کے ووٹ کی امانت میں کس نے خیانت کی؟ کس نے سلیکٹڈ حکومت بنانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا بازار دوبارہ کس نے گرم کیا؟
نواز شریف نے کہا تھا کہ اب اصل قصورواروں کو سامنے لانے سے نہیں ڈریں گے، ہم گائے بھینسیں نہیں ہیں، باضمیر لوگ ہیں اور اپنا ضمیر کبھی نہیں بیچیں گے، عوام کو اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی دو متوازی حکومتوں کا کون ذمہ دار ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے؟ صحافیوں کو اغوا کرکے ان پر تشدد کرنے کا کون ذمہ دار ہے؟' انہوں نے اپنی تقریر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر بھی سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ 'یہ سب کچھ آپ کے ہاتھوں سے ہوا ہے، آپ کو نواز شریف کو غدار کہنا ہے ضرور کہیں، اشتہاری کہنا ہے ضرور کہیں، نواز شریف کے اثاثے جائیداد ضبط کرنا ہے ضرور کریں، جھوٹے مقدمات بنوانے ہیں بنوائیے لیکن نواز شریف مظلوم عوام کی آواز بنتا رہے گا، نواز شریف عوام کو ان کے ووٹ کی عزت دلوا کر رہے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم جلسہ: رہنماؤں کے حکومت پر وار،نواز شریف کا ویڈیو لنک سے خطاب، فوجی قیادت پر الزامات
دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل پی پی پی کے چیئرمین نے غیرملکی میڈیا کو انٹرویو میں نواز شریف کی جانب سے اداروں کے سربراہوں کا نام لینے سے متعلق حیرانی کا اظہار کیا تھا اور کھل کر اس بیان کی حمایت یا تردید نہیں کی۔
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ ملاقات کی خبر میڈیا پر آئی اور ملک میں ایک نئے تنازع نے جنم لیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری قیادت کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات، 'فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے'
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 16ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے تقریباً 15 رہنماؤں نے شرکت کی جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور کچھ حکومتی وزرا نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں شریک چند رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اجلاس کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرنا تھا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے تھی مگر یہ ملاقات اس وقت مختلف شکل اختیار کر گئی جب اس میں گلگت بلتستان انتخابات، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے، اپوزیشن نے اس موقع کو دیگر معاملات پر اپنے تحفظات پیش کرنے کے لیے استعمال کیا بالخصوص فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور احتساب کے بہانے اس کے رہنماؤں پر ظلم و ستم کے الزامات وغیرہ۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان کو مقامی انتخابات کے بعد صوبے کا درجہ دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اس خبر کے بعد اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے خصوصی گفتگو میں آرمی چیف سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں سے متعلق سوال کہا کہ 'چیف آف آرمی اسٹاف سے محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی، ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے مریم نواز اور نواز شریف صاحب سے متعلق بات کی، ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جائے گا'۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست پر نہیں کیں اور ان کا مقصد کوئی ریلیف لینا بھی نہیں تھا۔
نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا تھا کہ 'جنرل قمر جاوید باجوہ سے میرے تعلقات اسکول، کالج کے دور سمیت 40 سے زیادہ عرصے سے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے کیریئر اور میرے پورے کیریئر کے دوران مختلف اوقات میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، خاندانی سطح پر ملاقاتیں رہیں اور کھانا پینا بھی ہوتا رہا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی ملاقاتیں نہیں تھیں'۔
محمد زبیر نے کہا کہ 'میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود مسلم لیگ (ن)، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر کیسز، مریم نواز اور شہباز شریف کے کیسز سے متعلق جتنی بھی مشکلات آئیں کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں کیا، 2018 کے انتخابات میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی میں نے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی درخواست کی، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی پوزیشن حساس ہے اور میں ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں'۔
ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے ملاقات کے آغاز میں ہی واضح کردیا تھا کہ میں یہاں ذاتی، پارٹی یا پھر شہباز شریف، مریم نواز یا نواز شریف کسی کے لیے کوئی ریلیف لینے نہیں آیا اور مجھے کسی نے نہیں بھیجا، میں نے مسلسل دو باتیں بتائیں کہ میں ریلیف لینے یا کسی کے کہنے پر یہاں نہیں آیا اور بحث زیادہ تر معیشت پر تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'آرمی چیف سے حکومت گرانے یا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی بات نہیں کی بلکہ میں نے معیشت پر اعداد و شمار کے ساتھ بات کی، پہلی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی موجود نہیں تھے تاہم دوسری ملاقات میں وہ موجود تھے لیکن وہ میری درخواست نہیں تھی'۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ستمبر میں خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ پیش آیا جس پر ملک بھر میں غم وغصے کا اظہار کیا گیا اور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے اور اسی دوران لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ نے بیان دیا کہ خاتون کو رات دیر سے اکیلے باہر نہیں جانا چاہیے تھا، اس بیان نے تنازع کو مزید ہوا دی اور جہاں احتجاج میں شدت آئی وہی پولیس افسر کے خلاف بھی لوگوں نے احتجاج کیا۔
مذکورہ واقعے کی تفصیلات کے حوالے سے بتایا گیا کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔
واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئی تھیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔
اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔
تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظار کررہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔
اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔
تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: متاثرہ خاتون نے ملزم عابد کی شناخت کرلی
بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔
یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔
علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔
تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔
14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا تھا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا۔
بعد ازاں موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو 12 اکتوبر کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔
چار رکنی گینگ کا سربراہ عابد پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج 10 دیگر مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔
پولیس نے 21 اکتوبر کو بتایا کہ کیمپ جیل میں ملزم کی شناخت پریڈ کا عمل مکمل کیا گیا جہاں متاثرہ خاتون نے ملزم کی شناخت کرلی اور اب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی میزبانی میں 20 ستمبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) منعقد ہوئی اور حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا گیا، مشترکہ اعلامیے میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دیں اور اس کے ساتھ ہی 26 نکاتی مطالبات بھی پیش کیے گئے۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ
پی ڈی ایم نے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اپنی پہلی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جہاں اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو، محمود خان اچکزئی کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور عسکری قیادت پر الزامات عائد کیے جس سے ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
نواز شریف نے کہا کہ چند لوگوں کی خواہش ہے کہ میری آواز عوام تک نہ پہنچے اور ان کی آواز مجھ تک نہ پہنچے، لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مار دیا ہے، نہ جانے کس بے شرمی سے یہ لوگ میڈیا پر آکر اِدھر اُدھر کی کہانیاں سناتے ہیں، یہ کس کا قصور ہے؟ عمران خان نیازی کا یہ انہیں لانے والوں کا؟ اصل قصوروار کون ہے؟ عوام کا ووٹ کس نے چوری کیا، انتخابات میں کس نے دھاندلی کی؟ جو ووٹ آپ نے ڈالا تھا وہ کسی اور کے ڈبے میں کیسے پہنچ گیا؟ رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس کس نے بند کیا؟ نتائج کیوں روکے رکھے گئے؟ اور ہاری ہوئی پی ٹی آئی کو کس نے جتوایا؟ عوام کے ووٹ کی امانت میں کس نے خیانت کی؟ کس نے سلیکٹڈ حکومت بنانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا بازار دوبارہ کس نے گرم کیا؟
نواز شریف نے کہا تھا کہ اب اصل قصورواروں کو سامنے لانے سے نہیں ڈریں گے، ہم گائے بھینسیں نہیں ہیں، باضمیر لوگ ہیں اور اپنا ضمیر کبھی نہیں بیچیں گے، عوام کو اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی دو متوازی حکومتوں کا کون ذمہ دار ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے؟ صحافیوں کو اغوا کرکے ان پر تشدد کرنے کا کون ذمہ دار ہے؟' انہوں نے اپنی تقریر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر بھی سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ 'یہ سب کچھ آپ کے ہاتھوں سے ہوا ہے، آپ کو نواز شریف کو غدار کہنا ہے ضرور کہیں، اشتہاری کہنا ہے ضرور کہیں، نواز شریف کے اثاثے جائیداد ضبط کرنا ہے ضرور کریں، جھوٹے مقدمات بنوانے ہیں بنوائیے لیکن نواز شریف مظلوم عوام کی آواز بنتا رہے گا، نواز شریف عوام کو ان کے ووٹ کی عزت دلوا کر رہے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم جلسہ: رہنماؤں کے حکومت پر وار،نواز شریف کا ویڈیو لنک سے خطاب، فوجی قیادت پر الزامات
دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل پی پی پی کے چیئرمین نے غیرملکی میڈیا کو انٹرویو میں نواز شریف کی جانب سے اداروں کے سربراہوں کا نام لینے سے متعلق حیرانی کا اظہار کیا تھا اور کھل کر اس بیان کی حمایت یا تردید نہیں کی۔
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ ملاقات کی خبر میڈیا پر آئی اور ملک میں ایک نئے تنازع نے جنم لیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری قیادت کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات، 'فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے'
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 16ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے تقریباً 15 رہنماؤں نے شرکت کی جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور کچھ حکومتی وزرا نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں شریک چند رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اجلاس کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرنا تھا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے تھی مگر یہ ملاقات اس وقت مختلف شکل اختیار کر گئی جب اس میں گلگت بلتستان انتخابات، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے، اپوزیشن نے اس موقع کو دیگر معاملات پر اپنے تحفظات پیش کرنے کے لیے استعمال کیا بالخصوص فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور احتساب کے بہانے اس کے رہنماؤں پر ظلم و ستم کے الزامات وغیرہ۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان کو مقامی انتخابات کے بعد صوبے کا درجہ دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اس خبر کے بعد اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے خصوصی گفتگو میں آرمی چیف سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں سے متعلق سوال کہا کہ 'چیف آف آرمی اسٹاف سے محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی، ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے مریم نواز اور نواز شریف صاحب سے متعلق بات کی، ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جائے گا'۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست پر نہیں کیں اور ان کا مقصد کوئی ریلیف لینا بھی نہیں تھا۔
نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا تھا کہ 'جنرل قمر جاوید باجوہ سے میرے تعلقات اسکول، کالج کے دور سمیت 40 سے زیادہ عرصے سے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے کیریئر اور میرے پورے کیریئر کے دوران مختلف اوقات میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، خاندانی سطح پر ملاقاتیں رہیں اور کھانا پینا بھی ہوتا رہا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی ملاقاتیں نہیں تھیں'۔
محمد زبیر نے کہا کہ 'میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود مسلم لیگ (ن)، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر کیسز، مریم نواز اور شہباز شریف کے کیسز سے متعلق جتنی بھی مشکلات آئیں کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں کیا، 2018 کے انتخابات میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی میں نے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی درخواست کی، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی پوزیشن حساس ہے اور میں ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں'۔
ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے ملاقات کے آغاز میں ہی واضح کردیا تھا کہ میں یہاں ذاتی، پارٹی یا پھر شہباز شریف، مریم نواز یا نواز شریف کسی کے لیے کوئی ریلیف لینے نہیں آیا اور مجھے کسی نے نہیں بھیجا، میں نے مسلسل دو باتیں بتائیں کہ میں ریلیف لینے یا کسی کے کہنے پر یہاں نہیں آیا اور بحث زیادہ تر معیشت پر تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'آرمی چیف سے حکومت گرانے یا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی بات نہیں کی بلکہ میں نے معیشت پر اعداد و شمار کے ساتھ بات کی، پہلی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی موجود نہیں تھے تاہم دوسری ملاقات میں وہ موجود تھے لیکن وہ میری درخواست نہیں تھی'۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ستمبر میں خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کا واقعہ پیش آیا جس پر ملک بھر میں غم وغصے کا اظہار کیا گیا اور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے اور اسی دوران لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ نے بیان دیا کہ خاتون کو رات دیر سے اکیلے باہر نہیں جانا چاہیے تھا، اس بیان نے تنازع کو مزید ہوا دی اور جہاں احتجاج میں شدت آئی وہی پولیس افسر کے خلاف بھی لوگوں نے احتجاج کیا۔
مذکورہ واقعے کی تفصیلات کے حوالے سے بتایا گیا کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔
واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئی تھیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔
اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔
تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظار کررہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔
اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔
تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: متاثرہ خاتون نے ملزم عابد کی شناخت کرلی
بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔
یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔
علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔
تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔
14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا تھا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا۔
بعد ازاں موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو 12 اکتوبر کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔
چار رکنی گینگ کا سربراہ عابد پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج 10 دیگر مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔
پولیس نے 21 اکتوبر کو بتایا کہ کیمپ جیل میں ملزم کی شناخت پریڈ کا عمل مکمل کیا گیا جہاں متاثرہ خاتون نے ملزم کی شناخت کرلی اور اب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی میزبانی میں 20 ستمبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) منعقد ہوئی اور حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا گیا، مشترکہ اعلامیے میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دیں اور اس کے ساتھ ہی 26 نکاتی مطالبات بھی پیش کیے گئے۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ
پی ڈی ایم نے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اپنی پہلی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جہاں اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو، محمود خان اچکزئی کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور عسکری قیادت پر الزامات عائد کیے جس سے ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
نواز شریف نے کہا کہ چند لوگوں کی خواہش ہے کہ میری آواز عوام تک نہ پہنچے اور ان کی آواز مجھ تک نہ پہنچے، لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مار دیا ہے، نہ جانے کس بے شرمی سے یہ لوگ میڈیا پر آکر اِدھر اُدھر کی کہانیاں سناتے ہیں، یہ کس کا قصور ہے؟ عمران خان نیازی کا یہ انہیں لانے والوں کا؟ اصل قصوروار کون ہے؟ عوام کا ووٹ کس نے چوری کیا، انتخابات میں کس نے دھاندلی کی؟ جو ووٹ آپ نے ڈالا تھا وہ کسی اور کے ڈبے میں کیسے پہنچ گیا؟ رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس کس نے بند کیا؟ نتائج کیوں روکے رکھے گئے؟ اور ہاری ہوئی پی ٹی آئی کو کس نے جتوایا؟ عوام کے ووٹ کی امانت میں کس نے خیانت کی؟ کس نے سلیکٹڈ حکومت بنانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا بازار دوبارہ کس نے گرم کیا؟
نواز شریف نے کہا تھا کہ اب اصل قصورواروں کو سامنے لانے سے نہیں ڈریں گے، ہم گائے بھینسیں نہیں ہیں، باضمیر لوگ ہیں اور اپنا ضمیر کبھی نہیں بیچیں گے، عوام کو اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی دو متوازی حکومتوں کا کون ذمہ دار ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے؟ صحافیوں کو اغوا کرکے ان پر تشدد کرنے کا کون ذمہ دار ہے؟' انہوں نے اپنی تقریر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر بھی سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ 'یہ سب کچھ آپ کے ہاتھوں سے ہوا ہے، آپ کو نواز شریف کو غدار کہنا ہے ضرور کہیں، اشتہاری کہنا ہے ضرور کہیں، نواز شریف کے اثاثے جائیداد ضبط کرنا ہے ضرور کریں، جھوٹے مقدمات بنوانے ہیں بنوائیے لیکن نواز شریف مظلوم عوام کی آواز بنتا رہے گا، نواز شریف عوام کو ان کے ووٹ کی عزت دلوا کر رہے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم جلسہ: رہنماؤں کے حکومت پر وار،نواز شریف کا ویڈیو لنک سے خطاب، فوجی قیادت پر الزامات
دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل پی پی پی کے چیئرمین نے غیرملکی میڈیا کو انٹرویو میں نواز شریف کی جانب سے اداروں کے سربراہوں کا نام لینے سے متعلق حیرانی کا اظہار کیا تھا اور کھل کر اس بیان کی حمایت یا تردید نہیں کی۔
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ ملاقات کی خبر میڈیا پر آئی اور ملک میں ایک نئے تنازع نے جنم لیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری قیادت کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات، 'فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے'
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 16ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے تقریباً 15 رہنماؤں نے شرکت کی جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور کچھ حکومتی وزرا نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں شریک چند رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اجلاس کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرنا تھا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے تھی مگر یہ ملاقات اس وقت مختلف شکل اختیار کر گئی جب اس میں گلگت بلتستان انتخابات، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے، اپوزیشن نے اس موقع کو دیگر معاملات پر اپنے تحفظات پیش کرنے کے لیے استعمال کیا بالخصوص فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور احتساب کے بہانے اس کے رہنماؤں پر ظلم و ستم کے الزامات وغیرہ۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان کو مقامی انتخابات کے بعد صوبے کا درجہ دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اس خبر کے بعد اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے خصوصی گفتگو میں آرمی چیف سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں سے متعلق سوال کہا کہ 'چیف آف آرمی اسٹاف سے محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی، ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے مریم نواز اور نواز شریف صاحب سے متعلق بات کی، ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جائے گا'۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست پر نہیں کیں اور ان کا مقصد کوئی ریلیف لینا بھی نہیں تھا۔
نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا تھا کہ 'جنرل قمر جاوید باجوہ سے میرے تعلقات اسکول، کالج کے دور سمیت 40 سے زیادہ عرصے سے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے کیریئر اور میرے پورے کیریئر کے دوران مختلف اوقات میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، خاندانی سطح پر ملاقاتیں رہیں اور کھانا پینا بھی ہوتا رہا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی ملاقاتیں نہیں تھیں'۔
محمد زبیر نے کہا کہ 'میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود مسلم لیگ (ن)، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر کیسز، مریم نواز اور شہباز شریف کے کیسز سے متعلق جتنی بھی مشکلات آئیں کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں کیا، 2018 کے انتخابات میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی میں نے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی درخواست کی، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی پوزیشن حساس ہے اور میں ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں'۔
ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے ملاقات کے آغاز میں ہی واضح کردیا تھا کہ میں یہاں ذاتی، پارٹی یا پھر شہباز شریف، مریم نواز یا نواز شریف کسی کے لیے کوئی ریلیف لینے نہیں آیا اور مجھے کسی نے نہیں بھیجا، میں نے مسلسل دو باتیں بتائیں کہ میں ریلیف لینے یا کسی کے کہنے پر یہاں نہیں آیا اور بحث زیادہ تر معیشت پر تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'آرمی چیف سے حکومت گرانے یا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی بات نہیں کی بلکہ میں نے معیشت پر اعداد و شمار کے ساتھ بات کی، پہلی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی موجود نہیں تھے تاہم دوسری ملاقات میں وہ موجود تھے لیکن وہ میری درخواست نہیں تھی'۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی میزبانی میں 20 ستمبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) منعقد ہوئی اور حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا گیا، مشترکہ اعلامیے میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دیں اور اس کے ساتھ ہی 26 نکاتی مطالبات بھی پیش کیے گئے۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ
پی ڈی ایم نے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اپنی پہلی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جہاں اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو، محمود خان اچکزئی کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور عسکری قیادت پر الزامات عائد کیے جس سے ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
نواز شریف نے کہا کہ چند لوگوں کی خواہش ہے کہ میری آواز عوام تک نہ پہنچے اور ان کی آواز مجھ تک نہ پہنچے، لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مار دیا ہے، نہ جانے کس بے شرمی سے یہ لوگ میڈیا پر آکر اِدھر اُدھر کی کہانیاں سناتے ہیں، یہ کس کا قصور ہے؟ عمران خان نیازی کا یہ انہیں لانے والوں کا؟ اصل قصوروار کون ہے؟ عوام کا ووٹ کس نے چوری کیا، انتخابات میں کس نے دھاندلی کی؟ جو ووٹ آپ نے ڈالا تھا وہ کسی اور کے ڈبے میں کیسے پہنچ گیا؟ رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس کس نے بند کیا؟ نتائج کیوں روکے رکھے گئے؟ اور ہاری ہوئی پی ٹی آئی کو کس نے جتوایا؟ عوام کے ووٹ کی امانت میں کس نے خیانت کی؟ کس نے سلیکٹڈ حکومت بنانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا بازار دوبارہ کس نے گرم کیا؟
نواز شریف نے کہا تھا کہ اب اصل قصورواروں کو سامنے لانے سے نہیں ڈریں گے، ہم گائے بھینسیں نہیں ہیں، باضمیر لوگ ہیں اور اپنا ضمیر کبھی نہیں بیچیں گے، عوام کو اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی دو متوازی حکومتوں کا کون ذمہ دار ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے؟ صحافیوں کو اغوا کرکے ان پر تشدد کرنے کا کون ذمہ دار ہے؟' انہوں نے اپنی تقریر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر بھی سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ 'یہ سب کچھ آپ کے ہاتھوں سے ہوا ہے، آپ کو نواز شریف کو غدار کہنا ہے ضرور کہیں، اشتہاری کہنا ہے ضرور کہیں، نواز شریف کے اثاثے جائیداد ضبط کرنا ہے ضرور کریں، جھوٹے مقدمات بنوانے ہیں بنوائیے لیکن نواز شریف مظلوم عوام کی آواز بنتا رہے گا، نواز شریف عوام کو ان کے ووٹ کی عزت دلوا کر رہے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم جلسہ: رہنماؤں کے حکومت پر وار،نواز شریف کا ویڈیو لنک سے خطاب، فوجی قیادت پر الزامات
دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل پی پی پی کے چیئرمین نے غیرملکی میڈیا کو انٹرویو میں نواز شریف کی جانب سے اداروں کے سربراہوں کا نام لینے سے متعلق حیرانی کا اظہار کیا تھا اور کھل کر اس بیان کی حمایت یا تردید نہیں کی۔
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ ملاقات کی خبر میڈیا پر آئی اور ملک میں ایک نئے تنازع نے جنم لیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری قیادت کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات، 'فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے'
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 16ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے تقریباً 15 رہنماؤں نے شرکت کی جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور کچھ حکومتی وزرا نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں شریک چند رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اجلاس کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرنا تھا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے تھی مگر یہ ملاقات اس وقت مختلف شکل اختیار کر گئی جب اس میں گلگت بلتستان انتخابات، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے، اپوزیشن نے اس موقع کو دیگر معاملات پر اپنے تحفظات پیش کرنے کے لیے استعمال کیا بالخصوص فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور احتساب کے بہانے اس کے رہنماؤں پر ظلم و ستم کے الزامات وغیرہ۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان کو مقامی انتخابات کے بعد صوبے کا درجہ دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اس خبر کے بعد اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے خصوصی گفتگو میں آرمی چیف سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں سے متعلق سوال کہا کہ 'چیف آف آرمی اسٹاف سے محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی، ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے مریم نواز اور نواز شریف صاحب سے متعلق بات کی، ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جائے گا'۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست پر نہیں کیں اور ان کا مقصد کوئی ریلیف لینا بھی نہیں تھا۔
نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا تھا کہ 'جنرل قمر جاوید باجوہ سے میرے تعلقات اسکول، کالج کے دور سمیت 40 سے زیادہ عرصے سے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے کیریئر اور میرے پورے کیریئر کے دوران مختلف اوقات میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، خاندانی سطح پر ملاقاتیں رہیں اور کھانا پینا بھی ہوتا رہا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی ملاقاتیں نہیں تھیں'۔
محمد زبیر نے کہا کہ 'میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود مسلم لیگ (ن)، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر کیسز، مریم نواز اور شہباز شریف کے کیسز سے متعلق جتنی بھی مشکلات آئیں کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں کیا، 2018 کے انتخابات میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی میں نے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی درخواست کی، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی پوزیشن حساس ہے اور میں ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں'۔
ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے ملاقات کے آغاز میں ہی واضح کردیا تھا کہ میں یہاں ذاتی، پارٹی یا پھر شہباز شریف، مریم نواز یا نواز شریف کسی کے لیے کوئی ریلیف لینے نہیں آیا اور مجھے کسی نے نہیں بھیجا، میں نے مسلسل دو باتیں بتائیں کہ میں ریلیف لینے یا کسی کے کہنے پر یہاں نہیں آیا اور بحث زیادہ تر معیشت پر تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'آرمی چیف سے حکومت گرانے یا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی بات نہیں کی بلکہ میں نے معیشت پر اعداد و شمار کے ساتھ بات کی، پہلی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی موجود نہیں تھے تاہم دوسری ملاقات میں وہ موجود تھے لیکن وہ میری درخواست نہیں تھی'۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی میزبانی میں 20 ستمبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) منعقد ہوئی اور حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا گیا، مشترکہ اعلامیے میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دیں اور اس کے ساتھ ہی 26 نکاتی مطالبات بھی پیش کیے گئے۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ
پی ڈی ایم نے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اپنی پہلی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جہاں اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو، محمود خان اچکزئی کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور عسکری قیادت پر الزامات عائد کیے جس سے ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔
نواز شریف نے کہا کہ چند لوگوں کی خواہش ہے کہ میری آواز عوام تک نہ پہنچے اور ان کی آواز مجھ تک نہ پہنچے، لیکن وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو مار دیا ہے، نہ جانے کس بے شرمی سے یہ لوگ میڈیا پر آکر اِدھر اُدھر کی کہانیاں سناتے ہیں، یہ کس کا قصور ہے؟ عمران خان نیازی کا یہ انہیں لانے والوں کا؟ اصل قصوروار کون ہے؟ عوام کا ووٹ کس نے چوری کیا، انتخابات میں کس نے دھاندلی کی؟ جو ووٹ آپ نے ڈالا تھا وہ کسی اور کے ڈبے میں کیسے پہنچ گیا؟ رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس کس نے بند کیا؟ نتائج کیوں روکے رکھے گئے؟ اور ہاری ہوئی پی ٹی آئی کو کس نے جتوایا؟ عوام کے ووٹ کی امانت میں کس نے خیانت کی؟ کس نے سلیکٹڈ حکومت بنانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا بازار دوبارہ کس نے گرم کیا؟
نواز شریف نے کہا تھا کہ اب اصل قصورواروں کو سامنے لانے سے نہیں ڈریں گے، ہم گائے بھینسیں نہیں ہیں، باضمیر لوگ ہیں اور اپنا ضمیر کبھی نہیں بیچیں گے، عوام کو اس کے ساتھ ظلم کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی دو متوازی حکومتوں کا کون ذمہ دار ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے؟ صحافیوں کو اغوا کرکے ان پر تشدد کرنے کا کون ذمہ دار ہے؟' انہوں نے اپنی تقریر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر بھی سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ 'یہ سب کچھ آپ کے ہاتھوں سے ہوا ہے، آپ کو نواز شریف کو غدار کہنا ہے ضرور کہیں، اشتہاری کہنا ہے ضرور کہیں، نواز شریف کے اثاثے جائیداد ضبط کرنا ہے ضرور کریں، جھوٹے مقدمات بنوانے ہیں بنوائیے لیکن نواز شریف مظلوم عوام کی آواز بنتا رہے گا، نواز شریف عوام کو ان کے ووٹ کی عزت دلوا کر رہے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم جلسہ: رہنماؤں کے حکومت پر وار،نواز شریف کا ویڈیو لنک سے خطاب، فوجی قیادت پر الزامات
دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل پی پی پی کے چیئرمین نے غیرملکی میڈیا کو انٹرویو میں نواز شریف کی جانب سے اداروں کے سربراہوں کا نام لینے سے متعلق حیرانی کا اظہار کیا تھا اور کھل کر اس بیان کی حمایت یا تردید نہیں کی۔
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ ملاقات کی خبر میڈیا پر آئی اور ملک میں ایک نئے تنازع نے جنم لیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری قیادت کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات، 'فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے'
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 16ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے تقریباً 15 رہنماؤں نے شرکت کی جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور کچھ حکومتی وزرا نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں شریک چند رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اجلاس کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرنا تھا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے تھی مگر یہ ملاقات اس وقت مختلف شکل اختیار کر گئی جب اس میں گلگت بلتستان انتخابات، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے، اپوزیشن نے اس موقع کو دیگر معاملات پر اپنے تحفظات پیش کرنے کے لیے استعمال کیا بالخصوص فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور احتساب کے بہانے اس کے رہنماؤں پر ظلم و ستم کے الزامات وغیرہ۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان کو مقامی انتخابات کے بعد صوبے کا درجہ دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اس خبر کے بعد اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے خصوصی گفتگو میں آرمی چیف سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں سے متعلق سوال کہا کہ 'چیف آف آرمی اسٹاف سے محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی، ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے مریم نواز اور نواز شریف صاحب سے متعلق بات کی، ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جائے گا'۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست پر نہیں کیں اور ان کا مقصد کوئی ریلیف لینا بھی نہیں تھا۔
نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا تھا کہ 'جنرل قمر جاوید باجوہ سے میرے تعلقات اسکول، کالج کے دور سمیت 40 سے زیادہ عرصے سے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے کیریئر اور میرے پورے کیریئر کے دوران مختلف اوقات میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، خاندانی سطح پر ملاقاتیں رہیں اور کھانا پینا بھی ہوتا رہا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی ملاقاتیں نہیں تھیں'۔
محمد زبیر نے کہا کہ 'میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود مسلم لیگ (ن)، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر کیسز، مریم نواز اور شہباز شریف کے کیسز سے متعلق جتنی بھی مشکلات آئیں کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں کیا، 2018 کے انتخابات میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی میں نے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی درخواست کی، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی پوزیشن حساس ہے اور میں ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں'۔
ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے ملاقات کے آغاز میں ہی واضح کردیا تھا کہ میں یہاں ذاتی، پارٹی یا پھر شہباز شریف، مریم نواز یا نواز شریف کسی کے لیے کوئی ریلیف لینے نہیں آیا اور مجھے کسی نے نہیں بھیجا، میں نے مسلسل دو باتیں بتائیں کہ میں ریلیف لینے یا کسی کے کہنے پر یہاں نہیں آیا اور بحث زیادہ تر معیشت پر تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'آرمی چیف سے حکومت گرانے یا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی بات نہیں کی بلکہ میں نے معیشت پر اعداد و شمار کے ساتھ بات کی، پہلی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی موجود نہیں تھے تاہم دوسری ملاقات میں وہ موجود تھے لیکن وہ میری درخواست نہیں تھی'۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ ملاقات کی خبر میڈیا پر آئی اور ملک میں ایک نئے تنازع نے جنم لیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری قیادت کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات، 'فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے'
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 16ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے تقریباً 15 رہنماؤں نے شرکت کی جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور کچھ حکومتی وزرا نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں شریک چند رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اجلاس کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرنا تھا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے تھی مگر یہ ملاقات اس وقت مختلف شکل اختیار کر گئی جب اس میں گلگت بلتستان انتخابات، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے، اپوزیشن نے اس موقع کو دیگر معاملات پر اپنے تحفظات پیش کرنے کے لیے استعمال کیا بالخصوص فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور احتساب کے بہانے اس کے رہنماؤں پر ظلم و ستم کے الزامات وغیرہ۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان کو مقامی انتخابات کے بعد صوبے کا درجہ دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اس خبر کے بعد اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے خصوصی گفتگو میں آرمی چیف سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں سے متعلق سوال کہا کہ 'چیف آف آرمی اسٹاف سے محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی، ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے مریم نواز اور نواز شریف صاحب سے متعلق بات کی، ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جائے گا'۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست پر نہیں کیں اور ان کا مقصد کوئی ریلیف لینا بھی نہیں تھا۔
نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا تھا کہ 'جنرل قمر جاوید باجوہ سے میرے تعلقات اسکول، کالج کے دور سمیت 40 سے زیادہ عرصے سے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے کیریئر اور میرے پورے کیریئر کے دوران مختلف اوقات میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، خاندانی سطح پر ملاقاتیں رہیں اور کھانا پینا بھی ہوتا رہا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی ملاقاتیں نہیں تھیں'۔
محمد زبیر نے کہا کہ 'میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود مسلم لیگ (ن)، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر کیسز، مریم نواز اور شہباز شریف کے کیسز سے متعلق جتنی بھی مشکلات آئیں کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں کیا، 2018 کے انتخابات میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی میں نے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی درخواست کی، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی پوزیشن حساس ہے اور میں ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں'۔
ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے ملاقات کے آغاز میں ہی واضح کردیا تھا کہ میں یہاں ذاتی، پارٹی یا پھر شہباز شریف، مریم نواز یا نواز شریف کسی کے لیے کوئی ریلیف لینے نہیں آیا اور مجھے کسی نے نہیں بھیجا، میں نے مسلسل دو باتیں بتائیں کہ میں ریلیف لینے یا کسی کے کہنے پر یہاں نہیں آیا اور بحث زیادہ تر معیشت پر تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'آرمی چیف سے حکومت گرانے یا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی بات نہیں کی بلکہ میں نے معیشت پر اعداد و شمار کے ساتھ بات کی، پہلی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی موجود نہیں تھے تاہم دوسری ملاقات میں وہ موجود تھے لیکن وہ میری درخواست نہیں تھی'۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیاسی جماعتوں کی خفیہ ملاقات کی خبر میڈیا پر آئی اور ملک میں ایک نئے تنازع نے جنم لیا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری قیادت کی اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات، 'فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے'
ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 16ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات میں اپوزیشن کے تقریباً 15 رہنماؤں نے شرکت کی جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف، احسن اقبال، پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن اور کچھ حکومتی وزرا نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں شریک چند رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اجلاس کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرنا تھا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے لیے تھی مگر یہ ملاقات اس وقت مختلف شکل اختیار کر گئی جب اس میں گلگت بلتستان انتخابات، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر سیاسی معاملات بھی زیر بحث آئے، اپوزیشن نے اس موقع کو دیگر معاملات پر اپنے تحفظات پیش کرنے کے لیے استعمال کیا بالخصوص فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت اور احتساب کے بہانے اس کے رہنماؤں پر ظلم و ستم کے الزامات وغیرہ۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے گلگت بلتستان کو مقامی انتخابات کے بعد صوبے کا درجہ دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اس خبر کے بعد اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' سے خصوصی گفتگو میں آرمی چیف سے سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتوں سے متعلق سوال کہا کہ 'چیف آف آرمی اسٹاف سے محمد زبیر نے دو مرتبہ ملاقات کی، ایک ملاقات اگست کے آخری ہفتے اور دوسری ملاقات 7 ستمبر کو ہوئی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'دونوں ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں اور ان میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے، دونوں ملاقاتوں میں انہوں نے مریم نواز اور نواز شریف صاحب سے متعلق بات کی، ان ملاقاتوں میں آرمی چیف نے واضح کیا کہ ان کے قانونی مسائل پاکستان کی عدالتوں اور سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل ہوں گے اور فوج کو ان معاملات سے دور رکھا جائے گا'۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی درخواست پر نہیں کیں اور ان کا مقصد کوئی ریلیف لینا بھی نہیں تھا۔
نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں بات کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا تھا کہ 'جنرل قمر جاوید باجوہ سے میرے تعلقات اسکول، کالج کے دور سمیت 40 سے زیادہ عرصے سے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ان کے کیریئر اور میرے پورے کیریئر کے دوران مختلف اوقات میں ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، خاندانی سطح پر ملاقاتیں رہیں اور کھانا پینا بھی ہوتا رہا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی ملاقاتیں نہیں تھیں'۔
محمد زبیر نے کہا کہ 'میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود مسلم لیگ (ن)، نواز شریف کی نااہلی اور دیگر کیسز، مریم نواز اور شہباز شریف کے کیسز سے متعلق جتنی بھی مشکلات آئیں کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں کیا، 2018 کے انتخابات میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی میں نے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کوئی درخواست کی، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کی پوزیشن حساس ہے اور میں ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں'۔
ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے ملاقات کے آغاز میں ہی واضح کردیا تھا کہ میں یہاں ذاتی، پارٹی یا پھر شہباز شریف، مریم نواز یا نواز شریف کسی کے لیے کوئی ریلیف لینے نہیں آیا اور مجھے کسی نے نہیں بھیجا، میں نے مسلسل دو باتیں بتائیں کہ میں ریلیف لینے یا کسی کے کہنے پر یہاں نہیں آیا اور بحث زیادہ تر معیشت پر تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'آرمی چیف سے حکومت گرانے یا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی بات نہیں کی بلکہ میں نے معیشت پر اعداد و شمار کے ساتھ بات کی، پہلی ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی موجود نہیں تھے تاہم دوسری ملاقات میں وہ موجود تھے لیکن وہ میری درخواست نہیں تھی'۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا جس کے بعد 4 اکتوبر کو ایک شہری کی مدعیت میں نواز شریف اور آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کی سنیئر قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا، میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مقدمے کے مدعی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن ہیں۔
لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں شہری بدر رشید کی مدعیت میں نواز شریف اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 121، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 123 اے (ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) اور 505 اور برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کی شق 10 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 'سزا یافتہ نواز شریف علاج کروانے کے بجائے لندن میں بیٹھ کر ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کے تحت پاکستان اور اس کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے نفرت اور اشتعال انگریز تقاریر کر رہے ہیں'۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 'مجرم نواز شریف نے اپنے 20 ستمبر اور یکم اکتوبر 2020 کے خطابات دشمن ملک بھارت کی بیان کردہ پالیسی کی تائید میں کیے تاکہ پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے آئندہ اجلاس میں گرے لسٹ میں ہی رہے'۔
ایف آئی آر میں دیگر لیگی رہنماؤں کو نامزد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان لوگوں نے نواز شریف کی تقاریر کی تائید کی، جس میں وزیراعظم آزاد جموں کشمیر راجا فاروق حیدر، سینیٹ کے سابق قائد اعوان راجا ظفر الحق، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق و دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ مدعی پی ٹی آئی کے کارکن ہیں اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہیں جبکہ گورنر پنجاب محمد سرور کے ساتھ ان کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔
راجا فاروق حیدر کا نام غداری کے مقدمے میں شامل کرنے پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر تنقید کی گئی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت دیگر رہنماؤں کے نام مقدمے سے خارج کیے گئے تاہم نوازشریف کا نام بدستور موجود ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور اس جلسے سے پہلے اور بعد میں بھی سیاسی حوالے سے گرما گرمی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی، کراچی پہنچنے کے بعد انہوں نے قافلے کی شکل میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جہاں کیپٹن (ر) صفدر نے مادر ملت زندہ باد اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے، جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے شدید تنقید کی اور مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پہنچ گئے اور پولیس پر دباؤ ڈالا لیکن مقدمہ درج نہ ہو سکا جبکہ سندھ پولیس نے 19 اکتوبر کو علی الصبح کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا، وہ جلسے میں شرکت کے بعد مریم نواز کے ہمراہ کراچی کے ہوٹل میں مقیم تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا کہ 'پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا'۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا، میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔
بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ 'مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے اہلکاروں کو بھیجیں'، محمد زبیر کے حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے انہیں اغوا کیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا'۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس اقدام کی مذمت کی جبکہ عدالت نے اسے روز کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کی اور انہیں رہا کردیا گیا۔
بعد ازاں آئی جی سندھ سمیت صوبے کی پولیس کی اعلیٰ قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دی اور پولیس کے اچانک فیصلے پر حکومت سندھ اور خاص کر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سخت ردعمل دیا، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے پولیس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ مذکورہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا اور پولیس حکام سے اپنی درخواستیں مؤخر کرنے کی اپیل کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا، افسران پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے’۔
چیئرمین پی پی پی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔
بعد ازاں آرمی چیف نے بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی اور کور کمانڈر کراچی کو فوری طور پر حقائق کا تعین کرنے کے لیے انکوائری اور جلد از جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
علاوہ ازیں 10 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے اور کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ 'کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے'۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 'ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورت حال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا، کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے'۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔
جس پر بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ٹوئٹر پر 'مسترد' کیا، جس کے بعد میڈیا پر بحث چھڑ گئی کہ نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے طرز پر 'ریجیکٹڈ' لکھ کر اس کا جواب دیا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔
وفاقی حکومت نے ملک میں سیاحت اور بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سندھ کے دو جزائر بنڈل اور بڈو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا اعلان اور اس مقصد کے لیے صدر عارف علوی کی جانب سے 31 اگست 2020 کو 'پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی' کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا، جسے اگلے ہی روز نوٹیفائی کردیا گیا تھا اور صدر مملکت نے ریئل اسٹیٹ ٹائیکون اور تاجر ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈھی اور عارف حبیب سے جزیرہ بنڈل پر مستقبل میں ترقی کے حوالے سے بات کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 نافذ کرنے کا مقصد بنڈل اور بڈو جزائر کا کنٹرول حاصل کر کے ان کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا تھا۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے مقامی اور ریاستی حدود کے پانیوں میں موجود جزائر کی ترقی اور انتظام' کے لیے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں صرف بنڈل اور بڈو جزائر کو ’مخصوص علاقوں‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا، پی آئی ڈی اے براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہوگی جو اس اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے، اس کے علاوہ وہ پالیسیوں اور تمام ترقیاتی اسکیموں کی منظوری بھی دیں گے۔
وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے، پاکستان آئرلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس کراچی میں ہوگا لیکن حکومت نے مختلف علاقوں میں مقامی دفاتر قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے، آرڈیننس میں بتایا گیا کہ اتھارٹی کراچی میں ایک اور زمین کی ملکیت والے ادارے کے طور پر کام کرے گی اور مکمل بااختیار مقامی حکومت کے فرائض سرانجام دے گی۔
صدارتی آرڈیننس کی دفعہ 5 میں اتھارٹی کے افعال سے متعلق کچھ شقوں میں کہا گیا کہ اتھارٹی بنڈل اور بڈو جزائر کو بہتر بنانے، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور مقامی منصوبہ بندی کے عمل کا آغاز کرے گی اور اسے جاری رکھے گی تاکہ ان دونوں جزائر کو 'تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام' کے طور پر ترقی دی جاسکے، اتھارٹی مختلف ذرائع سے فنڈ اکٹھے کرسکتی ہے جس میں ریئل اسٹیٹ انویسمنٹس ٹرسٹس، بانڈز، سکوک، عطیہ دہندگان، حکومتی محکموں اور مالیاتی اداروں سے قرض کا حصول شامل ہے، مزید یہ کہ اتھارٹی کو اپنی بجلی کی پیداوار اور بڑی مقدار میں یوٹیلیٹیز حاصل کرنے کی اجازت بھی ہے، پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کسی بھی زمین کا حصول برقرار رکھنے، لیز، فروخت، تبادلے یا کرائے پر دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کے اس آرڈیننس کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کو صوبائی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا اور اس معاملے پر کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل کے ساتھ جڑواں جزیروں پر نیا شہر بنانے کے منصوبہ مسترد
بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ اور ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کابینہ نے اس آرڈیننس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے، صوبائی کابینہ نے وفاقی حکومت کے اس عمل کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت فی الفور پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا غیر قانونی اور غیر آئینی آرڈیننس واپس لے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی زمین اور اختیارات پر تجاوزات کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ سندھ حکومت ان جزائر کے حوالے سے عرصہ دراز سے کہتی چلی آئی ہے کہ یہ جزیرے صوبہ سندھ کی حکومت اور سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں، اسی طرح جب وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے کہا تھا کہ یہ جزائر ہمارے ہیں اور اس پر ڈیولپمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو واضح کردیا گیا تھا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے کہا کہ میں برملا کہوں گا کہ یہ جزائر سندھ کی حکومت اور عوام کی ملکیت تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، یہ آئین پاکستان کہتا ہے جس پر عمل کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جزائر کی ڈیولپمنٹ کے لیے بات کی تو سندھ حکومت نے 4 نکات ان کے سامنے رکھے تھے اور وفاقی حکومت کا یہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس لیے اسے اپنے آئینی اور قانونی قیود میں رہ کر اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی حکومت کے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ غیر قانونی الحاق کے مترادف قرار دیا تھا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پی پی کے رہنما رضا ربانی نے اس آرڈیننس کو ’صریحاً سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش قرار دیا‘ اور کہا کہ یہ آرڈیننس ’بدنیتی پر مبنی ارادوں‘ کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، اٹھارویں ترمیم کے تحت ’وفاقی حکومت ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبوں کی ملکیت ہیں تاکہ وہاں سرمایہ داروں کو رہائشی اور دیگر منصوبوں بشمول سیاحت کی اجازت دے کر مالیاتی فوائد کا استحصال کرسکے۔
حکومت سندھ کے اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے اعتراضات ختم کرکے ان جزائر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہاں سے حاصل ہونے والا سرمایہ بھی صوبائی خزانے میں چلایا جائے گا لیکن تاحال اس معاملے پر اتفاق رائے سامنے نہیں آئی۔