ہیکرز کے امریکی وزارت خزانہ اور محکمہ کامرس کے نیٹ ورکس پر حملے
ہیکرز نے امریکی وزارت خزانہ اور محکمہ کامرس کے نیٹ ورکس کو نشانہ بنایا ہے جس کے بعد امریکی سیکیورٹی اداروں نے تحقیقات کا آغاز کر دیا۔
یہ واقعہ ایک ایسے موقع پر پیش آیا ہے جب کچھ دن قبل ہی امریکی عہدے داروں نے خبردار کیا تھا کہ روسی حکومت کے سائبر ہیکرز حساس ڈیٹا کو نشانہ بنانے کے لیے آسان اہداف سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوشاں ہیں۔
مزید پڑھیں: ایران سے تعلق رکھنے والے ہیکرز نے کاروبار کو ہدف بنایا، مائیکروسافٹ
امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ایف بی آئی اور محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کا سائبر سیکیورٹی ونگ معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے کیونکہ ماہرین اور سابق عہدے داروں کا ماننا ہے کہ امریکی سرکاری اداروں میں بڑے پیمانے پر ہیکنگ کی کوشش کی گئی ہے۔
سائبر سیکیورٹی ماہر دمتری ایلپروچ نے کہا کہ یہ اب تک کی جاسوسی کی ایک مضبوط اور سب سے زیادہ اثرات کی حامل کوشش ہے۔
کچھ دن قبل ہی سائبر سیکیورٹی کی ایک بڑی کمپنی کی جانب سے انکشاف کیا گیا تھا کہ ان کے نیٹ ورکس میں کسی غیر ملکی حکومت کے ہیکرز نے داخل ہو کر معلومات چوری کر لی ہیں۔
ماہرین کو شک ہے کہ روس سائبر سیکیورٹی کی ایک بڑی کمپنی فائر آئی اس حملے کی ذمہ دار ہے جس کے صارفین میں امریکی وفاقی ادارے، ریاستی اور مقامی حکومتیں اور صف اول کی بین الاقوامی کارپوریشنز شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈان نیوز چینل پر ہیکرز کا حملہ، اسکرین پر بھارتی ترنگا لہرانے کی تحقیقات
یہ معلوم ہوا ہے کہ محکمہ خزانہ اور کامرس کی اس ہیکنگ اور فائر آئی سے چوری میں یکساں طور پر سولر ونڈز نامی ایک اہم سرور سافٹ ویئر کا استعمال کیا گیا ہے۔
سائبر سیکیورٹی فرم کراؤڈ اسٹرائک کے سابق چیف ٹیکنیکل آفیسر دمتری ایلپروچ نے کہا کہ عالمی سطح پر یہ سرور سافٹ وئیر ہزاروں ادارے استعمال کرتے ہیں جن میں زیادہ تر دنیا کی 500 اہم مالیاتی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ متعدد امریکی سرکاری ادارے بھی شامل ہیں۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب کم و بیش ایک ہفتہ قبل امریکی میں قومی سلامتی کے ادارے نے خبردار کیا تھا کہ روسی حکومت کے ہیکرز وفاقی حکومت کے زیر استعمال نظام میں کمزوریوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں جس کی بدولت وہ باآسانی محفوظ اعداد و شمار تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
البتہ امریکی حکومت نے ابھی تک اس ہیکنگ کا الزام براہ راست روس پر عائد نہیں کیا، مذکورہ واقعے کی اطلاع سب سے پہلے خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے دی تھی لیکن اس واقعے میں کسی کے ملوث ہونے کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں دی گئیں۔
امریکا کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان ایلیٹ نے بیان میں کہا کہ حکومت صورت حال سے متعلق ممکنہ مسائل کی نشاندہی اور روک تھام کے لیے تمام ضروری اقدامات کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں: امریکا: کیپٹل ون کے 10 کروڑ صارفین کی معلومات ہیک
سرکاری سائبر سیکیورٹی اینڈ انفرا اسٹرکچر سیکیورٹی ایجنسی نے اپنے بیانات میں کہا کہ وہ حکومتی اداروں کے نیٹ ورکس پر منظر عام پر آنے والی سرگرمیوں پر ’دیگر ایجنسیوں سے مل کر کام کر رہے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ سائبر سیکیورٹی اینڈ انفرا اسٹرکچر سیکیورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر کرس کریبز کو برطرف کر دیا تھا کیونکہ کریبز اس بات پر زور دے رہے تھے کہ انتخابات شفاف تھے اور انہوں نے ٹرمپ کے بڑے پیمانے پر انتخابی دھاندلی کے دعوؤں کو متنازع قرار دیا تھا۔
اتوار کو اپنی ایک ٹوئٹ میں کریبز نے کہا کہ اس قسم کے ہیکنگ کے منصوبے کے لیے غیر معمولی مہارت اور وقت درکار ہیں لہٰذا عین ممکن ہے کہ اس کی تیاری مہینوں سے چل رہی ہو گی۔
البتہ کریبز نے کہا کہ فی الوقت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔
امریکا کے وفاقی ادارے طویل عرصے سے غیر ملکی ہیکرز کا پسندیدہ ہدف رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چینی ہیکرز کورونا ویکسین پر امریکی تحقیق چرانے کی کوشش کررہے ہیں، رپورٹ
اس سے قبل سال 2014 میں روسی ہیکرز محکمہ خارجہ کے ای میل سسٹم میں نقب لگانے میں کامیاب رہے تھے جس کے نتیجے میں اس مسئلے کے حل تک محکمہ خارجہ سے مکمل طور پر منقطع کرنا پڑا تھا۔
اس سے قبل خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے اطلاع دی تھی کہ غیر ملکی حکومت کے حمایت یافتہ گروپ نے خزانہ اور کامرس ڈپارٹمنٹ کی ایک ایجنسی سے معلومات چوری کیں جو انٹرنیٹ اور ٹیلی مواصلات کی پالیسی کے فیصلے کے ذمے دار ہیں۔
محکمہ خزانہ نے قومی سلامتی کونسل کو اس معاملے پر تبصرے سے روک دیا تھا۔
محکمہ تجارت کے ترجمان نے اپنے بیورو کی سیکیورٹی میں نقب لگنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے سائبر سیکیورٹی اینڈ انفرا اسٹرکچر سیکیورٹی ایجنسی اور ایف بی آئی سے تحقیقات کا کہا ہے۔
مزید پڑھیں: کورونا: ہیکرز کے حملوں میں امریکی شہریوں کو 10 کروڑ ڈالر کا نقصان
ایف بی آئی نے فوری طور پر اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔
گزشتہ منگل کو فائر آئی نے کہا تھا کہ عالمی معیار کی صلاحیتوں کے حامل غیر ملکی حکومت کے ہیکرز نے اس کے نیٹ ورک کو نشانہ بنایا تھا اور اس نے اپنے ہزاروں صارفین کے دفاع کی تحقیقات کے لیے استعمال کیے جانے والے ٹولز چوری کر لیے تھے، ان صارفین میں وفاقی، ریاستی اور مقامی حکومتیں اور اعلیٰ عالمی کارپوریشن شامل ہیں۔