اس نظام کو بدلے بغیر کوئی چارہ نہیں، نواز شریف
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے لاہور کے شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے موجودہ نظام کو بدلنا ہوگا اور اس کو بدلے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
خیال رہے کہ نواز شریف سے قبل لاہور جلسے میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن، پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز سمیت پی ڈی ایم کے دیگر قائدین اور رہنماؤں نے خطاب کیا تھا۔
نواز شریف نے کہا کہ اس نظام کو بدلے بغیر کوئی چارہ نہیں، یہ ملک غیر جمہوری قوتوں کی مزید مداخلت کی تاب نہیں لا سکتا اور جو دخل اندازی کرتے ہیں انہیں بھی اب سمجھ لینا چاہیے کہ ملک اس کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔
مزید پڑھیں: فکس میچ کے ذریعے نواز شریف کو نکال دیا گیا، مریم نواز
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس نظام کو بدلے بغیر آگئے نہیں بڑھ سکتے کیونکہ اس ہائی جیک جمہوریت میں آپ کے مستقبل کو اغوا کیا گیا ہے اور اس بات کو جتنی جلدی سمجھ لیا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ آج ہمیں ایسا نظام چاہیے جس میں ریاست کے اوپر ریاست نہ ہو، انہوں نے مزید کہا کہ کوئی قوم اپنی فوج سے نہیں لڑ سکتی۔
لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسے میں ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے اس طرح کی آمریت اور اس طرح کے جبر کی مثال کم ہی دیکھی ہے کہ ایک پرامن جلسے کو کرسیاں، لاؤڈ اسپیکر اور کرسیاں دینے پر بھی مقدمے بنائے جارہے ہیں، ان لوگوں کو خبر نہیں جب عوامی طاقت کا سیلاب آتا ہے تو اس طرح ہتھکنڈے اور بزدلانہ رکاوٹیں تنکوں کی طرح بہہ جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے پاکستان کی سالمیت اور بقا پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، عمران خان یعنی سلیکٹڈ کو لانے والے ہیں، ان کو بھی شاید یاد ہو یا نہ ہو جب اسی تاریخی میدان میں آئے اور کھڑے ہو کر کہا کہ ہم پاکستان کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں، پاکستان کا اپنا مقام، اپنی مہر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2013 میں جب آپ نے مجھے تیسری مرتبہ وزیراعظم اور شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ بنایا تو پاکستان اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، 20،20 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے چولہے ٹھنڈے پڑے تھے، ہر طرف دہشت گردی کا راج تھا، روز بم دھماکے ہوتے تھے، ہر طرف بدامنی تھی لیکن اللہ کے کرم سے ہم نے اندھیروں اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔
یہ بھی پڑھیں: سلیکٹرز سن لو! مذاکرات کا وقت ختم ہوا، ہم اسلام آباد آرہے ہیں، بلاول بھٹو
سابق وزیراعظم نے کہا کہ اورنج ٹرین چل رہی ہے، لاہور، ملتان، راولپنڈی اور اسلام آباد میں میٹرو بس لاکھوں لوگوں کو باعزت سفر مہیا کر رہی ہے، اسکول، کالج اوریونیورسٹیاں بن رہی تھیں، صحت کے شعبے میں پی کے ایل آئی جیسے ادارے اور ہسپتال بن رہے تھے، ان منصوبوں کی تکمیل پر جیل میں قید اپنے بھائی شہباز شریف کو شاباش دیتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ 2018 کے انتخابات میں کس طرح ہماری تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی کی گئی، کس طرح چند جرنیلوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ نواز شریف، شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کو عبرت کا نشانہ بنانا ہے اور کس طرح انہوں نے طے کیا کہ ایسی کٹھ پتلی کو لانا ہے جو آنکھیں بند کرکے ان کے اشاروں پر ناچتی رہے اور آج وہی کچھ ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ووٹ اس طرح چوری کرکے ایک نالائق، نااہل اور نادان کھلنڈروں کا ایک سرکس لگایا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کی راہ پر آگے بڑھتے ہوئے پاکستان کو غربت، مہنگائی، بے روزگاری، بد امنی اور معاشی تباہی کی گہری کھائی میں دھکیل دے دیا۔
نواز شریف نے کہا کہ چینی پر عوام جو اضافی پیسے ادا کر رہے ہیں اس کا فائدہ کسان اور عوام کو نہیں پہنچ رہا بلکہ یہ پیسے عمران خان کے حواریوں اور اے ٹی ایم مشینوں کے جیبوں میں جارہے ہیں۔
انہوں نے کہ 27 ارب میں میٹرو بنانے والا شہباز شریف تو جیل میں ہیں لیکن پشاور بی آر ٹی جس میں قوم کے 110 ارب ڈبونے والے آج کیوں دندناتے پھر ریے، کس سے پوچھیں کہ عاصم سلیم باجوہ نے امریکا میں اربوں کی سلطنت کہاں سے بنائی، علیمہ خان نے بیرون ملک اربوں روپے کی جائیداد کیسے بنائی۔
ان کا کہنا تھا کہ کس سے پوچھیں کہ زمان پارک کی نئی تعمیرات اور بنی گالہ کا محل کیسے بنا، عمران خان کا فارن فنڈنگ کیسے کئی برسوں سے لاپتہ کیوں ہے، یہ عمران خان کہتا ہے این آر او نہیں دوں گا، تم سے این آر او مانگتا کون ہے، تم اور علیمہ خان تو خود ثاقب نثار کے این آر او پر جی رہے ہو کسی اور کو کیا این آر او دو گے۔
انہوں نے کہا کہ کس سے پوچھیں کہ پشاور میں آکسیجن نہیں ملنے کی وجہ سے 7 افراد اللہ کو پیارے ہوگئے، کس سے پوچھیں کہ سقوط کشمیر جیسے سانحے پر یہ جعلی حکمران کیوں خاموش بیٹھے ہیں، کس سے پوچھیں ہمارے قریب ترین دوست سعودی عرب اور چین ہم سے کیوں دور ہوگئے ہیں۔
مزید پڑھیں: مینار پاکستان پر پی ڈی ایم کا جلسہ: انارکی سے پہلے حالات کو سنبھالنا چاہیے، مولانا فضل الرحمٰن
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کہتے ہیں نام نہ لو، نام نہ لیں تو پھر کون ذمہ دار ہے، کیا ملک کی اس تباہی کا ذمہ دار صرف عمران خان ہے یا وہ جو آپ کا ووٹ چوری کرکے ان کو اقتدار میں لائے ہیں اور سازش کرکے ہمارے سروں پر مسلط کردیا، ملک کو برباد کردیا، 22 کروڑ عوام، معیشت کو برباد کردیا اور کہتے ہو نام نہ لو۔
انہوں نے کہا کہ آئین شکنی آپ کریں تو کیا نام واپڈا والوں کا لوں، وزیراعظم ہاؤس کی دیواریں پھلانگ کر وزیراعظم کو آپ گرفتار کریں تو کیا شکایت محکمہ زراعت کے خلاف درج کراؤں، ججوں کو بلیک میل کرکے مرضی کے فیصلے آپ لکھائیں تو کیا شکایت محکمہ اوقاف کے خلاف لگاؤں۔
نواز شریف نے کہا کہ جسٹس صدیقی ہائی کورٹ کے جج تھے اور چیف جسٹس بننے والے تھے، ان سے ملاقات کرکے نواز شریف اور مریم نواز کو سزا دلوانے کی فرمائش آپ کریں تو کیا شکایت محکمہ جنگلات کے خلاف لگاؤں، الیکشن چوری آپ کریں، آر ٹی ایس آپ بند کروائیں تو شکایت محکمہ صحت کے خلاف کرواؤں، ان سنگین جرائم کی شکایت پھر کس سے کروں۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا جرم یہ ہے کہ میں سچ بول رہا ہوں اور عوام کا مقدمہ لڑ رہا ہوں، چند آئین شکن جرنیل اگر اس سے پسند نہیں کرتے ہیں تو نہ کریں لیکن نواز شریف حق اور سچ بات کہتا رہے گا مگر 22 کروڑ عوام کو حق حکمرانی دلوائے بغیر پیجھے نہیں ہٹے گا، یہ آپ سے وعدہ ہے، میرے اور 22 کروڑ عوام کے ضمیر کی آواز ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا بیانیہ وہی ہے جو پاکستان کے آئین کا بیانیہ ہے، جو فوج کے حلف کا بیانیہ ہے، وہی جو قائد اعظم کا بیانیہ ہے اور یہی میرا بیانیہ ہے، آئین کی تابعداری کرو، اپنے حلف کی پاسداری کرو، سیاست سے دور رہو، فوج کے ادارے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مت استعمال کرو، ایجنسیوں میں سیاسی انجینئرنگ کی فیکٹریاں بند کرو، انتخابات چوری مت کرو، ووٹ کو عزت دو اور فوج کو متنازع مت کرو، یہی میرا بیانیہ ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ اگر اس میں کوئی ایک بات بھی ملک ریاست یا قومی سلامتی کے خلاف ہے تو مجھے بتاؤ لیکن جب آئین توڑتے ہیں اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ملک کے دفاع کے بجائے سیاست دانوں کو جیل میں ڈالنے کے لیے دن رات ایک کردیتے ہیں، سیاسی گیم کھیلنے لگتے ہیں، ہر عوامی لیڈر کو عبرت کا نشانہ بنانے لگتے ہیں تو پھر عوام کو بجا طور شکایتیں ہوں گی اور سوال پوچھے جائیں گے، ان سوالوں کا جواب یہ نہیں کہ نام کیوں لیتے ہو۔