بچپن سے پچپن: جب ہم نے پہلی مرتبہ کراچی کا نام سنا (تیسری قسط)
اس سلسلے کی بقیہ اقساط: پہلی قسط، دوسری قسط، چوتھی قسط، پانچویں قسط، چھٹی قسط
----------کوئٹہ روڈ پر شکارپور سے جیکب آباد کی طرف چلیں تو تقریباً 10 کلومیٹر بعد ایک قصبہ آتا ہے ‘سلطان کوٹ’۔ افغانی درانیوں کا آباد کردہ یہ قدیم قصبہ اس راستے کا ایک اہم پڑاؤ ہے۔
سلطان کوٹ کا اپنا ریلوے اسٹیشن ہے۔ اس اسٹیشن پر اتر کر مغربی سمت جانے والی پگڈنڈی پر چلیں تو میل بھر آگے کیہروں کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہوا کرتا تھا۔ 70ء کی دہائی میں جیکب آباد شہر کی طرف نقل مکانی سے پہلے نانی نانا اسی گاؤں میں رہتے تھے۔ ریلوے اسٹیشن سے کچھ فاصلے پر کھیتوں اور جنگل سے گھرا ہوا یہ ایک مختصر سا گاؤں تھا جس کا کوئی نام نہیں تھا۔ بس یہ کوٹ سلطان والا گوٹھ کہلاتا تھا۔
یہاں ہم شہر سے آنے والے بچوں کی تمام تر دلچسپیاں یا تو اچھل کود، بھاگ دوڑ اور خرگوشوں، کبوتروں، گائے بھینسوں اور بکریوں سے وابستہ تھیں یا پھر گاؤں کی وہ اکلوتی دکان تھی جہاں سے کھٹی میٹھی گولیاں، بسکٹ، نقل، بتاشے، نبات، منہ ٹھنڈا کرنے والی جوہر کی ٹکیاں، بُوری، پیروں، لائی، وَڑو، گڑ اور چنے سب کچھ ملتا تھا اور مزے کی بات یہ تھی کہ یہ چیزیں لینے کے لیے ہمیں پیسوں کی بھی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ یہ سب چیزیں ‘بارٹر سسٹم’ پر مل جاتی تھیں۔
جب ہم نانی سے کہتے کہ ہمیں شے، یعنی چیز چاہیے تو وہ پیسے دینے کے بجائے کہتیں کہ اپنی جھولی پھیلاؤ۔ ہم اپنی قمیض کی جھولی بنادیتے اور وہ اس میں گندم، دھان، باجرہ یا جس قسم کا اناج اس وقت موجود ہوتا اس کی دو چار مٹھیاں ڈال دیتیں۔ ہم یہ جھولی بنائے بنائے ماما محبوب کے ہَٹ، یعنی دکان پر پہنچ جاتے۔ وہ ہم سے یہ دانے لے کر تولتے اور اپنے پاس پہلے سے موجود اس اناج کی ڈھیری پر انڈیل دیتے، پھر اس کی مالیت کے بدلے ہمیں ہماری پسند کی چیزیں دے دیتے۔ ہم چونکہ مہمان ہوتے تھے اس لیے وہ ہمیں کچھ زیادہ ہی چیزیں دے دیا کرتے تھے۔
مزید پڑھیے: بچپن سے پچپن: جنگ، ریڈیو اور سنیما (پہلی قسط)
کبھی کبھی ماموں دلدار ہم لڑکوں کو ریچھ کتے کی لڑائی دکھانے کے لیے سلطان کوٹ اسٹیشن کے پاس ایک احاطے میں بھی لے جاتے تھے۔ حیوانوں کی ان خونریز لڑائیوں کے لیے کتے تو کوٹ سلطان اور اردگرد کے زمیندار ہی لاتے تھے البتہ وہ بیچارہ ریچھ اللہ جانے کس کا ہوتا تھا کہ جس کے نصیب میں بس خونخوار کتوں سے اپنے آپ کو لہولہان کروانا ہی ہوتا تھا۔ ریچھ کتے کی لڑائی کے علاوہ یہاں جنگلی سور اور کتوں کے خطرناک مقابلے بھی ہوا کرتے تھے لیکن ہمیں وہ کبھی دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔
گاؤں جانے میں میرے لیے سب سے بڑی مسرت نانا سے ملاقات ہوتی تھی۔ میرے نانا داؤد کیہر، جنہیں لوگ داؤ فقیر کہتے تھے، ایک آزاد منش، درویش صفت اور خوددار شخص تھے۔ ان کی اپنی کوئی زمین یا جائیداد نہیں تھی۔ گزر اوقات کے لیے وہ شکار اور لوہار کا کام کیا کرتے تھے۔ ہلوں کے آہنی پھل بناتے تھے، فصل کاٹنے والی درانتیاں تیار کرتے تھے اور بندوقوں کی مرمت کے ماہر تھے۔
کوٹ سلطان والے گوٹھ کے قریب سے ایک چھوٹی سی نہر گزرتی تھی۔ نانا نے اسی نہر کے کنارے ایک بڑے سے درخت کے نیچے ایک جھونپڑی بنا رکھی تھی۔ وہ اپنا زیادہ وقت اسی کٹیا میں گزارتے تھے۔ یہیں انہوں نے اپنے لوہاری کام کی دھونکنی بھی لگا رکھی تھی جہاں وہ لوگوں کے اوزار مرمت بھی کیا کرتے تھے اور نئے اوزار بھی تیار کرتے تھے۔ جھونپڑی کے اطراف میں انہوں نے طرح طرح کی سبزیاں اگا رکھی ہوتی تھی جن سے وہ روزانہ سبزیاں توڑ کر اپنے گھر کے لیے بھی لاتے تھے اور گاؤں والوں میں بھی تقسیم کرتے تھے۔ ہم جیسے ہی گاؤں پہنچتے تو میں موقع پاتے ہی گھر سے نکل بھاگتا اور سیدھا نانا کی جھونپڑی پہنچ جاتا۔
ماہر آہن گر ہونے کے ساتھ ساتھ نانا ایک مشاق شکاری بھی تھے۔ 50ء اور 60ء کی دہائی میں جیکب آباد کے اطراف میں جنگلات ہوتے تھے جن میں ہر طرح کی جنگلی حیات پائی جاتی تھی۔ جا بجا جھیلوں کے اندر مرغابیوں اور دیگر آبی پرندوں کا شکار ہوتا تھا۔ جنگلی جھاڑیوں میں تیتر، بٹیر، چکور سمیت طرح طرح کے پرندوں کی بہتات ہوتی تھی۔ جھیلوں، تالابوں اور ندیوں میں اعلیٰ قسم کی مچھلی شکار ہوتی تھی۔ ہرن، خرگوش، گیدڑ، بھیڑیے، سور اور دیگر طرح طرح کے جنگلی جانور بھی بکثرت تھے۔ مچھلیاں، تیتر، بٹیر، ہرن، خرگوش، اماں کہتی تھیں کہ جب تک نانا زندہ رہے ہم نے کبھی کسی قسم کا گوشت بازار سے خرید کر نہیں کھایا۔
اماں نانا کا یہ قصہ بھی اکثر سناتی تھیں کہ ایک مرتبہ جیکب آباد کا ڈپٹی کمشنر (یا شاید اسی طرح کا کوئی اور سرکاری افسر) علاقے میں شکار کے لیے آیا تو اس کے ساتھ مددگار شکاری کے طور پر نانا داؤد کو بھی لیا گیا۔ وہ افسر نانا کی شکاری مہارت سے اس قدر متاثر اور خوش ہوا کہ جاتے وقت اس نے نانا سے کہا ‘میں تمہیں انعام دینا چاہتا ہوں۔ کوئی زمین کا ٹکڑا لینا چاہو، مویشی چاہئیں یا کوئی بندوق، جو خواہش ہو پوری کروں گا’۔
نانا نے جواب دیا کہ میری تو بس ایک ہی خواہش ہے۔
اس نے پوچھا کیا؟ تو نانا بولے کہ مجھے تو بس حج کروا دیں، یہ آپ کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہوگا۔
افسر تو یہ بات فوراً ہی مان گیا۔ وہ 50ء کی دہائی تھی اور اس زمانے میں حج ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ سیکڑوں روپوں میں ہی ہوجاتا تھا۔ چنانچہ اگلے ہی سال نانا کے حج کا انتظام ہوگیا۔ نانا کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوگئی اور وہ بحری جہاز کے ذریعے ساڑھے سات سو روپے کے مجموعی اخراجات میں حاجی بن کر واپس آگئے۔ لیکن حج کرنے کے بعد بھی ان کا نام ‘داؤ فقیر’ ہی رہا، انہوں نے اپنے نام کے ساتھ ‘حاجی’ کبھی نہیں لگایا۔
نانا حج کرکے واپس تو آگئے، لیکن اپنا دل وہیں مکے مدینے میں چھوڑ آئے۔ اب ان کا دل یہاں نہیں لگتا تھا۔ وہ زندگی میں کم از کم ایک بار اور مکے مدینے جانے کے لیے بے چین رہنے لگے۔ لیکن اب روز روز تو اس سرکاری افسر جیسے مہربان نہیں ملتے کہ اپنے خرچ پر حج کروا دیں۔ خود نانا بیچارے تو غریب آدمی تھے۔ ان کے پاس اپنی یہ خواہش پوری کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ وہ پیدل ہی حج کرنے نکل جائیں۔ چنانچہ ایک دن انہوں نے کچھ زادراہ ساتھ لیا اور گھر سے سرزمین عرب کا قصد کرکے نکل پڑے۔
اندازہ یہی ہے کہ وہ پہلے تو جیکب آباد سے کوئٹہ پہنچے ہوں گے، پھر کوئٹہ سے آگے مستونگ، نوشکی، چاغی اور دالبندین وغیرہ کے راستے سے ایرانی سرحد تک گئے ہوں گے۔ نہ ان کے پاس پاسپورٹ تھا نہ کوئی پروانہ راہداری۔ بس کسی نہ کسی طرح چھپ چھپا کر سرحد عبور کی اور ایران کے جنوبی صحراؤں کی خاک چھانتے ہوئے عراقی حدود تک پہنچ گئے۔ لیکن وہاں بدقسمتی سے انہیں عراقی سرحدی اہلکاروں نے کاغذات نہ ہونے پر گرفتار کرلیا اور کچھ دن بعد ایران کی طرف واپس بھیج دیا۔ نانا دلبرداشتہ و دل گرفتہ، گرتے پڑتے روتے دھوتے جیکب آباد واپس تو آگئے مگر بقیہ زندگی اسی غم میں گزار دی۔ یہ قصہ میری پیدائش سے بھی پہلے کا تھا اور اسے ہم نے اماں کی زبانی اسی طرح سنا تھا۔
60ء کی دہائی کے اواخر میں ہمارے اکلوتے ماموں نے جیکب آباد شہر میں پرچون کی دکان کھولی۔ وہ نانی کو تو گاؤں سے شہر لے آئے، البتہ نانا نے اپنی سلطان کوٹ کی نہر کنارے والی کٹیا چھوڑنے سے انکار کردیا۔ 1970ء میں نانا کا انتقال ہوگیا۔ جب ان کے جسد خاکی کو ایک جیپ کے پچھلے حصے میں ڈال کر تدفین کے لیے شہر لایا جا رہا تھا تو میں اس جیپ کی پچھلی سیٹ پر اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ میرے گھٹنے نانا کی بے جان ٹانگوں کے ساتھ لگ رہے تھے۔ اس بات کو تو اب نصف صدی گزر چکی ہے لیکن مجھے نانا کے اس بے جان، مگر مہربان جسم کا لمس آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔
ہمارے بچپن کے سفر کا تعلق صرف 2 شہروں کے ساتھ ہے۔ خیرپور اور جیکب آباد۔ ایک مرتبہ ہم نانی کے ہاں جیکب آباد آئے ہوئے تھے تو ایک دن صبح میری آنکھ کھلی۔ دیکھا تو امی، ابا اور چھوٹا بھائی حبیب اللہ گھر پر نظر نہیں آئے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ امی ابا کوئٹہ گئے ہیں اور حبیب اللہ کو بھی ساتھ لے کر گئے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ میں نے رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔
‘مجھے بھی کوئٹہ جانا ہے، مجھے بھی کوئٹہ جانا ہے’، بس میں یہی چلائے جا رہا تھا۔
نانی، خالاؤں اور بہن بھائیوں نے پہلے تو مجھے پیار سے اور پھر ڈانٹ ڈپٹ کر چپ کرانے کی کوشش کی، لیکن جب میں کسی طرح ماننے کو تیار نہ ہوا تو نانی نے کہا: ‘اچھا ٹھیک ہے، جاؤ کوئٹہ۔ لیکن کس کے ساتھ جاؤ گے؟ تمہارے امی ابا تو چلے گئے’۔
‘میں خود ہی جا سکتا ہوں کوئٹہ، اکیلا’، میں منہ بسور کر بولا۔
‘اچھا تو پھر جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر کپڑے بدلو اور جاؤ’، نانی بولیں۔
میں نے جلدی جلدی منہ ہاتھ دھویا، کپڑے بدلے اور گھر سے باہر نکل کر کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا کہ کوئٹہ کس طرف ہوگا، اور پھر جدھر سینگ سمائے ادھر چلنے لگا۔ میرے پیچھے نانی، خالائیں، ماموں اور بہن بھائی سب دروازے پر کھڑے مجھے غور سے دیکھ رہے تھے کہ میں کیا کرتا ہوں۔ میں چلتا چلتا گھر سے کچھ فاصلے پر آگیا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ دلدار ماموں بھی چپکے چپکے میرے تعاقب میں آ رہے ہیں۔ جب میں اپنے چھوٹے قدموں کے مطابق گھر سے کافی دُور تک آگیا تو کچھ گھبراہٹ طاری ہوگئی کیونکہ کوئٹہ تو مجھے اب تک کہیں نظر نہیں آیا تھا۔ چنانچہ راستے کے ایک طرف کھڑا ہو کر رونے لگا۔ ابھی رونا شروع ہی کیا ہوگا کہ اچانک پیچھے سے ہنسنے کی آواز آئی اور 2 مضبوط ہاتھوں نے پکڑ کر مجھے گود میں اٹھا لیا۔ یہ دلدار ماموں تھے۔ میں رونا دھونا بھول کر ماموں سے چمٹ گیا۔
مزید پڑھیے: بچپن سے پچپن: اسٹیم انجن کی سیٹی (دوسری قسط)
اس دن تو ماموں مجھے گھر لے آئے اور بہلا پھسلا کر کچھ ٹافیاں بسکٹ دلا کر چپ کرادیا۔ لیکن جب اگلے سال بھر میں نے کوئٹہ جانے کی رٹ لگائے رکھی تو دوسرے سال جب امی ابا نے پھر کوئٹہ کا قصد کیا تو اس بار حبیب اللہ اور میں دونوں ان کے ساتھ تھے۔ وہ سفر میری زندگی کا پہلا بین الصوبائی سفر تھا۔ ہم اس سفر میں کوئٹہ کے دلکشا ہوٹل میں رہے، حنہ اوڑک اور بروری کی سیر کی اور کئی دن مستونگ میں انگور کی بیلوں سے گھرے ایک قدیم گھر میں بھی گزارے، جس کے ایک آتشدان میں چھپائی گئی تلوار برآمد کرنے پر میں نے اماں سے خوب ڈانٹ کھائی۔ تلوار کو بعد میں ابا نے پھر آتشدان میں چھپا دیا تھا۔
جیکب آباد میں ہمارے ایک عزیز غالباً انکم ٹیکس انسپکٹر تھے اور ان کی ڈیوٹی شہر کے سنیماؤں پر تھی۔ سارے سنیما والے ان کو جانتے تھے۔ سنیماؤں میں کوئی زیرِ نمائش فلم مشہور ہوجاتی تو ہمارے رشتے دار لڑکے بالے ان سے سنیما میں وہ فلم شو فری دکھانے کی فرمائش کرتے۔ وہ جیسے ہی یہ سنتے فوراً کہتے کہ اپنا رومال لاؤ۔ اب جس کی جیب میں رومال ہوتا وہ نکال کے انہیں پیش کردیتا۔ وہ فوراً اپنی دراز میں سے کالا مارکر نکالتے اور اس رومال پر دستخط کردیتے۔ اب یہ رومال یوں سمجھیں کہ جیکب آباد کے کسی بھی سنیما میں داخلے کا ٹکٹ تھا۔ لڑکے یہ رومال اٹھا کر سنیما لے جاتے اور گیٹ کیپر کو دکھاتے تو وہ سنیما ہال کا دروازہ ان کے لیے کھول دیتا اور وہ اندر جس جگہ چاہتے جاکر بیٹھ جاتے۔ مجھے یاد ہے کہ مسرت نذیر اور درپن کی فلم گلفام جیکب آباد کے کیپٹل سنیما میں، مَیں نے اپنے کزن کے ساتھ اسی رومال والے ٹکٹ پر جا کر دیکھی تھی۔
70ء کی دہائی کے شروع میں ابھی کیسٹ ریکارڈر عام نہیں ہوئے تھے۔ زیادہ تر گول کالے ریکارڈ والے گراموفون ہوا کرتے تھے۔ عام طور پر ہز ماسٹرز وائس کے ان کالی گول لکیروں والے ایک توے پر ایک ہی گانا ریکارڈ ہوتا تھا۔ ہمارے ایک عزیز کے پاس یہ گراموفون ہوتا تھا جسے وہ چینجر کہتے تھے۔ہم نے اس زمانے میں اس چینجر پر مہدی حسن، نور جہاں، لتا، رفیع، مکیش اور کشور وغیرہ کے کئی گانے بار بار سنے۔
جیکب آباد کے مشہور سالانہ میلے ‘ہارس اینڈ کیٹل شو’ (میلہ مویشیاں و اَسپاں) کی اس زمانے میں ملک بھر میں بڑی دھوم ہوتی تھی۔ یہاں طرح طرح کے تماشے، سرکس، موت کے کنویں اور عارضی چڑیا گھر کے ساتھ ساتھ ڈراما تھیٹر بھی منعقد کئےجاتے تھے، جن میں ملک بھر سے مشہور اداکار، گلوکار اور معروف شخصیات آتی تھیں۔
اس کئی روزہ میلے کے دنوں میں ایک اور خاص چیز یہ ہوتی تھی کے میلے کے پنڈال سے قریب ایئر پورٹ پر سیسنا جہاز کی ایسی پرواز چلائی جاتی تھی جو مسافروں کو بٹھا کر پورے شہر پر ایک گول چکر لگاتی تھی۔ اس جہاز کا ٹکٹ صرف 10 روپے ہوتا تھا۔ لیکن وہ 10 روپے جو آج ہمیں یک حقیر سی رقم لگتے ہیں اس وقت آج کے ہزاروں روپوں کے برابر تھے۔ چنانچہ اس وقت بھی صاحبِ حیثیت لوگ ہی 10 روپے کی خطیر رقم دے کر شہر کی یہ ہوائی سیر کرتے تھی۔
اس جہاز کے پیچھے ایک طویل ربن نما دم بھی باندھی جاتی تھی جس پر کوئی خیر سگالی جملہ تحریر ہوتا تھا۔ جب یہ جہاز شہر کے اوپر چکر لگاتا تھا تو کپڑے کی یہ رنگ برنگی دم اس کے پیچھے پیچھے لہراتی ہوئی بڑا خوش کن منظر تخلیق کرتی اور جہاز جہاں جہاں سے گزرتا وہاں لوگ سر آسمان کی طرف اٹھا کر اور ہتھیلیاں پیشانیوں پر جما کر اس کے اڑنے کا منظر دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ ہمارا کوئی رشتے دار اس جہاز پر سواری کا ارادہ کرتا تو 2 دن پہلے سے ہی سب کو ہوشیار کردیتا کہ میں جب فلاں وقت جہاز میں بیٹھوں گا تو تم سب اوپر دیکھ کر ضرور ہاتھ ہلانا۔
خیرپور، سکھر، شکارپور، جیکب آباد، کوئٹہ، بس یہ چند ہی شہر تھے جن سے ہم واقف تھے اور سمجھتے تھے کہ بس دنیا انہی 4، 5 شہروں کا نام ہے۔ لیکن ایک دن خیرپور کی گلیوں میں آوارہ گرد ہم چند لڑکے اپنے گھروں سے کچھ زیادہ ہی دُور ایسی جگہ تک آ ؎گئے کہ جہاں ایک بڑی سڑک تھی اور اس پر سے بڑے بڑے لوڈنگ ٹرک گزر رہے تھے۔ ایک بچے نے جب ہم پر اپنی معلومات کا رعب جماتے ہوئے بڑے فخر بتایا کہ یہ ‘کراچی روڈ’ ہے تو ہم بڑے حیران ہوئے۔
‘کراچی روڈ؟ یہ کیا ہوتا ہے؟’ میں بولا۔
‘کراچی بہت بڑا شہر ہے جہاں یہ سڑک جاتی ہے’، بچہ بولا۔
‘جیکب آباد سے بھی بڑا؟’ میں بولا۔
‘سب سے بڑا’، بچے نے فخریہ جواب دیا۔ حالانکہ کراچی دیکھا اس بیچارے نے بھی نہیں تھا۔
یوں کراچی کا نام اس دن پہلی مرتبہ میرے کانوں میں پڑا۔ میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں، جو پیدا تو خیرپور میں ہوا تھا، لیکن تھا دراصل کراچی کا اور مجھے کچھ ہی دنوں بعد خیرپور چھوڑ کر کراچی چلے جانا تھا اور پھر وہیں کا ہوجانا تھا۔
مزید پڑھیے: کراچی جو اِک شہر تھا (دوسرا حصہ)
1971ء میں مجھے خیرپور کے ایک سرکاری اسکول کی کچی پہلی کلاس میں داخل کروا دیا گیا۔ شروع کے چند دن تو خوب روتے دھوتے گزرے، لیکن پھر چند ماہ بعد جب میں جیسے ہی اپنے کلاس فیلو لڑکوں کی دوستیوں اور اپنے اساتذہ کی شفقتوں کا اسیر ہوا، ابا نے خیرپور چھوڑ کر کراچی منتقل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔
ابا کے خیرپور کے دوست چچا عبدالغنی سال بھر پہلے ہی خیرپور چھوڑ کر بمع اہل و عیال کراچی منتقل ہوگئے تھے۔ ان کے وہاں منتقل ہونے کے کچھ دن بعد، جب نانی جیکب آباد سے ہمارے گھر آئی ہوئی تھیں تو ایک دن ابا اور اماں نے ہم بچوں کو نانی کی نگرانی میں چھوڑا اور دونوں چچا عبدالغنی کا احوال جاننے کے لیے کراچی چلے گئے۔ نانی کے ساتھ ہمیں مزا تو بہت آ رہا تھا لیکن اماں ابا تو اماں ابا ہوتے ہیں چنانچہ ہم بے چینی سے ان کی واپسی کے منتظر تھے۔
سندھ کی قدیم اور مشہور ٹرین مہران ایکسپریس انہی دنوں سکھر اور کراچی کے درمیان چلنا شروع ہوئی تھی۔ اماں ابا بھی اسی ریل گاڑی سے کراچی گئے تھے اور واپس بھی اسی سے آنا تھا۔ ٹیلی فون تو اس وقت ایک نایاب سی چیز تھا، بس لوگ امیدوں پر ہی زندگی گزارا کرتے تھے۔ اتفاق یہ ہوا کہ جن دنوں ہمیں اماں ابا کے کراچی سے واپسی کی امید تھی انہی دنوں مہران ایکسپریس کا حیدرآباد کے قریب حادثہ پیش آگیا اور اس میں خاصے لوگ جاں بحق ہوئے۔ ہمیں اماں ابا کی تو کوئی خبر نہیں تھی لیکن ریڈیو کے ذریعے حادثے کی خبر ضرور مل گئی تھی جس کے بعد نانی نے تو رونا دھونا مچا دیا۔
محلے والے تسلی دینے آئے اور خدا سے اچھی امید رکھنے کو کہا۔ اگلے 24 گھنٹے اسی اداسی و پریشانی میں گزرے لیکن خدائے مہربان کی رحمت ہوئی اور اگلے دن کی ٹرین سے اماں ابا خیریت سے خیرپور پہنچے تو ہماری جان میں جان آئی۔ لیکن اماں ابا واپس تو آگئے تھے البتہ ان کے ذہن و دل پر اب کراچی ہی چھایا ہوا تھا۔ چچا عبدالغنی نے اللہ جانے انہیں کیا سبز باغ دکھائے کہ بس چند ہی دنوں بعد ابا نے خیرپور کو خیرباد کہا اور سارا ساز و سامان لاد کر اور ہم بچوں کو لے کر لشٹم پشٹم کراچی پہنچ گئے۔
کچھ دن تو ہم لالو کھیت میں چچا عبدالغنی کے گھر میں اوپر والے حصے میں رہے، پھر لیاقت آباد قبرستان کے ساتھ سندھی جوکھیہ برادری کے محمدی گوٹھ میں آگئے۔ ابا نے منگھوپیر روڈ بڑا بورڈ پر اپنی ٹیلرنگ شاپ کھول لی اور ہم کراچی کے باسی ہوگئے۔ مجھے محمدی گوٹھ کے قریب ایک سرکاری پرائمری اسکول میں داخل کروا دیا گیا جہاں ہم روز صبح اچھلتے کودتے کھلکھلاتے جانے لگے اور زندگی ایک نئی ڈگر پر چل پڑی۔
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔