سال 2020: پی ٹی آئی حکومت 'کورونا وائرس' کے امتحان میں کتنی کامیاب رہی؟
سال 2020 میں پوری دنیا میں جو الفاظ سب سے زیادہ گونجتے رہے وہ 'کورونا وائرس' کے تھے جس نے نا صرف مضبوط ترین ممالک کے نظام صحت کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ معیشتیں بھی بُری طرح متاثر ہوئی اور یہ بے رحم وبا لاکھوں انسانوں کی جان لے گئی۔
چین کے صوبے ووہان میں کورونا وائرس کی تشخیص اور اس سے متاثرہ افراد کی ہلاکتوں کے بعد جہاں دنیا بھر میں اس وائرس سے بچاؤ اور روک تھام کے لیے اقدامات اٹھائے گئے وہیں پاکستان میں بھی اس حوالے سے وقتاً فوقتاً مختلف اقدامات اٹھائے گئے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کو اس مشکل ترین امتحان میں ایک طرف جہاں عوام کی جانوں کا تحفظ کرنا تھا اور ہسپتالوں و طبی مراکز پر کورونا کے مریضوں کے دباؤ کو بڑھنے سے روکنا تھا تو وہیں اس کے لیے معیشت کا پہیے کو پوری طرح جام ہونے سے روکنا بھی بہت ضروری تھا۔
ایسی صورتحال میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مرکزی حکومت کو دوہرے امتحان کا سامنا کرنا پڑا اور ایسے غیر مقبول فیصلے بھی کرنے پڑے جن پر سیاستدانوں اور مختلف طبقات کی طرف سے کڑی تنقید بھی سامنے آئی۔
کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز اور معاشی و سماجی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے توازن برقرار رکھنے کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان کا خلاصہ یہاں پیش کیا جارہا ہے۔
22 جنوری کو کورونا وائرس کی منتقلی کے خطرے کے پیش نظر چین سے پاکستان آنے اور جانے والوں کے طبی معائنے اور اس سلسلے میں وائرس سے بچاؤ کے لیے ہوائی اڈوں پر بھی خصوصی کاؤنٹر بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
اگلے روز سے ہی قومی ایئر لائن (پی آئی اے) نے احتیاطی تدابیر کے پیش نظر چین کے بیجنگ ایئرپورٹ پر اپنے متوقع مسافروں کی کورونا وائرس اسکریننگ کا عمل شروع کیا۔
ساتھ ہی قومی ایئرلائن نے وزارت صحت کی مدد سے ملک کے 4 بڑے ایئر پورٹس پر کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے تھرمل اسکینرز نصب کیے۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: ملک کے 4 ایئرپورٹس پر خودکار تھرمل اسکینرز نصب
بعد ازاں یکم مارچ کو بیرون ملک سے آنے والے مسافروں میں کورونا وائرس کی علامات دیکھنے کے لیے اسلام آباد، کراچی، لاہور اور پشاور کے ایئرپورٹس پر خودکار تھرمل اسکینرز نصب کرنے کا اقدام سامنے آیا۔
31 جنوری کو پاکستان نے مہلک کورونا وائرس کے باعث چین سے پروازوں کی آمد و رفت کو معطل کردیا۔
دوسری جانب پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی جانب سے 2 فروری تک بیجنگ کے لیے پروازیں معطل کرنے کا فیصلہ سامنے آیا۔
اسی طرح 23 فروری کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا چین میں تیزی سے پھیلتے ہوئے کورونا وائرس کے باعث ایک بار پھر 15 مارچ تک بیجنگ کے لیے اپنی پروازیں معطل کرنے کا فیصلہ سامنے آیا۔
26 فروری کو پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد پاکستان نے اگلے ہی روز پڑوسی ملک ایران کے ساتھ براہ راست پروازیں معطل کرنے کا اعلان کیا۔
حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ بھی سامنے آیا کہ پاکستان سے عمرہ اور سیاحت کے لیے سعودی عرب جانے کے خواہش مند افراد بھی عارضی طور پر وہاں کا سفر نہیں کرسکیں گے تاہم جو لوگ اقامہ رکھتے ہیں یا سعودی شہری ہیں ان کے لیے پروازیں جاری رہیں گی۔
یہ فیصلہ سعودی عرب کی حکومت کے اس فیصلے کے بعد کیا گیا تھا جس میں انہوں نے دنیا بھر میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کو دیکھتے ہوئے اس سے متاثرہ ممالک کے لوگوں کے لیے عمرہ اور سیاحت کے لیے داخلے پر پابندی لگادی تھی۔
9 مارچ کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے پیش نظر قطر حکومت کی جانب سے پاکستان سمیت مختلف ممالک کے مسافروں کے داخلے پر پابندی کے بعد پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے عارضی طور پر قطر کے لیے اپنا فلائٹ آپریشن بھی معطل کردیا۔
اگلے ہی روز پی آئی اے نے کورونا وائرس کے پیش نظر قطر کے بعد اٹلی کے لیے بھی اپنی پروازیں عارضی طور پر معطل کردیں۔
21 مارچ کو پاکستان نے 2 ہفتوں کے لیے تمام بین الاقوامی پروازوں کی آمد کو معطل کردیا۔
یکم اپریل کو حکومت نے ہر قسم کی ملکی (ڈومیسٹک) پروازوں کی معطلی کو 11 اپریل تک توسیع دینے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں حکومت نے اندرون و بیرون ملک فلائٹ آپریشن پر پابندی میں ایک بار پھر 21 اپریل تک توسیع کر دی۔
اس کے بعد بھی کئی بار ملکی اور غیر ملکی پروازوں کی بندش میں توسیع سامنے آئی۔
29 مئی سے گوادر اور تربت کے سوا ملک بھر کے تمام بین الاقوامی ہوائی اڈوں سے ایس او پیز کے ساتھ آؤٹ باؤنڈ فلائٹ آپریشن کی اجازت دے دی گئی۔
بعد ازاں 7 اگست پاکستان میں تمام ایئر پورٹس پر بین الاقوامی پروازوں کو مکمل طور پر دوبارہ بحال کرنے کی اجازت دی گئی۔
ایران میں نئے کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد 22 فروری کو بلوچستان کی صوبائی حکومت نے ایران سے متصل سرحدی اضلاع میں فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کردی۔
ساتھ ہی محکمہ صحت نے تفتان کے سرحدی علاقے میں ایمرجنسی سینٹر اور کنٹرول روم قائم کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایران میں کورونا وائرس کے کیسز، بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں ایمرجنسی نافذ
حکومت بلوچستان کی جانب سے یہ اقدام وزیر اعظم عمران خان کے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال سے رابطہ کرکے وائرس کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنے کے مسئلے پر تبادلہ خیال کے بعد سامنے آیا تھا۔
بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں ایمرجنسی کے نفاذ کے اگلے ہی روز پاکستان نے پڑوسی ملک ایران کے ساتھ اپنی سرحد کو عارضی طور پر بند کردیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی بلوچستان کی حکومت نے پاکستان سے ایران جانے والے زائرین کے سفر پر بھی پابندی عائد کردی تھی اور صوبائی محکمہ داخلہ کو دیگر صوبوں سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔
صوبے کے وزیراعلیٰ جام کمال نے صوبائی محکمہ آفات کو ہنگامی صورتحال کے پیش نظر پاک ایران سرحد کو پار کرنے کے مقام تفتان پر 100 بستروں پر مشتمل ٹینٹ ہسپتال قائم کرنے کا حکم دیا۔
25 فروری سے پاکستان نے ایران سے واپس آنے والے 200 سے زائد افراد کو سرحد کے قریب قرنطینہ میں منتقل کیا، پاکستانی حکام نے یہ فیصلہ ایران میں کورونا وائرس کے تیزی سے سامنے آنے والے کیسز کے بعد اس کے پاکستان میں پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر کیا تھا۔
یکم مارچ کو پاکستان نے افغانستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ کیسز سامنے آنے پر چمن کے مقام پر پاک افغان سرحد بھی 7 روز کے لیے بند کردی تھی۔
افغانستان اور ایران کے ساتھ جزوی بند ہونے والی سرحد کو 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ایک بار پھر 14 روز کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
28 مارچ کو ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں کی بندش میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث مزید 2 ہفتے کی توسیع کی گئی۔
یوں تو ملک میں کورونا کے ابتدائی دو کیسز سامنے آنے کے بعد سے ہی صوبوں نے اپنے طور پر مختلف مدت کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنے کے اعلانات کیے۔
تاہم 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے 5 اپریل تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کا اعلان وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کیا تھا۔
26 مارچ کو وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں نے اتفاق رائے سے ملک کے تمام تعلیمی ادارے 31 مئی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں 7 مئی کو وفاقی حکومت نے اسکولز، یونیورسٹیز سمیت تمام تعلیمی اداروں کو 15 جولائی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
7 ستمبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کو 15 سے 30 ستمبر سے مرحلہ وار کھولنے کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ
24 نومبر کو ملک بھر میں کورونا وائرس خاص طور پر تعلیمی اداروں میں کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو 26 نومبر سے 10 جنوری تک بند کرنے کا اعلان کیا۔
جیسے جیسے کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہورہا تھا حکومت کی جانب سے اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات میں بھی تیزی آنا شروع ہوگئی تھی۔
اسی سلسلے میں 18 مارچ کو ملک میں یکم جون تک کوئی امتحان نہ کروانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ کیمبرج، پیئرسن اور بیکولوریا سمیت تمام غیر ملکی بورڈز بھی حکومتی ہدایات کا پابند بنایا گیا۔
بعد ازاں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو امتحانات کے بغیر نتائج جاری کرکے اگلی کلاسوں میں پروموٹ کردیا گیا جبکہ کیمبرج سسٹم کے طلبہ کو بھی طے پانے والے طریقہ کار کے مطابق گریڈز دے دیے گئے۔
24 نومبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے دسمبر کے دوران ہونے والے امتحانات کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب یہ 15 جنوری اور اس کے بعد ہوں گے۔
سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے 19 مارچ کو مسافروں کے رش کو کم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر 12 ٹرینیں بند کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم انہوں نے واضح کیا تھا کہ مال گاڑیاں ویسے ہی چلتی رہیں گی اور سامان کی نقل و حمل جاری رہے گی۔
21 مارچ کو وزیر ریلوے نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر مزید ٹرینوں کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 34 ریل گاڑیوں کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔
تین روز بعد مسافر ٹرین سروس کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔
30 مارچ کو وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر مسافر ٹرینیں تاحکم ثانی معطل رہیں گی۔
بعد ازاں کورونا کیسز میں کمی کے بعد مسافروں کے لیے ٹرین آپریشن مرحلہ وار بحال کردیا گیا۔
مارچ کے آخر تک ملک میں کورونا کے یومیہ درجنوں کیسز سامنے آرہے تھے جس کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مربوط رابطے، مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور کیسز کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جبکہ تمام صوبائی وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ارکان ہیں۔
این سی او سی کے پلیٹ فارم سے ہی عوام کو گاہے بگاہے وائرس کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایات دی گئیں اور وقتاً فوقتاً پابندیوں اور پھر ان میں نرمیوں کے اعلانات کیے گئے۔
ساتھ ہی حکومت نے عوام کو وبا کے مصدقہ اعداد و شمار سے ہر وقت آگاہ رکھنے کے لیے خصوصی ویب سائٹ کا بھی اجرا کیا، جہاں اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اہم اور ضروری معلومات بھی دستیاب ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
22 جنوری کو کورونا وائرس کی منتقلی کے خطرے کے پیش نظر چین سے پاکستان آنے اور جانے والوں کے طبی معائنے اور اس سلسلے میں وائرس سے بچاؤ کے لیے ہوائی اڈوں پر بھی خصوصی کاؤنٹر بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
اگلے روز سے ہی قومی ایئر لائن (پی آئی اے) نے احتیاطی تدابیر کے پیش نظر چین کے بیجنگ ایئرپورٹ پر اپنے متوقع مسافروں کی کورونا وائرس اسکریننگ کا عمل شروع کیا۔
ساتھ ہی قومی ایئرلائن نے وزارت صحت کی مدد سے ملک کے 4 بڑے ایئر پورٹس پر کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے تھرمل اسکینرز نصب کیے۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: ملک کے 4 ایئرپورٹس پر خودکار تھرمل اسکینرز نصب
بعد ازاں یکم مارچ کو بیرون ملک سے آنے والے مسافروں میں کورونا وائرس کی علامات دیکھنے کے لیے اسلام آباد، کراچی، لاہور اور پشاور کے ایئرپورٹس پر خودکار تھرمل اسکینرز نصب کرنے کا اقدام سامنے آیا۔
31 جنوری کو پاکستان نے مہلک کورونا وائرس کے باعث چین سے پروازوں کی آمد و رفت کو معطل کردیا۔
دوسری جانب پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی جانب سے 2 فروری تک بیجنگ کے لیے پروازیں معطل کرنے کا فیصلہ سامنے آیا۔
اسی طرح 23 فروری کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا چین میں تیزی سے پھیلتے ہوئے کورونا وائرس کے باعث ایک بار پھر 15 مارچ تک بیجنگ کے لیے اپنی پروازیں معطل کرنے کا فیصلہ سامنے آیا۔
26 فروری کو پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد پاکستان نے اگلے ہی روز پڑوسی ملک ایران کے ساتھ براہ راست پروازیں معطل کرنے کا اعلان کیا۔
حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ بھی سامنے آیا کہ پاکستان سے عمرہ اور سیاحت کے لیے سعودی عرب جانے کے خواہش مند افراد بھی عارضی طور پر وہاں کا سفر نہیں کرسکیں گے تاہم جو لوگ اقامہ رکھتے ہیں یا سعودی شہری ہیں ان کے لیے پروازیں جاری رہیں گی۔
یہ فیصلہ سعودی عرب کی حکومت کے اس فیصلے کے بعد کیا گیا تھا جس میں انہوں نے دنیا بھر میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کو دیکھتے ہوئے اس سے متاثرہ ممالک کے لوگوں کے لیے عمرہ اور سیاحت کے لیے داخلے پر پابندی لگادی تھی۔
9 مارچ کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے پیش نظر قطر حکومت کی جانب سے پاکستان سمیت مختلف ممالک کے مسافروں کے داخلے پر پابندی کے بعد پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے عارضی طور پر قطر کے لیے اپنا فلائٹ آپریشن بھی معطل کردیا۔
اگلے ہی روز پی آئی اے نے کورونا وائرس کے پیش نظر قطر کے بعد اٹلی کے لیے بھی اپنی پروازیں عارضی طور پر معطل کردیں۔
21 مارچ کو پاکستان نے 2 ہفتوں کے لیے تمام بین الاقوامی پروازوں کی آمد کو معطل کردیا۔
یکم اپریل کو حکومت نے ہر قسم کی ملکی (ڈومیسٹک) پروازوں کی معطلی کو 11 اپریل تک توسیع دینے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں حکومت نے اندرون و بیرون ملک فلائٹ آپریشن پر پابندی میں ایک بار پھر 21 اپریل تک توسیع کر دی۔
اس کے بعد بھی کئی بار ملکی اور غیر ملکی پروازوں کی بندش میں توسیع سامنے آئی۔
29 مئی سے گوادر اور تربت کے سوا ملک بھر کے تمام بین الاقوامی ہوائی اڈوں سے ایس او پیز کے ساتھ آؤٹ باؤنڈ فلائٹ آپریشن کی اجازت دے دی گئی۔
بعد ازاں 7 اگست پاکستان میں تمام ایئر پورٹس پر بین الاقوامی پروازوں کو مکمل طور پر دوبارہ بحال کرنے کی اجازت دی گئی۔
ایران میں نئے کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد 22 فروری کو بلوچستان کی صوبائی حکومت نے ایران سے متصل سرحدی اضلاع میں فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کردی۔
ساتھ ہی محکمہ صحت نے تفتان کے سرحدی علاقے میں ایمرجنسی سینٹر اور کنٹرول روم قائم کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایران میں کورونا وائرس کے کیسز، بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں ایمرجنسی نافذ
حکومت بلوچستان کی جانب سے یہ اقدام وزیر اعظم عمران خان کے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال سے رابطہ کرکے وائرس کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنے کے مسئلے پر تبادلہ خیال کے بعد سامنے آیا تھا۔
بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں ایمرجنسی کے نفاذ کے اگلے ہی روز پاکستان نے پڑوسی ملک ایران کے ساتھ اپنی سرحد کو عارضی طور پر بند کردیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی بلوچستان کی حکومت نے پاکستان سے ایران جانے والے زائرین کے سفر پر بھی پابندی عائد کردی تھی اور صوبائی محکمہ داخلہ کو دیگر صوبوں سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔
صوبے کے وزیراعلیٰ جام کمال نے صوبائی محکمہ آفات کو ہنگامی صورتحال کے پیش نظر پاک ایران سرحد کو پار کرنے کے مقام تفتان پر 100 بستروں پر مشتمل ٹینٹ ہسپتال قائم کرنے کا حکم دیا۔
25 فروری سے پاکستان نے ایران سے واپس آنے والے 200 سے زائد افراد کو سرحد کے قریب قرنطینہ میں منتقل کیا، پاکستانی حکام نے یہ فیصلہ ایران میں کورونا وائرس کے تیزی سے سامنے آنے والے کیسز کے بعد اس کے پاکستان میں پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر کیا تھا۔
یکم مارچ کو پاکستان نے افغانستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ کیسز سامنے آنے پر چمن کے مقام پر پاک افغان سرحد بھی 7 روز کے لیے بند کردی تھی۔
افغانستان اور ایران کے ساتھ جزوی بند ہونے والی سرحد کو 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ایک بار پھر 14 روز کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
28 مارچ کو ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں کی بندش میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث مزید 2 ہفتے کی توسیع کی گئی۔
یوں تو ملک میں کورونا کے ابتدائی دو کیسز سامنے آنے کے بعد سے ہی صوبوں نے اپنے طور پر مختلف مدت کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنے کے اعلانات کیے۔
تاہم 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے 5 اپریل تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کا اعلان وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کیا تھا۔
26 مارچ کو وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں نے اتفاق رائے سے ملک کے تمام تعلیمی ادارے 31 مئی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں 7 مئی کو وفاقی حکومت نے اسکولز، یونیورسٹیز سمیت تمام تعلیمی اداروں کو 15 جولائی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
7 ستمبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کو 15 سے 30 ستمبر سے مرحلہ وار کھولنے کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ
24 نومبر کو ملک بھر میں کورونا وائرس خاص طور پر تعلیمی اداروں میں کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو 26 نومبر سے 10 جنوری تک بند کرنے کا اعلان کیا۔
جیسے جیسے کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہورہا تھا حکومت کی جانب سے اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات میں بھی تیزی آنا شروع ہوگئی تھی۔
اسی سلسلے میں 18 مارچ کو ملک میں یکم جون تک کوئی امتحان نہ کروانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ کیمبرج، پیئرسن اور بیکولوریا سمیت تمام غیر ملکی بورڈز بھی حکومتی ہدایات کا پابند بنایا گیا۔
بعد ازاں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو امتحانات کے بغیر نتائج جاری کرکے اگلی کلاسوں میں پروموٹ کردیا گیا جبکہ کیمبرج سسٹم کے طلبہ کو بھی طے پانے والے طریقہ کار کے مطابق گریڈز دے دیے گئے۔
24 نومبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے دسمبر کے دوران ہونے والے امتحانات کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب یہ 15 جنوری اور اس کے بعد ہوں گے۔
سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے 19 مارچ کو مسافروں کے رش کو کم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر 12 ٹرینیں بند کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم انہوں نے واضح کیا تھا کہ مال گاڑیاں ویسے ہی چلتی رہیں گی اور سامان کی نقل و حمل جاری رہے گی۔
21 مارچ کو وزیر ریلوے نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر مزید ٹرینوں کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 34 ریل گاڑیوں کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔
تین روز بعد مسافر ٹرین سروس کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔
30 مارچ کو وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر مسافر ٹرینیں تاحکم ثانی معطل رہیں گی۔
بعد ازاں کورونا کیسز میں کمی کے بعد مسافروں کے لیے ٹرین آپریشن مرحلہ وار بحال کردیا گیا۔
مارچ کے آخر تک ملک میں کورونا کے یومیہ درجنوں کیسز سامنے آرہے تھے جس کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مربوط رابطے، مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور کیسز کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جبکہ تمام صوبائی وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ارکان ہیں۔
این سی او سی کے پلیٹ فارم سے ہی عوام کو گاہے بگاہے وائرس کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایات دی گئیں اور وقتاً فوقتاً پابندیوں اور پھر ان میں نرمیوں کے اعلانات کیے گئے۔
ساتھ ہی حکومت نے عوام کو وبا کے مصدقہ اعداد و شمار سے ہر وقت آگاہ رکھنے کے لیے خصوصی ویب سائٹ کا بھی اجرا کیا، جہاں اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اہم اور ضروری معلومات بھی دستیاب ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
22 جنوری کو کورونا وائرس کی منتقلی کے خطرے کے پیش نظر چین سے پاکستان آنے اور جانے والوں کے طبی معائنے اور اس سلسلے میں وائرس سے بچاؤ کے لیے ہوائی اڈوں پر بھی خصوصی کاؤنٹر بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
اگلے روز سے ہی قومی ایئر لائن (پی آئی اے) نے احتیاطی تدابیر کے پیش نظر چین کے بیجنگ ایئرپورٹ پر اپنے متوقع مسافروں کی کورونا وائرس اسکریننگ کا عمل شروع کیا۔
ساتھ ہی قومی ایئرلائن نے وزارت صحت کی مدد سے ملک کے 4 بڑے ایئر پورٹس پر کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے تھرمل اسکینرز نصب کیے۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: ملک کے 4 ایئرپورٹس پر خودکار تھرمل اسکینرز نصب
بعد ازاں یکم مارچ کو بیرون ملک سے آنے والے مسافروں میں کورونا وائرس کی علامات دیکھنے کے لیے اسلام آباد، کراچی، لاہور اور پشاور کے ایئرپورٹس پر خودکار تھرمل اسکینرز نصب کرنے کا اقدام سامنے آیا۔
31 جنوری کو پاکستان نے مہلک کورونا وائرس کے باعث چین سے پروازوں کی آمد و رفت کو معطل کردیا۔
دوسری جانب پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی جانب سے 2 فروری تک بیجنگ کے لیے پروازیں معطل کرنے کا فیصلہ سامنے آیا۔
اسی طرح 23 فروری کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا چین میں تیزی سے پھیلتے ہوئے کورونا وائرس کے باعث ایک بار پھر 15 مارچ تک بیجنگ کے لیے اپنی پروازیں معطل کرنے کا فیصلہ سامنے آیا۔
26 فروری کو پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد پاکستان نے اگلے ہی روز پڑوسی ملک ایران کے ساتھ براہ راست پروازیں معطل کرنے کا اعلان کیا۔
حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ بھی سامنے آیا کہ پاکستان سے عمرہ اور سیاحت کے لیے سعودی عرب جانے کے خواہش مند افراد بھی عارضی طور پر وہاں کا سفر نہیں کرسکیں گے تاہم جو لوگ اقامہ رکھتے ہیں یا سعودی شہری ہیں ان کے لیے پروازیں جاری رہیں گی۔
یہ فیصلہ سعودی عرب کی حکومت کے اس فیصلے کے بعد کیا گیا تھا جس میں انہوں نے دنیا بھر میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کو دیکھتے ہوئے اس سے متاثرہ ممالک کے لوگوں کے لیے عمرہ اور سیاحت کے لیے داخلے پر پابندی لگادی تھی۔
9 مارچ کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے پیش نظر قطر حکومت کی جانب سے پاکستان سمیت مختلف ممالک کے مسافروں کے داخلے پر پابندی کے بعد پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے عارضی طور پر قطر کے لیے اپنا فلائٹ آپریشن بھی معطل کردیا۔
اگلے ہی روز پی آئی اے نے کورونا وائرس کے پیش نظر قطر کے بعد اٹلی کے لیے بھی اپنی پروازیں عارضی طور پر معطل کردیں۔
21 مارچ کو پاکستان نے 2 ہفتوں کے لیے تمام بین الاقوامی پروازوں کی آمد کو معطل کردیا۔
یکم اپریل کو حکومت نے ہر قسم کی ملکی (ڈومیسٹک) پروازوں کی معطلی کو 11 اپریل تک توسیع دینے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں حکومت نے اندرون و بیرون ملک فلائٹ آپریشن پر پابندی میں ایک بار پھر 21 اپریل تک توسیع کر دی۔
اس کے بعد بھی کئی بار ملکی اور غیر ملکی پروازوں کی بندش میں توسیع سامنے آئی۔
29 مئی سے گوادر اور تربت کے سوا ملک بھر کے تمام بین الاقوامی ہوائی اڈوں سے ایس او پیز کے ساتھ آؤٹ باؤنڈ فلائٹ آپریشن کی اجازت دے دی گئی۔
بعد ازاں 7 اگست پاکستان میں تمام ایئر پورٹس پر بین الاقوامی پروازوں کو مکمل طور پر دوبارہ بحال کرنے کی اجازت دی گئی۔
ایران میں نئے کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد 22 فروری کو بلوچستان کی صوبائی حکومت نے ایران سے متصل سرحدی اضلاع میں فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کردی۔
ساتھ ہی محکمہ صحت نے تفتان کے سرحدی علاقے میں ایمرجنسی سینٹر اور کنٹرول روم قائم کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایران میں کورونا وائرس کے کیسز، بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں ایمرجنسی نافذ
حکومت بلوچستان کی جانب سے یہ اقدام وزیر اعظم عمران خان کے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال سے رابطہ کرکے وائرس کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنے کے مسئلے پر تبادلہ خیال کے بعد سامنے آیا تھا۔
بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں ایمرجنسی کے نفاذ کے اگلے ہی روز پاکستان نے پڑوسی ملک ایران کے ساتھ اپنی سرحد کو عارضی طور پر بند کردیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی بلوچستان کی حکومت نے پاکستان سے ایران جانے والے زائرین کے سفر پر بھی پابندی عائد کردی تھی اور صوبائی محکمہ داخلہ کو دیگر صوبوں سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔
صوبے کے وزیراعلیٰ جام کمال نے صوبائی محکمہ آفات کو ہنگامی صورتحال کے پیش نظر پاک ایران سرحد کو پار کرنے کے مقام تفتان پر 100 بستروں پر مشتمل ٹینٹ ہسپتال قائم کرنے کا حکم دیا۔
25 فروری سے پاکستان نے ایران سے واپس آنے والے 200 سے زائد افراد کو سرحد کے قریب قرنطینہ میں منتقل کیا، پاکستانی حکام نے یہ فیصلہ ایران میں کورونا وائرس کے تیزی سے سامنے آنے والے کیسز کے بعد اس کے پاکستان میں پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر کیا تھا۔
یکم مارچ کو پاکستان نے افغانستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ کیسز سامنے آنے پر چمن کے مقام پر پاک افغان سرحد بھی 7 روز کے لیے بند کردی تھی۔
افغانستان اور ایران کے ساتھ جزوی بند ہونے والی سرحد کو 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ایک بار پھر 14 روز کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
28 مارچ کو ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں کی بندش میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث مزید 2 ہفتے کی توسیع کی گئی۔
یوں تو ملک میں کورونا کے ابتدائی دو کیسز سامنے آنے کے بعد سے ہی صوبوں نے اپنے طور پر مختلف مدت کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنے کے اعلانات کیے۔
تاہم 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے 5 اپریل تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کا اعلان وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کیا تھا۔
26 مارچ کو وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں نے اتفاق رائے سے ملک کے تمام تعلیمی ادارے 31 مئی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں 7 مئی کو وفاقی حکومت نے اسکولز، یونیورسٹیز سمیت تمام تعلیمی اداروں کو 15 جولائی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
7 ستمبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کو 15 سے 30 ستمبر سے مرحلہ وار کھولنے کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ
24 نومبر کو ملک بھر میں کورونا وائرس خاص طور پر تعلیمی اداروں میں کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو 26 نومبر سے 10 جنوری تک بند کرنے کا اعلان کیا۔
جیسے جیسے کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہورہا تھا حکومت کی جانب سے اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات میں بھی تیزی آنا شروع ہوگئی تھی۔
اسی سلسلے میں 18 مارچ کو ملک میں یکم جون تک کوئی امتحان نہ کروانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ کیمبرج، پیئرسن اور بیکولوریا سمیت تمام غیر ملکی بورڈز بھی حکومتی ہدایات کا پابند بنایا گیا۔
بعد ازاں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو امتحانات کے بغیر نتائج جاری کرکے اگلی کلاسوں میں پروموٹ کردیا گیا جبکہ کیمبرج سسٹم کے طلبہ کو بھی طے پانے والے طریقہ کار کے مطابق گریڈز دے دیے گئے۔
24 نومبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے دسمبر کے دوران ہونے والے امتحانات کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب یہ 15 جنوری اور اس کے بعد ہوں گے۔
سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے 19 مارچ کو مسافروں کے رش کو کم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر 12 ٹرینیں بند کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم انہوں نے واضح کیا تھا کہ مال گاڑیاں ویسے ہی چلتی رہیں گی اور سامان کی نقل و حمل جاری رہے گی۔
21 مارچ کو وزیر ریلوے نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر مزید ٹرینوں کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 34 ریل گاڑیوں کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔
تین روز بعد مسافر ٹرین سروس کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔
30 مارچ کو وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر مسافر ٹرینیں تاحکم ثانی معطل رہیں گی۔
بعد ازاں کورونا کیسز میں کمی کے بعد مسافروں کے لیے ٹرین آپریشن مرحلہ وار بحال کردیا گیا۔
مارچ کے آخر تک ملک میں کورونا کے یومیہ درجنوں کیسز سامنے آرہے تھے جس کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مربوط رابطے، مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور کیسز کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جبکہ تمام صوبائی وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ارکان ہیں۔
این سی او سی کے پلیٹ فارم سے ہی عوام کو گاہے بگاہے وائرس کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایات دی گئیں اور وقتاً فوقتاً پابندیوں اور پھر ان میں نرمیوں کے اعلانات کیے گئے۔
ساتھ ہی حکومت نے عوام کو وبا کے مصدقہ اعداد و شمار سے ہر وقت آگاہ رکھنے کے لیے خصوصی ویب سائٹ کا بھی اجرا کیا، جہاں اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اہم اور ضروری معلومات بھی دستیاب ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
31 جنوری کو پاکستان نے مہلک کورونا وائرس کے باعث چین سے پروازوں کی آمد و رفت کو معطل کردیا۔
دوسری جانب پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی جانب سے 2 فروری تک بیجنگ کے لیے پروازیں معطل کرنے کا فیصلہ سامنے آیا۔
اسی طرح 23 فروری کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا چین میں تیزی سے پھیلتے ہوئے کورونا وائرس کے باعث ایک بار پھر 15 مارچ تک بیجنگ کے لیے اپنی پروازیں معطل کرنے کا فیصلہ سامنے آیا۔
26 فروری کو پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد پاکستان نے اگلے ہی روز پڑوسی ملک ایران کے ساتھ براہ راست پروازیں معطل کرنے کا اعلان کیا۔
حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ بھی سامنے آیا کہ پاکستان سے عمرہ اور سیاحت کے لیے سعودی عرب جانے کے خواہش مند افراد بھی عارضی طور پر وہاں کا سفر نہیں کرسکیں گے تاہم جو لوگ اقامہ رکھتے ہیں یا سعودی شہری ہیں ان کے لیے پروازیں جاری رہیں گی۔
یہ فیصلہ سعودی عرب کی حکومت کے اس فیصلے کے بعد کیا گیا تھا جس میں انہوں نے دنیا بھر میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کو دیکھتے ہوئے اس سے متاثرہ ممالک کے لوگوں کے لیے عمرہ اور سیاحت کے لیے داخلے پر پابندی لگادی تھی۔
9 مارچ کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے پیش نظر قطر حکومت کی جانب سے پاکستان سمیت مختلف ممالک کے مسافروں کے داخلے پر پابندی کے بعد پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے عارضی طور پر قطر کے لیے اپنا فلائٹ آپریشن بھی معطل کردیا۔
اگلے ہی روز پی آئی اے نے کورونا وائرس کے پیش نظر قطر کے بعد اٹلی کے لیے بھی اپنی پروازیں عارضی طور پر معطل کردیں۔
21 مارچ کو پاکستان نے 2 ہفتوں کے لیے تمام بین الاقوامی پروازوں کی آمد کو معطل کردیا۔
یکم اپریل کو حکومت نے ہر قسم کی ملکی (ڈومیسٹک) پروازوں کی معطلی کو 11 اپریل تک توسیع دینے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں حکومت نے اندرون و بیرون ملک فلائٹ آپریشن پر پابندی میں ایک بار پھر 21 اپریل تک توسیع کر دی۔
اس کے بعد بھی کئی بار ملکی اور غیر ملکی پروازوں کی بندش میں توسیع سامنے آئی۔
29 مئی سے گوادر اور تربت کے سوا ملک بھر کے تمام بین الاقوامی ہوائی اڈوں سے ایس او پیز کے ساتھ آؤٹ باؤنڈ فلائٹ آپریشن کی اجازت دے دی گئی۔
بعد ازاں 7 اگست پاکستان میں تمام ایئر پورٹس پر بین الاقوامی پروازوں کو مکمل طور پر دوبارہ بحال کرنے کی اجازت دی گئی۔
ایران میں نئے کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد 22 فروری کو بلوچستان کی صوبائی حکومت نے ایران سے متصل سرحدی اضلاع میں فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کردی۔
ساتھ ہی محکمہ صحت نے تفتان کے سرحدی علاقے میں ایمرجنسی سینٹر اور کنٹرول روم قائم کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایران میں کورونا وائرس کے کیسز، بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں ایمرجنسی نافذ
حکومت بلوچستان کی جانب سے یہ اقدام وزیر اعظم عمران خان کے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال سے رابطہ کرکے وائرس کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنے کے مسئلے پر تبادلہ خیال کے بعد سامنے آیا تھا۔
بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں ایمرجنسی کے نفاذ کے اگلے ہی روز پاکستان نے پڑوسی ملک ایران کے ساتھ اپنی سرحد کو عارضی طور پر بند کردیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی بلوچستان کی حکومت نے پاکستان سے ایران جانے والے زائرین کے سفر پر بھی پابندی عائد کردی تھی اور صوبائی محکمہ داخلہ کو دیگر صوبوں سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔
صوبے کے وزیراعلیٰ جام کمال نے صوبائی محکمہ آفات کو ہنگامی صورتحال کے پیش نظر پاک ایران سرحد کو پار کرنے کے مقام تفتان پر 100 بستروں پر مشتمل ٹینٹ ہسپتال قائم کرنے کا حکم دیا۔
25 فروری سے پاکستان نے ایران سے واپس آنے والے 200 سے زائد افراد کو سرحد کے قریب قرنطینہ میں منتقل کیا، پاکستانی حکام نے یہ فیصلہ ایران میں کورونا وائرس کے تیزی سے سامنے آنے والے کیسز کے بعد اس کے پاکستان میں پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر کیا تھا۔
یکم مارچ کو پاکستان نے افغانستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ کیسز سامنے آنے پر چمن کے مقام پر پاک افغان سرحد بھی 7 روز کے لیے بند کردی تھی۔
افغانستان اور ایران کے ساتھ جزوی بند ہونے والی سرحد کو 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ایک بار پھر 14 روز کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
28 مارچ کو ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں کی بندش میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث مزید 2 ہفتے کی توسیع کی گئی۔
یوں تو ملک میں کورونا کے ابتدائی دو کیسز سامنے آنے کے بعد سے ہی صوبوں نے اپنے طور پر مختلف مدت کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنے کے اعلانات کیے۔
تاہم 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے 5 اپریل تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کا اعلان وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کیا تھا۔
26 مارچ کو وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں نے اتفاق رائے سے ملک کے تمام تعلیمی ادارے 31 مئی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں 7 مئی کو وفاقی حکومت نے اسکولز، یونیورسٹیز سمیت تمام تعلیمی اداروں کو 15 جولائی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
7 ستمبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کو 15 سے 30 ستمبر سے مرحلہ وار کھولنے کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ
24 نومبر کو ملک بھر میں کورونا وائرس خاص طور پر تعلیمی اداروں میں کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو 26 نومبر سے 10 جنوری تک بند کرنے کا اعلان کیا۔
جیسے جیسے کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہورہا تھا حکومت کی جانب سے اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات میں بھی تیزی آنا شروع ہوگئی تھی۔
اسی سلسلے میں 18 مارچ کو ملک میں یکم جون تک کوئی امتحان نہ کروانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ کیمبرج، پیئرسن اور بیکولوریا سمیت تمام غیر ملکی بورڈز بھی حکومتی ہدایات کا پابند بنایا گیا۔
بعد ازاں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو امتحانات کے بغیر نتائج جاری کرکے اگلی کلاسوں میں پروموٹ کردیا گیا جبکہ کیمبرج سسٹم کے طلبہ کو بھی طے پانے والے طریقہ کار کے مطابق گریڈز دے دیے گئے۔
24 نومبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے دسمبر کے دوران ہونے والے امتحانات کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب یہ 15 جنوری اور اس کے بعد ہوں گے۔
سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے 19 مارچ کو مسافروں کے رش کو کم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر 12 ٹرینیں بند کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم انہوں نے واضح کیا تھا کہ مال گاڑیاں ویسے ہی چلتی رہیں گی اور سامان کی نقل و حمل جاری رہے گی۔
21 مارچ کو وزیر ریلوے نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر مزید ٹرینوں کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 34 ریل گاڑیوں کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔
تین روز بعد مسافر ٹرین سروس کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔
30 مارچ کو وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر مسافر ٹرینیں تاحکم ثانی معطل رہیں گی۔
بعد ازاں کورونا کیسز میں کمی کے بعد مسافروں کے لیے ٹرین آپریشن مرحلہ وار بحال کردیا گیا۔
مارچ کے آخر تک ملک میں کورونا کے یومیہ درجنوں کیسز سامنے آرہے تھے جس کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مربوط رابطے، مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور کیسز کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جبکہ تمام صوبائی وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ارکان ہیں۔
این سی او سی کے پلیٹ فارم سے ہی عوام کو گاہے بگاہے وائرس کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایات دی گئیں اور وقتاً فوقتاً پابندیوں اور پھر ان میں نرمیوں کے اعلانات کیے گئے۔
ساتھ ہی حکومت نے عوام کو وبا کے مصدقہ اعداد و شمار سے ہر وقت آگاہ رکھنے کے لیے خصوصی ویب سائٹ کا بھی اجرا کیا، جہاں اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اہم اور ضروری معلومات بھی دستیاب ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
31 جنوری کو پاکستان نے مہلک کورونا وائرس کے باعث چین سے پروازوں کی آمد و رفت کو معطل کردیا۔
دوسری جانب پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی جانب سے 2 فروری تک بیجنگ کے لیے پروازیں معطل کرنے کا فیصلہ سامنے آیا۔
اسی طرح 23 فروری کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا چین میں تیزی سے پھیلتے ہوئے کورونا وائرس کے باعث ایک بار پھر 15 مارچ تک بیجنگ کے لیے اپنی پروازیں معطل کرنے کا فیصلہ سامنے آیا۔
26 فروری کو پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد پاکستان نے اگلے ہی روز پڑوسی ملک ایران کے ساتھ براہ راست پروازیں معطل کرنے کا اعلان کیا۔
حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ بھی سامنے آیا کہ پاکستان سے عمرہ اور سیاحت کے لیے سعودی عرب جانے کے خواہش مند افراد بھی عارضی طور پر وہاں کا سفر نہیں کرسکیں گے تاہم جو لوگ اقامہ رکھتے ہیں یا سعودی شہری ہیں ان کے لیے پروازیں جاری رہیں گی۔
یہ فیصلہ سعودی عرب کی حکومت کے اس فیصلے کے بعد کیا گیا تھا جس میں انہوں نے دنیا بھر میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کو دیکھتے ہوئے اس سے متاثرہ ممالک کے لوگوں کے لیے عمرہ اور سیاحت کے لیے داخلے پر پابندی لگادی تھی۔
9 مارچ کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے پیش نظر قطر حکومت کی جانب سے پاکستان سمیت مختلف ممالک کے مسافروں کے داخلے پر پابندی کے بعد پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے عارضی طور پر قطر کے لیے اپنا فلائٹ آپریشن بھی معطل کردیا۔
اگلے ہی روز پی آئی اے نے کورونا وائرس کے پیش نظر قطر کے بعد اٹلی کے لیے بھی اپنی پروازیں عارضی طور پر معطل کردیں۔
21 مارچ کو پاکستان نے 2 ہفتوں کے لیے تمام بین الاقوامی پروازوں کی آمد کو معطل کردیا۔
یکم اپریل کو حکومت نے ہر قسم کی ملکی (ڈومیسٹک) پروازوں کی معطلی کو 11 اپریل تک توسیع دینے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں حکومت نے اندرون و بیرون ملک فلائٹ آپریشن پر پابندی میں ایک بار پھر 21 اپریل تک توسیع کر دی۔
اس کے بعد بھی کئی بار ملکی اور غیر ملکی پروازوں کی بندش میں توسیع سامنے آئی۔
29 مئی سے گوادر اور تربت کے سوا ملک بھر کے تمام بین الاقوامی ہوائی اڈوں سے ایس او پیز کے ساتھ آؤٹ باؤنڈ فلائٹ آپریشن کی اجازت دے دی گئی۔
بعد ازاں 7 اگست پاکستان میں تمام ایئر پورٹس پر بین الاقوامی پروازوں کو مکمل طور پر دوبارہ بحال کرنے کی اجازت دی گئی۔
ایران میں نئے کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد 22 فروری کو بلوچستان کی صوبائی حکومت نے ایران سے متصل سرحدی اضلاع میں فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کردی۔
ساتھ ہی محکمہ صحت نے تفتان کے سرحدی علاقے میں ایمرجنسی سینٹر اور کنٹرول روم قائم کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایران میں کورونا وائرس کے کیسز، بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں ایمرجنسی نافذ
حکومت بلوچستان کی جانب سے یہ اقدام وزیر اعظم عمران خان کے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال سے رابطہ کرکے وائرس کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنے کے مسئلے پر تبادلہ خیال کے بعد سامنے آیا تھا۔
بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں ایمرجنسی کے نفاذ کے اگلے ہی روز پاکستان نے پڑوسی ملک ایران کے ساتھ اپنی سرحد کو عارضی طور پر بند کردیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی بلوچستان کی حکومت نے پاکستان سے ایران جانے والے زائرین کے سفر پر بھی پابندی عائد کردی تھی اور صوبائی محکمہ داخلہ کو دیگر صوبوں سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔
صوبے کے وزیراعلیٰ جام کمال نے صوبائی محکمہ آفات کو ہنگامی صورتحال کے پیش نظر پاک ایران سرحد کو پار کرنے کے مقام تفتان پر 100 بستروں پر مشتمل ٹینٹ ہسپتال قائم کرنے کا حکم دیا۔
25 فروری سے پاکستان نے ایران سے واپس آنے والے 200 سے زائد افراد کو سرحد کے قریب قرنطینہ میں منتقل کیا، پاکستانی حکام نے یہ فیصلہ ایران میں کورونا وائرس کے تیزی سے سامنے آنے والے کیسز کے بعد اس کے پاکستان میں پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر کیا تھا۔
یکم مارچ کو پاکستان نے افغانستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ کیسز سامنے آنے پر چمن کے مقام پر پاک افغان سرحد بھی 7 روز کے لیے بند کردی تھی۔
افغانستان اور ایران کے ساتھ جزوی بند ہونے والی سرحد کو 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ایک بار پھر 14 روز کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
28 مارچ کو ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں کی بندش میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث مزید 2 ہفتے کی توسیع کی گئی۔
یوں تو ملک میں کورونا کے ابتدائی دو کیسز سامنے آنے کے بعد سے ہی صوبوں نے اپنے طور پر مختلف مدت کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنے کے اعلانات کیے۔
تاہم 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے 5 اپریل تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کا اعلان وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کیا تھا۔
26 مارچ کو وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں نے اتفاق رائے سے ملک کے تمام تعلیمی ادارے 31 مئی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں 7 مئی کو وفاقی حکومت نے اسکولز، یونیورسٹیز سمیت تمام تعلیمی اداروں کو 15 جولائی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
7 ستمبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کو 15 سے 30 ستمبر سے مرحلہ وار کھولنے کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ
24 نومبر کو ملک بھر میں کورونا وائرس خاص طور پر تعلیمی اداروں میں کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو 26 نومبر سے 10 جنوری تک بند کرنے کا اعلان کیا۔
جیسے جیسے کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہورہا تھا حکومت کی جانب سے اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات میں بھی تیزی آنا شروع ہوگئی تھی۔
اسی سلسلے میں 18 مارچ کو ملک میں یکم جون تک کوئی امتحان نہ کروانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ کیمبرج، پیئرسن اور بیکولوریا سمیت تمام غیر ملکی بورڈز بھی حکومتی ہدایات کا پابند بنایا گیا۔
بعد ازاں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو امتحانات کے بغیر نتائج جاری کرکے اگلی کلاسوں میں پروموٹ کردیا گیا جبکہ کیمبرج سسٹم کے طلبہ کو بھی طے پانے والے طریقہ کار کے مطابق گریڈز دے دیے گئے۔
24 نومبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے دسمبر کے دوران ہونے والے امتحانات کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب یہ 15 جنوری اور اس کے بعد ہوں گے۔
سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے 19 مارچ کو مسافروں کے رش کو کم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر 12 ٹرینیں بند کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم انہوں نے واضح کیا تھا کہ مال گاڑیاں ویسے ہی چلتی رہیں گی اور سامان کی نقل و حمل جاری رہے گی۔
21 مارچ کو وزیر ریلوے نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر مزید ٹرینوں کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 34 ریل گاڑیوں کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔
تین روز بعد مسافر ٹرین سروس کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔
30 مارچ کو وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر مسافر ٹرینیں تاحکم ثانی معطل رہیں گی۔
بعد ازاں کورونا کیسز میں کمی کے بعد مسافروں کے لیے ٹرین آپریشن مرحلہ وار بحال کردیا گیا۔
مارچ کے آخر تک ملک میں کورونا کے یومیہ درجنوں کیسز سامنے آرہے تھے جس کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مربوط رابطے، مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور کیسز کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جبکہ تمام صوبائی وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ارکان ہیں۔
این سی او سی کے پلیٹ فارم سے ہی عوام کو گاہے بگاہے وائرس کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایات دی گئیں اور وقتاً فوقتاً پابندیوں اور پھر ان میں نرمیوں کے اعلانات کیے گئے۔
ساتھ ہی حکومت نے عوام کو وبا کے مصدقہ اعداد و شمار سے ہر وقت آگاہ رکھنے کے لیے خصوصی ویب سائٹ کا بھی اجرا کیا، جہاں اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اہم اور ضروری معلومات بھی دستیاب ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
ایران میں نئے کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد 22 فروری کو بلوچستان کی صوبائی حکومت نے ایران سے متصل سرحدی اضلاع میں فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کردی۔
ساتھ ہی محکمہ صحت نے تفتان کے سرحدی علاقے میں ایمرجنسی سینٹر اور کنٹرول روم قائم کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایران میں کورونا وائرس کے کیسز، بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں ایمرجنسی نافذ
حکومت بلوچستان کی جانب سے یہ اقدام وزیر اعظم عمران خان کے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال سے رابطہ کرکے وائرس کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنے کے مسئلے پر تبادلہ خیال کے بعد سامنے آیا تھا۔
بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں ایمرجنسی کے نفاذ کے اگلے ہی روز پاکستان نے پڑوسی ملک ایران کے ساتھ اپنی سرحد کو عارضی طور پر بند کردیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی بلوچستان کی حکومت نے پاکستان سے ایران جانے والے زائرین کے سفر پر بھی پابندی عائد کردی تھی اور صوبائی محکمہ داخلہ کو دیگر صوبوں سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔
صوبے کے وزیراعلیٰ جام کمال نے صوبائی محکمہ آفات کو ہنگامی صورتحال کے پیش نظر پاک ایران سرحد کو پار کرنے کے مقام تفتان پر 100 بستروں پر مشتمل ٹینٹ ہسپتال قائم کرنے کا حکم دیا۔
25 فروری سے پاکستان نے ایران سے واپس آنے والے 200 سے زائد افراد کو سرحد کے قریب قرنطینہ میں منتقل کیا، پاکستانی حکام نے یہ فیصلہ ایران میں کورونا وائرس کے تیزی سے سامنے آنے والے کیسز کے بعد اس کے پاکستان میں پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر کیا تھا۔
یکم مارچ کو پاکستان نے افغانستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ کیسز سامنے آنے پر چمن کے مقام پر پاک افغان سرحد بھی 7 روز کے لیے بند کردی تھی۔
افغانستان اور ایران کے ساتھ جزوی بند ہونے والی سرحد کو 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ایک بار پھر 14 روز کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
28 مارچ کو ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں کی بندش میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث مزید 2 ہفتے کی توسیع کی گئی۔
یوں تو ملک میں کورونا کے ابتدائی دو کیسز سامنے آنے کے بعد سے ہی صوبوں نے اپنے طور پر مختلف مدت کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنے کے اعلانات کیے۔
تاہم 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے 5 اپریل تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کا اعلان وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کیا تھا۔
26 مارچ کو وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں نے اتفاق رائے سے ملک کے تمام تعلیمی ادارے 31 مئی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں 7 مئی کو وفاقی حکومت نے اسکولز، یونیورسٹیز سمیت تمام تعلیمی اداروں کو 15 جولائی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
7 ستمبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کو 15 سے 30 ستمبر سے مرحلہ وار کھولنے کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ
24 نومبر کو ملک بھر میں کورونا وائرس خاص طور پر تعلیمی اداروں میں کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو 26 نومبر سے 10 جنوری تک بند کرنے کا اعلان کیا۔
جیسے جیسے کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہورہا تھا حکومت کی جانب سے اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات میں بھی تیزی آنا شروع ہوگئی تھی۔
اسی سلسلے میں 18 مارچ کو ملک میں یکم جون تک کوئی امتحان نہ کروانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ کیمبرج، پیئرسن اور بیکولوریا سمیت تمام غیر ملکی بورڈز بھی حکومتی ہدایات کا پابند بنایا گیا۔
بعد ازاں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو امتحانات کے بغیر نتائج جاری کرکے اگلی کلاسوں میں پروموٹ کردیا گیا جبکہ کیمبرج سسٹم کے طلبہ کو بھی طے پانے والے طریقہ کار کے مطابق گریڈز دے دیے گئے۔
24 نومبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے دسمبر کے دوران ہونے والے امتحانات کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب یہ 15 جنوری اور اس کے بعد ہوں گے۔
سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے 19 مارچ کو مسافروں کے رش کو کم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر 12 ٹرینیں بند کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم انہوں نے واضح کیا تھا کہ مال گاڑیاں ویسے ہی چلتی رہیں گی اور سامان کی نقل و حمل جاری رہے گی۔
21 مارچ کو وزیر ریلوے نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر مزید ٹرینوں کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 34 ریل گاڑیوں کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔
تین روز بعد مسافر ٹرین سروس کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔
30 مارچ کو وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر مسافر ٹرینیں تاحکم ثانی معطل رہیں گی۔
بعد ازاں کورونا کیسز میں کمی کے بعد مسافروں کے لیے ٹرین آپریشن مرحلہ وار بحال کردیا گیا۔
مارچ کے آخر تک ملک میں کورونا کے یومیہ درجنوں کیسز سامنے آرہے تھے جس کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مربوط رابطے، مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور کیسز کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جبکہ تمام صوبائی وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ارکان ہیں۔
این سی او سی کے پلیٹ فارم سے ہی عوام کو گاہے بگاہے وائرس کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایات دی گئیں اور وقتاً فوقتاً پابندیوں اور پھر ان میں نرمیوں کے اعلانات کیے گئے۔
ساتھ ہی حکومت نے عوام کو وبا کے مصدقہ اعداد و شمار سے ہر وقت آگاہ رکھنے کے لیے خصوصی ویب سائٹ کا بھی اجرا کیا، جہاں اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اہم اور ضروری معلومات بھی دستیاب ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
ایران میں نئے کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد 22 فروری کو بلوچستان کی صوبائی حکومت نے ایران سے متصل سرحدی اضلاع میں فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کردی۔
ساتھ ہی محکمہ صحت نے تفتان کے سرحدی علاقے میں ایمرجنسی سینٹر اور کنٹرول روم قائم کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایران میں کورونا وائرس کے کیسز، بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں ایمرجنسی نافذ
حکومت بلوچستان کی جانب سے یہ اقدام وزیر اعظم عمران خان کے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال سے رابطہ کرکے وائرس کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنے کے مسئلے پر تبادلہ خیال کے بعد سامنے آیا تھا۔
بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں ایمرجنسی کے نفاذ کے اگلے ہی روز پاکستان نے پڑوسی ملک ایران کے ساتھ اپنی سرحد کو عارضی طور پر بند کردیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی بلوچستان کی حکومت نے پاکستان سے ایران جانے والے زائرین کے سفر پر بھی پابندی عائد کردی تھی اور صوبائی محکمہ داخلہ کو دیگر صوبوں سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔
صوبے کے وزیراعلیٰ جام کمال نے صوبائی محکمہ آفات کو ہنگامی صورتحال کے پیش نظر پاک ایران سرحد کو پار کرنے کے مقام تفتان پر 100 بستروں پر مشتمل ٹینٹ ہسپتال قائم کرنے کا حکم دیا۔
25 فروری سے پاکستان نے ایران سے واپس آنے والے 200 سے زائد افراد کو سرحد کے قریب قرنطینہ میں منتقل کیا، پاکستانی حکام نے یہ فیصلہ ایران میں کورونا وائرس کے تیزی سے سامنے آنے والے کیسز کے بعد اس کے پاکستان میں پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر کیا تھا۔
یکم مارچ کو پاکستان نے افغانستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ کیسز سامنے آنے پر چمن کے مقام پر پاک افغان سرحد بھی 7 روز کے لیے بند کردی تھی۔
افغانستان اور ایران کے ساتھ جزوی بند ہونے والی سرحد کو 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ایک بار پھر 14 روز کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
28 مارچ کو ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں کی بندش میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث مزید 2 ہفتے کی توسیع کی گئی۔
یوں تو ملک میں کورونا کے ابتدائی دو کیسز سامنے آنے کے بعد سے ہی صوبوں نے اپنے طور پر مختلف مدت کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنے کے اعلانات کیے۔
تاہم 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے 5 اپریل تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کا اعلان وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کیا تھا۔
26 مارچ کو وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں نے اتفاق رائے سے ملک کے تمام تعلیمی ادارے 31 مئی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں 7 مئی کو وفاقی حکومت نے اسکولز، یونیورسٹیز سمیت تمام تعلیمی اداروں کو 15 جولائی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
7 ستمبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کو 15 سے 30 ستمبر سے مرحلہ وار کھولنے کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ
24 نومبر کو ملک بھر میں کورونا وائرس خاص طور پر تعلیمی اداروں میں کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو 26 نومبر سے 10 جنوری تک بند کرنے کا اعلان کیا۔
جیسے جیسے کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہورہا تھا حکومت کی جانب سے اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات میں بھی تیزی آنا شروع ہوگئی تھی۔
اسی سلسلے میں 18 مارچ کو ملک میں یکم جون تک کوئی امتحان نہ کروانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ کیمبرج، پیئرسن اور بیکولوریا سمیت تمام غیر ملکی بورڈز بھی حکومتی ہدایات کا پابند بنایا گیا۔
بعد ازاں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو امتحانات کے بغیر نتائج جاری کرکے اگلی کلاسوں میں پروموٹ کردیا گیا جبکہ کیمبرج سسٹم کے طلبہ کو بھی طے پانے والے طریقہ کار کے مطابق گریڈز دے دیے گئے۔
24 نومبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے دسمبر کے دوران ہونے والے امتحانات کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب یہ 15 جنوری اور اس کے بعد ہوں گے۔
سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے 19 مارچ کو مسافروں کے رش کو کم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر 12 ٹرینیں بند کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم انہوں نے واضح کیا تھا کہ مال گاڑیاں ویسے ہی چلتی رہیں گی اور سامان کی نقل و حمل جاری رہے گی۔
21 مارچ کو وزیر ریلوے نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر مزید ٹرینوں کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 34 ریل گاڑیوں کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔
تین روز بعد مسافر ٹرین سروس کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔
30 مارچ کو وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر مسافر ٹرینیں تاحکم ثانی معطل رہیں گی۔
بعد ازاں کورونا کیسز میں کمی کے بعد مسافروں کے لیے ٹرین آپریشن مرحلہ وار بحال کردیا گیا۔
مارچ کے آخر تک ملک میں کورونا کے یومیہ درجنوں کیسز سامنے آرہے تھے جس کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مربوط رابطے، مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور کیسز کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جبکہ تمام صوبائی وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ارکان ہیں۔
این سی او سی کے پلیٹ فارم سے ہی عوام کو گاہے بگاہے وائرس کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایات دی گئیں اور وقتاً فوقتاً پابندیوں اور پھر ان میں نرمیوں کے اعلانات کیے گئے۔
ساتھ ہی حکومت نے عوام کو وبا کے مصدقہ اعداد و شمار سے ہر وقت آگاہ رکھنے کے لیے خصوصی ویب سائٹ کا بھی اجرا کیا، جہاں اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اہم اور ضروری معلومات بھی دستیاب ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں ایمرجنسی کے نفاذ کے اگلے ہی روز پاکستان نے پڑوسی ملک ایران کے ساتھ اپنی سرحد کو عارضی طور پر بند کردیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی بلوچستان کی حکومت نے پاکستان سے ایران جانے والے زائرین کے سفر پر بھی پابندی عائد کردی تھی اور صوبائی محکمہ داخلہ کو دیگر صوبوں سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔
صوبے کے وزیراعلیٰ جام کمال نے صوبائی محکمہ آفات کو ہنگامی صورتحال کے پیش نظر پاک ایران سرحد کو پار کرنے کے مقام تفتان پر 100 بستروں پر مشتمل ٹینٹ ہسپتال قائم کرنے کا حکم دیا۔
25 فروری سے پاکستان نے ایران سے واپس آنے والے 200 سے زائد افراد کو سرحد کے قریب قرنطینہ میں منتقل کیا، پاکستانی حکام نے یہ فیصلہ ایران میں کورونا وائرس کے تیزی سے سامنے آنے والے کیسز کے بعد اس کے پاکستان میں پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر کیا تھا۔
یکم مارچ کو پاکستان نے افغانستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ کیسز سامنے آنے پر چمن کے مقام پر پاک افغان سرحد بھی 7 روز کے لیے بند کردی تھی۔
افغانستان اور ایران کے ساتھ جزوی بند ہونے والی سرحد کو 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ایک بار پھر 14 روز کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
28 مارچ کو ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں کی بندش میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث مزید 2 ہفتے کی توسیع کی گئی۔
یوں تو ملک میں کورونا کے ابتدائی دو کیسز سامنے آنے کے بعد سے ہی صوبوں نے اپنے طور پر مختلف مدت کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنے کے اعلانات کیے۔
تاہم 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے 5 اپریل تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کا اعلان وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کیا تھا۔
26 مارچ کو وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں نے اتفاق رائے سے ملک کے تمام تعلیمی ادارے 31 مئی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں 7 مئی کو وفاقی حکومت نے اسکولز، یونیورسٹیز سمیت تمام تعلیمی اداروں کو 15 جولائی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
7 ستمبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کو 15 سے 30 ستمبر سے مرحلہ وار کھولنے کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ
24 نومبر کو ملک بھر میں کورونا وائرس خاص طور پر تعلیمی اداروں میں کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو 26 نومبر سے 10 جنوری تک بند کرنے کا اعلان کیا۔
جیسے جیسے کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہورہا تھا حکومت کی جانب سے اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات میں بھی تیزی آنا شروع ہوگئی تھی۔
اسی سلسلے میں 18 مارچ کو ملک میں یکم جون تک کوئی امتحان نہ کروانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ کیمبرج، پیئرسن اور بیکولوریا سمیت تمام غیر ملکی بورڈز بھی حکومتی ہدایات کا پابند بنایا گیا۔
بعد ازاں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو امتحانات کے بغیر نتائج جاری کرکے اگلی کلاسوں میں پروموٹ کردیا گیا جبکہ کیمبرج سسٹم کے طلبہ کو بھی طے پانے والے طریقہ کار کے مطابق گریڈز دے دیے گئے۔
24 نومبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے دسمبر کے دوران ہونے والے امتحانات کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب یہ 15 جنوری اور اس کے بعد ہوں گے۔
سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے 19 مارچ کو مسافروں کے رش کو کم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر 12 ٹرینیں بند کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم انہوں نے واضح کیا تھا کہ مال گاڑیاں ویسے ہی چلتی رہیں گی اور سامان کی نقل و حمل جاری رہے گی۔
21 مارچ کو وزیر ریلوے نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر مزید ٹرینوں کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 34 ریل گاڑیوں کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔
تین روز بعد مسافر ٹرین سروس کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔
30 مارچ کو وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر مسافر ٹرینیں تاحکم ثانی معطل رہیں گی۔
بعد ازاں کورونا کیسز میں کمی کے بعد مسافروں کے لیے ٹرین آپریشن مرحلہ وار بحال کردیا گیا۔
مارچ کے آخر تک ملک میں کورونا کے یومیہ درجنوں کیسز سامنے آرہے تھے جس کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مربوط رابطے، مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور کیسز کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جبکہ تمام صوبائی وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ارکان ہیں۔
این سی او سی کے پلیٹ فارم سے ہی عوام کو گاہے بگاہے وائرس کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایات دی گئیں اور وقتاً فوقتاً پابندیوں اور پھر ان میں نرمیوں کے اعلانات کیے گئے۔
ساتھ ہی حکومت نے عوام کو وبا کے مصدقہ اعداد و شمار سے ہر وقت آگاہ رکھنے کے لیے خصوصی ویب سائٹ کا بھی اجرا کیا، جہاں اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اہم اور ضروری معلومات بھی دستیاب ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں ایمرجنسی کے نفاذ کے اگلے ہی روز پاکستان نے پڑوسی ملک ایران کے ساتھ اپنی سرحد کو عارضی طور پر بند کردیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی بلوچستان کی حکومت نے پاکستان سے ایران جانے والے زائرین کے سفر پر بھی پابندی عائد کردی تھی اور صوبائی محکمہ داخلہ کو دیگر صوبوں سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔
صوبے کے وزیراعلیٰ جام کمال نے صوبائی محکمہ آفات کو ہنگامی صورتحال کے پیش نظر پاک ایران سرحد کو پار کرنے کے مقام تفتان پر 100 بستروں پر مشتمل ٹینٹ ہسپتال قائم کرنے کا حکم دیا۔
25 فروری سے پاکستان نے ایران سے واپس آنے والے 200 سے زائد افراد کو سرحد کے قریب قرنطینہ میں منتقل کیا، پاکستانی حکام نے یہ فیصلہ ایران میں کورونا وائرس کے تیزی سے سامنے آنے والے کیسز کے بعد اس کے پاکستان میں پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر کیا تھا۔
یکم مارچ کو پاکستان نے افغانستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ کیسز سامنے آنے پر چمن کے مقام پر پاک افغان سرحد بھی 7 روز کے لیے بند کردی تھی۔
افغانستان اور ایران کے ساتھ جزوی بند ہونے والی سرحد کو 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ایک بار پھر 14 روز کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
28 مارچ کو ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں کی بندش میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث مزید 2 ہفتے کی توسیع کی گئی۔
یوں تو ملک میں کورونا کے ابتدائی دو کیسز سامنے آنے کے بعد سے ہی صوبوں نے اپنے طور پر مختلف مدت کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنے کے اعلانات کیے۔
تاہم 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے 5 اپریل تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کا اعلان وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کیا تھا۔
26 مارچ کو وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں نے اتفاق رائے سے ملک کے تمام تعلیمی ادارے 31 مئی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں 7 مئی کو وفاقی حکومت نے اسکولز، یونیورسٹیز سمیت تمام تعلیمی اداروں کو 15 جولائی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
7 ستمبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کو 15 سے 30 ستمبر سے مرحلہ وار کھولنے کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ
24 نومبر کو ملک بھر میں کورونا وائرس خاص طور پر تعلیمی اداروں میں کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو 26 نومبر سے 10 جنوری تک بند کرنے کا اعلان کیا۔
جیسے جیسے کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہورہا تھا حکومت کی جانب سے اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات میں بھی تیزی آنا شروع ہوگئی تھی۔
اسی سلسلے میں 18 مارچ کو ملک میں یکم جون تک کوئی امتحان نہ کروانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ کیمبرج، پیئرسن اور بیکولوریا سمیت تمام غیر ملکی بورڈز بھی حکومتی ہدایات کا پابند بنایا گیا۔
بعد ازاں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو امتحانات کے بغیر نتائج جاری کرکے اگلی کلاسوں میں پروموٹ کردیا گیا جبکہ کیمبرج سسٹم کے طلبہ کو بھی طے پانے والے طریقہ کار کے مطابق گریڈز دے دیے گئے۔
24 نومبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے دسمبر کے دوران ہونے والے امتحانات کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب یہ 15 جنوری اور اس کے بعد ہوں گے۔
سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے 19 مارچ کو مسافروں کے رش کو کم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر 12 ٹرینیں بند کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم انہوں نے واضح کیا تھا کہ مال گاڑیاں ویسے ہی چلتی رہیں گی اور سامان کی نقل و حمل جاری رہے گی۔
21 مارچ کو وزیر ریلوے نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر مزید ٹرینوں کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 34 ریل گاڑیوں کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔
تین روز بعد مسافر ٹرین سروس کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔
30 مارچ کو وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر مسافر ٹرینیں تاحکم ثانی معطل رہیں گی۔
بعد ازاں کورونا کیسز میں کمی کے بعد مسافروں کے لیے ٹرین آپریشن مرحلہ وار بحال کردیا گیا۔
مارچ کے آخر تک ملک میں کورونا کے یومیہ درجنوں کیسز سامنے آرہے تھے جس کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مربوط رابطے، مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور کیسز کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جبکہ تمام صوبائی وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ارکان ہیں۔
این سی او سی کے پلیٹ فارم سے ہی عوام کو گاہے بگاہے وائرس کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایات دی گئیں اور وقتاً فوقتاً پابندیوں اور پھر ان میں نرمیوں کے اعلانات کیے گئے۔
ساتھ ہی حکومت نے عوام کو وبا کے مصدقہ اعداد و شمار سے ہر وقت آگاہ رکھنے کے لیے خصوصی ویب سائٹ کا بھی اجرا کیا، جہاں اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اہم اور ضروری معلومات بھی دستیاب ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
یوں تو ملک میں کورونا کے ابتدائی دو کیسز سامنے آنے کے بعد سے ہی صوبوں نے اپنے طور پر مختلف مدت کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنے کے اعلانات کیے۔
تاہم 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے 5 اپریل تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کا اعلان وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کیا تھا۔
26 مارچ کو وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں نے اتفاق رائے سے ملک کے تمام تعلیمی ادارے 31 مئی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں 7 مئی کو وفاقی حکومت نے اسکولز، یونیورسٹیز سمیت تمام تعلیمی اداروں کو 15 جولائی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
7 ستمبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کو 15 سے 30 ستمبر سے مرحلہ وار کھولنے کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ
24 نومبر کو ملک بھر میں کورونا وائرس خاص طور پر تعلیمی اداروں میں کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو 26 نومبر سے 10 جنوری تک بند کرنے کا اعلان کیا۔
جیسے جیسے کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہورہا تھا حکومت کی جانب سے اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات میں بھی تیزی آنا شروع ہوگئی تھی۔
اسی سلسلے میں 18 مارچ کو ملک میں یکم جون تک کوئی امتحان نہ کروانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ کیمبرج، پیئرسن اور بیکولوریا سمیت تمام غیر ملکی بورڈز بھی حکومتی ہدایات کا پابند بنایا گیا۔
بعد ازاں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو امتحانات کے بغیر نتائج جاری کرکے اگلی کلاسوں میں پروموٹ کردیا گیا جبکہ کیمبرج سسٹم کے طلبہ کو بھی طے پانے والے طریقہ کار کے مطابق گریڈز دے دیے گئے۔
24 نومبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے دسمبر کے دوران ہونے والے امتحانات کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب یہ 15 جنوری اور اس کے بعد ہوں گے۔
سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے 19 مارچ کو مسافروں کے رش کو کم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر 12 ٹرینیں بند کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم انہوں نے واضح کیا تھا کہ مال گاڑیاں ویسے ہی چلتی رہیں گی اور سامان کی نقل و حمل جاری رہے گی۔
21 مارچ کو وزیر ریلوے نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر مزید ٹرینوں کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 34 ریل گاڑیوں کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔
تین روز بعد مسافر ٹرین سروس کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔
30 مارچ کو وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر مسافر ٹرینیں تاحکم ثانی معطل رہیں گی۔
بعد ازاں کورونا کیسز میں کمی کے بعد مسافروں کے لیے ٹرین آپریشن مرحلہ وار بحال کردیا گیا۔
مارچ کے آخر تک ملک میں کورونا کے یومیہ درجنوں کیسز سامنے آرہے تھے جس کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مربوط رابطے، مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور کیسز کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جبکہ تمام صوبائی وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ارکان ہیں۔
این سی او سی کے پلیٹ فارم سے ہی عوام کو گاہے بگاہے وائرس کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایات دی گئیں اور وقتاً فوقتاً پابندیوں اور پھر ان میں نرمیوں کے اعلانات کیے گئے۔
ساتھ ہی حکومت نے عوام کو وبا کے مصدقہ اعداد و شمار سے ہر وقت آگاہ رکھنے کے لیے خصوصی ویب سائٹ کا بھی اجرا کیا، جہاں اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اہم اور ضروری معلومات بھی دستیاب ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
یوں تو ملک میں کورونا کے ابتدائی دو کیسز سامنے آنے کے بعد سے ہی صوبوں نے اپنے طور پر مختلف مدت کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنے کے اعلانات کیے۔
تاہم 14 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے 5 اپریل تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کا اعلان وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کیا تھا۔
26 مارچ کو وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں نے اتفاق رائے سے ملک کے تمام تعلیمی ادارے 31 مئی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں 7 مئی کو وفاقی حکومت نے اسکولز، یونیورسٹیز سمیت تمام تعلیمی اداروں کو 15 جولائی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔
7 ستمبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کو 15 سے 30 ستمبر سے مرحلہ وار کھولنے کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ
24 نومبر کو ملک بھر میں کورونا وائرس خاص طور پر تعلیمی اداروں میں کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو 26 نومبر سے 10 جنوری تک بند کرنے کا اعلان کیا۔
جیسے جیسے کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہورہا تھا حکومت کی جانب سے اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات میں بھی تیزی آنا شروع ہوگئی تھی۔
اسی سلسلے میں 18 مارچ کو ملک میں یکم جون تک کوئی امتحان نہ کروانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ کیمبرج، پیئرسن اور بیکولوریا سمیت تمام غیر ملکی بورڈز بھی حکومتی ہدایات کا پابند بنایا گیا۔
بعد ازاں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو امتحانات کے بغیر نتائج جاری کرکے اگلی کلاسوں میں پروموٹ کردیا گیا جبکہ کیمبرج سسٹم کے طلبہ کو بھی طے پانے والے طریقہ کار کے مطابق گریڈز دے دیے گئے۔
24 نومبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے دسمبر کے دوران ہونے والے امتحانات کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب یہ 15 جنوری اور اس کے بعد ہوں گے۔
سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے 19 مارچ کو مسافروں کے رش کو کم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر 12 ٹرینیں بند کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم انہوں نے واضح کیا تھا کہ مال گاڑیاں ویسے ہی چلتی رہیں گی اور سامان کی نقل و حمل جاری رہے گی۔
21 مارچ کو وزیر ریلوے نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر مزید ٹرینوں کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 34 ریل گاڑیوں کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔
تین روز بعد مسافر ٹرین سروس کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔
30 مارچ کو وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر مسافر ٹرینیں تاحکم ثانی معطل رہیں گی۔
بعد ازاں کورونا کیسز میں کمی کے بعد مسافروں کے لیے ٹرین آپریشن مرحلہ وار بحال کردیا گیا۔
مارچ کے آخر تک ملک میں کورونا کے یومیہ درجنوں کیسز سامنے آرہے تھے جس کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مربوط رابطے، مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور کیسز کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جبکہ تمام صوبائی وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ارکان ہیں۔
این سی او سی کے پلیٹ فارم سے ہی عوام کو گاہے بگاہے وائرس کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایات دی گئیں اور وقتاً فوقتاً پابندیوں اور پھر ان میں نرمیوں کے اعلانات کیے گئے۔
ساتھ ہی حکومت نے عوام کو وبا کے مصدقہ اعداد و شمار سے ہر وقت آگاہ رکھنے کے لیے خصوصی ویب سائٹ کا بھی اجرا کیا، جہاں اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اہم اور ضروری معلومات بھی دستیاب ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
جیسے جیسے کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہورہا تھا حکومت کی جانب سے اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات میں بھی تیزی آنا شروع ہوگئی تھی۔
اسی سلسلے میں 18 مارچ کو ملک میں یکم جون تک کوئی امتحان نہ کروانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ کیمبرج، پیئرسن اور بیکولوریا سمیت تمام غیر ملکی بورڈز بھی حکومتی ہدایات کا پابند بنایا گیا۔
بعد ازاں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو امتحانات کے بغیر نتائج جاری کرکے اگلی کلاسوں میں پروموٹ کردیا گیا جبکہ کیمبرج سسٹم کے طلبہ کو بھی طے پانے والے طریقہ کار کے مطابق گریڈز دے دیے گئے۔
24 نومبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے دسمبر کے دوران ہونے والے امتحانات کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب یہ 15 جنوری اور اس کے بعد ہوں گے۔
سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے 19 مارچ کو مسافروں کے رش کو کم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر 12 ٹرینیں بند کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم انہوں نے واضح کیا تھا کہ مال گاڑیاں ویسے ہی چلتی رہیں گی اور سامان کی نقل و حمل جاری رہے گی۔
21 مارچ کو وزیر ریلوے نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر مزید ٹرینوں کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 34 ریل گاڑیوں کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔
تین روز بعد مسافر ٹرین سروس کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔
30 مارچ کو وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر مسافر ٹرینیں تاحکم ثانی معطل رہیں گی۔
بعد ازاں کورونا کیسز میں کمی کے بعد مسافروں کے لیے ٹرین آپریشن مرحلہ وار بحال کردیا گیا۔
مارچ کے آخر تک ملک میں کورونا کے یومیہ درجنوں کیسز سامنے آرہے تھے جس کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مربوط رابطے، مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور کیسز کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جبکہ تمام صوبائی وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ارکان ہیں۔
این سی او سی کے پلیٹ فارم سے ہی عوام کو گاہے بگاہے وائرس کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایات دی گئیں اور وقتاً فوقتاً پابندیوں اور پھر ان میں نرمیوں کے اعلانات کیے گئے۔
ساتھ ہی حکومت نے عوام کو وبا کے مصدقہ اعداد و شمار سے ہر وقت آگاہ رکھنے کے لیے خصوصی ویب سائٹ کا بھی اجرا کیا، جہاں اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اہم اور ضروری معلومات بھی دستیاب ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
جیسے جیسے کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہورہا تھا حکومت کی جانب سے اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات میں بھی تیزی آنا شروع ہوگئی تھی۔
اسی سلسلے میں 18 مارچ کو ملک میں یکم جون تک کوئی امتحان نہ کروانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ کیمبرج، پیئرسن اور بیکولوریا سمیت تمام غیر ملکی بورڈز بھی حکومتی ہدایات کا پابند بنایا گیا۔
بعد ازاں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو امتحانات کے بغیر نتائج جاری کرکے اگلی کلاسوں میں پروموٹ کردیا گیا جبکہ کیمبرج سسٹم کے طلبہ کو بھی طے پانے والے طریقہ کار کے مطابق گریڈز دے دیے گئے۔
24 نومبر کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے دسمبر کے دوران ہونے والے امتحانات کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب یہ 15 جنوری اور اس کے بعد ہوں گے۔
سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے 19 مارچ کو مسافروں کے رش کو کم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر 12 ٹرینیں بند کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم انہوں نے واضح کیا تھا کہ مال گاڑیاں ویسے ہی چلتی رہیں گی اور سامان کی نقل و حمل جاری رہے گی۔
21 مارچ کو وزیر ریلوے نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر مزید ٹرینوں کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 34 ریل گاڑیوں کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔
تین روز بعد مسافر ٹرین سروس کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔
30 مارچ کو وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر مسافر ٹرینیں تاحکم ثانی معطل رہیں گی۔
بعد ازاں کورونا کیسز میں کمی کے بعد مسافروں کے لیے ٹرین آپریشن مرحلہ وار بحال کردیا گیا۔
مارچ کے آخر تک ملک میں کورونا کے یومیہ درجنوں کیسز سامنے آرہے تھے جس کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مربوط رابطے، مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور کیسز کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جبکہ تمام صوبائی وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ارکان ہیں۔
این سی او سی کے پلیٹ فارم سے ہی عوام کو گاہے بگاہے وائرس کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایات دی گئیں اور وقتاً فوقتاً پابندیوں اور پھر ان میں نرمیوں کے اعلانات کیے گئے۔
ساتھ ہی حکومت نے عوام کو وبا کے مصدقہ اعداد و شمار سے ہر وقت آگاہ رکھنے کے لیے خصوصی ویب سائٹ کا بھی اجرا کیا، جہاں اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اہم اور ضروری معلومات بھی دستیاب ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے 19 مارچ کو مسافروں کے رش کو کم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر 12 ٹرینیں بند کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم انہوں نے واضح کیا تھا کہ مال گاڑیاں ویسے ہی چلتی رہیں گی اور سامان کی نقل و حمل جاری رہے گی۔
21 مارچ کو وزیر ریلوے نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر مزید ٹرینوں کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 34 ریل گاڑیوں کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔
تین روز بعد مسافر ٹرین سروس کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔
30 مارچ کو وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر مسافر ٹرینیں تاحکم ثانی معطل رہیں گی۔
بعد ازاں کورونا کیسز میں کمی کے بعد مسافروں کے لیے ٹرین آپریشن مرحلہ وار بحال کردیا گیا۔
مارچ کے آخر تک ملک میں کورونا کے یومیہ درجنوں کیسز سامنے آرہے تھے جس کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مربوط رابطے، مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور کیسز کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جبکہ تمام صوبائی وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ارکان ہیں۔
این سی او سی کے پلیٹ فارم سے ہی عوام کو گاہے بگاہے وائرس کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایات دی گئیں اور وقتاً فوقتاً پابندیوں اور پھر ان میں نرمیوں کے اعلانات کیے گئے۔
ساتھ ہی حکومت نے عوام کو وبا کے مصدقہ اعداد و شمار سے ہر وقت آگاہ رکھنے کے لیے خصوصی ویب سائٹ کا بھی اجرا کیا، جہاں اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اہم اور ضروری معلومات بھی دستیاب ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے 19 مارچ کو مسافروں کے رش کو کم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر 12 ٹرینیں بند کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم انہوں نے واضح کیا تھا کہ مال گاڑیاں ویسے ہی چلتی رہیں گی اور سامان کی نقل و حمل جاری رہے گی۔
21 مارچ کو وزیر ریلوے نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر مزید ٹرینوں کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 34 ریل گاڑیوں کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔
تین روز بعد مسافر ٹرین سروس کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔
30 مارچ کو وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر مسافر ٹرینیں تاحکم ثانی معطل رہیں گی۔
بعد ازاں کورونا کیسز میں کمی کے بعد مسافروں کے لیے ٹرین آپریشن مرحلہ وار بحال کردیا گیا۔
مارچ کے آخر تک ملک میں کورونا کے یومیہ درجنوں کیسز سامنے آرہے تھے جس کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مربوط رابطے، مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور کیسز کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جبکہ تمام صوبائی وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ارکان ہیں۔
این سی او سی کے پلیٹ فارم سے ہی عوام کو گاہے بگاہے وائرس کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایات دی گئیں اور وقتاً فوقتاً پابندیوں اور پھر ان میں نرمیوں کے اعلانات کیے گئے۔
ساتھ ہی حکومت نے عوام کو وبا کے مصدقہ اعداد و شمار سے ہر وقت آگاہ رکھنے کے لیے خصوصی ویب سائٹ کا بھی اجرا کیا، جہاں اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اہم اور ضروری معلومات بھی دستیاب ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
مارچ کے آخر تک ملک میں کورونا کے یومیہ درجنوں کیسز سامنے آرہے تھے جس کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مربوط رابطے، مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور کیسز کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جبکہ تمام صوبائی وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ارکان ہیں۔
این سی او سی کے پلیٹ فارم سے ہی عوام کو گاہے بگاہے وائرس کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایات دی گئیں اور وقتاً فوقتاً پابندیوں اور پھر ان میں نرمیوں کے اعلانات کیے گئے۔
ساتھ ہی حکومت نے عوام کو وبا کے مصدقہ اعداد و شمار سے ہر وقت آگاہ رکھنے کے لیے خصوصی ویب سائٹ کا بھی اجرا کیا، جہاں اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اہم اور ضروری معلومات بھی دستیاب ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
مارچ کے آخر تک ملک میں کورونا کے یومیہ درجنوں کیسز سامنے آرہے تھے جس کے تناظر میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مربوط رابطے، مشترکہ حکمت عملی اپنانے اور کیسز کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے لیے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قومی رابطہ کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان ہیں جبکہ تمام صوبائی وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ارکان ہیں۔
این سی او سی کے پلیٹ فارم سے ہی عوام کو گاہے بگاہے وائرس کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا، احتیاطی تدابیر سے متعلق ہدایات دی گئیں اور وقتاً فوقتاً پابندیوں اور پھر ان میں نرمیوں کے اعلانات کیے گئے۔
ساتھ ہی حکومت نے عوام کو وبا کے مصدقہ اعداد و شمار سے ہر وقت آگاہ رکھنے کے لیے خصوصی ویب سائٹ کا بھی اجرا کیا، جہاں اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اہم اور ضروری معلومات بھی دستیاب ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
ملک میں 22 مارچ سے لاک ڈاؤن کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سندھ نے عوام کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے 15 روز کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں تمام دفاتر اور اجتماع گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں 15 دن کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان
اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے میں 14 دن کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت صوبے کے بازار، شاپنگ مالز، نجی و سرکاری ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ریسٹورنٹس، پارکس، سیاحتی مقامات بند رکھ گئے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے ریاست میں 3 ہفتوں کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی۔
یکم اپریل کو حکومتِ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے اسے 14 اپریل تک بڑھانے کا اعلان کیا۔
15 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ملک میں جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کیا۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی جبکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی پابندیوں کی مدت میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔
8 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے 9 مئی سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبوں نے صرف وبا سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں مختلف مراحل میں لاک ڈاؤن (اسمارٹ لاک ڈاؤن) کی حکمت عملی اپنائی اور معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بتدریج بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
اکتوبر کے وسط میں حکومتی اراکین کی جانب سے موسم سرما میں وائرس کے کیسز بڑھنے کے خدشات سامنے آنے لگے اور اسی ماہ کے آخر میں کورونا کی دوسری لہر نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا۔
29 اکتوبر کو این سی او سی کی طرف سے ایک بار پھر ملک بھر کے تمام شاپنگ مالز، دکانیں، مارکیٹس، تفریح گاہ اور پبلک پارکس کے اوقات مخصوص کرنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ عوام کے لیے ماسک پہننا بھی لازمی قرار دے دیا گیا۔
نومبر کے اوائل میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر نے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کرتے ہوئے بند مقامات پر شادی کی تقریبات پر پابندی عائد کردی، بعد ازاں ان تقریبات کو صرف 2 گھنٹے تک محدود بھی کردیا گیا۔
نومبر کے وسط میں صوبوں کی جانب سے کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں اور علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن کے فیصلے آنا شروع ہوئے جبکہ آزاد کشمیر میں 22 نومبر سے ایک بار پھر دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
23 مارچ کو وزیراعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے مجموعی طور پر 8 ارب ڈالر کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
اس ریلیف پیکیج میں مزدور طبقے، برآمدی شعبے، صنعتوں، غریب خاندانوں کو شامل کیا گیا تھا جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی اور بجلی/گیس کے بل 3 ماہ کی اقساط میں ادا کرنے کا ریلیف بھی دیا گیا۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
26 مارچ کو حکومت سندھ نے 5 اپریل تک صوبے کی مساجد میں نماز کے اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی، جس کے تحت مساجد میں عملے سمیت صرف 5 افراد باجماعت نماز ادا کرسکتے تھے جبکہ مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا کورونا وائرس کے پیش نظر معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان
اسی روز وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ مساجد بند نہیں ہوں گی تاہم باجماعت نماز اور جمعہ کی نماز کو انتہائی محدود رکھا جائے گا۔
بعد ازاں نماز کے اجتماعات پر پابندی کے اعلانات پنجاب اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔
31 مارچ کو خیبر پختونخوا حکومت نے مساجد میں منعقد ہونے والے اجتماعات پر پابندی کی ہدایات جاری کردیں۔
بعد ازاں وبا کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں ایس او پیز کے نماز کے اجتماعات بحال ہوگئے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد طبی سامان کی قلت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر ذاتی تحفظ کے سامان (پی پی ایز)، وینٹی لیٹرز و دیگر اشیا کی تیاری پر کام شروع کیا۔
28 جون کو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'پاکستان میں تیار کردہ وینٹی لیٹرز کی پہلی کھیپ اس ہفتے این ڈی ایم اے کے حوالے کردی جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ اگلے 3 ڈیزائن بھی آخری مراحل میں ہیں، جس کے بعد ہم دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوں گے جو پیچیدہ میڈیکل مشینیں بناتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام مشینیں یورپی یونین کے اسٹینڈرز کے مطابق ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف اقسام کے فیس ماسک بھی بڑے پیمانے پر تیار ہونا شروع ہوئے اور برآمد بھی کیے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے 30 مارچ کو قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کے لیے 'ٹائیگر فورس' بنانے اور 'ریلیف فنڈ' قائم کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا کورونا سے لڑنے کیلئے ٹائیگر فورس، ریلیف فنڈ بنانے کا اعلان
ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'کورونا سے ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنا رہا ہوں، یہ نوجوانوں کی وہ فورس ہوگی جو ہماری کمی کو فوج اور ہماری انتظامیہ سے مل کر پوری کرے گی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آج میں’ وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ‘ قائم کرنے کا اعلان کررہا ہوں اور یہ نیشنل بینک میں اکاؤنٹ ہوگا جو جلد فعال ہوگا اور اس اکاؤنٹ میں جو پیسہ ڈالے گا اس سے پاکستان کے اندر اور باہر کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے جائیں گے اور اس فنڈ میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی'۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک طرف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اور اقدام اٹھایا جارہا تھا وہیں چین، امریکا، روس اور مغربی ممالک کی متعدد ادویہ ساز کمپنیاں وائرس کی ویکسین کی تیاری اور ٹرائل میں مصروف عمل تھیں۔
رواں ماہ ہی کئی ویکسینز کے حتمی ٹرائل مکمل ہوئے اور ان کی افادیت سامنے آنے کے بعد منظوریاں دی گئیں جس کے بعد امریکا، روس، برطانیہ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں لوگوں کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے۔
پاکستان نے بھی ویکسین کے حصول کے لیے کئی بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں اور سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک ملک میں مرحلہ وار ویکسینیشن کے آغاز کا امکان ہے۔