اس تحقیق میں 93 ایسے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جو مارچ 2020 میں کووڈ کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج ہوئے مگر آئی سی یو کی ضرورت نہیں پڑی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دوتہائی مریضوں نے سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی کو رپورٹ کیا اور لگ بھگ 25 فیصد نے بتایا کہ یہ بیماری کی پہلی علامت تھی۔
ان افراد میں وائرس کی تصدیق پی سی آر ٹیسٹ یا پھیپھڑوں کے ایکسرے یا اسکین سے ہوئی تھی۔
تحقیق کے دوران جب ان افراد سے علامات کے بارے میں پوچھا گیا تو 63 فیصد نے سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی کے بارے میں بتایا۔
مجموعی طور پر ان افراد کی تعداد 58 تھی جن میں سے 13 نے اسے بیماری کی پہلی علامت بتایا۔
محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی کا اوسط دورانیہ 25 سے 30 دن کا تھا۔
Misericordia یونیورسٹی ہاسپٹل کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی کووڈ کے شکار افراد میں عام ہے اور ہماری تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اکثر یہ علامت دیگر علامات جیسے بخار یا سانس لینے میں مشکلات سے پہلے نمودار ہوتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج اس تحقیقی نتائج میں اضافہ ہے جن میں کہا گیا کہ سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی وائرس کی ابتدائی نشانیوں میں سے ایک ہے۔
حال ہی میں 11 ہزار سے زائد افراد پر ہونے والی 8 تحقیقی رپورٹس کے تجزیے میں دریافت کیا گیا تھا کہ سونگھنے اور چکھنے سے محروم ہونے والے مریضوں میں یہ شرح 74.9 فیصد اور 81.3 فیصد کے درمیان تھی۔
اس تجزیے میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ 50 فیصد سے زیادہ افراد میں یہ علامت دیگر علامات سے پہلے نظر آئی۔
لندن کالج یونیورسٹی کی کچھ عرصے پہلے کی ایک تحقیق میں ایسے 590 افراد کو شامل کیا گیا، جو سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محروم ہوئے اور ان میں سے 80 فیصد میں کورونا وائرس اینٹی باڈیز دریافت ہوئیں۔
ان اینٹی باڈیز والے 40 فیصد افراد میں کوئی اور علامت نہیں دیکھی گئی۔
یعنی یہ کووڈ 19 کے بغیر علامات والے مریضوں میں پہلی اور واحد علامت بھی ہوتی ہے۔
اٹلی کے محققین کا کہنا تھا کہ نتائج کو دیکھتے ہوئے طبی ماہرین کو سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محروم ہونے والے افراد میں اسے وائرس کی پہلی علامت سمجھنا چاہیے اور اسے آئسولیٹ کرکے ٹیسٹوں سے مسئلے کی تشخیص کرنا چاہیے۔